Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....حضرت امیر معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر اعتراض

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....حضرت امیر معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر اعتراض 

[ساتواں اعتراض]: [شیعہ مصنف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ] کہتا ہے :’’ [اہل سنت]آپ کو کاتب وحی کہتے ہیں ؛حالانکہ اس نے وحی کا ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا۔‘‘

[جواب ]: مصنف کا یہ قول جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے۔[ اس کے دیگر دعووں کی طرح یہ بھی کذب صریح ہے]۔اس کی کیا دلیل ہے کہ آپ نے وحی کا ایک کلمہ تک نہیں لکھا ‘ بلکہ آپ خطوط لکھا کرتے تھے۔؟ [رافضی قلم کار نے خود تسلیم کیا ہے کہ حضرت معاو رضی اللہ عنہ یہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے خطوط میں بھی وہی بات ہوتی ہوگی جو بذریعہ وحی آپ پر نازل ہوئی ہو۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ (سورۃ النجم) علاوہ ازیں آپ لکھواتے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتے تھے کہ یہ وحی ہے یا غیر وحی۔ جو صحابہ بھی آپ کی خدمت میں کتابت کا کام کرتے تھے وہ ہر ایسی چیز لکھتے جس کی ضرورت ہوتی تھی۔]

[آٹھواں اعتراض]: رافضی کا کہنا کہ: ’’ کاتبین وحی کی تعداد دس سے کچھ زیادہ تھی ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے خاص اور قریب ترین کاتب وحی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے ۔‘‘ 

[جواب ]:اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔جیسا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے مابین حدیبیہ کا صلح نامہ لکھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ بھی کتابت کا کام کیاکرتے تھے۔زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی آپ کے منشی تھے۔ اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں ۔

صحیحین میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :

﴿لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [النساء۹۵]

’’ نہیں برابر ہوسکتے مؤمنین میں سے بیٹھ جانے والے ....‘‘

تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کتابت وحی کا فریضہ سر انجام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منشی گیری [ کتابت ] کاکام کرنے والوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؛ حضرت عمر فاروق؛ حضرت عثمان غنی ؛ حضرت علی المرتضے؛ حضرت عامر بن فہیرہ؛ حضرت عبد اللہ بن ارقم ؛ حضرت ابی ابن کعب؛ حضرت ثابت بن قیس؛ حضرت خالد بن سعید بن العاص؛ حضرت حنظلہ بن الربیع الاسدی؛ حضرت زید بن ثابت ؛ حضرت معاویہ بن ابی سفیان اور حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔

[نواں اعتراض]: [رافضی کہتا ہے ]:’’امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پوری مدت مشرک رہے ۔‘‘

[جواب]: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امیر معاویہ ان کے والد اور بھائی رضی اللہ عنہم فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین سال پہلے کا واقع ہے۔تو پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ بعثت کا پورا عرصہ مشرک رہے ؟جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اس وقت معاویہ صغیر السن تھے۔ہند اسے کھیلایا کرتی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہونے والوں کے ساتھ اسلام لے آئے۔ جیسے دوسرے لوگ آپ کا بھائی یزید؛ سہیل بن عمرو ؛ صفوان بن امیہ ؛ عکرمہ بن ابو جہل؛ ابو سفیان بن حرب ؛ رضی اللہ عنہم اسلام لائے۔ یہ لوگ اسلام لانے سے قبل معاویہ رضی اللہ عنہ کی نسبت سے بڑے کافر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے دشمن اور برسر پیکار رہنے والے لوگ تھے۔

صفوان ‘ عکرمہ اور ابو سفیان احد کے موقع پر کفار کے لشکر کے سرادر تھے۔اور غزوۃ خندق کے موقع پر بھی بڑے سردار تھے مگر اس کے باوجود یہ تینوں اصحاب بعد میں بہترین مسلمان ثابت ہوئے ؛ اور یرموک کے موقع پر شہادت پائی ۔ اسلام لانے سے قبل معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کبھی بھی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبان یا ہاتھ سے کوئی تکلیف پہنچائی ہو۔ جو لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر دشمن اور مخالفت کرنے والے تھے ؛ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والے بن گئے [یہاں تک کہ اس راہ میں اپنی جانیں قربان کردیں ] اور اللہ اور اس کا رسول ان لوگوں سے محبت کرنے لگ گئے تھے ۔ تو پھر کون سی چیز اس راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ان جیسے ہوگئے ہوں ؟‘‘

اپنی ولایت کے عرصہ میں آپ سب سے بااخلاق اور اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو بہترین مسلمان ثابت ہوئے ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ اور آپ کے بادشاہ بن جانے کا معاملہ نہ ہوتا تو آپ کا تذکرہ صرف خیر کے الفاظ میں ہی کیا جاتا ۔ جیسا کہ آپ جیسے دوسرے لوگوں کو صرف خیر کے ساتھ ہی یاد کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ان کا شمار بھی فتح مکہ کے موقع پر اسلام لانے والوں میں ہوتا ہے ۔ان لوگوں نے اسلام لانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئی ایک غزوات میں شرکت کی۔جیسے : غزوہ حنین ؛ غزوہ طائف ؛ غزوہ تبوک وغیرہ ۔آپ نے بھی ایسے ہی اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہے جیسے آپ جیسے دوسرے صحابہ نے جہاد کیا تھا۔ پھر ان لوگوں کو کفار کیسے کہا جاسکتا ہے حالانکہ یہ لوگ سن آٹھ ‘ نو ‘دس اورگیارہ ہجری کا عرصہ مؤمنین اورمجاہدین تھے؟

مکہ مکرمہ کی فتح رمضان سن آٹھ ہجری میں ہوئی۔ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ اور اس پر بھی لوگوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول سن گیارہ ہجری میں ہوئی۔ایمان سے پہلے تمام لوگ ہی کافر تھے ۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے؛ مگر پھر وہ اسلام لائے اور اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ جیسے ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی تھا۔ آپ کی سب سے زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔اور اسلام سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سخت دشمنی رکھتا تھا۔ جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اس کا والد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سخت دشمنی رکھتے تھے۔ یہی حال ان کی والدہ کا تھا۔یہاں تک کہ وہ جب مسلمان ہوگئی تو اس نے کہا: یا رسول اللہ!’’ اب سے پہلے روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت مجھے آپ کے گھرانہ کی ذلت سے زیادہ پسند نہ تھی مگر اب روئے زمین پر کسی گھرانے کی عزت آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ پسند نہیں ۔‘‘[صحیح بخاری:ح۱۰۲۹ ؛ ۸؍۱۳۱ ؛ کتاب الایمان و النذور ؛ باب کیف کانت یمین النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ مسلم ۳؍ ۱۳۳۹ ؛ کتاب الأقضیۃ ؛ باب قضیۃ ہند۔]

ان ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی:

﴿عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً وَّاللّٰہُ قَدِیْرٌ وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ﴾ (الممتحنۃ ۷)

’’ بہت قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ میں اورآپ کے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ کو سب قدرتیں حاصل ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘

بیشک اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ سے دشمنی رکھنے والے ابو سفیان‘ہند اور دوسرے لوگوں کے مابین محبت پیدا کردی۔اوروہ ان لوگوں کی توبہ پر ان کے گناہ جیسے شرک و غیرہ بخشنے والا مہربان ہے۔وہ مؤمنین پر بڑا رحیم ہے۔اور یہ سارے لوگ اس کے بعد اہل ایمان ہوگئے تھے ۔

[دسواں اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ جب مکہ فتح ہوا تو معاویہ رضی اللہ عنہ یمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مورد طعن بتانے میں مشغول تھے۔ جب ان کے والد ابوسفیان حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو عار دلانے کے لیے چند اشعار لکھے اور یہ بھی کہا کہ تم دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرکے صابی ہو گئے ہو۔فتح مکہ کا واقعہ ہجرت کے آٹھویں سال پیش آیا۔ اس وقت تک معاویہ اپنے شرک پر قائم تھے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ رہے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مباح الدم قراردیا تھا۔آپ بھاگ کر مکہ چلے گئے۔ جب کوئی جائے پناہ نہ ملی تو مجبوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف پانچ ماہ قبل اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ اور معافی طلب کرنے کیلئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر گر پڑے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں سوال کیا ؛ توآنحضرت نے آپ کو معاف کردیا۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سفارش کی کہ انہیں شرف بخشا جائے ‘ اور کاتبین کی جماعت میں آپ کا بھی اضافہ کیا جائے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بات مان لی ‘ اور دیگر چودہ کاتبین وحی کے ساتھ آپ کا بھی اضافہ کر دیا۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ آپ کاتب وحی تھے ؛تو اس مختصر سی مدت میں آپ نے کتنا نصیب کمایا ہوگا؟ جواس کے بدلہ میں دوسروں کو چھوڑ کر آپ کو کاتب وحی کی صفت سے موصوف کیا جائے ؟ حالانکہ زمحشری ۔ جس کا شمار مشائخ حنفیہ میں ہوتا ہے ۔ اپنی کتاب ’’ ربیع الابرار ‘‘ میں لکھتے ہیں :انہوں نے چار آدمیوں کیساتھ نبوت کا دعوی کیا تھا۔جملہ کاتبین میں سے ایک عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بھی تھا ‘جو مرتد ہوکر مشرکین سے جا ملا۔اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:

﴿ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ [النحل۱۰۶]

’’ لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

’’ابھی یہاں ایک شخص آئے گا جس کی موت تارک سنت ہونے کی حالت میں ہوگی۔‘‘ اتنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے اٹھے؛ اسی دوران معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ تھام کر باہر چل دیے تو آپ نے فرمایا:’’ اللہ قیادت کرنے والے اور جس کی قیادت کی گئی ہے؛ دونوں پر لعنت کرے۔‘‘یعنی جس دن امت اس گستاخ معاویہ کے ساتھ ہوگی۔

معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگ میں پورا زور لگایا۔ اور بہترین صحابہ کو موت کے گھاٹ اتارا۔ خلافت معاویہ میں برسر منبر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ اسی سال تک جاری رہا یہاں تک کہ عمر بن عبد العزیز نے اسے بند کیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر کھلایا اور اس کے بیٹے یز ید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور ان کا مال و متاع لوٹا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابوسفیان نے غزوۂ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت توڑے اور اس کی ماں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جگر چبایا تھا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[[سلسلۂ جوابات]]:ہم تردیداً کہتے ہیں : اللہ کی ذات پاک ہے جس نے کذب و دروغ کو روافض کا خاصہ بنایا؛ اس بیچارے مصنف کا یہ حال ہے کہ اسے صحیح تاریخ کا بھی پتہ نہیں ‘ ہم ان شاء اللہ اس کا مبلغ علم آگے چل کر پوری طرح واضح کریں گے ؛ اور ایک ایک کرکے اس کے اعتراضات کا جواب دیں گے۔

[گیارھواں اعتراض]: جب مکہ فتح ہوا تو معاویہ رضی اللہ عنہ یمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مورد طعن بتانے میں مشغول تھے۔ جب ان کے والد ابوسفیان حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو معاویہ نے ان کو عار دلانے کے لیے چند اشعار لکھے....۔‘‘

[ جواب]: اس اعتراض کا جھوٹ ہونا صاف ظاہر ہے ۔کیونکہ معاویہ [فتح مکہ سے قبل ] مکہ میں تھے ‘ یمن میں نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ وارد ہونے سے پہلے اس وقت اسلام لائے تھے جس رات آپ مرّ الظہران[ظہران چند مقامات کا نام ہے، اس سے مراد یہاں وہ وادی ہے جو مدینہ سے مکہ آتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے، اس وادی کے قریب ایک گاؤں مرّ نامی آباد تھا اس وادی کی مناسبت سے اسے مرّالظہران کہنے لگے۔ اسی وادی میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے حدیث میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے جس گھر کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں مکہ میں دولت عثمانیہ کے آخری دور میں ایک شفاخانہ’’مستشفیٰ القبان‘‘ نامی تعمیر کیا گیا تھا۔یادگار کے طور پر اس گھر کے ایک حصہ میں مسجد تعمیر کی گئی ہے ۔محی الدین خطیب رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے بچشم خود خوبصورت عثمانی خط میں یہ الفاظ دیکھے:’’ مَنْ دَخَلَ دَارَ اَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ اٰمِنٌ‘‘ گھر کے اندرمسجد کے قریب ایک حوض تھا جس میں پانی بہہ رہا تھا۔ شاید مکہ میں صرف وہی ایک حوض ہے جس میں ہمیشہ پانی بہتا رہتا ہے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو یہ عظیم خصوصیت اس لیے عطا ہوئی کہ مکہ کے لوگ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتے تھے تو آپ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں پناہ گزیں ہوتے۔(دیکھیے :الاصابہ لابن حجر: ۲؍۱۷۹، بروایت طبقات ابن سعد)۔ بایں وجہ ابوسفیان وہ شخص تھا جو قرابت داری کی بنا پر آپ سے وابستہ تھا اور اس لیے محبت کیے جانے کا مستحق تھا ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (الشوریٰ) ’’آپ فرمادیں : میں قرابت داری کی محبت رکھنے کے سوا تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔‘‘ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے سے پہلے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے مابین قرابت دارانہ الفت و مودّت کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ کے ہاتھ ابوسفیان کو بہترین قسم کی کھجوریں ہدیہ کی تھیں ۔ ابوسفیان نے یہ ہدیہ قبول (] نامی مقام پر اترے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ نبوی میں عرض کیا:’’ اے اللہ کے رسول! ابو سفیان عزو وقار کے خواہاں ہیں ۔‘‘یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[کیا اور آپ کی خدمت میں چمڑے کا تحفہ بھیجا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے یہ ہدیہ خود طلب فرمایا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے پیشتر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا، ام حبیبہ کا نام رملہ تھا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے خاوند عبید اﷲ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ چلی گئی تھیں ۔ عبیداﷲ وہاں نصرانی ہو گیا اور اسی جگہ اس کی موت واقع ہوئی۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص انھیں ’’ام المومنین‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے۔ جونہی ان کی عدت گزری نجاشی شاہ حبشہ کی ایک لونڈی حاضر ہوئی اور کہا:’’ شاہ حبشہ نے پیغام بھیجا ہے کہ نکاح کے لیے آپ اپنا وکیل مقرر کرلیں ۔‘‘چنانچہ آپ نے خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے حکم سے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ نجاشی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے چار صد دینار مہر ادا کیا۔ (مسند احمد (۶؍۴۲۷) مستدرک حاکم (۴؍۲۰،۲۱) من طریق الواقدی سنن ابی داؤد ۔ کتاب النکاح۔ باب الصداق (ح:۲۱۰۷) مختصرًا۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے نجاشی کی لونڈی کو چاندی کے دو کنگن ہدیہ کیے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا مطالبہ کرنے میں نجاشی رحمہ اللہ کی جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کو قاصد بناکر بھیجا ۔ یہ وہی عمرو ہے جو کھجوروں کا ہدیہ لے کر ابوسفیان کے ہاں گیا تھا اور پھر ابوسفیان کا ہدیہ آپ کو پہنچایا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ سے مدینہ پہنچیں ۔ابو سفیان رضی اللہ عنہ تاہنوز مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ جب ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کی خبر پہنچی تو آپ کی مدح کرتے ہوئے کہا: یہ مرد مجھے رسوا نہیں کرے گا۔‘‘ (مستدرک حاکم(۴؍۲۲) طبقات ابن سعد(۸؍۹۹) و فی اسنادہ الواقدی متروک) ابوسفیان جب مشرف باسلام ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قریش کے مشہور بت ’’منات‘‘ کو منہدم کرنے کیلئے مامور فرمایا۔ چنانچہ آپ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ غزوہ حنین و طائف کے موقع پر ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے۔ غزوہ طائف میں ابوسفیان کی آنکھ میں تیر لگا۔شدید درد ہو رہاتھا۔ اسی اثناء میں سرور کائنات نے فرمایا۔ ’’اگر آپ چاہیں تو بارگاہ ایزدی میں آنکھ کی واپسی کے لیے دعا کروں اور آپ کو دوبارہ آنکھ عطا ہو، اور اگر آپ چاہیں تو اس کے عوض جنت خرید لیں ۔‘‘ ابوسفیان نے کہا میں جنت کو ترجیح دیتا ہوں ۔ یہ وعدہ سرکار دو عالم نے جہاد کے موقع پرفرمایا۔ جواکمل العبادات ہے، اس سے ابوسفیان کا جنتی ہونا واضح ہوتا ہے۔ خواہ اس کو ناپسند کرنے والا کتنا ہی ذلیل کیوں نہ ہو۔ یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوسفیان اﷲ کی راہ میں مسلسل جہاد کرتے رہے۔ابن سعد بسند صحیح سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں ، وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ غزوۂ یرموک کے دن سب آوازیں خاموش ہو گئی تھیں صرف ایک آواز آرہی تھی:’’ یَا نَصْرَ اللّٰہِ اِقْتَرِبْ۔‘‘ سعید بن مسیب کے والد ان لوگوں میں سے تھے جو بیعت الشجرہ میں شامل تھے۔ یہ کہتے ہیں میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ پکارنے والا ابوسفیان تھا، جو اپنے بیٹے یزید کے جھنڈے تلے مصروف پیکار تھا۔(اسد الغابۃ(۵؍۲۱۲) یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ کذب و دروغ کے خوگر روافض کے نزدیک ان مجاہدین ابرار کی شان میں گستاخی کرنا اور ان کے بارے میں غلط سلط روایات بیان کرنا گویا کوئی جرم ہی نہیں ۔ دوسری جانب اہل سنت کا یہ حال ہے کہ یہ سب بد گوئی سن کر اس لیے اَن سنی کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا شیرازہ منتشر نہ ہونے پائے۔ یہ اچھی شیرازہ بندی ہے کہ خلفائے ثلاثہ اور ان مجاہدین صحابہ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے جنھوں نے اقصائے عالم میں دین حق کے جھنڈے گاڑے تھے اور ان کے سِیَر و سوانح کا حلیہ بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور ادھر اہل سنت ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ یاد رہے کہ اسلام کی شیرازہ بندی کثرت تعداد سے نہیں بلکہ اکابر اولیاء اﷲ مثلاً ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے متبعین سے ہوتی ہے ۔ جب تک لوگ ان مجاہدین ابرار کی محبت سے سرشار رہے اور اپنے آپ کو ان کے اخلاق و عادات سے آراستہ کیے رکھا، دین حق ترقی پذیر رہا۔ دین کی تفریق دراصل یہ ہے کہ روافض کو اس بات کی کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ صحابہ کے محاسن کو معائب بنا کر پیش کریں اور نہایت مذموم انداز میں ان کی تصویر کھینچیں] ’’ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے امن دیا جائے اور جو مسجد میں داخل ہو وہ بھی امن کا مستحق ہے اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہے۔‘‘[سنن ابی داؤد، کتاب الخراج۔ باب ما جاء فی خبر مکۃ(ح:۳۰۲۱،۳۰۲۲)۔]

ابوسفیان دلائل نبوت سے بے خبر نہ تھے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایام صلح میں اسلام لانے سے چند ماہ قبل خود ہرقل کی زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے براہین و دلائل سنے تھے۔[صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۷)، صحیح مسلم کتاب الجہاد۔ باب کتاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی ھرقل ملک الشام(ح:۱۷۷۳)۔]علاوہ ازیں امیہ بن ابی الصلت نے بھی [اس موقع سے ]استفادہ کیا تھا۔تاہم حسد[حسد کے لفظ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی جانب اشارہ کیا ہے جسے ابن سعد نے ابوالسفر سعید بن یحمد ہمدانی ثوری المتوفی ۱۱۲ھ سے روایت کیا ہے کہ ابو سفیان نے جب مرالظہران کے مقام پر دیکھا کہ لوگ آپ کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں اور ہر شخص آپ کے بہت قریب آنا چاہتا ہے تو آتش حسد سے جل اٹھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر دے مارے اور کہا: ’’ تب اﷲ آپ کو رسوا کرے گا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا: ’’میں توبہ کرتا ہوں اور اﷲ سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں ۔ اﷲ کی قسم! میرے جی میں یہ خیال ضرور آیا تھا۔ البتہ میرے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔‘‘ ابو اسحاق السبیعی نے بھی یہ روایت ذکر کی ہے مگر یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابو سفیان نے کہا ’’ مجھے اسی وقت یقین آیا کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں ۔‘‘ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ابوسفیان حضرت عباس کی معیت میں مشرف باسلام ہونے کے لیے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔ یہ چند لمحات ابوسفیان پر اس وقت گزرے جب وہ اپنا پرانا دین چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے تھے، اس کو حسد کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ابو سفیان جاہ وریاست کی گود میں پلے تھے ایسے وقت میں ان کا کفر و ایمان کے مابین تردّد و تذبذب حبّ سیادت و قیادت کی دلیل ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابھی تک ان کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی تھی اور وہ کلام الٰہی سے بھی ناآشنا تھے۔ بنا بریں راہ ایمان پر مخلصانہ گامزن ہونے کے لیے ابوسفیان ایسے معجزہ کے محتاج تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو سفیان بارگاہ ایزدی میں تائب ہوئے اور دین اسلام آپ میں رچ بس گیا۔] کا جذبہ اسے ایمان سے مانع رہا، یہاں تک کہ بحالت مجبوری اس نے اسلام قبول کیا۔ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی یزید رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ مصنف نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔اس کے ذکر کردہ اشعار بھی جھوٹے ہیں ۔اس لیے کہ لوگ جانتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا؛ اور تمام بتوں کو ختم کردیا گیا ۔[ان خودساختہ اشعار میں جس بت عزی کا ذکر ہے] ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ بت توڑنے کے لیے بھیجا تھا۔یہ بت عرفات کے قریب ایک جگہ پر نسب تھا۔ فتح کے بعد مکہ میں نہ ہی کوئی عزیٰ باقی رہا اور نہ ہی کوئی عزیٰ کی پوجا ترک کرنے پر ملامت کرنے والا باقی رہا ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اشعار کسی جھوٹے نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبانی گھڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ اسے واقعات کا درست علم ہی نہیں ۔ 

ایسے ہی آپ کے نانا ابو امیہ عتبہ بن ربیعہ اور ان کے ماموں ولید بن عتبہ ‘ اورآپ کی والدہ کے چچا شیبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی حنظلہ کے متعلق جوکچھ ذکر کیا گیا ہے ؛ یہ معاملہ جمہور قریش اور ان لوگوں کے مابین مشترک ہے ۔ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے کافر رشتہ دار مکہ میں نہ ہوں ۔جو حالت کفر میں ہی قتل ہوئے ‘ یا اپنی موت مرگئے ۔ تو کیا پھر [ان کا کفر ] ان لوگوں کے اسلام لانے میں کسی رسوائی کا سبب ہوسکتا ہے؟

جو لوگ متاخر الاسلام ہیں جیسے حضرت عکرمہ بن ابو جہل ، صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ بہترین مسلمانوں میں سے تھے ۔[صفوان کا شمار ان دس آدمیوں میں ہوتا ہے جو دورِ جاہلیت میں بڑے معزز سمجھے جاتے تھے۔ یہ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دی تھی اور ان کے چچا زاد بھائی عمیر بن وہب جمحی رضی اللہ عنہ ان کو لے کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔ (طبقات ابن سعد (۴؍۱۴۳۔ ۱۴۷)] ان دونوں کے والد بدر کے موقع پر قتل ہوگئے تھے۔ اورایسے ہی حارث بن ہشام[حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ ابوجہل کے بھائی اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ابن العمّ تھے۔ امام بخاری نے ان سے بڑی اہم روایات نقل کی ہیں ۔ یہ شرفاء مکہ میں شمار ہوتے تھے اور کفار قریش کیساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ حسان بن ثابت نے جب بدر سے بھاگ جانے کی عار دلائی اور انھوں نے اشعار میں اسکا جو جواب دیا، کہا جاتا ہے کہ وہ اعتذار من الفرار میں عمدہ ترین اشعار ہیں ۔ (مستدرک حاکم ۳؍۲۷۹، الاصابۃ۱؍۲۹۳) صحیح بخاری، کتاب الحج۔ باب الحلق والتقصیر عند الاحلال (حدیث:۱۷۳۰)، صحیح مسلم، کتاب الحج۔ باب جواز تقصیر المعتمر(حدیث:۱۲۴۶)] کا بھائی بھی بدر کے موقع پر قتل ہوا ۔ ایسی باتیں سامنے رکھ کر طعن و تشنیع کرنا حقیقت میں تمام اہل ایمان پر طعن و تشنیع ہے۔ [ان پر طعن و تشنیع کرناکسی طرح بھی روا نہیں ہے]

کیا کسی کے لیے یہ جائز ہوسکتا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر صرف اس وجہ سے طعن وتشنیع کرے کہ آپ کے چچا ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے۔یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر طعن کرے کہ ان کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا ۔ یا ابو طالب کے کفر کی وجہ سے حضرت علی یا حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو طعن دلائے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ طعن صرف وہی لوگ کر رہے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ؟

رافضی مصنف کے پیش کردہ اشعار خود ہی اپنے من گھڑت ہونے کی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کی شان سے صادر شدہ نہیں ۔اس لیے کہ صحابہ کے ساتھ ان اشعار کی کوئی مناسبت ہی نہیں ۔

رافضی کا یہ کہنا کہ : فتح مکہ کا واقعہ ہجرت مدینہ طیبہ کے آٹھویں سال رمضان میں پیش آیا ۔

یہ درست ہے ۔

[حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام]:

[بارھواں اعتراض]:شیعہ کہتا ہے:’’ اس وقت تک معاویہ اپنے شرک پر قائم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ رہے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مباح الدم قراردیا تھا۔آپ بھاگ کر مکہ چلے گئے۔ جب کوئی جائے پناہ نہ ملی تو مجبوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف پانچ ماہ قبل اپنے اسلام کا اظہار کیا۔‘‘ 

[جواب] : اس قول کا جھوٹ ہونا صاف طور پر ظاہر ہے۔یہ بات متفق علیہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس سال مشرف بہ اسلام ہوئے جس سال مکہ فتح ہوا تھا۔شیعہ مصنف ابن المطہرّ کا یہ قول پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جن کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب فرمائی تھی۔ ظاہر ہے کہ مولفۃ القلوب کو آپ نے جنگ حنین [ہوازن] کے مال غنیمت میں سے مال عطا کیا تھا۔اور معاویہ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تألیف قلب کیلئے مال عطاء فرمایا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبائل کے سرداروں کی تالیف کے لیے انہیں نوازا کرتے تھے ۔اگر معاویہ یمن بھاگ گئے ہوتے، جیسا کہ شیعہ مصنف نے لکھا ہے، تو آپ مؤلفۃ القلوب میں سے نہیں ہو سکتے ۔ اگرچہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ ماہ قبل ہی اسلام قبول کیا ہو۔ تو پھر انہیں حنین کی غنیمت میں سے بھی کچھ حصہ نہ ملا ہوتا۔ اور اگر آپ ایسے ہی ایمان لائے ہوتے ‘ توپھر تألیف قلب کی ضرورت نہ ہوتی۔‘‘ بعض حضرات کے نزدیک آپ اس سے پہلے اسلام لے آئے تھے۔ 

٭ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’میں نے مروہ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے۔‘‘

بخاری اورمسلم میں اس کے الفاظ یوں ہیں : ’’کیا آپ نے نہیں جانتے ’میں نے مروہ پر تیر کی نوک سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے۔‘‘آپ نے ابن عباس سے یہ ارشاد فرمایا۔ تو انہوں نے جواب دیا : میرا خیال ہے کہ یہ بات تم پر ہی حجت ہے۔‘‘[البخارِیِ:۲؍۱۷۴، کتاب الحجِ، باب الحلقِ والتقصِیرِ عِند الِحلال مسلِم:۲؍۹۱۳، کتاب الحجِ، باب التقصِیرِ فِی العمرۃ سننِ أبِی داؤد:۲؍۲۱۷ ؛ کتاب المناسکِِ، باب فِی الِقران، سننِ النسائِیِ: ۵؍۱۹۶؛ کتاب المناسکِِ، باب أین یقصِر المعتمِر ؛ المسندِ ط۔الحلبِیِ:۴؍۹۶۔]

یہ کہا گیا ہے کہ یہ حجۃ الوداع والے سال کا واقعہ ہے۔ لیکن یہ ان متواتر اور مشہور احادیث کے خلاف ہے ان سب احادیث میں اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ حجۃ الوداع والے سال قربانی کے دن احرام سے حلال ہوئے تھے۔ اور آپ نے صحابہ کرم کو حکم دیا تھا کہ جو کوئی قربانی کا جانور ساتھ نہیں لایا؛ وہ عمرہ سے فارغ ہو کر مکمل طور پر حلال ہو جائیں ؛ اور حج تمتع کریں ۔ قربانی ساتھ لانے والے اپنے احرام میں باقی رہیں حتی کہ قربانی کر دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی اور حضرت طلحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ اپنے ساتھ قربانیاں لے کر آئے تھے؛ تو وہ حلال نہیں ہوئے۔ حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواج مطہرات قربانی نہیں لائی تھیں ؛ اس لیے وہ حلال ہوگئیں ۔ اس سلسلہ کی احادی صحاح ؛ سنن اور مسانید میں معروف ہیں ۔

تو اس سے معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹنا حجۃ الوداع والے سال نہیں تھا ؛ لیکن جن لوگوں کا خیال یہ ہو کہ قربانی لانے والے متمتع کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بال کاٹ دے؛ جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت ہے؛ اور دوسری روایت یہ ہے کہ : جب انسان دس تاریخ سے پہلے مکہ پہنچ جائے تو وہ حلال ہو جاتا ہے؛ بھلے وہ قربانی اپنے ساتھ لایا ہو۔ جبکہ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہما اللہ کامشہور مذہب اور دیگر علماء کاقول یہی ہے کہ جو کوئی قربانی ساتھ لایا ہو؛ وہ یوم نحر کو ہی حلال ہو گا۔ [المغنی ۳؍۳۵۱]

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹنا حجۃ الوداع والے سال پہلے کا واقعہ ہے ؛ یا توعمرہ قضاء والے سال کا ہے ؛ تو پھر اس صورت میں امیر معاویہ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرچکے تھے؛ جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے؛ مگر اس قول کی صحت معروف نہیں ہے۔یا پھر عمرہ جعرانہ کا واقعہ ہے۔جیسا کہ دیگر روایات میں بھی ہے کہ بال کاٹنے کا یہ واقعہ عمرہ جعرانہ کا ہے۔ یہ فتح مکہ اور غزوہ حنین اور محاصرہ ء طائف کے بعد کا واقعہ ہے۔اس لیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپس لوٹے تھے تو آپ نے جعرانہ کے مقام پر غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا تھا۔ اور پھر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ تشریف لائے۔ اور معاویہ نے آپ کے بال کاٹے ؛ تو اس وقت امیر معاویہ مسلمان ہو چکے تھے۔ یعنی آپ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آپ کے تجربہ اور امانت داری کی بنا پر کاتب وحی رکھ لیا۔ آپ کے اور آپ کے بھائی یزید بن ابو سفیان کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی ہو جیسے دوسرے بعض مشرکین آپ کو تکلیف دیا کرتے تھے۔

آپ کا بھائی یزید آپ سے بھی افضل تھا۔ بعض لوگ اسے بھی وہ یزید خیال کرتے ہیں جو آپ کا بیٹا تھا اور آپ کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوا۔ اوراسی کے زمانہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ پس وہ یزید بن معاویہ کو بھی صحابہ میں سے شمار کرتے ہیں ۔ یہ ایک کھلی ہوئی جہالت ہے۔ اس لیے کہ یزید بن معاویہ کی ولادت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئی۔ جب کہ اس کا چچا یزید ایک نیک انسان تھا جس کا شمار نیک دل صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شام کا امیر مقرر کیا تھا۔ اوروہ آپ کا ہم رکاب رہا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس کا انتقال ہوگیا تو اس کے بھائی امیر معاویہ کوشام کا امیر مقرر کیا گیا۔ پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے اس کی حدود امارت بڑھا دی۔ اوراسے یوں ہی امیر باقی رکھا۔ حتی کہ جب فتنہ برپا ہوا اورپھر حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین قتل ہوئے ؛ اور اہل عراق نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی بیعت کرلی؛ اور چھ ماہ تک خلیفہ رہنے کے بعد خلافت کی زمام امیر معاویہ کے سپرد کردی؛ اور صحیح حدیث میں وارد یہ عظیم بشارت نبوی پوری ہوئی؛ جس میں آپ نے فرمایا تھا:

’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اورعنقریب اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘[صحیح بخاری، حوالہ سابق(ح:۳۶۲۹)۔]

اس کے بعد امیر معاویہ بیس سال تک خلیفہ رہے؛ اور سن۶۰ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔

جس چیز سے رافضی کا جھوٹ کھل کر واضح ہوتا ہے وہ یہ کہ اہل مکہ میں سے کسی ایک نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے میں اتنی دیر نہیں کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن نو ہجری میں فتح مکہ کے سوا سال بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بناکر روانہ فرمایا۔ اور یہ اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی بھی مشرک حج نہ کرے۔اور کوئی برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ اس سال مشرکین کے ساتھ کئے گئے تمام وعدے واپس کردیے گئے۔ اور انہیں چارماہ کی مہلت دی گئی ۔ یہ مدت سن دس ہجری میں پوری ہوگئی۔ یہ امان تمام مشرکین عرب کے لیے عام تھی۔ سن نو ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل شام عیسائیوں سے جنگ لڑنے کے لیے غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے۔اس موقع پر اسلام پورے عرب میں غالب ہوچکا تھا۔

معاویہ رضی اللہ عنہ کے خواہ جتنے بھی گناہ ہوں ‘ وہ ان کے اسلام لانے سے ختم ہوچکے۔ تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بغیر کسی معلو م شدہ گناہ کے آپ بھاگتے پھرتے ہوں ‘ یا پھر آپ کا خون رائیگاں قرار دیا جائے؟ مغازی اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معاویہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جن کا خون فتح مکہ والے سال رائیگاں قرار دیا گیا تھا۔ عروہ بن زبیر کی مغازی ؛ [ان کے علاوہ مغازی] الزہری ؛ موسی بن عقبہ ‘ ابن اسحق ‘ واقدی؛ سعید بن یحی اموی ؛ محمدبن عائذ؛ ابو اسحق الفزاری اور دوسرے لوگ ہیں ۔ اور ان کے علاوہ کتب تفسیر و حدیث تمام اس رافضی کے دعوی کے خلاف بول رہی ہیں ‘ ان تمام مصنفین نے ان لوگوں کے نام ذکر کیے ہیں جن کا خون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رائیگاں قرار دیا تھا؛ جیسا کہ: قیس بن صبابہ ؛ عبد اللہ بن اخطل ‘ ان دونوں کو قتل کردیا گیا ؛ ایسے ہی عبد اللہ بن ابی سرح کا خون بھی رائیگا ن قرار دیا تھا ؛ مگر اس نے بعد میں [اسلام قبول کرتے ہوئے ] بیعت کرلی ۔ جن لوگوں کا خون رائیگاں قرار دیا تھا وہ گنتی کے چند آدمی تھے ؛ جن کی تعداد دس کے قریب ہے۔ [حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے مروہ پہاڑی پر تیر کے پھالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کاٹے۔‘‘ صحیح بخاری، کتاب الحج ۔ باب الحلق والتقصیر عند الاحلال (حدیث:۱۷۳۰)، صحیح مسلم، کتاب الحج ۔ باب جواز تقصیر المعتمر(حدیث:۱۲۴۶)۔یہ واقعہ یاتو عمرہ قضا سن سات ہجری کا ہوسکتا ہے ‘ یا فتح مکہ اور غزوہ حنین کے بعد عمرہ جعرانہ کا۔ اس لیے کہ سن دس ہجری میں آپ نے عمرہ کرکے بال نہیں کٹوائے تھے۔ آپ حج قران کررہے تھے ‘اورقربانی تک احرام میں ہی رہے تھے۔ حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں معاویہ بن ابی سفیان کے حالات زندگی میں تصریحاً لکھا ہے کہ حضرت معاویہ صلح حدیبیہ اور عمرۃ القضا کے درمیان اسلام قبول کر چکے تھے۔ البتہ قریش کے ڈر سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔‘‘واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام قریش کے ذہین نوجوانوں کی رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا، صرف اتنا فرق ہے کہ جو لوگ ہجرت مکہ کی قدرت سے بہرہ ور تھے وہ مدینہ کا رخ کرتے اور مسلمانوں میں جا ملتے تھے، حضرت خالد بن ولید و عمرو بن العاص اور کعبہ کے کنجی بردار عثمان بن طلحہ عبدری رضی اللہ عنہم نے یونہی کیا تھا۔ جو نوجوان مکہ سے ہجرت نہیں کر سکتے تھے وہ مکہ میں اقامت گزیں رہ کر دعوت اسلام کی کامیابی کے منتظر رہتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم نوا انہی لوگوں میں شامل تھے۔]

ابو سفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے تھا۔ یہی وہ شخص ہے جس نے غزوہ بدر کے موقع پر مکہ مکرمہ آدمی بھیج کر مشرکین سے مدد طلب کی تھی۔ غزوہ احد کے موقع پر اس نے اپنے پاس موجود اموال جمع کیے اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں خرچ کریں ۔ اور غزوہ احد کے موقع پر مشرکین کے لشکر کا سب سے بڑا قائد یہی تھا۔ غزوہ خندق کے موقع پر بھی کافروں کے لشکر کی قیادت اسی کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں بغیر کسی عہد و عقد کے اپنے ساتھ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور یہ عرض گزاری کررہے تھے کہ : اے اللہ کے نبی ! یہ اللہ کا دشمن ابو سفیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر عہد و پیمان کے اسے آپ کے قبضہ میں دیدیا ہے ؛ آپ اس کی گردن مار دیجیے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی باتوں کا جواب دیا۔ پس ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو امن دیدیا ‘اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا:

’’ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے امن دیا جائے اور جو مسجد میں داخل ہو وہ بھی امن کا مستحق ہے اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہے۔‘‘[یہ حدیث ابھی گزر چکی ہے]

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خون کیسے رائیگاں قرار دیا جاسکتاتھا ‘ جب کہ آپ اس وقت کم عمر تھے ‘ اور آپ کا کوئی خاص گناہ بھی نہیں تھا۔ اور نہ ہی آپ کے متعلق یہ معلوم ہوسکا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو ابھارا کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے گروہوں کے سرداروں کو امان دیدی تھی ؛ توپھر کیا سیرت کے باب میں لوگوں میں سب سے جاہل انسان کے علاوہ کوئی شخص ایسا گمان بھی رکھ سکتا ہے ؟

جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے ‘ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ‘ اور اس مسئلہ پر لکھنے والے مؤرخین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ہم نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’ الصارم المسلول علی شاتم الرسول ‘‘ میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔ اور ان لوگوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جن کا خون فتح مکہ کے موقع پر رائیگاں قراردیا گیا تھا۔ ہم نے وہاں پر ایک ایک کرکے سب کے نام لیے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں میں سے عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح بھی تھے ‘ مگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ انہیں لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر خدمت ہوئے ۔انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خون کو محفوظ قرار دیدیا۔

[تیرھواں اعتراض] : شیعہ مصنف کہتا ہے: ’’ اہل سنت صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی سمجھتے ہیں ۔‘‘ 

[جواب] : یہ اہل سنت والجماعت پر محض ایک الزام ہے ۔ اہل سنت میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو یہ کہتا ہو۔ بلکہ ہم کہتے ہیں : ’’ آپ جملہ کاتبین وحی میں سے ایک تھے۔ جب کہ عبد اللہ بن سعدبن ابی رضی اللہ عنہ سرح مرتد ہوگئے تھے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام تراشی کی ؛ مگر پھر دوبارہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔‘‘ 

[چودھواں اعتراض]:شیعہ مصنف نے کہا ہے کہ یہ آیت:﴿ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا﴾ [النحل ۱۰۶]’’ لیکن جوکوئی کفر کے لیے سینہ کھول دے ....‘‘

یہ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ۔

[جواب]: یہ دعوی بالکل باطل ہے ۔ یہ آیت مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو کفریہ کلمات کہنے پر مجبور کیا گیا ۔‘‘ جب کہ ابن سرح کے ارتداد کا واقعہ ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں پیش آیا ۔ اگر فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ آیت ابن سرح کے بارے میں ہی نازل ہوئی تھی ؛ تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ، کیونکہ انہوں نے پھر اسلام قبول کرلیا تھا ‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ وَ شَہْدِوْٓا اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ وَّ جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ اَنَّ عَلَیْہِمْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَo خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَ لَا ہُمْ یُنْظَرُوْنَ oاِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ وَ اَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [آل عمران۸۶۔۸۹]

’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور (اس کے بعد کہ) انھوں نے شہادت دی کہ یقیناً یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح دلیلیں آچکیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ لوگ! ان کی جزاء یہ ہے کہ بے شک ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں ، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ مہلت دیے جائیں گے۔مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی تو یقیناً اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘

[پندرھواں اعتراض]:شیعہ مصنف کی ذکر کردہ حدیث یعنی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سنا کہ فرما رہے تھے: ابھی ایک شخص نمودار ہو گا اس کی موت تارک سنت ہونے کی حالت میں ہو گی۔‘‘ اتنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے اٹھے؛ اسی دوران معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ تھام کر باہر چل دیے تو آپ نے فرمایا: اللہ قیادت کرنے والے اور جس کی قیادت کی گئی ہے۔ دونوں پر لعنت کرے۔‘‘یعنی جس دین امت اس گستاخ معاویہ کے ساتھ ہوگی۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]

جواب:اس سلسلہ میں کئی جوابات ہیں :

[پہلا جواب]:اس حدیث کی صحت ثابت کیجیے۔ اس لیے کہ اثبات صحت سے پہلے کوئی حدیث قابل احتجاج نہیں ہو سکتی ۔ یہ بات ہم بطور مناظرہ کہتے ہیں ‘ ورنہ ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے گھڑی ہوئی روایت ہے ۔ 

دوسرا جواب:یہ روایت باتفاق محدثین موضوع ہے اور کسی قابل اعتماد کتاب میں اس کا ذکر نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ حدیث بلاسند ہے اور اس سے احتجاج کرنے والے شیعہ مصنف نے بھی اس کی کوئی معروف سند بھی بیان نہیں کی۔ شیعہ مصنف کی جہالت کا بین ثبوت ہے کہ اس حدیث کا راوی عبد اللہ بن عمر کو ٹھہرایا ہے۔بھلا حضرت عبد اللہ ایسی حدیث کے راوی کیوں کر ہو سکتے ہیں جس میں صحابہ کے معائب و مثالب بیان کیے گئے ہیں [آپ صحابہ کرام کے متعلق لب کشائی کرنے والوں سے سب سے دور رہتے تھے] جب کہ آپ نے بہت سی وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں صحابہ کے مناقب بیان کیے گئے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش میں معروف ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :

’’ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی رئیس ایسا بردبار نہیں دیکھا۔ ان سے دریافت کیا گیا، کیا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی آپ سے بڑھ کر نہ تھے۔؟ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا: ’’ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان سے افضل تھے۔‘‘[اسد الغابۃ(۵؍۲۲۱۔۲۲۲)، البدایۃ والنھایۃ(۸؍۱۳۵)۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ ہیثم نے عوام سے اس نے جبلہ بن سحیم سے اوروہ ابن عمرو سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا: ’’ میں نے حضرت امیر معاویہ سے بڑا سردار کسی کو نہیں دیکھا۔ کہتے ہیں : میں نے کہا: حضرت عمر بھی ایسے نہیں تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے بہت بہتر تھے ۔ اوروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بڑے سردار تھے۔ ابو سفیان الحیری نے یہی قول حضرت عوام بن حوشب سے اسی سند سے روایت کیا ہے۔ ان سے کہا گیا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ سے بڑے سردار نہیں تھے؟ تو فرمایا: حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم ان سے بہتر تھے۔ جب کہ آپ بڑے سیاسی سردار تھے اوریہی بات ابن عمر سے بھی منقول ہے۔ مزید دیکھیں : العواصم من القواصم ص ۲۰۴۔] [پھر دوبارہ آپ نے فرمایا:

’’میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی رئیس ایسابردبار نہیں دیکھا۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :برد بار سردار معاویہ ۔’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے کریم و حلیم تھے۔‘‘

* باقی رہا شیعہ کا یہ کہنا کہ :[[نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے اٹھے؛ اسی دوران معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ تھام کر چلدیے]]۔

* تواس کا جواب یہ ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات مختلف قسم کے ہوا کرتے تھے۔ آپ جمعہ، عیدین اور حج کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ دیگر مسلمانوں کی طرح بالالتزام آپ کے خطبات میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا معاویہ رضی اللہ عنہ ہر خطبہ سے اٹھ جایا کرتے تھے اور سنتے نہ تھے ؟ ظاہر ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سب صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے موجب اہانت ہے کہ ہمیشہ دو شخص آپ کے خطبہ کے دوران اٹھ کر چلے جایا کریں [اور باقی صحابہ خاموش یہ تماشا دیکھتے رہیں ]۔ان دونوں کو جاتے رہنے دیں یہ نہ ہی کسی خطبہ میں حاضر ہوں او رنہ ہی جمعہ میں ۔ نیز یہ کہ اگر وہ دونوں ہر خطبہ میں حاضر ہوا کرتے تھے تو اس سے اٹھ کر چلے جانے کا کیا معنی؟

اس پر مزید یہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تکلیف دینے والوں کے مقابلہ میں بڑے حلیم وبردبار اور صابر تھے، جیساکہ آپ کی سیرت اور حالات زندگی میں یہ بات معروف ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہ اس صبر و حلم کے باوصف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرتے تھے؟ حالانکہ آپ دین و دنیا میں سب لوگوں کے سردار تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہر بات میں آپ کے محتاج بھی تھے ۔اور یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ آپ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سننا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔حالانکہ جب تاج و تخت سے بہرہ ور ہوئے تو لوگ آپ کے روبرو ان کو برا بھلا کہتے اور وہ خاموشی سے سنا کر تے تھے اور پھر حیرت بالائے حیرت اس بات پر ہے کہ ایسے شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتب وحی بھی مقرر فرماتے ہیں جو آپ کی بات ہی نہ سنتا ہو؟ ۔

[سولہواں اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ معاویہ نے اپنے بیٹے زید یایزید کا ہاتھ پکڑا اور باہر چل دیا۔‘‘

[جواب] :یہ صریح کذب ہے کیوں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاکوئی بیٹا زید نامی نہیں تھا ۔یزید جو آپ کے بعد تاج و تخت کا وارث بنا اور جس کے عہد میں سانحہ کربلا پیش آیا اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس کی ولادت عثمانی خلافت میں ہوئی؛ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ عہد رسالت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا۔حافظ ابو الفضل ابن ناصر لکھتے ہیں :

’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عہد رسالت میں رشتہ طلب کیا تھا؛ مگر مفلس ہونے کی بنا پر ان کی یہ آرزو بر نہ آئی۔آپ کی شادی خلافت فاروقی میں ہوئی اور یزید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ۲۷ ہجری میں پیدا ہوا۔‘‘

[تیسرا جواب]: مذکورہ حدیث کا تیسرا جواب یہ ہے کہ معارضہ کے طور پر ہم اس جیسی موضوع روایات بیان کر سکتے ہیں جن سے حضرت معاویہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ مشہور محدث ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ اپنی کتاب’’ الموضوعات‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ بعض مدعیان سنت نے شیعہ کو چڑانے کے لیے حضرت معاویہ کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے حدیثیں وضع کی ہیں ۔ دوسری طرف روافض نے ان کی مذمت میں حدیثیں وضع کیں ۔ فریقین نے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔[حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح میں متوسط راستہ وہ ہے جو قبل ازیں آپ کے حالات میں روشنی ڈالتے ہوئے ہم نے اختیار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء کے مقام پر جو خواب دیکھا اور جس کا ذکر قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب یعنی بخاری ومسلم میں موجود ہے وہ بھی اسی ضمن میں شامل ہے۔ اس خواب کی تعبیر عملی طور پر اس وقت ظہور پذیر ہوئی جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خالہ فتح قبرص کے موقع پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بحری بیڑے میں شامل ہو کر جہاد کے لیے گئیں اور ان کی موت اسی جگہ واقع ہوئی۔ ( بخاری، کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوما فقال عندھم(ح :۶۲۸۲) مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر(ح:۱۹۱۲)۔ یہ امیر معاویہ جیسے ولی، صالح اور مجاہد فی سبیل اﷲ کا اوّلین وصف ہے۔ آخری تعریف وہ ہے جو امام احمد نے اپنی تصنیف ’’ کتاب الزہد‘‘ میں اس امام مظلوم (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ) کے زہد و تقویٰ کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمائی۔ ہم نے اس ضمن میں مشہور و معتبر مصادر ومآخذکے حوالہ سے جو کچھ لکھا ہے اس سے صاف عیاں ہے کہ خلفاء راشدین کے بعد مسلم سلاطین و خلفاء میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا کوئی ہم سر پیدا نہیں ہوا۔ بنا بریں ان کی شان میں ایسی موضوعات گھڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں جن کی جانب محدث شہیر ابن الجوزی نے اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح متعصب روافض کی من گھڑت روایات سے بھی ان کی شان میں کچھ کمی واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً زیر تبصرہ حدیث جس کو روافض نے حضرت عبداﷲ بن عمر کی طرف منسوب کیا ہے اور جس کو دیکھ کر باانصاف شیعہ بھی مارے شرم کے پانی پانی ہوئے جاتے ہیں ۔]

[سترھواں اعتراض]:شیعہ کا قول کہ: ’’ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت سخت جنگ کی ۔‘‘

[جواب]: اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں لشکروں کے مابین صفین کے موقع پر لڑائی ہوئی۔جناب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہر گز ان لوگوں میں سے نہ تھے جو جنگ شروع کرنا چاہتے ہوں ۔ بلکہ آپ لوگوں میں سب سے بڑھ کر اس بات کے حریص تھے کہ جنگ تک نوبت نہ آئے۔ جب کہ دوسرے لوگ جنگ و قتال کے لیے بڑے حریص تھے۔ جنگ صفین کے بارے میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں : ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ : ’’ ان دونوں فریقوں میں سے ہر فریق مجتہد تھا‘اور ان کا اجتہاد اپنی جگہ پر درست تھا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ دونوں حضرات مجتہد تھے۔یہ اکثر اشاعرہ ‘ کرامیہ اور دیگر فقہاء کا قول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک گروہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔

کرامیہ کہتے ہیں : ان میں ہر ایک حق پر تھا؛ اور بوقت ضرورت دو امیر مقرر کرنے جائز ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ : ان دو میں سے ایک گروہ حق پر تھا ۔ مگر وہ اس گروہ کو متعین نہیں کرتے۔

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : ’’ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ‘ مگر غلطی پر تھے۔ مذاہب اربعہ کے فقہاء اور اہل کلام میں سے بعض گروہوں کا یہی مسلک ہے ۔ یہ تینوں اقوال ابو عبداللہ بن حامد نے امام احمد کے ساتھیوں سے نقل کیے ہیں ۔

ان میں سے بعض یہ بھی کہتے ہیں : ’’ حق تو یہ تھا کہ ان کے مابین جنگ نہ ہوتی ۔ جنگ کا ترک کرنا دونوں گروہوں کے حق میں بہتر تھا۔ اس لیے کہ جنگ میں کوئی بھی اصابت نہیں ہوتی۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت حق کے زیادہ قریب تھے۔ یہ قتال قتال ِ فتنہ تھا‘ نہ ہی واجب تھا اور نہ ہی مستحب ۔ اس قتال کا ترک کرنا ہی دونوں گروہوں کے حق میں بہتر تھا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق کے زیادہ قریب تر تھے۔یہ قول امام احمد اور اکثر اہل حدیث اوراکثر ائمہ فقہاء کا ہے۔اور یہی قول بہت سارے اکابر صحابہ کرام اور تابعین کا ہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہیں ۔

آپ لوگوں کو اس جنگ میں اسلحہ بیچنے سے منع کیا کرتے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ : یہ فتنہ میں اسلحہ کی فروخت ہے ۔ یہی قول حضرت اسامہ بن زید ‘ محمد بن مسلمہ ‘ ابن عمر ‘ سعد بن ابی وقاص ؛ اور باقی زندہ رہنے والے اکثر سابقین اولین اور مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔ اس لیے اہل سنت و الجماعت کا مذہب اور عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بپا ہونے والی لڑائیوں کے بیان کرنے سے اپنی زبانوں کو روک کر رکھا جائے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ثابت شدہ ہیں اور ان سے دوستی اور محبت رکھنا واجب ہے ۔ ان کے مابین جوکچھ ہوا اس کا ایسا عذر بھی ہوسکتا ہے جو انسان پر مخفی رہا ہو۔اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی اس لغزش سے توبہ کرلی تھی۔اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے گناہ معاف کردیے گئے ہیں ۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے جھگڑوں میں پڑنے سے انسان کے دل میں بغض و مذمت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس معاملہ میں وہ صرف غلطی پرہی نہیں بلکہ اس معاملہ میں عاصی و گنہگار بھی ہوتا ہے۔ اس طرح یہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے ان ساتھیوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے جن کے ساتھ ایسے معاملات میں گفتگو کرتا ہے۔ جیسا کہ ان اکثر لوگوں کیساتھ یہ معاملہ پیش آچکا ہے جو اس موضوع کو اپنے لیے مشق سخن بنایا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے ایسی باتیں کی تھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے ہاں نا پسندیدہ تھیں ۔ اس کی وجہ یا توان لوگوں کی مذمت کرنا ہے جو مذمت کے مستحق نہیں ہیں ۔ یا پھر ایسے امور کی مدح کرنے کی وجہ سے جو مدح کے قابل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ افاضل سلف صالحین اس سلسلہ میں اپنی زبانوں کو بہت زیادہ روک کر رکھتے تھے۔ جبکہ دوسرے لوگوں میں سے کچھ ایسے تھے جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فاسق گردانتے تھے؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نہیں ۔ جیسا کہ بعض معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ اور ان میں سے کچھ آپ کو کافر کہتے تھے؛ جیسا کہ روافض کا عقیدہ ہے۔ اور کچھ لوگوں ان دونوں حضرات علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے تھے؛ جیسا کہ خواج کا عقیدہ ہے اور کچھ لوگ کہتے تھے ان دو میں سے کوئی ایک فاسق ہے؛ لیکن اس کو متعین نہیں کرتے۔ جیسا کہ کچھ معتزلہ کا عقیدہ ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حق پر تھے؛ اور حضرت امیر علی رضی اللہ عنہ ظالم تھے؛ یہ مروانیہ کا عقیدہ ہے۔

کتاب وسنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے یہ دونوں گروہ مسلمان تھے۔ اور جنگ کانہ ہونا ہی ہر حال میں بہتر تھا۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ o ﴾ (الحجرات:۹)

’’ اگر مومنوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں توان میں صلح کرادو۔ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی جانب واپس آجائے۔ اندریں صورت بہ تقاضائے عدل ان میں صلح کرادو کیوں کہ اللہ تعالیٰ باانصاف لوگوں کوپسند کرتے ہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ اور بغاوت کے باوجود مسلمان اور بھائی کہا ہے۔ [حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جنگ آزمائی ایسے امور کی بنا پر تھی جن کی وجہ سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خارج از اسلام نہیں ہو سکتے۔ یہ دوسری بات ہے کہ] بخاری و مسلم کی روایت کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اقرب الی الحق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:

’’ جب مسلمانوں میں فرقہ بندی کا ظہور ہو گا تو ایک فریق خروج کرے گا اور دوسرا فریق اس سے جنگ آزما ہوگا۔ یہ جماعت اقرب الی الحق ہو گی۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب الزکاۃ۔ باب ذکر الخوارج و صفاتھم (حدیث: ۱۵۳؍۱۰۶۵)]

خروج کرنے والے وہی لوگ تھے جو جنگ نہروان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کیخلاف صف آرا ہوئے۔ اس حدیث سے عیاں ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کی نسبت اقرب الی الحق تھی۔

صحیح بخاری میں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے مابین مصالحت کرائے گا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (حدیث:۲۷۰۴)]

مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کرانے کی بنا پر حضرت حسن کی مدح فرمائی اور دونوں جماعتوں کو مومن قرار دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قابل ستائش فعل صلح کرانا ہے نہ کہ جنگ آزما ہونا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ عنقریب ایک ایسا فتنہ ہو گا جس میں بیٹھنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہو گا ، کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا ۔اور جو آدمی گردن اٹھا کر انہیں دیکھے گا تو وہ اسے ہلاک کردیں گے اور جسے ان میں کوئی پناہ کی جگہ مل جائے تو چاہئے کہ وہ پناہ لے لے ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیھا خیر من القائم، (حدیث: ۷۰۸۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر (حدیث: ۲۸۸۶)]

آپ نے مزید فرمایا: ’’ عنقریب مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوگا، جن کو لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور بارش والی جگہوں پر چلا جائے گا اور اس طرح اپنے دین کو فتنوں کی زد سے بچا لے گا۔‘‘[صحیح بخاری ۔ کتاب الایمان۔ باب من الدین الفرار من الفتن(حدیث:۱۹)]

اور ایک صحیح روایت میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا:

’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ فتنے تمہارے گھروں میں ایسے واقع ہو رہے ہیں جیسے بارش کے قطرے ۔‘‘[البخاری ۳؍ ۲۱ ؛ کتاب فضائل المدینۃ ؛ باب آطام المدینۃ ؛ مسلم ۴؍۲۲۱۱ ؛ کتاب الفتن و أشراط الساعۃ باب نزول الفتن کمواقع القطر۔]

جن صحابہ نے فتنہ سے احتراز و اجتناب کی حدیث روایت کی ہے ان میں سعد بن ابی وقاص[صحیح مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب( ۱)، (حدیث:۲۹۶۵)] و محمد بن مسلمہ [سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الفتن، باب التثبت فی الفتنۃ،(حدیث:۳۹۶۲) ]اور اسامہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں ؛ انھوں نے جنگ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا بھی ساتھ نہیں دیا تھا۔

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:’’ جو شخص بھی فتنہ کی لپیٹ میں آجائے مجھے اس کے جادہ مستقیم سے بھٹک جانے کا خطرہ دامن گیر رہتا ہے، مگر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس سے مستثنیٰ ہیں ۔میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ ’’فتنہ و فساد سے محمد بن مسلمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[الاصابۃ(۳؍۳۸۴) سنن ابی داؤد کتاب السنۃ باب ما یدل علی ترک الکلام فی الفتنۃ(ح:۴۶۶۳)]

حضرت ثعلبہ بن ضبیعہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا:’’ مجھے وہ شخص معلوم ہے جسے فتنہ پر دازی سے کوئی نقصان اور ضرر لاحق نہیں ہوتا، چنانچہ ہم باہر نکلے تو ایک خیمہ نصب کیا ہوا دیکھا جس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے۔ہم نے اس ضمن میں ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا میں نہیں چاہتا کہ بلاد و امصار جس فتنہ سے دو چار ہیں میں بھی اس کی لپیٹ میں آجاؤں یہاں تک کہ فتنہ کی آگ فرو ہوجائے۔‘‘[مستدرک حاکم(۳؍۴۳۳)، طبقات ابن سعد(۳؍۴۴۴)]

تأویل کی بنا پر امت کے خون ؛ أموال اور اعراض میں بعض امور کا وقوع :

یہ جان لینا ضروری ہے کہ بلا شک و شبہ امت میں بعض امورخون ؛عزت و آبرو اور اموال میں تأویل کی بنا پر واقع ہوتے ہیں ۔ جیسے جنگ ؛ لعن وطعن اور تکفیر ۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبیلہ حرقات کی طرف بھیجا جو قبیلہ جہینہ میں سے ہے۔ ہم صبح صبح وہاں پہنچ گئے اور ان کو شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری نے مل کر اس قبیلہ کے آدمی کو گھیر لیا جب وہ ہمارے حملہ کی زد میں آگیا تو اس نے کہا لا اِلہ اِلا اللہ۔انصاری تو یہ سن کر علیحدہ ہوگیا؛ لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ جب ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کی خبر پہنچ چکی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

’’اے اسامہ!کیا لا اِلہ اِلا اللہ کہنے کے بعد بھی تم نے اسے قتل کر ڈالا؟ میں نے عرض کیا :اے اللہ کے رسول! اس نے اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ مجھے باربار آرزو ہونے لگی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔‘‘[سبق تخریجہ ]

صحیحین میں حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں :

’’ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ: ’’یا رسول اللہ! مجھے بتائیے کہ اگر میں کسی کافر سے بھڑ جاؤں اور باہم خوب مقابلہ ہو اور وہ میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ دے اور پھر درخت کی پناہ لے اور کہے میں اللہ پر ایمان لایا ہوں اور اسلام کو قبول کرتا ہوں ؛ تو اب اس اقرار کے بعد میں اس کو مار دوں یا نہیں ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ اسے مت مار۔‘‘

حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور اس کے بعد کلمہ پڑھا ہے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ کچھ بھی ہو اسے مت قتل کرو؛ ورنہ اس کو وہ درجہ حاصل ہوگا جو تم کو اس کے قتل کرنے سے پہلے حاصل تھا اور پھر تمہارا وہی حال ہوجائے گا جو کلمہ اسلام کے پڑھنے سے پہلے اس کا تھا۔‘‘[صحیح مسلم:جلد:۱ : ح۲۷۸؛کتاب الإیمان ؛ باب تحریم قتل الکافر ؛ بعد أن قال : لا إلہ إلا اللہ ؛ البخاری ۵؍۸۵ ؛ کتاب المغازي ؛ باب نمبر۱۲؛سنن ابي داؤد ۳؍۶۱؛ کتاب الجہاد ؛ باب علی ما یقاتل المشرکون ۔ المسند ۶؍۵۔]

یہ بات بھی یقیناً ثابت شدہ ہے کہ ان حضرات کے ہاتھوں سے کچھ ایسے مسلمان بھی قتل ہوگئے تھے جن کا قتل کرنا حلال نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا۔ اور نہ ہی مقتول کو ضمانت میں قصاص یا دیت ملی ؛ نہ ہی اس قتل کا کفارہ دیا گیا۔اس لیے کہ قاتل متأول تھا۔یہ اکثر علماء کا قول ہے جیسے امام شافعی؛ امام أحمد رحمہما اللہ اور دیگر حضرات اور کچھ حضرات یہ بھی کہتے ہیں : بلکہ یہ لوگ مسلمان تھے؛ اور انہوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ تو ان کے حق میں گناہ کے ساتھ عصمت تو ثابت تھی؛ مگر کوئی ضمانت حاصل نہیں تھی۔ ان کی حالت اہل حرب کی خواتین اور بچوں کے جیسی تھی۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور بعض مالکیہ رحمہم اللہ کا قول ہے۔ پھر جمہور علماء جیسے امام مالک؛ امام ابو حنیفہ اور أحمد رحمہم اللہ کا ظاہری مذہب اور امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ ہے : ’’ بیشک اہل عدل اور باغی جب آپس میں تأویل کی بنا پر برسر پیکار جنگ ہوں ؛ تو حالت جنگ میں ان میں سے ایک گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کا جو نقصان ہوجائے؛ خواہ وہ جانی نقصان ہو یامالی ؛ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔ کوئی ایک گروہ کسی دوسرے گروہ کا نقصان پورا نہیں کرے گا۔

حضرت امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جب جنگ کا فتنہ واقع ہوا تو اس وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وافر مقدار میں موجود تھے؛ اس بات پر ان کااتفاق ہوگیا کہ ہر وہ خون اور مال جو تأویل قرآن کی وجہ سے ہوا؛ وہ رائیگاں ہے ۔‘‘اور اسے وہ جاہلیت کا سا معاملہ قرار دیتے تھے۔ یعنی جب قاتل اس فعل کو حرام خیال ہی نہیں کرتا تھا۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ: یہ کام نفس امر میں حرام تھا؛ تو یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ یہ ثابت ہے اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جب حربی کافر جب کسی مسلمان کو قتل کردے؛ یا اس کے مال کا نقصان کردے ؛ اور پھر وہ اسلام قبول کرلے؛ تو نہ ہی اس پر ضمان ہوگی نہ ہی قصاص اور نہ ہی دیت۔ اور نہ ہی کفارہ ۔ حالانکہ اس مسلمان کو قتل بڑے ہی کبیرہ گناہوں میں سے ایک تھا۔ مگر چونکہ وہ تأویل کا شکار تھا ؛ بھلے وہ فاسد تاویل تھی۔

صحیحین میں حدیث افک میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں ۔ اس پر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں ، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے؛ لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی [عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق] ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا؛ انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا : اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟‘‘

اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔‘‘[سبق تخریجہ ]

صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ جب حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے مشرکین کے نام خط لکھا تھا؛تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اجازت دیجیے ؛ میں اس کی گردن اڑادیتا ہوں ۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حاطب رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شرکت کر چکا ہے؛ اور تمہیں کیا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا ہے :((اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ۔))’’جو اعمال چاہو انجام دو میں نے تمھیں بخش دیا۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے ]۔

ایسے ہی صحیحین میں یہ بھی ثابت ہے کہ کچھ مسلمانوں نے حضرت مالک بن دخشن کے بارے میں کہا: وہ منافق ہوگیا ہے۔‘‘تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار کیا ؛ مگر ان کو کافر نہیں کہا ۔‘‘[یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے ؛ ۱؍ ۸۸؛ کتاب الصلاۃ ؛ باب المساجد في البیوت ؛ حضرت عتبان بن مالک سے روایت کرتے ہیں ان کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میرے پاس صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا کہ مالک بن دخشن کہاں ہے تو ہم میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کرتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ لا ِلہ ِلا اللہ محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے کہتا ہے، اس نے کہا ہاں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی اس کلمہ کو دل کے خلوص کے ساتھ کہے گا اللہ قیامت کے دن اس پر آگ کو حرام کر دے گا۔‘‘ صحیح مسلم ۱؍۴۵۵ ؛ کتاب المساجدومواضع الصلاۃ باب الرخصۃ في التخلف عن الجماعۃ بعذر]

ایسے ہی صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ عبداللہ الحمار پر کسی نے کثرت مے نوشی کی وجہ سے لعنت کی ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار کیا ؛ اور فرمایا : ’’بیشک یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔‘‘

مگر آپ نے تأویل کی بنا پر لعنت کرنے والے پر کوئی عتاب نہیں کیا۔ ‘‘[صحیح بخاری:جلد سوم:ح ۱۷۱۸۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس کا نام عبداللہ اور لقب حمار تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شراب پینے کے سبب کوڑے لگوائے تھے ایک دن پھر نشہ کی حالت میں لایا گیا آپ نے اس کو کوڑے مارے جانے کا حکم دیا تو اس کو کوڑے لگائے گئے، قوم میں سے ایک شخص نے کہا کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو، کسی قدر یہ [نشہ کی حالت میں ] لایا جاتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ ]

خطا کار متأول کتاب و سنت کی روشنی میں مغفور لہ ہے۔ اللہتعالیٰ مومنوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

﴿رَبَّنَا لَا تُوَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَانَا﴾ (البقرۃ:۲۸۶)

’’اے ہمارے رب! اگر ہم سے بھول یا چوک ہو جائے تو ہم پر مواخذہ نہ کر۔‘‘

ایسے ہی صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ میں نے ایساکردیا۔‘‘ ایسے ہی سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے خطأ اور نسیان کو معاف کردیا ہے ۔‘‘[سنن ابن ماجۃ ۱؍۶۵۹ ؛ کتاب الطلاق؛ باب طلاق المکرہ و الناسي ؛ صححہ الألباني رحمہ اللّٰہ ۔]