اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات رکھنے اور ان پر اعتماد کرنے کا شرعی حکم
اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں سے دوستانہ اور مخلصانہ تعلقات رکھنے اور ان پر اعتماد کرنے کا شرعی حکم
اللہ تعالیٰ جلّ جلالہ نے بے شمار آیتوں میں دشمنانِ اسلام سے دوستی اور ان پر اعتماد کرنے کی شدید مذمت فرمائی ہے۔
ارشاد خداوندی ہے: يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡيَهُوۡدَ وَالنَّصٰرٰۤى اَوۡلِيَآءَ ؔۘ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍؕ وَمَنۡ يَّتَوَلَّهُمۡ مِّنۡكُمۡ فَاِنَّهٗ مِنۡهُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ ۞ (سورۃ المائدہ آیت نمبر 51)
ترجمہ: اے ایمان والو مت بناؤ یہود اور نصاریٰ کو دوست وہ آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے کے اور جو کوئی تم میں سے دوستی کرے ان سے تو وہ انہی میں ہے، اللہ ہدایت نہیں کرتا ظالم لوگوں کو،
یعنی اے مسلمانو! یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ ایسی مخلصانہ دوستی اور لائق اعتماد محبت ہرگز مت کرو جیسی اپنوں سے دوستی و محبت کی جاتی ہے، اور نہ ان سے کسی بھی معاملے میں امداد و اعانت طلب کرو، کیونکہ یہ لوگ تو آپس میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں (پھر تمہارے دوست اور معاون کیسے بن سکتے ہیں) اور ہر بات میں خواہ کرنے کی ہو یا نہ کرنے کی آپس میں بالکل متفق رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ لازمی طور پر اس امر میں بالکل متفق ہیں کہ تمہارے ساتھ دشمنی کریں، تمہارے نقصان کے در پر ہیں، جس طرح بھی وہ تم کو تکلیف پہنچا سکتے ہیں پہنچائیں، اور جس طرح بھی وہ تم کو گمراہی اور لادینی کی ہلاکتوں میں ڈال سکتے ہیں ڈالیں۔ لہٰذا تمہارے اور ان کے درمیان دوستی کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ یہود و نصارٰی کے ساتھ ایسی مخلصانہ دوستی کریں اور ان کو ایسا لائق اعتماد دوست بنائیں جس کی بنیاد باہمی عدوان اور اختلاط و ارتباط پر قائم ہو، جس کے نتیجہ میں اُن کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں۔ جو مسلمان اُن کے ساتھ نشست و برخاست رکھے گا اس کو اس قہر و غضب الٰہی سے دو چار ہونا پڑے گا،
جس کا اظہار اللہ تعالی جل جلالہ نے اسی آیت کے حسب ذیل ٹکڑے میں فرما دیا
فانه منهم: وہ ان میں سے ہو گا۔
ایک جگہ ارشاد خداوندی ہیں:
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا الَّذِيۡنَ يُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَهُمۡ رَاكِعُوۡنَ ۞
وَمَنۡ يَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوۡلَهٗ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ ۞
(سورۃ المائدہ، آیت نمبر 55 56)
ترجمہ: تمہارا رفیق تو وہی اللہ ہے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو ایمان والے ہیں جو کہ قائم ہیں نماز پر اور دیتے ہیں زکوٰة اور عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور جو کوئی دوست رکھے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ایمان والوں کو تو اللہ کی جماعت وہی سب پر غالب ہے ؏
اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے دشمنوں سے دوستی کی ممانعت فرمانے کے بعد اس آیت کریمہ میں اُن لوگوں کا بیان فرمایا ہے جن سے ایک مؤمن کو دوستی اور موالات کرنی چاہئے۔ یعنی یہود و نصارٰی کو اپنا دوست نہ بناؤ، کیونکہ وہ تو ایک دوسرے کے دوست ہیں تمہارے دوست نہیں ہیں تمہارے ولی اور دوست صرف اللہ تعالیٰ جل جلالہ، اس کا رسول، اور ان پر ایمان رکھنے والے ہی ہیں، انہی کو اپنے موالات اور دوستی کیلئے مخصوص کر لو، ان کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے سے دوستی اور موالات نہ کرو۔ کیونکہ دوستی تو اعانت وامداد اور تقویت و معاونت کا نام ہے، اور یہ چیز اسی شخص سے میسر آسکتی ہے جو اس کا اہل ہو (اور وہ صرف مسلمان ہیں)
چنانچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ مؤمنوں کے ناصر ومددگار ہیں، رسول پاکﷺ بھی، اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے حکم سے اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا پیغام پہنچانے والے اور ہادی برحق ہیں۔ لہٰذا آپ بھی اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے حکم سے مؤمنوں کے ناصر و مددگار ہوئے۔ باقی رہے تمام ایمان والے تو چونکہ وہ دینی بھائی ہیں اس لئے وہ قدرتی طور پر آپس میں ایک دوسرے پر مہربان اور خیر خواہ ہوں گے، اُن کے دل (بغض وعداوت) سے پاک ہوتے ہیں، اُن کے اعمال و اخلاق بھی اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی عبادت اور لوگوں کے حقوق ادا کرتے رہنے کی وجہ سے (منافقت اور فریب کاری سے سے) پاک و صاف ہوتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جل جلالہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے مطابق نصرت و مدد کے اہل اور مستحق وہی ہو سکتے ہیں۔
اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ ارشاد فرماتے ہیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا دِيۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِيَآءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞ (سورۃ المائدہ، آیت نمبر 57)
ترجمه: اے ایمان والو مت بناؤ ان لوگوں کو اپنا دوست جو تمہارے دین کا مذاق اُڑاتے اور اس کو کھیل بناتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو تم سے پہلے آسمانی کتاب دی گئی ہے، اور نہ کافروں کو اپنا دوست بناؤ، اور ڈرو اللہ تعالیٰ جل شانہ سے (ایسے لوگوں کو دوست بنانے سے ) اگر ہو تم ایمان والے۔
اس آیت کریمہ میں اُن یہود و نصارٰی کی بعض صفات کا بیان فرمایا ہے جن سے دوستی و محبت کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے، اور وہ صفات یہ ہیں کہ ان یہودیوں کا تو وطیرہ ہے کہ یہ اسلام کے ساتھ استہزاء اور دل لگی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ کھیل و تفریح کا معاملہ کرتے ہیں اور (موقعہ بموقعہ) طعن و تشنیع بھی کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ خود اہلِ کتاب ہیں، اُن کو تو چاہئے تھا کہ وہ اسلام کی (اوروں سے زیادہ) تعظیم و توقیر کرتے، کیونکہ خود ان کی کتاب میں دین و اسلام کی بشارت اور اس کی رہنمائی موجود ہے،
انہی یہود و نصاری کی طرح باقی تمام کفار بھی ہیں ۔
قرآن کریم کے اس بیان میں یہود و نصارٰی کے ساتھ دوستی و محبت سے کتنی نفرت دلائی گئی ہے، اور اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی وعداوت کو استہزاء اور مذاق اُڑانے کو مکر و فریب اور طعن کو کس قدر واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا ارشاد ہے:
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞ (سورۃ المجادلہ، آیت نمبر 22)
ترجمه: تم نہ پاؤ گے کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں اللہ تعالی پر اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہوئے اللہ تعالیٰ کے اور اس کے رسول کے، خواہ وہ اپنے باپ ہوں یا اپنے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے گھرانے کے یہ اس لئے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے (راسخ کر دیا ہے) اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے اور (اس کے صلہ میں) داخل کرے گا اُن کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، ہمیشہ رہیں گے وہ ان میں
جو مخالف ہوئے اللہ تعالی کے اور اس کے رسول کے، خواہ وہ اپنے باپ ہوں یا اپنے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے گھرانے کے یہ اس لئے کہ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے (راسخ کر دیا ہے) اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے اور (اس کے صلہ میں) داخل کرے گا اُن کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں ، ہمیشہ رہیں گے ان (جنتوں) میں، اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، وہ لوگ ہیں گروہ اللہ تعالیٰ کا اللہ تعالیٰ والے ) خوب سن لو! جو گروہ ہے اللہ تعالیٰ کا وہی مراد کو پہنچے۔
یعنی تم کبھی بھی اور کسی حال میں بھی کسی ایسی مسلمان قوم کو ایسا نہ پاؤ گے جو اللہ تعالیٰ جل جلالہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی و محبت کا اظہار کرتے ہوں، اگرچہ ان کی ان سے کتنی ہی قریبی رشتہ داری کیوں نہ ہو، اورجو مسلمان لوگ ان اعدائے اسلام سے دوستی و محبت نہیں کرتے خواہ وہ کتنے ہی اُن کے قریبی رشتہ دار اور کتنے ہی خون کے رشتہ سے نزدیک کیوں نہ ہو، اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ان کی ایمانی صداقت اور قوت یقین اُن کفار سے مولات اور دوستی کرنے سے مانع ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو آخرت میں اس کا بدلہ دیں گے اور جزاء کے سب سے زیادہ مستحق وہی لوگ ہوں گے جو اس کی سب سے زیادہ مرضی پر چلنے والے ہوں گے۔ پس اے مسلمانو! اس عظیم جزاء کی خوشخبری سن لو! ایسے ہی لوگ اللہ والے ہیں اور ایسے ہی (مؤمنوں کی مدد کرنے والے) لوگ فلاح پانے والے اور (مؤمنوں کے مددگار ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَرۡكَنُوۡۤا اِلَى الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ اَوۡلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنۡصَرُوۡنَ ۞ (سورۃ ھود، آیت نمبر 113)
ترجمہ: اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے۔
اس آیت میں مشرکین یا کسی بھی ایسی حرکت کرنے والے شخص کی طرف جس کو ظالم کہا جا سکے ذرا میلان کو بھی منع فرمایا ہے (یعنی ان لوگوں سے کسی بھی قسم کا بھی تعلق نہ رکھنا چاہئے) اگر ذرا بھی اُن لوگوں کی طرف مائل ہوئے تو تم پر ضرور اللہ تعالیٰ جل جلالہ کا عذاب نازل ہو گا اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں جو تم کو اس کے عذاب سے بچا سکے اور اُن لوگوں کی طرف میلان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرما ہی چکا ہے کہ اس کی طرف سے تمہاری مدد ہرگز نہ ہو گی۔
حق تعالیٰ جلّ جلالہٗ کا ارشاد ہے:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۞ (سورۃ آل عمران، آیت نمبر 118)
ترجمہ: اے ایمان والوں نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کے سوا وہ کمی نہیں رتے تمہاری خرابی میں ان کی خوشی ہے تم جس قدر تکلیف میں رہو نکلی پڑتی ہے دشمنی ان کی زبان سے اور جو کچھ مخفی ہے ان کے جی میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے ہم نے بتا دیئے تم کو پتے اگر تم کو عقل ہے،
امام قرطبیؒ نے بطانة کی تشریح فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ بطانتہ الرجل سے مراد انسان کے وہ خاص دوست ہیں جو اس کے گھر کی اور دل کی باتوں پر مطلع ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان لوگوں پر اعتماد اور قلبی تعلق کی بناء پر اپنے اسرار پر ان کو گواہ کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس آیتِ کریمہ میں اللہ جلّ جلالہ نے تمام مسلمانوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ ان کفار یہود و نصارٰی اور اہلِ اہواء (گمراہ فرقوں) کو اپنے کاموں میں دخیل نہ بنائیں اور اپنے اسرار سے ان کو آگاہ نہ کریں۔ اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ نہ کریں اور اپنے کام ان کے سپرد نہ کری،ں اور اس کی وجہ بھی اللٰہ تعالی جلّ جلالہٗ نے بیان کر دی کہ یہ لوگ ہمیشہ تمہارے کام خراب کرنے اور تمہارے ساتھ مکر و فریب کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ تم کو مشقت اور مصیبت میں ڈال دیں۔چنانچہ ان کی باتوں سے بھی ان کا بغض و کینہ ظاہر ہوتا ہے، اور جو ان کے قلوب دلوں میں تمہاری عداوت و نفرت ہے وہ تو اس سے بھی بڑھ کر ہے جو باتوں سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے حکماء کا مشہور قول ہے کہ
جو شخص تمھارے دین اور مذہب کا مخالف ہو تو تم کو چاہئے کہ تم اس کو اپنا ولی دوست ہرگز نہ بناؤ یعنی جو تمہارا ہم جنس نہ ہو، تم اس کے ہم نشین بھی نہ ہو۔
(فتاویٰ بینات جلد 2، صفحہ 101 تا 106)