فصل:....کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات اوران کے جوابات
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....کاتب وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات اوران کے جوابات
[پہلااعتراض] :....شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طلیق بن طلیق(جو لوگ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ان کو طلیق کہتے ہیں اس کی جمع طلقاء ہے) معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت کی اور فرمایا: ’’جب اسے میرے منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔‘‘حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تألیف قلب رکھنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی جب کہ آپ امام برحق تھے۔اور جو کوئی بھی امام برحق سے جنگ کرتا ہے ‘ وہ ظالم اور باغی کہلاتا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی کا لقب دیا حالانکہ اس نے وحی کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا وہ صرف خطوط لکھا کرتا تھا۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چودہ افراد وحی لکھنے پر مامور تھے۔ ان میں سب سے پہلے ‘ سب سے خاص اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین شخص حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ حالانکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا سارا وقت برابر مشرک رہے ؛ وحی کو جھٹلایا کرتے اوراللہ کی وحی اور شریعت کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:....ہم کہتے ہیں کہ : رافضی مصنف نے جو کہا ہے : ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت کی اور فرمایا: جب اسے میرے منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔‘‘
٭ یہ حدیث کسی بھی نقل و روایت کے اعتبار سے معتمد اسلامی کتاب میں نہیں ہے۔[حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر رسول پر دیکھا تھا اور آپ کی اقتداء میں نماز بھی پڑھی اس لیے کہ آپ شرعی امام اور نائب رسول تھے۔اگریہ قتل بحکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واجب تھا تو حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما اس کی تعمیل نہ کرکے گنہگار ٹھہرے‘پھر معصوم نہ رہے۔] حفاظ حدیث اسے جھوٹ کہتے ہیں ؛ جسے اپنی طرف سے گھڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔رافضی [کٹھ ملّے] نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی تاکہ اس پر تحقیق کی جاسکے۔ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ نے اسے موضوعات میں شمار کیا ہے۔جس چیز سے رافضی کا جھوٹ کھل کرسامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعدایسے لوگ بھی آپ کے منبر پر چڑھے جو باتفاق مسلمین معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی بدتر تھے؛ اگر صرف منبر پر چڑھنے کی وجہ سے قتل کیا جانا واجب تھا تو پھرکیا ان تمام کا قتل واجب ہو گیاتھا؟ [ اور انھیں قتل نہ کیا جا سکا]۔[یہ بات ادنی علم و عقل ر کھنے والے پر بھی مخفی نہیں ] کہ ایساکرنا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ صرف منبر پر چڑھنے سے کسی کا قتل کرنا جائزنہیں ہوجاتا۔
اگر اس وجہ سے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا ہو کہ آپ خلیفہ بن گئے تھے اور اس منصب کے قابل نہیں تھے۔تو پھر اس سے واجب لازم آتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد جتنے بھی لوگ مسند خلافت پر متمکن ہوئے انہیں قتل کردیا جائے ؛ اس لیے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے افضل تھے۔ یہ بات تواتر کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول سنن کے خلاف ہے۔آپ حکمرانوں کو قتل کرنے او ران کے ساتھ جنگ کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ امت اس نظریہ کے برعکس متفق ہے۔ اس لیے کہ امت نے کسی بھی خلیفہ بننے والے کو قتل نہیں کیااور نہ ہی اس کو جائز و حلال سمجھا۔ کیونکہ اس کے نتیجہ میں وہ قتل و غارت گری اور دنگا و فساد پیدا ہوتے ہیں ؛ جو کہ ظالم حکمران کے ظلم پر صبر کرنے سے بڑھ کر نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں ۔ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی چیز کا حکم کیونکر دے سکتے ہیں جس کا نقصان اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہو؟
[دوسرااعتراض] : باقی رہا رافضی کا [حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ] قول ’ ’ طلیق بن طلیق۔‘‘
[جواب ]:اس میں مذمت کی کوئی بات نہیں ۔ اس لیے کہ فتح مکہ کے روز جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، انھوں نے خلوص دل سے دین کو قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [انہیں قیدی نہیں بنایا تھا بلکہ] سب کو آزاد کردیا تھا۔ان کی تعداد بارہ سو کے لگ بھگ تھی۔ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو بعد میں بہترین مسلمان ثابت ہوئے ؛مثلاً حارث بن ہشام اور ان کا بھتیجا حضرت عکرمہ، سہیل بن عمرو[سہیل بن عمرو خطیب قریش تھا اور بنی عامر بن لوی ّ کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کا سفیر بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، فتح مکہ کے دن جب آپ نے اہل مکہ کو خطاب کرکے کہا تھا :’’ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟‘‘ تو وہ سہیل ہی تھا جس نے یہ جواب دیا : ’’ہم بھلائی کی توقع رکھتے ہیں ، کیوں کہ آپ اچھے بھائی اور اچھے بھتیجے ہیں ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کہی تھی، آج تم پر بھی کچھ عتاب نہیں ۔‘‘ (ابن زنجویہ فی الاموال، الاصابۃ(۲؍۹۵) طبقات ابن سعد(۷؍۱۲۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب کے طور پر سہیل رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ عطا کیے۔ (مستدرک حاکم(۳؍۲۸۱)، وانظر الاصابۃ(۲؍۹۵)، مسند احمد(۳؍۲۴۶) خلافت فاروقی میں مہاجرین و انصار حضرت عمر کے دروازہ پر کھڑے تھے اور آپ انھیں مقام و مرتبہ کے مطابق باری باری اندر بلاتے جاتے تھے۔ اس موقع پر فتح مکہ کے دن مسلمان ہونے والے چند صحابہ بھی موجود تھے، وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، سہیل بن عمرو نے یہ دیکھ کر کہا تم خود قصور وار ہو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام دی، تو انھوں نے جلد ی اس دعوت پر لبیک کہا اور تم نے دیر لگا دی اب اسی تاخیر کا خمیازہ بھگت رہے ہو، جب جنت کے دروازوں کی جانب دعوت دی جائے گی تو اس وقت کیا کیفیت ہو گی ۔‘‘ یہ کہہ کر سہیل جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور کہا اﷲ کی قسم! میں نے جتنی لڑائیاں کفار کے ساتھ ہو کرلڑی ہیں اب اسی قدر مسلمانوں کی نصرت و حمایت کے لیے لڑوں گا، اورجتنا مال میں نے کفر کی حمایت میں صرف کیا تھا اتنا ہی مسلمانوں پر خرچ کروں گا۔‘‘(مستدرک حاکم(۳؍۲۸۱)، معجم کبیر طبرانی(۶۰۳۸)، و فی اسنادہ انقطاع) امام شافعی رحمہ اللہ سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : جب سے اسلام لائے اسی وقت سے خالص الاسلام تھے۔جن لوگوں کو شیعہ اور انکے اتباع طنزاً ’’طلقاء‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ان کے بارے میں انھیں قطعی طور پر معلوم ہے کہ وہ اولیاء اللہ و اصحاب رسول میں سے تھے، ان میں بعض لوگ سہیل بن عمرو سے بھی افضل اور جہاد میں پیش پیش تھے۔ ان کے سرخیل حضرت معاویہ اور ان کے بھائی تھے، جن کے اسلام پر بڑے احسانات ہیں ۔ حضرت معاویہ کی چھوٹی سے چھوٹی فضیلت یہ ہے کہ آپ اوّلین اسلامی بحری بیڑے کے بانی اور پہلے شخص تھے جس نے سمندر میں بحری جنگ کا آغاز کیا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام قباء میں جو خواب دیکھا تھا اس میں آپ نے اس پیشین گوئی کا اظہار فرمایا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب من زار قوما فقال عندھم، (حدیث: ۶۲۸۲)، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر (حدیث: ۱۹۱۲)۔] صفوان بن امیہ، یزید بن ابی سفیان، حکیم بن حزام؛ابو سفیان ابن الحارث ابن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زادتھے ؛یہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتے تھے بعد میں بہترین مسلمان ثابت ہوئے۔ اور عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کا والی مقرر کیا۔ ان کے نظائر و امثال یہ سب لوگ خالص الاسلام تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو دل کی سچائی سے اسلام لائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید رضی اللہ عنہ کے بعد ان کو والی ٔ شام مقرر کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طرف داری کرنے والے نہ تھے اور نہ انھیں کسی کی ملامت کی پرواہ تھی۔یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما بہترین مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار ان جرنیلوں میں ہوتا ہے جنہیں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے شام فتح کرنے کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ ان جرنیلوں میں یزید بن ابو سفیان ‘شرحبیل بن حسنہ ؛ عمرو ابن العاص ؛ابو عبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم ہیں ۔ جب یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس علاقہ پر والی مقرر فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ اور نہ ہی آپ ولایت سے محبت رکھنے والے تھے۔ مزید برآں معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے دوستانہ مراسم بھی نہ تھے۔ بلکہ اسلام سے پہلے ابو سفیان کے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھے۔ یہاں تک کہ جب فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بارگاہ نبوی میں لائے تھے تو آپ اسے قتل کرنا چاہتے تھے۔[ سیرۃ ابن ہشام(۵۴۳۔۵۴۵)۔] اسی بنا پر آپ کے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تلخ گفتگو بھی ہوئی۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ بغض رکھتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کرنا کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہ تھا۔ اگر آپ امیربنائے جانے کے مستحق نہ ہوتے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کبھی بھی آپ کو امیر نہ بناتے ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دمشق اور دیگر بلاد شام میں بیس سال تک امیر اور بیس سال تک خلیفہ رہے۔ آپ کی رعایا آپ کے حسن سلوک، تالیف قلب اور خوبیٔ انتظام و انصرام کی مداح تھی اور آپ پر جان چھڑکتی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ صفین میں انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دیا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نظائر و امثال سے افضل و اولیٰ بالحق تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فوجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے معترف تھے۔اور سبھی اس بات کے معترف تھے کے خلافت کے حق دار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔آپ کی فضیلت کا انکار صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو حق کے سامنے سرکش اور خواہشات نفس کے سامنے اندھا ہو۔
ادھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی مسئلہ تحکیم سے پہلے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے خلافت کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ۔ اور نہ ہی آپ کو امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ آپ نے تحکیم کے بعد خلافت کی طلب کی۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کئی ایک لوگ ایسے تھے جو یہ سوال اٹھاتے تھے : ہم علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیوں کریں ؟ جب کہ آپ کو نہ ہی سابقت اسلام کا شرف حاصل ہے ‘ اور نہ ہی کوئی دیگر ایسی فضیلت ؛ او رنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف [جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہے] اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی نسبت خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس چیز کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ تاہم اسکے باوجود انھوں نے جنگ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ شامل ہیں جنھوں نے سراسر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔اور وہ اب ان سے اس سلوک کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا ہے۔ لڑائی کا آغاز کرنے والے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے؛ اور حملہ آور سے لڑنا روا ہے۔یہ لوگ اس وقت تک نہ لڑتے تھے جب تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے لوگ ان پر حملہ نہ کردیتے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سرگرم معاون اشتر نخعی نے کہا تھا:’’ لوگ ہمارے مخالفین کی مدد کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے لڑائی کا آغاز کیا ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر میں موجود قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی سرکوبی سے قاصر تھے۔ علاوہ ازیں آپ کے امراء و اعوان آپ کی اطاعت نہیں کرتے تھے، اس کے برعکس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء آپ کے مطیع فرمان تھے۔آپ کا خیال تھا کہ جنگ سے مسئلہ حل ہوجائے گا؛ مگرنتیجہ آپ کی سوچ کے برعکس نکلا۔ [ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ] حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کا الزام لگاتے تھے ؛ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس چیز سے بالکل بری تھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سے طالبین حق یہ بھی کہتے تھے : ’’ ہم صرف اس آدمی کی ہی بیعت کرسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرے ؛ اور ہم پر ظلم نہ کرے ۔‘‘
اگر ہم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کریں گے تو ہم پر ان کا لشکر ایسے ہی ظلم کریگا؛ جیسے انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یاتو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرنے سے عاجز آگئے ہیں ؛یا پھر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ تو پھر ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایسے انسان کی بیعت کریں جو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرنے سے عاجز آگیا ہو یا پھر اس نے عدل و انصاف کرنا ہی ترک کردیا ہو۔
ائمہ اہل سنت والجماعت جانتے ہیں کہ یہ قتال نہ ہی مامور بہ تھا‘ نہ ہی واجب تھااورنہ ہی مستحب ۔ لیکن اس انسان کا عذر مقبول ہے جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کا شکار ہوگیا۔
[تیسرااعتراض]: شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تألیف قلب والوں میں سے تھے ۔‘‘
[جواب]:درست بات ہے؛فتح مکہ پر بہت سارے آزاد کردہ لوگ تالیف قلب والوں میں سے تھے ۔ جیسے حارث بن ہشام ؛ عکرمہ بن ابو جہل؛ سہیل بن عمرو؛ صفوان بن امیہ ؛ حکیم بن حزام؛یہ لوگ بہترین مسلمانوں میں سے تھے۔ تالیف قلب والوں کی اکثر تعداد بعد میں بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت کوئی انسان دنیا کی لالچ میں مسلمان ہوتا ؛ مگر شام ہونے تک اس کی حالت یہ ہوتی کہ اسلام اس کے لیے روئے زمین کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوگیا ہوتا ۔
[کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے؟]:
[چوتھااعتراض]:شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آراء ہوئے، حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ برحق تھے اور جو شخص خلیفہ برحق سے لڑتا ہے وہ باغی اور ظالم ہوتا ہے۔‘‘
[جواب] :پہلی بات: ہم کہتے ہیں : باغی بعض اوقات بنابر تاویل اپنے آپ کو حق پر تصور کرتا ہے۔ بعض دفعہ اس کی بغاوت جان بوجھ کر [بغیر تاویل کے ]ہوتی ہے ۔اور کبھی محرک اس کی تاویل بازی، شہوت نفس یا کوئی شک و شبہ ہوتا ہے ؛ اکثر بغاوت کی یہی وجہ ہوتی ہے۔ بہر کیف یہ اعتراض سرے سے اہل سنت والجماعت کے عقیدہ پر وارد ہی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ہم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بلکہ ان سے افضل لوگوں کو بھی گناہوں سے پاک تصور نہیں کرتے۔ چہ جائے کہ انہیں اجتہاد میں خطاء سے مبرا و منزہ سمجھیں ۔بلکہ اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :
’’گناہوں کی سزا معاف ہونے کے کئی اسباب ہیں ۔ ان میں : توبہ و استغفار ؛ گناہ مٹانے والی نیکیاں ؛ کفارہ بننے والے مصائب ؛ اور ان کے علاوہ دیگر امور ۔‘‘
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوردوسرے لوگوں کے لیے عام ہے ۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ تاریخ میں مشہور ہے؛آپ چھوٹے صحابہ میں سے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مسور رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلوت نشین تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ مجھ میں کیا عیب دیکھتے ہیں ؟ مسور رضی اللہ عنہ نے چند امور کا ذکر کیا۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ اے مسور! کیا آپ سے کچھ گناہ سرزد ہوئے ہیں ؟‘‘ کہا: ’’ہاں ۔‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا:’’ کیا تمھیں مغفرت کی امید ہے؟‘‘ مسور نے کہا:’’ ہاں ! کیوں نہیں ‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا’’ تم مجھ سے زیادہ رحمت الٰہی کے امید وار کیوں کر ہوئے؟‘‘ اللہ کی قسم! مجھے جب بھی اللہتعالیٰ اور اس کے سوا کسی دوسری چیز میں اختیار دیا گیا تو میں نے اللہتعالیٰ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ: جہاد ، اقامت حدود، امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں میرے اعمال کاپلڑا آپ سے بھاری ہے۔ علاوہ ازیں میں ایسے دین پر عمل پیرا ہوں جس کا اللہ حسنات کو قبول کرتا اور سیئات سے درگزر کرتا ہے۔‘‘توپھر کس چیز کی بنا پر آپ مجھ سے زیادہ اللہ کی رحمت کے طلب گار ہوئے؟[البدایۃ والنھایۃ(۸؍۱۳۳۔۱۳۴) بحوالہ عبد الرزاق۔] حضرت مسور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ گفتگو میں مجھ پر غالب آگئے ۔‘‘
دوسری بات :یہ کہ: اس باب میں اہل سنت والجماعت اس صحیح اور سیدھی سادی اصل پر قائم ہیں ۔ جبکہ تمہارے اقوال میں تناقض پایا جاتا ہے۔اگر خوارج و نواصب اور دوسرے لوگ[معتزلہ‘ مروانیہ وغیرہ] جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کوکافرو فاسق اور ظالم کہتے ہیں ؛ اور آپ کے عادل ہونے میں شک کرتے ہیں ؛اگر شیعہ حضرات سے پوچھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحب ایمان و امام اور عادل ہونے کی کیا دلیل ہے؟تو تم شیعہ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔
آپ اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا مشرف بہ اسلام ہونا اور آپ کی کثرت عبادت تواتر سےثابت ہے۔
٭ اس کے جواب میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ:یہ تواترصحابہ و تابعین ؛خلفاء ثلاثہ ؛ خلفاء بنو امیہ؛جیسے معاویہ ؛ یزیداور عبدالملک رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی ثابت ہے۔جب کہ تم ان کے ایمان پر زبان طعن دراز کرتے ہو۔ہمارا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کے ایمان پر قدح کرنا تمہارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان پرقدح کرنے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جن کی شان میں تم قدح کرتے ہو‘ وہ ان سے بڑھ کر اور زیادہ عظمت والے ہیں جن کی شان میں ہم قدح کرتے ہیں۔
اگر شیعہ ظواہر قرآنیہ سے احتجاج کریں کہ قرآن میں ان کی مدح وتوصیف بیان ہوئی ہے ۔تو وہ جواب میں کہیں گے: قرآنی آیات عام ہیں یہ حضرت ابوبکر و عمروعثمان اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوایسے ہی شامل ہیں جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔ بلکہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر ان آیات کے موجب مدح و ثناء کے مستحق ہیں ۔ اگر روافض پوری جماعت کو اس فضیلت سے مستثنیٰ کریں گے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے الگ کردینابہت آسان ہے۔[حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں بھی احادیث وارد ہیں ۔، لہٰذا ان کو بھی قبول کرنا چاہئے اور اگر شیعہ صحابہ کو مطعون کریں گے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے بچ نہیں سکتے]
اگر شیعہ صحابہ کے بارے میں وارد شدہ فضائل و مناقب سے احتجاج کریں تو یہ فضائل جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیے ہیں ‘انہی صحابہ نے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بھی روایت کیے ہیں ۔ اگر یہ راوی [تمہارے نزدیک ] عادل ہیں تو تمام روایات کو ماننا پڑے گا؛ اور اگر کہو کہ فاسق ہیں تو پھر جب فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کے لیے تحقیق کرنا پڑتی ہے [تا کہ حق بات واضح ہوجائے]۔کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ گواہوں کے بارے میں یوں کہے :
’’ اگریہ میرے حق میں گواہی دیں تو عادل ہوں گے۔ اور اگر میرے خلاف گواہی دیں تو فاسق و فاجر ہوں گے ۔‘‘ یا یوں کہے کہ : ’’ اگر ان لوگوں کی مدح میں گواہی دیں جن سے میں محبت کرتا ہوں ؛ تو پھر عادل ہوں گے۔ اور اگر ان لوگوں کی مدح میں گواہی دیں جن سے میں بغض رکھتا ہوں ‘ تو پھر فاسق ہوں گے۔‘‘
رہا امامت ِحضرت علی رضی اللہ عنہ کا مسئلہ ؛ تو یہ لوگ اوردیگر فرقے [خوارج ونواصب] آپ سے اس بارے میں تنازع کرتے ہیں ۔اگر تم اپنے دعوی کے مطابق ان کے منصوص ہونے کی دلیل پیش کرتے ہو؛ تو وہ اس کے مقابلہ میں ایسی ہی دلیل پیش کریں گے؛جیسے ان کا دعوی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں ہے ‘ یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں [ جیسا کہ مروانیہ کا عقیدہ ہے]۔حدیث و آثار کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا دعوی زیادہ قابل قبو ل ہے۔ ایسے ہی ان حضرات کی خلافت کے برحق ہونے پرایسے دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں جن کو سمجھنے کیلئے علم حدیث کا ہونا ضروری نہیں ۔
اگر شیعہ اس بات سے احتجاج کریں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ توخوارج و نواصب کہہ سکتے ہیں کہ: یہ سبھی جانتے ہیں کہ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم خلفائے ثلاثہ کی بیعت اس بیعت سے کہیں بڑھ کر تھی،[ اس لیے کہ اہل شام اور اکثر اہل مصر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی]۔جب کہ تم ان کی بیعت کو غلط کہتے ہو۔توپھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت پر قدح کرنا بہت ہی آسان ہے۔ تم جس بھی نص سے یا اجماع سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت پر استدلال کرو گے تو وہی نص و اجماع خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی بیعت و خلافت پر زیادہ قوت سے دلالت کرے گی۔ تو اس طرح جن کی خلافت پر تم قدح کرتے ہو ‘ ان کی خلافت کااثبات اس سے زیادہ اولی ہوگا جس کی خلافت کے اثبات کے لیے تم دلیل پیش کرتے ہو۔
٭ یہ اشکال اہل سنت والجماعت پر وارد نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اہل سنت تمام خلفاء کی خلافت کو ثابت مانتے ہیں ۔اوران کی خلافت کے درست ہونے پر اس باب میں وارد ہونے والی نصوص سے استدلال کرتے ہیں ۔اہل سنت کہتے ہیں :
’’خلافت اہل حل و عقد و اصحاب شوکت کی بیعت سے منعقد ہوتی ہے ۔اہل شوکت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔ اگرچہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ایسے جمع نہ ہوسکے جیسے پہلے تین خلفاء رضی اللہ عنہم کی خلافت پر ان کا اجماع ہوا تھا۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جن اہل شوکت و اصحاب قدرت نے آپ کی بیعت کی تھی اس وجہ سے آپ کو قوت و شوکت حاصل ہوگئی تھی۔اور نص بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ کی خلافت ‘ خلافت نبوت تھی۔‘‘
پس جو لوگ آپ کی بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے؛ اس بارے میں ان کا عذر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے عذر سے بڑھ واضح ہے جو کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اگرچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی بھی آپ کی بیعت سے پیچھے نہیں رہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بلا خلاف لوگوں کے سامنے آپ کی بیعت کی تھی۔مگر یہ بھی کہا گیا ہے کہ : ’’ آپ چھ ماہ تک بیعت سے پیچھے رہے ‘ اور بعد میں بیعت کرلی ۔‘‘
شیعہ میں سے بھی کچھ لوگ یہی کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دوباتوں میں سے ایک ہے :
۱۔ یاتو آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہے ‘ اور پھر چھ ماہ کے بعد بیعت کرلی؛ جیسے شیعہ کا اور اہل سنت والجماعت کے ایک گروہ کا خیال ہے۔
۲۔ یا تو پھر آپ نے پہلے ہی دن سے بیعت کرلی تھی ؛ جیسے اہل سنت و الجماعت کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے۔
٭ اگر یہ دوسرا قول درست اور حق ہے ؛ تو شیعہ کا استدلال باطل ہواکہ آپ بیعت سے پیچھے رہ گئے تھے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ بیعت کرنے والوں میں سبقت لے جانے والے اور پہلے نمبر پر تھے۔
اگر پہلے قول کو درست مانا جائے تو پھر بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہ جانے والوں کا عذر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہنے والوں کی نسبت زیادہ ظاہر اور مقبول ہے۔ اس لیے کہ جیسی نصوص اور اجماع ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرنے والوں کے پاس ہیں ‘ ایسی نصوص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر موجود نہیں ۔صحیحین میں ایک روایت بھی ایسی نہیں ہے جو آپ کی خلافت پر دلالت کرتی ہو۔ بلکہ یہ روایات اہل سنن نے نقل کی ہیں ۔
بعض محدثین نے حدیث ِ سفینہ پر جرح بھی کی ہے۔ جب کہ اجماع کا دعوی کرنا بھی درست نہیں ہے ؛ اس لیے کہ آپ کی بیعت سے آدھی سے زیادہ امت یا اس سے کچھ کم و بیش لوگ پیچھے رہ گئے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نصوص کے مقتضیٰ کے مطابق دونوں فریقوں کے لیے جنگ و قتال ترک کرنا ہی بہتر تھا۔ اور جنگ سے پیچھے بیٹھ جانا جنگ میں شرکت کرنے سے زیادہ افضل تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے باوجود کہ آپ حق پر تھے ‘ حق آپ کے ساتھ تھا؛ اورمعاویہ رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت آپ ہی حق خلافت رکھتے تھے ؛ پھر بھی اگر آپ جنگ ترک کردیتے ؛ تو یہ آپ کے حق میں زیادہ افضل ‘ اصلح اور بہتر تھا۔
اہل سنت والجماعت ان تمام صحابہ کے لیے رحمت کی دعا کرتے اور ان کے لیے استغفار کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے۔ فرمان ِ الٰہی ہے :
﴿وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحشر۱۰)
’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کے لیے ہمارے دل میں کہیں (بغض )نہ ڈال؛اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘
جب کہ رافضی جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں طعن کریگا ‘ اور کہے گا کہ آپ ظالم اور باغی تھے ؛ تو نواصب بھی ان سے کہیں گے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی باغی تھے۔آپ اپنے دور امارت میں مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے ظالم بھی تھے۔ آپ نے امن عامہ میں خلل ڈالا اور لڑائی کا آغاز کرکے بلاوجہ وبلافائدہ امت کا خون بہایا؛ نہ ہی کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوااورنہ ہی کوئی دینی فائدہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شمشیر کفار سے دور اور مسلمانوں کے سر پر آویزاں رہی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قدح کرنے والے کئی گروہ ہیں ۔ ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ جنگ کرنے والے تمام لوگوں پر قدح کرتے ہیں ۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ :علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ ان دونوں میں سے ایک فاسق تھا مگر یہ معلوم نہیں کہ وہ کون ہے؟ ۔جیسا کہ عمرو بن عبید اور معتزلہ کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے ۔ یہ لوگ جنگ جمل والوں کے بارے میں کہتے ہیں : ان دونوں گروہ میں سے ایک گروہ فاسق تھا؛ مگر اس کا پتہ نہیں کہ وہ کون ساگروہ تھا۔کچھ لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو فاسق کہتے ہیں ۔ ایک گروہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ظالم کہتا ہے‘ جیسا کہ مروانیہ کا عقیدہ ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے : پہلے آپ حق پر تھے ۔ جب آپ نے دو جرگہ داروں کے جرگہ [تحکیم الحکمین ] پر رضامندی کا اظہار کیا تو آپ نے کفر کا ارتکاب کیا اور اسلام سے مرتد ہوگئے ‘ اور کفر کی حالت میں موت آئی ۔ یہ خوارج کا عقیدہ ہے۔
[حدیث عمار رضی اللہ عنہ کا جواب]:
خوارج ؛ مروانیہ ؛ اور بہت سارے معتزلہ اور دوسرے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں جرح و قدح کرتے ہیں ۔ یہ تمام لوگ اس مسئلہ میں خطاء پر ؛ بدعات کا شکار اورگمراہ ہیں ۔مگر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں شیعہ کا طعن و تشنیع کرنا ان لوگوں کے جرم سے بڑا جرم اورگھمبیر خطاء ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے والاکہے : ’’جن لوگوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی وہ[یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی]باغی تھے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ تجھے باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب التعاون فی بنا المسجد، (حدیث:۴۴۷،۲۸۱۲) ہم کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ۔یہ الفاظ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ارشاد فرمائے۔ باقی صحابہ ایک ایک اینٹ لارہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو دو، یہ دیکھ کر آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے یہ روایت ابو سعید خدری نے عکرمہ مولیٰ ابن عباس اور علی بن عبداﷲ بن عباس کو سنائی رضی اللہ عنہم ] اوران لوگوں نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔
بعض محدثین نے اس حدیث پر جرح کی ہے۔ بعض نے اس کی تاویل کی ہے اور باغی سے طالب مراد لیا ہے۔ مگر یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔جب کہ ائمہ سلف جیسے: امام ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء میں باغی لشکر کی شرائط نہیں پائی جاتی تھیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آغاز کار میں ان سے لڑنے کا حکم نہیں دیا؛[محب الدین خطیب ’’ العواصم من القواصم‘‘ (ص:۱۷۰) میں حاشیہ پر لکھتے ہیں : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ جنگ صفین میں آپ کی حیثیت ایک باغی کی نہ تھی کیونکہ آپ نے اس کا آغاز نہیں کیا تھا۔ بخلاف ازیں معاویہ رضی اللہ عنہ لڑائی کے لیے اس وقت نکلے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ سے نکل کر شام پر حملہ کرنے کے لیے نخیلہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ مارے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو ان کو یہاں لائے۔‘‘ خطیب فرماتے ہیں :’’ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں جو مسلمان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد مارے گئے، ان کے قتل کے ذمہ دار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل ہیں ۔ اس لیے کہ انھوں نے فتنہ کے دروازوں کو کھولا اورلمبے عرصہ تک اس آگ کو ہوا دیتے رہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مابین جذبات حقد و عناد کے بھڑکانے کا موجب ہوئے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا سانحہ خون فشاں پیش نہ آتا تو جنگ جمل و صفین و قوع پذیر نہ ہوتے۔ جس طرح یہ فتنہ پرداز احمق لوگ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے مرتکب ہوئے؛ اسی طرح اس واقعہ کے بعد تہ تیغ ہونے والے مسلمانوں کے قاتل بھی یہی لوگ ہیں ۔ مقتولین میں نہ صرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بلکہ ان سے افضل لوگ بھی شامل تھے، مثلاً طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما ، اس فتنہ پردازی کا انجام یہ ہوا کہ ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے دم لیا۔ حالانکہ یہ آپ کے لشکر میں شامل تھے۔ (]بلکہ یہ حکم ملاکہ جب دو فریق لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادی جائے؛پھر جو جماعت ظلم و تعدی کی مرتکب ہو اس سے لڑا جائے۔ان لوگوں سے ابتداء میں ہی؛ ان کی طرف سے جنگ شروع کرنے سے پہلے لڑا گیاہے۔‘‘
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ او رامام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر مانعین زکوٰۃ کہیں کہ : ہم زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے ادا کریں گے ‘ ہم حاکم وقت کو زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔تو امام [حاکم] کے لیے ان سے جنگ کرنا جائز نہیں ۔ اسی بنا پر امام احمد اور امام مالک رحمہم اللہ اسے’’ جنگ فتنہ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ باغیوں سے اس وقت لڑنا جائز ہے جب وہ حاکم وقت کے خلاف نبرد آزما ہوں ۔‘‘ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جنگ کا آغاز نہیں کیا تھا۔بلکہ خوارج نے جنگ کا آغاز کیا۔جب کہ خوارج سے جنگ کرنا نص اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے والا کہے کہ : آپ اس بارے میں مجتہد تھے۔
تو فریق مخالف بھی کہہ سکتا ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس مسئلہ میں مجتہد تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ : آپ مجتہداور حق پر تھے ۔
تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ : معاویہ بھی مجتہد اور حق پر تھے۔لوگوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مجتہد برحق کہتے ہیں ۔اسکی بنیاد یہ ہے کہ ہر اجتہاد کرنے والا حق پر ہوتا ہے۔یہ امام اشعری رحمہ اللہ کا قول ہے۔
ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے مگر خطاء پر تھے۔مجتہد کی خطاء قابل مغفرت ہے۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : ان دونوں میں سے ایک گروہ حق پر تھا ‘ مگر یہ پتہ نہیں کہ کون سا گروہ حق پر تھا۔
یہ اقوال امام احمد کے شاگرد ابو عبد اللہ بن حامد نے ذکر کئے ہیں ۔ لیکن خود امام صاحب اور ان کے امثال ائمہ سے منصوص یہ ہے کہ اس جنگ سے لڑائی کاترک کرنا بہتر تھا۔ یہ لڑائی فتنہ کی جنگ تھی۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اس عرصہ میں اسلحہ فروخت کرنے سے منع کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے :’’ فتنہ میں اسلحہ نہیں بیچا جاسکتا ۔‘‘یہ قول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ؛ محمد بن مسلمہ ؛ ابن عمر ؛ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کا ہے۔اور اکثر ائمہ فقہ و حدیث نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔اورکرامیہ کہتے ہیں : بلکہ دونوں حضرات امام برحق تھے اور
[مذکورۃ الصدر بیان سے عیاں ہے کہ ذکر کردہ حدیث نبوی اعلام نبوت میں سے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صفین میں لڑنے والے دونوں فریق زمرۂ مومنین میں شامل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلاشبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ تاہم دونوں صحابہ رسول اور دین اسلام کے رکن رکین تھے، اس دور میں جس قدر فتنے بپا ہوئے، اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے اس آگ کو ہوا دی۔ آنے والے ادوار میں تا قیام قیامت جو لوگ ان کے فعل کو سراہتے ہیں وہ ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ہی وہ باغی ہیں جو بعد میں قتل ہونے والے سب مسلمانوں کے ذمہ دار ہیں ۔ اسی طرح بعد ازاں جو فتنے بپا ہوئے اس کا اصل سرچشمہ وہی فتنہ پرور لوگ ہیں ۔] ضرورت کے تحت ایک وقت میں دو خلفاء کی بیعت کی جاسکتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کے بارے میں تنازع کرنے والوں کی حجتوں اور دلائل کا توڑ کرنا رافضیوں کے بس کاکام نہیں ۔ جو لوگ آپ کو امام حق تسلیم کرتے ہیں ؛ ان کا وہی عقیدہ ومسلک ہے جو اہل سنت والجماعت کا ہے۔ اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ امام حق کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اس شخص سے لڑا جائے جو اس کی اطاعت کے دائرہ سے خارج ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ معصیت میں بھی اس کی اطاعت کی جائے۔ اس حالت میں اس کی اطاعت کا چھوڑ دینا افضل ہے۔ اسی بنا پر صحابہ کی ایک جماعت جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہیں دیا تھا وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ قتال کا ترک کرناقتال میں ملوث ہونے سے بہتر ہے ۔اور بعض کا خیال تھا کہ جنگ کرنا گناہ کا کام ہے ‘ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا ان پر واجب نہیں ۔
جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوئے تھے وہ تین حال سے خالی نہیں :
۱۔ وہ عاصی ہوں گے ۲۔خطا کار مجتہد ہوں گے۔
۳۔ یا اپنے اجتہاد میں صحت و صواب کے حامل ہوں گے۔
بہر کیف کوئی صورت بھی ہو اس سے ان کے ایمان میں اور جنتی ہونے میں قدح وارد نہیں ہوتی۔نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ o اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ (الحجرات:۹۔۱۰)
’’ اگر مومنوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں توان میں صلح کرادو۔ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی جانب واپس آجائے۔ اندریں صورت بہ تقاضائے عدل ان میں صلح کرادو کیوں کہ اللہتعالیٰ باانصاف لوگوں کوچاہتا ہے۔ مومن باہم بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا بھائیوں کے درمیان صلح کرادیجیے]]۔
اس آیت میں متحارب فریقین کو ﴿اِخْوَۃٌ﴾ ’’بھائی ‘‘فرمایا گیا ہے؛ اور انہیں ایمان سے موصوف بتایاہے ؛ باوجود کہ ان کے درمیان جنگ و قتال پیش آئے۔اور آپس میں ایک دوسرے پر سرکشی کے مرتکب ہوئے۔
پس جو کوئی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرے ‘ اگر اسے باغی شمار کیا جائے تو پھر بھی اسے خارج از ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کو جہنمی کہا جاسکتا ہے۔نہ ہی اس کے جنتی ہونے میں کوئی چیز مانع ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جب بغاوت کسی تاویل کی بنا پر ہو تو ایسا باغی مجتہد ہوتا ہے۔اسی لیے اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ :ان دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی فاسق نہ کہا جائے۔ اگرچہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ : ان دو میں سے ایک گروہ باغی تھا؛ اور یہ باغی گروہ بھی [خواہش نفس کی وجہ سے نہیں ‘ بلکہ] اجتہاد کی بناپر بغاوت کا مرتکب ہوا تھا ۔ خطا کار مجتہد کو کافروفاسق نہیں کہا جاسکتا۔اگر انسان حق بات جانتے ہوئے بھی [بغیر کسی تاویل کے ] بغاوت پر اتر آئے؛ تب بھی یہ بغاوت فقط گناہ کا کام ہے۔اور کئی وجوہات کی بنا پر گناہوں سے معافی مل جاتی ہے جیسے : توبہ و استغفار ؛ گناہ مٹانے والی نیکیاں ؛ گنہگار کے لیے مؤمنین کی دعا؛ نیک اعمال کا ہدیہ ثواب ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت؛ وغیرہ۔
[پانچواں اعتراض]: شیعہ مصنف کہتاہے: ’’اس کاسبب یہ تھا کہ محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتے تھے؛ اور اپنے باپ کو چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے تھے ....۔‘‘
[جواب]: یہ ایک کھلا ہوا واضح جھوٹ ہے۔ محمد بن ابو بکر اپنے والد کی زندگی میں محض چھوٹے سے بچے تھے جن کی عمر تین سال سے بھی کم تھی۔اپنے والد کی موت کے بعد لوگوں میں سب سے بڑھ کر اپنے والد کی تعظیم کرنے والے تھے۔ اور اس تعلق کو وہ اپنے لیے شرف سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے لوگ بھی آپ کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
[چھٹا اعتراض]: شیعہ مصنف کہتا ہے : ’’ محمد بن ابو بکر کو چھوڑ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مؤمنین کا ماموں کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے تھے؛اور امیر معاویہ ان سے بغض رکھتے تھے۔‘‘
[جواب]:یہ بھی صاف جھوٹ ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان دونوں سے بڑھ کر اس لقب کے مستحق تھے۔اس لیے کہ آپ نے نہ ایک گروہ کے ساتھ جنگ کی اور نہ ہی دوسرے گروہ کے ساتھ ۔اور آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے اور آپ سے محبت رکھتے تھے۔آپ کے فضائل و مناقب کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ جب لوگوں کاحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لوگوں کا اتفاق ہوگیا تو آپ نے بھی ان کی بیعت کی اور ان کے خلاف خروج نہیں کیا۔ آپ کی بہن معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن سے افضل ہیں ؛اور آپ کے والد معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد سے افضل ہیں ۔ اور لوگ بھی معاویہ اور محمد رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھتے اور آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجو د یہ بات مشہور نہیں ہوئی کہ آپ کو مؤمنین کا ماموں کہا گیا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ رافضی کا ذکر کردہ سبب جھوٹ کا پلندہ ہے۔
اہل سنت والجماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال نہ کرنے والوں سے ان لوگوں کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں جنہوں نے آپ سے قتال کیا۔ اور جن لوگوں نے آپ سے قتال نہیں کیا انہیں قتال کرنے والوں پر فضیلت دیتے ہیں ؛ جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص؛ اسامہ بن زید؛ محمد بن مسلمہ ؛ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ۔اہل سنت و الجماعت کے نزدیک یہ حضرات ان لوگوں سے افضل ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی۔ نیزاہل سنت یہ بھی کہتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ؛اور جنگ کو ترک کرنا ؛آپ سے بغض رکھنے اور جنگ کرنے سے بہتر تھا؛ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔ نیز اہل سنت کا یہ بھی اتفاقی مسئلہ ہے : آپ سے محبت رکھنا اور دوستی کرنا واجب ہے۔اہل سنت آپ کے دفاع میں ہر جگہ پیش پیش رہتے ہیں ۔ اور خوارج و نواصب کے طعنوں کا جواب دیتے ہیں لیکن ہر بات کے لیے ایک مناسب موقع محل ہوتا ہے۔
جس طرح اہل سنت والجماعت آپ سے محبت کے وجوب کو [دلیل کی روشنی میں ] ثابت کرتے ہیں ؛روافض کے لیے ایسے ثابت کرنا ہر گز ممکن نہیں ۔اہل سنت والجماعت خوارج کی مذمت پر یک زبان ہیں جو کہ حضرت کے سب سے بڑے دشمن اور آپ سے بغض و عداوت رکھنے والے ہیں ۔ نیز اہل سنت والجماعت ان لوگوں کیساتھ جنگ کرنے پر بھی یک زبان ہیں ۔توپھر اس جھوٹے شیعہ مصنف نے اپنی طرف سے کیسے یہ بات گھڑ لی کہ اہل سنت ایک سے محبت اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا ‘اور دوسرے سے بغض اس لیے رکھتے ہیں کہ وہ آپ سے محبت کرتا تھا۔ [معاذ اللہ ]
حالانکہ اہل سنت والجماعت میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کو نیکی شمار کرتا ہو‘یا آپ سے بغض رکھنے کا حکم دیتا ہو۔ اور نہ ہی کوئی آپ سے فقط محبت رکھنے کو برائی اور معصیت کاکام کہتا ہے ‘ اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہے ۔‘‘
اہل سنت والجماعت کے تمام گروہوں کی کتب آپ کے فضائل و مناقب کے ذکر سے بھری پڑی ہیں ۔ ان میں ان تمام فرقوں کی مذمت کی گئی ہے جو آپ پر ظلم کرتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت ان لوگوں کا انکار کرتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دیتے ہیں ؛ اور ایسے لوگوں کو ناپسند رکھتے ہیں ۔
رہا معاملہ جو ان دونوں لشکروں میں ایک دوسرے پر لعنت کی گئی ؛یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ان دونوں لشکروں کے مابین قتال کا حادثہ پیش آیا۔ اہل سنت والجماعت سب لوگوں سے بڑھ کر آپ کے خلاف قتال اور سب و شتم کے امور سے نفرت رکھنے والے ہیں ۔ تمام اہل سنت و الجماعت آپ کی قدرو منزلت پر متفق ہیں ۔ آپ امامت وخلافت کے زیادہ حق دار تھے۔ اور آپ اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنین کے نزدیک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے والد اور بھائی کی نسبت زیادہ افضل انسان تھے او ران لوگوں سے بہتر تھے۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے بھی افضل ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں جیسے مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین ؛ جنہوں نے ببول کے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ؛ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہ کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں ؛ رضی اللہ عنہم ۔
اہل سنت والجماعت میں کو ئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی بھی صحابی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل سمجھتا ہو۔ بلکہ آپ کو[ان تین کے علاوہ] تمام باقی تمام اہل بدر ؛ اہل بیعت رضوان؛ اور مہاجرین و انصار سابقین اولین رضی اللہ عنہم سے افضل و بہتر مانتے ہیں ۔
اہل سنت والجماعت میں کوئی ایک ایسا بھی نہیں جو حضرت طلحہ ‘ زبیر ؛ سعد بن ابی وقاص عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو آپ سے افضل سمجھتا ہو۔ بلکہ اس کی حدیہ ہے کہ بعض تو اہل شوری کو آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت دینے میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔یہ اہل شوری ان کے نزدیک سابقین اولین سے افضل ہیں ۔ اور سابقین اولین فتح کے بعد اسلام لانے والوں اور اللہ کی راہ میں انفاق اور جہاد کرنے والوں سے افضل ہیں ۔ سابقین اولین صحیح قول کے مطابق وہ لوگ ہیں جنہوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی۔ اس قول کی کوئی صحت ثابت نہیں ۔
حدیبیہ کے بعد اسلام لانے والوں میں حضرت خالد بن ولید ؛ شیبہ الحجی ؛ عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہم اور دوسرے لوگ شامل ہیں ۔ جب کہ سہیل بن عمرو ؛ عکرمہ بن ابو جہل؛ ابو سفیان بن حرب؛ اس کے دونوں بیٹے یزید اورمعاویہ ؛ صفوان بن امیہ وغیرہ رضی اللہ عنہم یہ فتح مکہ کے مسلمان ہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے پہلے اسلام لے آئے تھے ؛ اس لیے انہیں پہلی قسم کے لوگوں میں شمار کیا گیا ہے ۔
صحیح بخاری اورمسلم میں ہے :’’حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اے خالد! میرے کسی صحابی کو برا نہ کہو کیونکہ تم میں سے کوئی آدمی اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ میرے صحابی کی ایک مٹھی یا آدھی مٹھی کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ [صحیح مسلم:ح ۱۹۸۹]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس سے منع کیا۔ جوکہ بیعت رضوان کے بعد اسلام لائے ‘ اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا ؛ اورجہاد فی سبیل اللہ کیا ۔انہیں کہا گیا کہ ان لوگوں سے تعرض نہ کریں جو اس سے پہلے اسلام لائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا اورجہاد کیا ۔ او ریہ بھی واضح کیا کہ بعد والوں میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردیں تو سابقین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خرچ کردہ ایک مٹھی جو یا اس کے آدھے کے اجر و ثواب کو نہیں پہنچ سکتا۔
اگریہ ممانعت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان لوگوں کیلئے ہے جو حدیبیہ کے بعداسلام لائے ۔توپھر ان لوگوں کو کیا حق حاصل ہوگا جو فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے؟جبکہ خالد رضی اللہ عنہ مہاجرتھے۔بیشک حضرت خالدبن ولید اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما حدیبیہ کے بعد اورفتح مکہ سے قبل اسلام لانے والوں میں سے ہیں ۔آپ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی؛آپ مہاجرین میں سے تھے۔جبکہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں کو ہجرت کا شرف حاصل نہیں ہوسکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں مگر جہاد اور اس کی نیت ہے ؛اورجب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا کہا جائے تو نکل پڑو۔‘‘[البخاری ۴؍۱۵؛ کتاب الجہاد والسیر ؛ باب فضل الجہاد والسیر ؛ مسلم ۳؍۱۴۸۷؛ کتاب الإمارۃ باب المبایعۃ بعد فتح مکۃ ....سنن الترمذي ۳؍ ۷۴ ؛ کتاب السیر باب ماجاء في الہجرۃ۔]
یہی وجہ ہے کہ جب ان میں سے کسی ایک کو اسلام پر بیعت کے لیے لایا جاتا؛ تو اس سے ہجرت کی بیعت نہیں لی جاتی تھی۔ ان میں سے اکثر لوگ بنی ہاشم میں سے تھے؛ جیسے حضرت عقیل بن ابی طالب؛ ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ؛ ربیعہ بن الحارث؛ اور حضرت عباس؛ رضی اللہ عنہم ؛ ۔ ان کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ہوئی جب آپ مکہ جارہے تھے۔[اور یہ مدینہ کے راستہ میں تھے]ابھی مدینہ نہیں پہنچے تھے۔ اور ایسے ہی ابو سفیان بن الحارث؛ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد تھا ؛یہ ابو سفیان بن حرب کے علاوہ ایک دوسرا ہے؛ یہ شاعر تھا ؛ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کیا کرتا تھا۔اسے بھی آپ نے راستہ میں پایا۔ یہ اچھے مسلمانوں میں سے ہوگیا تھا۔ یہ اور عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہما حنین کے موقع پر اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تھے جب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی مہار پکڑی ہوئی تھی۔
جب اہل سنت والجماعت کے ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ مراتب ہیں ؛ جیسا کہ کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہے ۔ اور اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اوران کے ہمنوا دوسرے لوگ وہ ہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ؛ جن کا اسلام لانا حدیبیہ والوں سے متاخر ہے ۔ اور حدیبیہ والوں کا اسلام سابقین اولین سے متاخر ہے [اسی لحاظ سے ان کے فضائل و مناقب ہیں ] ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں ۔ خلفاء ثلاثہ کے علاوہ کسی کو آپ پر فضیلت حاصل نہیں ۔ تو پھر اہل سنت والجماعت پر کس منہ کے ساتھ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے برابر سمجھتے ہیں یا آپ پر تقدیم و فضیلت دیتے ہیں ؟ ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مروانیہ اور دوسرے لوگوں کا ایک گروہ تھا۔ جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا ؛ اور ان کے بعد ان کے ماننے والے کہتے ہیں : ’’ بیشک آپ [حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ] اس قتال میں اصابت رائے والے مجتہد اورحق پر تھے ۔‘‘ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی یا تو ظالم تھے؛ یا پھر مجتہد تھے ؛ مگر اجتہاد میں خطأ پر تھے۔ اس بارے میں انہوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں جیسے جاحظ کی تصنیف کردہ کتاب ’’ المروانیہ ۔‘‘اور ایک گروہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل گھڑلیے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی روایتیں نقل کیں جو کہیں بھی ثابت نہیں ۔ اس بارے میں ان کی بڑی بڑی حجتیں ہیں جنہیں بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔
اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ لوگ غلطی پر ہیں ۔ اگرچہ رافضیوں کی غلطی ان کی غلطی سے بہت بڑھ کرہے۔ رافضیوں کے لیے یہ ہر گز ممکن نہیں ہے کہ وہ امامیہ مذہب پر عقیدہ رکھتے ہوئے ان لوگوں کے دلائل کا رد کرسکیں ۔ اس لیے کہ امامیہ کے دلائل میں تناقض پایا جاتا ہے۔ایسے دلائل سے استدلال کرتے ہیں جنہیں خود ہی دوسرے موقع پر توڑدیتے ہیں ۔ عقلی اور سمعی دلائل سے حجت لیتے ہیں ؛ اور جو چیز اس سے بڑھ کر ہے؛[یعنی کتاب و سنت] اس کا انکار کرتے ہیں ۔بخلاف اہل سنت والجماعت کے ؛ ان کے دلائل صحیح اور اپنے موقع محل پر درست ہوتے ہیں ۔
[ اہل سنت و الجماعت کے ساتھ ان روافض کا معاملہ ایسے ہی ہے ] جیسے مسلمانوں کیساتھ عیسائیوں اور دیگر اہل کتاب کا معاملہ۔ اہل سنت و الجماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نصرت میں ان کی مذمت کرنے والوں اور بغض رکھنے والوں ؛ یا آپ سے برسر پیکار لوگوں کو حق پر کہنے والوں پر حجت قائم کر سکتے ہیں ۔جیسا کہ مسلمانو ں کے لیے یہ ممکن ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو جھٹلانے والے یہودیوں اور دوسرے لوگوں پر حجت قائم کرسکیں ۔ بخلاف نصاری کے۔اس لیے کہ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو جھٹلانے والے یہودو نصاری پرعلمی اور مدلل حجت قائم نہیں کرسکیں گے۔
شانِ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں کوتاہی:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں کوتاہی کرنے والے اہل بدعت کے کئی گروہ ہیں :
۱۔ خوارج کا گروہ: جو کہ آپ کو کافر کہتا ہے۔ یہ لوگ آپ کیساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورجمہور مسلمین کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ جب کہ اہل سنت والجماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان کو ثابت مانتے ہیں ؛ اور آپ سے محبت و دوستی کو واجب قرار دیتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایمان کو ثابت مانتے ہیں ۔ اور آپ سے محبت و دوستی کو واجب کہتے ہیں ۔
۲۔ ایک گروہ کہتا ہے : ’’ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ مگر قتال کے مسئلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ حق پر تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتال کرنے میں حق پر نہیں تھے۔ یہ کہنے والے لوگ بہت زیاہ ہیں ‘ جیسے کہ وہ لوگ جنہوں نے آپ کے ساتھ مل کر قتال کیا۔ ان کے جمہور یا اکثر لوگ کہتے ہیں :حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے حاکم نہیں تھے جن کی اطاعت واجب ہوتی۔اس لیے کہ آپ کی خلافت نص یا اجماع سے ثابت نہیں ۔
۳۔ تیسرا گروہ : ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت حق پر تھے۔ ان کا کہنا ہے :حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قتال میں حق پر نہیں تھے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ یہ زمانہ فتنہ اور اختلاف و افتراق کا زمانہ تھا۔اس وقت پوری امت اسلامیہ کا کوئی نہ ہی [متفقہ]امیر تھا اورنہ ہی خلیفہ ۔ اس قول کے کہنے والے اہل بصرہ ‘ اہل شام؛ اہل اندلس علاوہ اور بہت سارے دوسرے علماء و محدثین رحمہم اللہ تھے۔ اندلس میں بہت سارے بنو امیہ کے علماء اسی قول کے قائل تھے۔یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے رحم و مغفرت کی دعا کرتے اور آپ کی تعریف کرتے تھے ۔ لیکن کہتے تھے: آپ خلیفہ نہیں تھے۔ اس لیے کہ خلیفہ وہ ہوتا جس کی بیعت پر لوگ جمع ہوجائیں ۔ آپ کی بیعت پر لوگ جمع نہیں ہوئے۔
۳۔ ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اپنے جمعہ کے خطبات میں چوتھا خلیفہ شمار کرتے تھے۔ پس تین پہلے خلفاء کو شمار کرتے اور چوتھا خلیفہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو شمار کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام نہیں لیا کرتے تھے ۔ یہ لوگ دلیل پیش کرتے تھے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی تو آپ پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہوگیا؛بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ آپ کے ہاتھ پر مسلمانوں کا اجتماع نہیں ہوسکا ۔ یہ لوگ کہتے ہیں : ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو چوتھا خلیفہ اس لیے نہیں شمار کرتے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے افضل ہیں ۔جیسا کہ دوسرے کئی صحابہ کرام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ‘ اگرچہ وہ خلفاء نہیں بن سکے۔ امام احمد بن حنبل اور دوسرے علماء رحمہم اللہ جو خلافت علی رضی اللہ عنہ کے قائل تھے نے آپ کی خلافت پر حدیث سفینہ سے استدلال کیاہے؛ جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے بعد تیس سال خلافت ہو گی، پھر ملوکیت کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘[سنن ابی داؤد ۔ کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء(ح:۴۶۴۶) سنن ترمذی، باب فی الخلافۃ (ح:۲۲۲۶) ۔]
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چوتھا خلیفہ شمارنہ کرنے والے گدھے سے بڑھ کر گمراہ و بدتر ہیں ۔‘‘
آپ کے اس جملہ کی وجہ سے بعض لوگوں نے حضرت امام احمد رحمہ اللہ پر کلام کیا ہے‘اورکہا ہے : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کرنے والوں میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور دوسرے وہ لوگ شامل ہیں جن کے متعلق اس طرح کا جملہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔ اور انہوں نے بہت ساری ان احادیث مبارکہ سے بھی استدلال کیا ہے جن میں خلافت نبوت کا ذکر ہے ؛ مگر ان میں خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے کا تذکرہ نہیں ۔
مسند امام احمد میں حماد بن سلمہ سے روایت ہے ‘ وہ علی بن زید بن جدعان سے ‘ وہ عبد الرحمن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے اوروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ : ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
’’کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے ؟‘‘ میں نے عرض کیا۔یارسول اللہ! میں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک ترازو لٹکایا گیا ہے پھر آپ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ وزن کیا گیا اور آپ بھاری نکلے۔ پھر حضرت عمرو ابوبکر رضی اللہ عنہما کو تولا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ والا پلڑا جھک گیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں وزن کیا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ وزنی ثابت ہوئے۔ پھر ترازو اٹھا لیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خلافت نبوت کی جانب اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جسے چاہے حکومت و سلطنت سے نوازے۔‘‘[مسند احمد(۵؍۴۴،۵۰) سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء (ح: ۴۶۳۴۔۴۶۳۵) تاہم اس میں خواب دیکھنے والے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے صحابی تھے۔ واللہ اعلم) ]
امام ابو داؤد رحمہ اللہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’آج ایک نیک آدمی نے خواب دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے باندھ دیا گیا ہے، اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے وابستہ کردیا گیاتھا۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
’’جب ہم بارگاہ رسالت سے اٹھے تو ہم نے کہا: نیک آدمی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس مراد ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ آپ کے خلفاء ہیں ۔‘‘[سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء(حدیث:۴۶۳۶)]
امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی سنن میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کہا:
’’اے اللہ کے رسول!میں نے خواب دیکھا کہ گویا ایک ڈول آسمان پر لٹکایا گیا۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اس ڈول کے کنارے پکڑ کر تھوڑا سا پی لیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے اس کے کنارے پکڑے اور اتنا پیا کہ پیٹ بھر گیا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اس کے کنارے پکڑکر پیا؛ یہاں تک کہ سیر ہوگئے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے اس کے دونوں کنارے پکڑے تو وہ ڈول ہل گیا اس کے پانی کے کچھ چھینٹے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر پڑ گئے۔‘‘[سنن ابوداد:جلد سوم:حدیث نمبر۱۲۳۴۔]
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :’’ خلفاء تین ہیں : حضرت ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول تمام احادیث صحیحہ برحق ہیں ۔ وہ خلافت جس پرتمام مسلمانوں کا اجماع ہوا تھا؛ اور جس دور میں کفار سے قتال کیا گیااور دین اسلام کو غلبہ نصیب ہوا وہ حضرات ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی خلافت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں مسلمانوں کا آپس میں اختلاف ہوگیا تھا۔ اس دور میں مسلمانوں کی قوت کچھ اچھی حالت میں باقی نہ رہی تھی۔اور نہ ہی اس دور میں کفار پر کوئی غلبہ اور رعب باقی رہا۔یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ راشد ہونے میں قدح کا سبب نہیں بن سکتی۔[حقائق کے پیش نظر] اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح پہلے خلفاء کو اقتدار اور قوت حاصل تھی ؛ ایسی قوت آپ کو حاصل نہ ہوسکی۔ اور امت آپ کی اطاعت سے ایسے شرفیاب نہ ہوسکی جیسے آپ سے پہلے کے خلفاء کی اطاعت کرتی تھی ۔پس اس بنا پر آپ کے عہد مسعود میں ایسی عام اور مکمل خلافت قائم نہ ہوسکی جیسے آپ سے پہلے تین خلفاء کے دور میں تھی۔ حالانکہ آپ کا شمار بھی ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جنگ کرنے میں حق پر تھے ؛ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کیساتھ جنگ میں حق پر نہیں تھے۔ان کا قول پھلے گروہ کے قول کی نسبت ضعیف ہے۔ ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ : ’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کررہے تھے۔ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا زاد اور ولی تھے۔ اولاد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے دیگر رشتہ دار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوگئے تھے ؛ اور ان کا مطالبہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یاتو قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کے حوالے کردیں ‘ یا پھر خود ان سے قصاص لیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا ۔ اس وجہ سے انہوں نے آپ کی بیعت ترک کردی اور آپ کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ شروع کی تھی ؛ انہوں نے اپنے نفوس و بلاد کے دفاع میں اسلحہ اٹھایا تھا۔ اس وجہ سے انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا: کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر ظلم اور سرکشی کرتے ہیں ۔
رہی وہ حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ تجھے باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘بعض محدثین نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ بعض نے اس کی تاویل کی ہے۔ بعض نے کہا ہے : اس سے مراد خون [عثمان رضی اللہ عنہ ] کا مطالبہ کرنے والی جماعت ہے۔جیسا کہ بعض لوگ نعرہ لگاتے تھے کہ ہمیں خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ چاہیے۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ : جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے قتل ِحضرت عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’ کیاہم نے انہیں قتل کیا ہے ؟ انہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے جو انہیں ہماری تلواروں کے نیچے لے کر آئے ۔‘‘
جب یہ تاویل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے ذکر کی گئی توآپ نے فرمایا:
’’ توپھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے جنگ احد کے موقع پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہوگا کیونکہ وہ اس دن مشرکین سے جنگ کررہے تھے ۔‘‘
اس قول کے قائلین کا ائمہ اربعہ کے اصحاب اور معتبر علماء اہل سنت والجماعت کے ہاں کو ئی کھوج نہیں مل سکا۔ اصل میں یہ بہت سارے مروانیہ اور ان کی موافقت رکھنے والوں کا قول ہے ۔
ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں شریک تھے۔ پھر بعض کہتے ہیں : آپ نے اعلانیہ اس کا حکم دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں : نہیں ‘ بلکہ چپکے سے سازش کی تھی۔بعض کہتے ہیں : آپ اس قتل پر راضی رہے اور خوش ہوئے تھے۔ اور بعض لوگ اس طرح کی دیگر باتیں بناتے ہیں ۔یہ تمام باتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ اور بہتان ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ ہی قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک ہوئے ‘ نہ ہی اس پر راضی تھے اور نہ ہی اس پر خوش ہوئے اورنہ ہی آپ نے کوئی سازش کی ۔ آپ سے روایت کیا گیا ہے ۔ اور آپ اپنے اس قول میں بالکل سچے ہیں ۔ آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ اللہ کی قسم ! میں نہ ہی قتل عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک ہوا اور نہ ہی ایسی کوئی سازش کی۔‘‘
دوسری روایت میں ہے آپ نے فرمایا : ’’ نہ ہی میں نے قتل کیا او رنہ ہی اس پر راضی تھا ۔‘‘
ایک روایت میں ہے :آپ نے سنا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے والوں پر لعنت کر رہے تھے توآپ نے فرمایا:
’’ اے اللہ ! عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں پر خشکی اور سمندر میں اورپھاڑ اور وادی میں لعنت کر ۔‘‘
اہل شام کا عذر:
یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں نے اہل شام کے پاس جاکر جھوٹی گواہی دی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں میں شریک تھے۔ یہ گواہی آپ کی بیعت ترک کرنے کا سبب بنی تھی ؛ اس لیے کہ ان لوگوں کو یہ یقین ہوگیا تھا کہ آپ ظالم ہیں ؛ او رآپ کا شمار قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں ہوتا ہے ۔اور آپ نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو اس وجہ سے پناہ دی ہوئی ہے کہ آپ اس قتل پر موافق تھے۔
اس طرح کی کئی ایک دیگر باتوں سے ان لوگوں کے قتال میں اجتہاد کی وجہ اورشبہ ظاہر ہوجاتا ہے جنہوں نے آپ سے جنگ کی تھی۔لیکن اس کامطلب ہر گز یہ بھی نہیں کہ آپ کے ساتھ قتال اورترک بیعت کے متعلق اجتہاد میں انہوں نے حق بات تک رسائی حاصل کرلی تھی۔ اور نہ ہی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہوجانے کی وجہ سے یہ لازم آتا ہے کہ آپ اس قتل[ میں شریک یا پھر اس] پر موافق تھے۔ بعض لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ بھی عذر پیش کیے ہیں کہ:
۱۔ آپ ان لوگوں کو متعین طور پر نہیں جانتے تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیاتھا۔
۲۔ یا آپ یہ سمجھتے تھے کہ ایک آدمی کے بدلہ میں ایک پوری جماعت کو قتل نہیں کیا جاسکتا ۔
۳۔ آپ کے پاس مقتولین کے وارثوں نے قصاص کا مطالبہ نہیں کیا ‘ جس کی روشنی میں قاتلین میں پکڑا جاتا ۔
ایسے عذر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔حقیقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اتنی قوت حاصل نہ ہوسکی تھی کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرتے۔ اگر ایسے ہوتا بھی تو اس سے مزید فتنہ وفساد اوربہت بڑا شر پھیل جاتا۔ جبکہ بڑے فساد سے بچنے کیلئے چھوٹے فساد کو قبول کرلینا یہ مصلحت کے زیادہ قریب ہے۔ اس لیے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پورا لشکر تھے۔ان کے پیچھے ان کے قبائل تھے جو ان کا دفاع کررہے تھے؛اور جو لوگ براہ راست قتل میں شریک ہوئے تھے ؛ قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے قبائل کے سرکردہ لوگ تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ آپ کے قتل کرنے پر قادر نہ ہوسکتے تھے۔ جب حضرات طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما قاتلین عثمان کو قتل کرنے کے لیے بصرہ کی طرف چل پڑے تو اس وجہ سے جنگ بپا ہوئی جس میں بہت ساری خلقت قتل ہوئی۔
جس چیز سے یہ معاملہ مزید واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہوگئے تھے ؛ اور آپ مسلمانوں کے امیر عام بن گئے تھے ؛ مگر اس کے باوجود آپ نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے ‘انہیں قتل نہ کرسکے ۔بلکہ یہ روایت کیا گیا ہے کہ: جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سفر حج کے لیے مدینہ پہنچے تو آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھرسے آوازیں سنیں : ہائے امیر المؤمنین ! ہائے امیر المؤمنین ! ۔‘‘ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟
لوگوں نے کہا: یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے جو ان کے خون کا مطالبہ کررہی ہے ۔ آپ نے لوگوں کو اسی حال میں چھوڑا؛ اور خود اس کی طرف چلے گئے؛ اور یوں گویا ہوئے : اے میری چچا زاد!’’ لوگوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری اطاعت کی ہے ۔ اور ہم غصہ کے باوجود ان کیساتھ بردباری اور تحمل مزاجی کا سلوک کررہے ہیں ۔اگر ہم ان کے ساتھ بردباری نہ کریں تو وہ ہماری اطاعت ترک کردیں ۔ اور یہ کہ تم امیر المؤمنین کی بیٹی کی حیثیت سے عزت و اکرام کے ساتھ بیٹھو ‘ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں کھیل بن جاؤ ۔‘‘ آج کے بعد میں نہ سنوں کہ تم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یاد کیا ہے ۔‘‘
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو کہ آپ کے قصاص کے طلب گار تھے؛ جو کہتے تھے کہ: آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال میں حق پر ہیں ؛ اس لیے کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قتل کرنا چاہتے تھے ؛ مگر جب آپ کو قدرت و اختیار حاصل ہو گیا ؛اور لوگ آپ کے ہاتھ پر جمع ہوگئے ؛ توآپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کو قتل نہیں کیا ؛ اگرچہ انہیں قتل کرنا واجب بھی تھا؛ اوراب آپ کو قدرت و اختیار بھی حاصل تھا؛ تو مسلمانوں سے جنگ کیے بغیر یہ کام کر گزرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ اورآپ کے ساتھیوں سے جنگ کرنے کی نسبت زیادہ اولی واسہل تھا۔اور اگر معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل بھی کردیتے تو اتنا بڑا فساد نہ پیدا ہوتا جتنا صفین کی راتوں میں ہوا تھا۔
اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے میں معذور تھے؛ خواہ اپنے عجز و کمزوری کی وجہ سے یا پھر فتنہ برپا ہونے کے اندیشہ سے ؛ کیونکہ اس سے پھر جماعت بندی کا شیرزارہ بکھر جاتا [اور لوگ بغاوت کرجاتے] اور آپ کی حکزمت کمزور ہوجاتی ۔توحضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ عذر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عذر سے زیادہ مقبول ہے ۔ اس لیے کہ فتنہ گروں اور فسادیوں کوقتل کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس سے مزید فتنہ پیداہوتا ؛ اختلاف پیدا ہوتا ؛ حکومت کمزور ہوجاتی ؛ خواہ اس بارے میں جتنی بھی سخت کوششیں کی جائیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ فتنہ کے شر و فساد کاصحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب فتنہ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب فتنہ برپا ہورہا ہوتا ہے اس وقت وہ خوبصورت نظر آتاہے؛ اورلوگ گمان کرتے ہیں کہ اس میں خیر و بھلائی ہوگی۔ جب انسان اس کے شر و فساد کی تلخی کوچکھ لیتے ہیں تو اس کے نقصانات ظاہر ہوتے ہیں ۔
دونوں گروہوں کی طرف سے جو لوگ اس فتنہ میں شریک ہوئے ؛ انہیں اس جنگ کے نتیجہ میں پیداہونے والے حالات کا علم نہیں تھا ۔ اورانہیں اس فتنہ کے بپا ہونے تک اس کی تلخی کا اندازہ نہیں تھا۔یہاں تک کہ یہ واقعات ان لوگوں کے لیے اور ان کے بعد آنے والوں کے لیے درس عبرت بن کر رہ گئے ۔
جو کوئی مسلمانوں کے مابین واقعہ ہونے والے فتنوں کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے تو اس کے لیے واضح ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے ان فتنوں میں شرکت کی ہو‘ اور ان کی وجہ سے اس کا انجام کار قابل تعریف رہا ہو۔ اس لیے کہ ان فتنوں میں دین و دنیا کا نقصان ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فتنوں میں شرکت سے منع کیا تھا‘ اور ان سے بچ کر رہنے کا حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾
’’ان لوگوں کوڈرنا چاہیے جوآپ کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انھیں کوئی فتنہ آپہنچے، یا انھیں دردناک عذاب آپہنچے۔‘‘ [النور۶۳]
[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق شبہ او راس کا جواب]:
معترض کا یہ کہنا کہ: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جنگ شروع کی۔‘‘
[تو اس کا جواب یہ ہے کہ ] ان لوگوں نے آپ کی اطاعت اور بیعت سے اپنے ہاتھ کو روکا ؛ اور آپ کو ظالم اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کا شریک قرار دینے لگے ۔ آپ کے بارے میں جھوٹے لوگوں کی گواہی قبول کی ۔اور آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جن سے حقیقت میں وہ اللہ کے ہاں بری تھے۔‘‘
٭ اب اگر کوئی کہے کہ : ’’ صرف اس بنا پر تو ان سے جنگ کرنا جائز نہ تھا ۔‘‘
٭ تواس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ ایسے ہی دوسرے لوگوں کو قتل کرنا بھی آپ کے حق میں مباح نہ تھا؛ اس لیے کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے سے عاجز تھے۔ اگر مان لیا جائے کہ آپ ایسا کرسکتے تھے ‘ مگر نہیں کیا ؛ تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے واجب ترک کیا ؛ اس میں یا تو آپ تاویل کررہے تھے ‘ یا پھر گنہگار تھے ۔ تو پھر بھی اس بنا پر جماعت مسلمین میں تفریق پیدانہیں کی جاسکتی تھی اور نہ ہی آپ کی بیعت سے پیچھے رہنا اور آپ سے جنگ کرنا جائز تھا۔ بلکہ آپ کی بیعت کرلینے میں دین کے لحاظ سے ہر حال میں خیر اور بہتری تھی۔اس میں مسلمانوں کے لیے بھی نفع تھا؛اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے زیادہ قریب تر تھا۔
صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’ بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند کرتے ہیں :
۱....تم اللہ کی بندگی کرو‘اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
۲....اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو ‘ او رآپس میں تفرقہ نہ کرو ۔
۳....اور جس کو اللہ تعالیٰ تم پر حکمران بنادے اس کے لیے خیر خواہی کرتے رہو۔‘‘[رواہ البخاری ۲؍۱۲۴؛ مسلم ۳؍۱۲۴۱؛ موطأ ۲؍۹۹۰۔]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مسلمان مرد پر حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ اسے تنگی ہو یا آسانی؛ اور خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو۔ سوائے اس کے کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے پس اگر اسے معصیت ونا فرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ اس کی بات سننا لازم ہے اور نہ اطاعت کرنا۔‘‘[صحیح مسلم؛ امارت اور خلافت کا بیان : ح: ۲۷۰ غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب....کے بیان میں ۔ ]
صحیحین میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے؛ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔‘‘[صحیح مسلم؛امارت اور خلافت کا بیان : ح:۲۷۱ غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب....کے بیان میں ۔]
بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے امیر کی کوئی ایسی بات دیکھے جسے وہ ناپسند کرتا ہو تو اس پر صبر کرے، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوایقینااس اپنی گردن سے اسلام کا طوق اتار پھینکا۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے:’’ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوتاہے، اور اسی حالت میں مرجاتا ہے، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔ ‘‘[صحیح بخاری کتاب الفتن ۔ باب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ سترون بعدی اموراً تنکرونھا‘‘ (ح:۷۰۵۴) صحیح مسلم ۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(ح:۱۸۴۹)۔ ]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہ تھی وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[صحیح مسلم:ح :۲۹۶۔]
ایک روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تین لوگ ایسے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن بات بھی نہیں کریگا؛ اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اورنہ ہی ان کی جانب دیکھے گااور ان کیلئے دردناک عذاب ہوگا: پہلا وہ آدمی جو دنیا کی غرض کے لیے حاکم کی بیعت کرے ۔ اگر اسے کچھ مل جائے تو خوش ہوجائے ‘اور اگر کچھ نہ ملے تو ناراض رہے ....‘‘ [البخاری ۳؍۱۷۸؛ مسلم ۱؍۱۰۳]
بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام ہی حاکم کیوں نہ ہو جس کا سر کشمش کی طرح (یعنی چھوٹا سا) ہو۔‘‘[صحیح مسلم۔ أیضاً (ح: ۱۸۳۸)]
اہل کوفہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی؛ آپ کے وقت میں آپ سے بڑھ کر کوئی دوسرا خلافت کا حق دار نہیں تھا۔ آپ خلیفہ راشد تھے اور آپ کی اطاعت واجب تھی۔اور یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ قاتل کو قتل کرنا خون کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔جب ایسا احتمال ہو کہ چند لوگوں کے قتل کیے جانے کی وجہ سے بہت بڑا فتنہ و فساد بپا ہوگا‘ اوراس سے کئی گنا زیادہ لوگ قتل ہوجائیں گے ؛ تو پھر ایسا کرنا نہ ہی اطاعت کا کام ہوتا ہے اور نہ ہی مصلحت ۔ صفین [اور جمل ] کے موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ لوگ قتل ہوگئے ۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ:
’’مسلمانوں کی تفرقہ بندی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور ان دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۳۵؛ سنن ابو داؤد ۳؍۳۰۰]
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت حق کے زیادہ قریب تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حق کے اتنے زیادہ قریب نہیں تھے۔[جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے ]
ایسے ہی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا :
’’ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ کیا ہم نے عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا؟ ان کے قتل کے ذمہ دار تو وہ لوگ ہیں جو ان کو ہماری تلواروں کے نیچے لے آئے تھے ۔ ‘‘[رواہ البخاری ۴؍۲۱؛ مسلم ۴؍۲۲۳۵۔ مسند احمد(۴؍۱۹۹)، مستدرک حاکم(۴؍۳۸۶ )۔]
اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہم اللہ نے کئی کئی اسناد سے نقل کیا ہے ۔ جن لوگوں نے اس میں تاویل کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے انہیں قتل کیا ۔اور باغی جماعت سے مراد دم عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنے والے ہیں ۔ ان تاویلات کا فاسد ہوناہر خاص و عام کے لیے ظاہر ہے ۔یہ روایت بخاری اورمسلم میں صحیح اسناد کے ساتھ منقول ہے۔ اسے امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ نے صحیح کہا ہے۔ یہ بھی روایت میں ہے کہ آپ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ لیکن آخر میں انہوں نے اس حدیث کی تصحیح کردی تھی۔
یعقوب بن شیبہ نے اپنی مسند میں [مسند اہل مکہ] میں مسند حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے احوال میں کہا ہے: ’’ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سنا ؛ آپ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے متعلق پوچھا گیا:’’ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ انہیں باغی گروہ نے ہی قتل کیا؛ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ اوراس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث منقول ہیں ۔لیکن آپ نے اس بارے میں اس سے زیادہ بات کرنے کو ناپسند کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں فرمایا ہے :’’ ہم سے مسدد نے حدیث بیان کی ؛ ان سے عبدالعزیز بن المختار نے ؛ اور ان سے خالد الحذاء نے حدیث بیان کی ؛ وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں ؛وہ کہتے ہیں : مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو ۔ ہم گئے ۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے ۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے ۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے ۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو [مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت] ایک ایک اینٹ اٹھاتے ۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا:
’’ افسوس ! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی ۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی ۔‘‘
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ [صحیح البخاری ۴؍ ۲۱؛ کتاب الجہاد ؛ باب مسح الغبار عن الرأس في سبیل اللّٰہ۔]
امام بخاری نے اسے ایک دوسری سند سے بھی حضرت عکرمہ سے روایت کیا ہے۔لیکن بہت سارے نسخوں میں پوری حدیث کو ذکر نہیں کیا گیا ہے؛بلکہ ان میں اتنا ہی ہے:
’’ افسوس ! عمارتم انہیں جنت کی دعوت دو گے اور وہ تمہیں جہنم کی دعوت دے رہے ہوں گے۔‘‘
لیکن اس بارے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ حدیث میں وارد یہ الفاظ زیادہ ہیں ۔
امام ابو بکر البیہقی رحمہ اللہ اور دیگر حضرات نے کہا ہے: ’’ یہ روایت کئی حضرات نے خالد الحذاء سے روایت کی ہے؛ وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ۔ امام بہیقی رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری نے یہ زیادہ الفاظ ذکر نہیں کئے۔ اور اس کا عذر یہ پیش کیا ہے کہ یہ زیادہ الفاظ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنے۔ لیکن آپ سے آپ کے ایک ساتھی ابو قتادہ نے بیان کئے۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت شعبہ کی ابو نضرہ سے روایت میں ہے؛ وہ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ نے فرمایا؛ ’’ مجھے اس نے خبر دی جو مجھ سے بہتر ہیں ؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘
داؤدبن ابی ہند کی ابو نضرہ سے روایت ابوسعید خدری سے؛ اس میں ہے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایک گروہ خروج کرے گا؛ انہیں وہ جماعت قتل کرے گی؛ جو اللہ کے نزدیک زیادہ حق پر ہوگی۔‘‘[سبق الحدیث؛ و ہذہ الروایۃ في مسلم و سندھا فیہ ۲؍۷۴۶ محمد بن المثنی ؛ حدثنا عبد الأعلی ؛ حدثنا داؤد بن أبي نضرۃ ....‘‘]
حضرت عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ میں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا؛ لیکن جب میں آیا تو میرے ساتھی کہہ رہے تھے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا:
’’اے ابن سمیہ ! افسوس ہے کہ تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘[مسلم برقم ۷۰]
یہ حدیث امام مسلم روایت کی ہے۔سنن نسائی اوردیگر کتب میں ہے یہ حدیث ابن عون کی سند سے حسن بصری سے مروی ہے؛ وہ اپنی والدہ سے وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔فرماتی ہیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘[مسلم برقم ۷۳]
یہ حدیث شعبہ نے خالد سے ؛ اس نے سعید بن ابی الحسین اور حسن سے روایت کی؛ وہ دونوں اپنی والدہ سے وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔
اس کی بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ غزوہ یوم خندق کے موقع پر ارشاد فرمایا۔‘‘
بہیقی نے اور دیگر محدثین نے اسے غلط کہا ہے؛ اور صحیح یہ ہے کہ آپ نے یہ جملہ تعمیر مسجد کے موقع پر ارشاد فرمایا۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کا احتمال ہے کہ آپ نے یہ جملہ دوبار ارشاد فرمایا ہو ۔ یہ حدیث اس کے علاوہ دیگر اسناد سے بھی روایت کی گئی ہے۔جن میں حضرت عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے عبداللہ کی روایات بھی ہیں ۔اور حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے؛ اور خود حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کی ہے۔ یہ تمام اسناد قریب قریب ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر کمزور اسناد بھی ہیں ۔ لیکن صحیح روایت دوسری تمام روایات سے مستغنی کردیتی ہے۔[سنن الترمذي ۳۳۳؍۵؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب عمار بن یاسر؛ عن ابی ہریرۃ۔ وصحح الألباني في سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۲۶۹؍۲ ؍ برقم ۷۱۰۔ وذکر اسنادہ ؛ وتکلم علی طریقہ و الفاظہ ۔ ] محدثین رحمہم اللہ کے ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث ثابت ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے آپ کو قتل کیا؛ وہی تھے جو براہ راست آپ کے قتل کے مرتکب ہوئے۔حدیث میں مطلق ’’باغی‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ اسے کسی مفعول کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا﴾ (الکہف ۱۰۸)
’’ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان گرامی ہے:
((الذِین ہم فِیکم تبع لا یبغون أہلا ولا مالا۔))[ہذا جزء مِن حدِیث رواہ مسلِم فِی صحِیحِہِ عن عِیاضِ بنِ حِمار المجاشِعِیِ رضی اللّٰہ عنہ فِی:۴؍۲۱۹۷، ۲۱۹۹ِ ؛ کتابِ الجنۃِ وصِفۃِ نعِیمِہا وأہلِہا، بابِ الصِفاتِ التِی یعرف بِہا فِی الدنیا أہل الجنۃِ وأہل النارِ ونصہ فِیہِ: (( أن رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ قال ذات یوم فِی خطبتِہِ:(( ألا ِإن ربِی أمرنِی أن أعلِمکم ما جہِلتم مِما علمنِی یومِی ہذا۔کل مال نحلتہ عبداً حلال وِإنِی خلقت عِبادِی حنفاء کلہم ....الحدِیث وفِیہِ....وأہل النارِ خمس: الضعِیف الذِی لا زبر لہ، الذِین ہم فِیکم تبعا ولا یبغون أہلا ولا مالا....الحدِیث۔وذکر مسلِم لہ طرِیقا آخر جاء فِیہِ: (( وہم فِیکم تبعا لا یبغون أہلا ولا مالا ))۔ ومعنی لا زبر لہ: أی لا عقل لہ یزبرہ ویمنعہ مِما لا ینبغِی۔]
’’وہ لوگ جو تم میں تمہارے تابع ہیں ؛ وہ نہ اپنا گھر چاہتے ہیں نہ ہی مال۔‘‘
جب لفظ بغی کااطلاق کیا جاتا ہے؛تو اس سے مراد ظلم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی ﴾ (الحجرات ۹)
’’ پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان گرامی ہے:
﴿، فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ ﴾ (البقرہ ۱۷۳)
’’پھر جو مجبور کر دیا جائے، اور وہ نہ بغاوت کرنے والا ہو اور نہ حد سے گزرنے والا۔‘‘
مزید برآں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملے اس وقت ارشاد فرمائے جب وہ مسجد کی تعمیر کے لیے اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ لوگ ایک ایک اینٹ اٹھا کر لاتے۔ جبکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لاتے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ افسوس ! عمارتم انہیں جنت کی دعوت دو گے اور وہ تمہیں جہنم کی دعوت دے رہے ہوں گے۔‘‘
اس میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی مذمت کا کوئی پہلو نہیں ؛ بلکہ آپ کی مدح و تعریف ہے۔ اور اگر آپ کو قتل کرنے والے حق پر ہوتے تو اس میں حضرت عمار کی کوئی مدح و تعریف کی بات نہ تھی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کرنے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر ان کی مدح و تعریف واجب ہوتی ہو۔
ایسے ہی جن لوگوں نے آپ کے قاتل کے بارے میں تاویل کی ؛ کہ اس سے مراد وہ جماعت ہوگی جس کے ساتھ ان کا قاتل ہو گا۔ اس تاویل میں کھلم کھلا خرابی پائی جاتی ہے۔اور ان پروہی لازم آتا ہے جو وہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لازم کر رہے ہیں ۔وہ یہ کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غزوات میں اپنے ساتھیوں جیسے حضرت حمزہ وغیرہ کو قتل کیا ہو۔ اوریہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ:فلاں نے فلاں کو قتل کیا ۔ کیونکہ انہوں نے ان کو ایسا حکم دیا جو ان کی موت کا سبب بنا۔ مگر یہ بات قرینہ پر مبنی ہوتی ہے؛ عند الاطلاق یہ بات نہیں کہی جاسکتی ۔ بلکہ عند الاطلاق قاتل وہی ہوگا جس نے قتل کیا ہے؛ نہ کہ حکم دینے والا ۔
پھر یہ بات اس سے کہی جاسکتی ہے جس نے غیر کو حکم دیا ہو۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کسی ایک نے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اصحاب سے لڑنے کا نہیں کہا تھا۔ بلکہ آپ لوگوں سے بڑھ کر ان سے لڑنے کے حریص تھے۔ اور اس میں سب سے زیادہ رغبت رکھتے تھے۔ آپ کی یہ حرص کسی بھی دوسرے کی حرص سے بڑھ کر تھی۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں کو اس جنگ کی ترغیب دیا کرتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ عقائد اور مقالات نقل کرنے والے علماء میں سے کسی ایک نے بھی اس رائے کو اختیار نہیں کیا ۔بلکہ حدیث کے ماہر اہل علم کے اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں :
۱۔ ایک گروہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے؛ کیونکہ ان کے نزدیک یہ حدیث ایسی اسانید سے روایت کی گئی ہے جو ثابت نہیں ہیں ۔ لیکن اہل صحیح نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے حضرت ابو سعید سے روایت کیا ہے؛ جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ امام مسلم نے حضرت حسن کی والدہ کی سند سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو سعید اور قتادہ اور دیگر حضرات کی اسانید سے روایت کی گئی ہے۔
۲۔ ان میں سے کچھ حضرات کہتے ہیں : یہ اس بات کی دلیل حضرت امیر معاویہ ان کے ساتھی باغی تھے۔ اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو ان سے قتال کیا ؛ وہ اہل عدل کا اہل بغی سے قتال تھا۔ لیکن یہ باغی متاول تھے ۔ انہیں کافر یا فاسق نہیں کہا جاسکتا۔
لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صرف ان کے باغی ہونے میں کوئی ایسی چیز تھی جو ان سے قتال کو واجب کرتی تھی ؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر باغی سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم ہی نہیں دیا ۔ لیکن یہ ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَo اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo﴾ (الحجرات]
’’ اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ مومن توبھائی ہی ہیں ، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
پس اللہ تعالیٰ نے باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ حکم دیا ہے کہ جب اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو انہیں کے مابین صلح کرادو ۔ یہ حکم ان سب کو شامل ہے؛ بھلے وہ دونوں گروہ باغی ہوں ؛ یا ان میں سے ایک گروہ باغی ہو۔ پھر ارشاد فرمایا :
﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾
’’ پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی :
﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی ﴾
’’ پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے۔‘‘
بسا اوقات یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ: اس بغاوت سے مراد اصلاح کے بعد ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کے الفاظ صاف ظاہر ہیں :
﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی ﴾
’’ پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے۔‘‘
یہ حکم دونوں لڑنے والے گروہوں کو شامل ہے۔ خواہ ان کے مابین صلح کروائی گئی ہو یا نہ کروائی گئی ہو۔ جیسا کہ اصلاح کا حکم دونوں لڑنے والے گروہوں کو مطلق طور پر شامل ہے۔ قرآن کریم میں کہیں بھی باغیوں سے قتال شروع کرنے کا حکم نہیں ہے۔ لیکن حکم یہ ہے کہ جب دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرادو؛ اور پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر تجاوز کرے تو ان سے لڑائی کی جائے حتی کہ وہ اپنے اس عمل سے باز آجائیں ۔ اوریہ اس وقت ہو گا جب وہ اصلاح کی بات نہ مانیں ۔لیکن اگر یہ گروہ صلح کی دعوت قبول کرلیں ؛ تو ان سے جنگ نہیں لڑی کی جائے گی۔ اور اگر ان سے لڑائی شروع ہو جائے؛ اور پھر وہ صلح کی طرف مائل ہو جائیں تو پھر بھی ان سے جنگ نہیں لڑی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہی ہے:
﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ﴾ (الحجرات)
’’ تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
تو اس لڑائی کے بعد بھی حکم یہی ہے کہ اگر وہ صلح کی طرف پلٹ آئیں کہ ان کے مابین عدل ہو تو پھر ان کے مابین انصاف کیا جائے۔ فتنہ کی لڑائی میں یہ واقعہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا۔ لیکن یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ آپس میں لڑیں ؛ اور ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے ؛ تو پھر زیادتی کرنے والے سے لڑا جائے۔ اور یقیناً اس آیت میں پہلے اصلاح کا حکم ہے؛ اور پھر سب مل کر زیادتی کرنے والے سے لڑیں ۔ ان میں سے کسی ایک کو یہ حکم نہیں ۔ کبھی ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی گروہ شروع میں زیادتی کرنے والا ہو؛ لیکن جب اس نے زیادتی کی ؛ تو اس سے لڑائی کا حکم دیا گیا۔ تو درایں صورت اسے ان سے قتال کرنے والا شمار نہیں کیا جائے گا؛ بھلے ایسا عدم قدرت کی وجہ سے ہو یا کسی دوسری وجہ سے ۔ اور بسا اوقات شروع میں باغی گروہ سے قتال کرنے سے عاجز ہوتے ہیں ؛ یا پھر ایسی لڑائی نہیں کی جاسکتی جس میں انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹایا جائے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جو کوئی بھی قتال پر قادر ہو ؛ وہ ایسے بھی قتال کرسکتا ہو کہ دوسرے کو اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے پر مجبور کردے۔ جب وہ اتنا لڑنے سے عاجز ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹا سکیں ؛ تو پھر وہ ان سے قتال کے لیے مامور بہ نہیں ہیں ۔ نہ ہی یہ حکم واجب ہے اور نہ ہی مستحب ۔ لیکن کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ گمان کرتا ہو کہ میں ایسا کرنے پر قادر ہے؛ مگر آخر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس پر قادر نہیں تھا۔ یہ وہ اجتہاد ہے جس پر مجتہد کواس کی اچھی نیت اور قصد ؛ اور مامور بہ کے بجا لانے کی بنا پر ثواب ملتا ہے ۔اگروہ غلطی بھی کر جائے تب بھی اس کے لیے ایک اجر ہوتا ہے۔ یہ وہ اجتہاد نہیں ہوتا جس میں دوہرا اجر ہوتا ہے ۔ بیشک ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اجتہاد باطن میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ’’ جب حاکم اجتہاد کرتا ہے؛ اور اس سے خطا ہوجاتی ہے؛ تو اس کے لیے ایک اجر ہے؛ اوراگروہ اجتہاد کرے اور حق کو پالے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے ۔‘‘[رواہ البخاری ۹؍۱۰۸ ؛ کتاب الاعتصام ؛ باب أجر الحاکم إذا اجتہد فأصاب ؛ أو أخطأ؛ مسلم ۵؍۱۳۱ ؛ کتاب الأقضیۃ باب بیان أجر الحاکم إذا اجتہد۔]
یہ بھی اجتہاد میں سے ہے کہ ولی امر یا اس کے نائب کو دویا اس سے زیادہ امور میں سے ایک کا اختیار ہوتا ہے۔ ان میں سے وہ زیادہ مناسب کو اختیار کرتا ہے۔ یہ اختیار شہوت کی بنا پر نہیں ہوتا۔ جیسا کہ امام ؍ حاکم کو جنگی قیدیوں کے بارے میں اکثر علماء کے نزدیک تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہوتاہے: وہ ان کو قتل کردے ؛ غلام بنالے ؛ یا پھر احسان کرتے ہوئے رہا کردے ۔ بلا شک وہ شبہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿ فَاِِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِِمَّا فِدَائً﴾ (محمد ۳)
’’ پھر بعد میں یا تو احسان کرنا ہے اور یا فدیہ لے لینا۔‘‘یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔
ایسے ہی ان لوگوں کے بارے میں اختیار جو دشمن اس سالار کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں ۔ جیسا کہ بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر قلعوں سے اتر آئے تھے۔ تو اوس میں سے ان کے حلفاء نے عرض کی کہ : جیسے خزرج کے حلفاء بنو نضیر پر احسان کیا گیا تھا؛ ایسے ہی ان پر بھی احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہونگے کہ میں ان کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو فیصلہ کرنے والا بنادوں ؟ تو اوس اس پر راضی ہوگئے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ کے پاس آدمی بھیج کرانہیں بلالیا۔ آپ سوار ہوکر تشریف لائے۔ وہ اس وقت زخمی ہونے کی وجہ سے مسجد میں زیر علاج تھے ۔بنو قریظہ مدینہ کی مشرقی جانب آدھے دن کے فاصلے پر ؛ یا اس کے لگ بھگ دور تھے۔ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ ۔‘‘تو لوگ کھڑے ہوگئے۔ راستہ میں آپ کے قرابت دارآپ سے یہی گزارش کرتے رہے کہ ان پر احسان کیا جائے۔ اور انہیں عہد جاہلیت میں ان کی مدد و نصرت یاد دلاتے رہے۔ جب آپ وہاں پہنچ گئے تو فرمایا: ’’ بیشک اب سعد کے لیے وہ وقت آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو حکم دیا کہ ان کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ تو آپ نے یہ فیصلہ فرمایا :
’’ان کے جنگجوؤں کو قتل کیا جائے؛ اور ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مال کو مال غنیمت بنا لیا جائے۔‘‘تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ یقیناً تم نے ان کے بارے میں سات آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔‘‘[یہ حدیث صحیحین میں ثابت ہے]
ایک دوسری حدیث جسے صحیح مسلم میں روایت کیا گیاہے؛ اس میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ نے فرمایا: ’’جب تم کسی قلعہ والوں کو محاصرہ کرلو اور وہ قلعہ والے یہ چاہتے ہوں کہ تم انہیں اللہ کے حکم کے مطابق قلعہ سے نکالو تو تم اللہ کے حکم کے مطابق نہ نکالو بلکہ انہیں اپنے حکم کے مطابق نکالو کیونکہ تم اس بات کو نہیں جانتے کہ تمہاری رائے اور اجتہاد اللہ کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں ۔‘‘[رواہ مسلم ۳؍ ۱۳۵۶ ؛ کتاب الجہاد و السیر ؛ باب تأمیر الإمام الأمراء ....؛ سنن أبي داؤد ۳؍۵۱ ؛ کتاب الجہاد باب في دعاء المشرکین۔ سنن الترمذي ۳؍ ۸۵ ؛ کتاب السیر ؛ باب ماجاء في وصیۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في القتال۔ سنن ابن ماجۃ ۲؍ ۹۵۴ ؛ کتاب الجہاد باب وصیۃ الإمام۔]
یہ دونوں صحیح احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ایک متعین حکم ہوتاہے؛ جس میں ولی امر کو مصلحت کی بنا پرفیصلہ کا اختیارہوتاہے۔ اور اگراس کے علاوہ کوئی حکم ہوتا؛ تو اس کا حکم ظاہر میں نافذ ہو جاتا۔ پس جو کچھ قتال کے باب میں ہے؛ وہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس میں اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک دو محبوب ترین کاموں میں سے ایک کا انتخاب کریں ۔ خواہ وہ فعل کا بجا لانا ہو یا ترک کرنا۔ اس کی وضاحت مصلحت یا خرابی کی بنا پر ہوتی ہے۔ پس جس چیز کا وجود اس کے عدم سے بہتر ہو؛ جس سے دین میں راجح مصلحت حاصل ہوتی ہو؛ تو یہی وہ چیز ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب۔ اور جس چیز کا نہ ہونا اس کے وجود سے بہتر ہو؛ تو وہ نہ ہی واجب ہوتی ہے اور نہ ہی مستحب ۔ اگرچہ اس کا اجتہاد کرنے والا اجتہاد کرنے پر ماجور ہے۔
جنگ اس گروہ سے ہوتا ہے جس کے پاس قوت ہو۔ پھر اگر وہ عدل کے ساتھ صلح پر راضی ہو جائیں ؛ تو اب وہ رکاوٹ پیدا کرنے والے باقی نہیں رہتے؛ توان سے قتال کرنا بھی جائز نہیں رہتا ۔اگرچہ وہ باغی ہی کیوں نہ ہوں ۔ یقیناً ان سے قتال کا حکم اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف نہ لوٹ آئیں ؛ فرمایا:
﴿ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ﴾ (الحجرات)
’’ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو ۔‘‘
جیسا کہ جب ان کے مابین لڑائی کی ابتداء ہو تو ان کے مابین صلح کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وقوع فتنہ کے وقت ارشاد فرمایا تھا: ’’ لوگوں نے اس آیت پر عمل کو ترک کردیا ۔‘‘اور یہ بالکل ویسے ہی ہوا تھا جیسے آپ نے فرمایا۔ اس لیے کہ جب ان دونوں گروہوں کے مابین جنگ شروع ہوئی تو صلح نہیں کروائی گئی ۔اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ باغی گروہ سے جنگ کر رہے تھے؛ تب بھی ان سے جنگ اس وقت کرنا تھی کہ وہ اللہ کے حکم پر لوٹ آئیں ۔ اور پھر ان کے مابین عادلانہ صلح کرادی جاتی۔اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹنے تک جنگ کرو؛ جب وہ لوٹ آئیں تو ان کے مابین صلح کرادو۔ صرف لڑائی کا ہی حکم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ (الحجرات)
’’ تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے ۔‘‘
وہ اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف رجوع ہو جائیں ؍ لوٹ آئیں تو قتال رونما نہ ہوتا ؛ اگر یہ امر تقدیر میں ہوتا تو قتال نہ ہوتا ؛ جب آپ کو اس سے عاجز کر دیا گیاتھا تو پھر وہ اس حکم کا مخاطب نہیں رہے تھے۔
یوم احد میں جب جنگ کا تقاضا مسلمانوں کی فتح تھی؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کے گناہ کی وجہ سے یہ سارا نقشہ ہی بدل گیا۔ ایسے ہی حنین کے موقع پر میدان جہاد سے فرار اختیار کرنا گناہ کا کام تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر ایک گروہ کسی دوسرے گروہ پر زیادتی کرے ؛ اور زیادتی کرنے والے کے ظلم سے بغیر جنگ کے دفاع ممکن ہو ؛ تو پھر اس صورت میں جنگ کرنا جائز نہیں رہتا۔ اگر بغاوت یا زیادتی کا ازالہ وعظ یا فتوی ؛ یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہوسکتا ہو تو قتال جائز نہیں رہتا۔ اگر کسی ایک ایسے کے قتل سے بغاوت کا قلعہ قمع ہو سکتا ہو جس پر قدرت پالی گئی ہو ؛ یا حد قائم کرکے؛ یا کسی کو سزا دیکر ایسا ممکن ہو؛ جیسا کہ چور کے ہاتھ کاٹ کر ؛ یا ڈاکو کو سزا دیکر؛ یا پھر تہمت لگانے والے پر حد قائم کرکے ؛ تو پھر اس صورت میں قتال جائز نہیں رہتا۔ اور اکثر طور پر فتنہ تب واقع ہوتا ہے جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرتا ہے۔ جب بغیر قتال کے مظلوم کو اس کا حق دلوانا ممکن ہو تو پھر قتال جائز نہیں ہوتا۔
اس آیت مبارکہ میں کہیں بھی ایسا کچھ بھی نہیں کہ اگر کوئی گروہ کسی عادل حکمران کی بیعت کرنے سے انکار کردے تو اس سے قتال کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ اگرچہ انہیں امام کی اطاعت ترک کرنے کی وجہ سے باغی کہا جا رہا ہو۔ ایسا ہر گز نہیں کہ جو کوئی امام کی بات نہ مانتا ہو اس سے جنگ کی جائے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکواۃ سے جنگ اس لیے کی تھی کہ وہ زکواۃ بالکل ہی ادا نہیں کرتے تھے۔ تو کتاب و سنت کی روشنی میں ان سے جنگ کی گئی۔ ورنہ اگروہ اس کی ادائیگی کو تسلیم کرتے؛ اور یہ کہتے کہ : ہم آپ کو نہیں دیں گے؛ تو پھر ان سے جنگ جائز نہ ہوتی۔ یہ اکثر علماء کا قول ہے۔
ان لوگوں کا یہ مسئلہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث عمار رضی اللہ عنہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے؛کہ بیشک حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ایک باغی گروہ نے قتل کیا۔ ان کے لیے حضرت علی سے جنگ کرنا جائز نہ تھا۔ اور نہ ہی آپ کی بیعت اور اطاعت سے لیت و لعل کرنا جائز تھا۔ اگرچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان سے قتال کے لیے مامور بہ نہ تھے۔ اور نہ ہی صرف آپ کی اطاعت گزاری سے گریز کرنے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان سے جنگ کرنا فرض ہوگیا تھا۔ کیونکہ یہ لوگ شرائع اسلام کا التزام کرتے تھے۔ اگرچہ ہر دو لڑنے والے گروہ متأول ؛ مسلمان اور اہل ایمان تھے۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے اس فرمان الٰہی کی روشنی میں استغفار اور دعائے رحمت کی جائے گی :
﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحشر۱۰)
’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کے لیے ہمارے دل میں کہیں (بغض )نہ ڈال؛اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔‘‘