Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....رافضی دعوی کا فساد

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل:....رافضی دعوی کا فساد

[مقاتلین علی رضی اللہ عنہ کی مذمت اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی تعریف]

جب یہ معاملہ واضح ہوگیا تو اب کہا جائے گا کہ : رافضیوں کا عقیدہ سب سے برا اور بہت بڑے تناقض کا شکار ہے ۔ اس لیے کہ ان لوگوں کی بہت سخت مذمت کرتے ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیا ۔اور شیعہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مدح کرتے [صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب تکون فتنۃ القاعد فیھا خیر من القائم، (حدیث: ۷۰۸۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب نزول الفتن کمواقع القطر (حدیث: ۲۸۸۶) صحیح بخاری ۔ کتاب الایمان۔ باب من الدین الفرار من الفتن(حدیث:۱۹)صحیح مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب( ۱)، (حدیث:۲۹۶۵) سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الفتن، باب التثبت فی الفتنۃ،(حدیث:۳۹۶۲) صحیح بخاری، کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم للحسن بن علی (ح: ۷۱۱۰) موقوفا علیہ]اور ان کے فعل شنیع پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ حالانکہ جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ [قاتلین عثمان جنگ جمل میں حضرت علی کے لشکر میں تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے رفقاء جب قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیج رہے تھے تو یہ لوگ بذات خود سب کچھ سن رہے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم نوا ساتھ ساتھ آمین کہتے جاتے تھے ۔ کوفہ کے بعض قاتلین عثمان جنگ صفین تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے جب بھی ان کا ذکر آتا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر لعنت فرماتے۔]کو قتل کیا ‘ وہ ان لوگوں سے بڑھ کر مذمت کے مستحق اور گنہگار ہیں جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی۔ بیشک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے خلیفہ تھے جن پر تمام لوگوں کا اجماع ہوگیا تھا۔ آپ نے کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا ۔ باغی آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے تاکہ آپ خلافت سے دستبردار ہوجائیں ۔آپ کا خلافت پر باقی رہنے کا عذر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے اطاعت کے مطالبہ کے عذر سے بڑھ کر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صبرکا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ آپ انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کردیے گئے ۔ مگر آپ نے اپنی جان بچانے کے لیے جنگ نہیں کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ابتداء کی۔ جب کہ وہ لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے؛ لیکن وہ آپ کی بیعت نہیں کررہے تھے۔ اگر ان لوگوں سے جنگ کرنا جائز ہے جو کسی ایسے امیر کی بیعت نہ کرنا چاہتے ہوں جن کی بیعت آدھے مسلمان؛ یا اس سے کم یا زیادہ لوگ کر چکے ہوں ؛ تو پھر ایسے لوگوں سے جنگ کرنا زیادہ اہم ہے جو ایسے امام یا خلیفہ سے جنگ کریں اور اسے قتل کرڈالیں جس کی بیعت پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہوچکا ہو۔ 

اگر شیعہ کہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ [روافض قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے مداح ہیں اور ان سے اظہار خوشنودی کرتے ہیں ، حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر لعنت بھیجتے اور ان کے فعل پر راضی ہونے والے کو بھی ملعون قرار دیتے تھے۔ جن لوگوں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ لعنت بھیجتے ہوں کیا وہ آپ کے شیعہ ہو سکتے ہیں ؟ دراصل یہ لوگ فتنہ پردازی میں پیش پیش ہیں ۔قاتلین عثمان کے اعتراضات اور ان کے جوابات کے لیے دیکھئے:’’ العواصم من القواصم: ۶۱تا ۱۴۱، یہ صفحات نادر تحقیقات پر مشتمل ہیں ۔]سے چند ایسے فعل سرزد ہوئے جو کہ آپ کے شایان شان نہ تھے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایسے امور ہیں جن کی وجہ سے خلیفہ کو خلافت سے معزول کرنا یا اسے قتل کردینا جائز نہیں ہوجاتا۔ اگر ان امور کی وجہ سے امام کو معزول کرنا یا قتل کرنا جائز ہوجاتا ہے تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا ترک کرنا ‘ اور آپ سے انتقام لینا زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر بنی امیہ کی اقرباء پروری کا الزام لگایا ہے ‘ تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ان کے خلاف شدت اور انصاف ترک کرنے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ [[ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسے نامناسب افعال صادر ہوئے تھے جن کی وجہ سے بعض صحابہ ان کی بیعت میں دیر سے شریک ہوئے]]

مزید براں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیا۔حالانکہ آپ معزول کیے جانے کے مستحق نہ تھے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے علاقہ پر ابوسفیان کو عامل بنا کر بھیجا۔جب آپ نے وفات پائی تو ابوسفیان اس وقت بھی امیر نجران تھے۔ آپ کے بہت سے امراء اموی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً آپ نے عتاب بن اَسِید رضی اللہ عنہ کو مکہ کا حاکم مقرر کیا۔[سنن نسائی، کتاب الاذان، باب کیف الاذان(حدیث:۶۳۳)، سنن ابن ماجۃ (۷۰۸، ۲۱۸۹)] اسی طرح خالد بن سعید بن عاص بن امیہ کو بنی مذحج اور صنعاء یمن کے صدقات واموال پر عامل مقرر فرمایا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ اس عہدہ پر فائز رہے۔ 

حضرت عمرو کو تیماء؛ خیبر اور عرینہ کا عامل مقرر فرمایا ۔اور ابان بن سعید بن عاص کو اس وقت بحرین کے بحر و بر پر عامل مقرر کیاجب حضرت علاء حضرمی نے اپنے آپ کو اس معاملہ سے الگ کردیا تھا۔آپ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے آپ کو سرایا کا امیر بھی بنایا تھا ؛ ان میں سے ہی ایک سریہ بلاد نجد کی طرف تھا۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو عامل مقرر کیا۔ آپ کی زندگی دین داری و سیاست رانی دونوں اعتبار سے بے داغ تھی۔ احادیث صحیحہ میں وارد ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ تمہارے بہترین خلفاء وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہوں ۔ تم ان کے لیے دعا کرو اور وہ تمھیں دعا دیں ۔ بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور جو تم سے بغض رکھتے ہوں ۔ تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں ۔‘‘ [صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمۃ و شرارھم(حدیث:۱۸۵۵)]

صحابہ کا قول ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مصداق تھے؛کیونکہ رعیت آپ کو چاہتی تھی اور آپ رعیت کو چاہتے اوران کے لیے دعا کرتے تھے اور رعیت آپ کے لیے دعا کرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا اور کوئی مخالف ان کو ضرر پہنچا سکے گا اور نہ رسوا کر سکے گا ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب(۲۸)، (حدیث:۳۶۴۱)، صحیح مسلم ۔ کتاب الامارۃ ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لا تزال طائفۃ من امتی (حدیث: ۱۷۴؍۱۰۳۷)]

مالک بن یُخامر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ میں نے سیّدنامعاذ رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ اس سے اہل شام مراد ہیں ۔‘‘[البخاری، ح(۳۶۴۱)]

صحابہ کا خیال ہے کہ اس سے شامی لوگ مراد ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں تھے۔

صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’ اہل مغرب ہمیشہ غالب رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت بپا ہو جائے گی۔‘‘[مسلم۳؍ ۱۵۲۵؛ کتاب الامارۃ،باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لا تزال طائفۃ من امتی....‘‘ (ح:۱۹۲۵) ]

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ اہل مغرب سے اہل شام مراد ہیں ۔‘‘

ہم نے دوسری جگہ اس پر مکمل گفتگو کی ہے، یہ نص عسکرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو شامل ہے۔

صحابہ کا قول ہے کہ:حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت سے مقرر کردہ امراء سے افضل تھے۔ لہٰذا ان کو معزول کرکے سیاست میں ان سے فروتر درجہ کے لوگوں کو حاکم مقرر کرنے میں کوئی مصلحت مضمر نہ تھی۔ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابیہ کو امیر مقرر کیا ۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا گیا تھاکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر رہنے دیں ۔لوگوں نے کہا : انہیں چند ماہ کے لیے عامل مقرر کردیں او پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے معزول کردیں ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسا کرلینے میں مصلحت تھی ۔خواہ ایسا کرنا آپ کے استحقاق کی وجہ سے ہو‘ یا پھر آپ کی تالیف قلب اور خیر سگالی و نرمی کے لیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد جناب ابو سفیان کو والی مقرر کیا ۔ معاویہ ان سے بہتر تھے۔ تو جو ہستی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہتر تھی اس نے ایسے انسان کو والی مقرر کیا جو معاویہ رضی اللہ عنہ سے کم تھا۔ [اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بدستوروالیٔ شام رہنے دیتے تو امت فتنہ پردازی اور خونریزی سے محفوظ رہتی]

اگر یہ کہا جائے کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کی بنا پر ایسا کیا تھا ۔‘‘

تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ:’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی جو امورصادر ہوئے وہ ان کے اجتہاد پر مبنی ہیں ۔

مزید برآں یہ کیا اجتہاد ہے کہ بعض لوگوں کو ولایت و امارت پر فائز کیا جائے اور بعض کو محروم رکھا جائے اور اس کے پہلو بہ پہلو امت میں خون ریزی کا باب اس حد تک کھل جائے کہ مسلمان ذلیل و خوار ہو جائیں اور کفار کو نیچا دکھانے کے قابل نہ رہیں بلکہ کفار میں مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی جسارت پیدا ہو جائے۔اس بات میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر علی و معاویہ کے مابین جنگ صفین پیش نہ آتی۔[حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دین اسلام کے تحفظ و بقاء اور اسلامی سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت و نگہداشت میں جس حد تک اہتمام کیا تھا، اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ جب آپ کو معلوم ہوا کہ قیصر روم ایک عظیم لشکر کے ساتھ اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے تو آپ نے اس کو ان الفاظ پر مشتمل ایک خط لکھا:’’ اﷲ کی قسم!اگر تو اس حرکت سے باز آکر واپس اپنے وطن نہ لوٹا تو میں اپنے چچا زاد بھائی (حضرت علی) سے صلح کر لوں گا اور ہم دونوں تجھے تیرے ملک سے نکال کر دم لیں گے اور اﷲ کی زمین کو تجھ پر تنگ کردیں گے۔‘‘ شاہ روم یہ خط پڑھ کر ڈر گیا اور اپنے ارادہ سے باز رہا۔] [اور دونوں حضرات اپنے اپنے علاقہ پر قابض رہتے] حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اپنی رعایا او ران کی سیاست پر قائم رہتے ‘ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کی تدبیر و تنسیق و سیاست پر قائم رہتے [تو امت لڑائی کے فتنہ سے بچ جاتی؛ اور لڑائی نہ ہونے سے بڑے دو ر رس نتائج برآمد ہوتے]اور امت میں اتنا فساد اور خون خرابہ نہ ہوتا جو اس جنگ و قتال کی وجہ سے ہوا۔کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے امت ہمیشہ تفرقہ بازی کا شکار رہی اور ایک امام پر جمع نہ ہو سکی۔بلکہ خون ریزی کا سلسلہ تا دیر جاری رہا اور بغض و عداوت کے جذبات زور پکڑ گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گروہ جو أقرب إلی الحق تھا کمزور ہو کر صلح کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوا۔حالانکہ شروع میں آپ صلح کے طلبگار نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ جس فعل کی مصلحت اس کے فساد پر غالب ہو، اس کا وجود پذیر ہونا اس کے نہ ہونے کی نسبت زیادہ خیروبرکت کا موجب ہوتا ہے۔ موضوع زیر بحث میں بھی لڑائی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ لڑائی نہ ہونے کے فوائد و مصالح کہیں بڑھ کر تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج کثرت تعداد اور قوت وشوکت کے لحاظ سے برتر تھی۔ اور حضرت معاویہ ان سے مصالحت وموافقت اور جنگ بندی کرنے کے لیے تیار تھے۔ جس اجتہاد سے اس قدر تباہ کن نتائج ظہور پذیر ہوں ، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس میں بے گناہ تصور کیا جائے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد میں بالاولیٰ عفو و درگزر کے مستحق ہوں گے۔

* حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اعوان و انصار کہتے تھے:’’ لڑائی کا آغاز کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ، ہم صرف اپنی جانوں اور اپنے ملک کی مدافعت کر رہے ہیں ۔انہوں نے ہم سے جنگ کا آغاز کیا تو ہم نے اس کا جواب جنگ کی صورت میں دیا۔ اور ہم نے جنگ کا آغاز نہیں کیا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم و تعدی کا ارتکاب بھی نہیں کیا۔‘‘

جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء سے یوں کہا جاتا:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ واجب الاطاعت امام ہیں اور ان کی بیعت آپ کے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ بیعت نہ کرنے سے مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا ہوتی ہے۔‘‘

تو وہ اس کے جواب میں کہتے تھے:’’ہمیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واجب الاطاعت امام ہونا کسی دلیل سے معلوم نہیں ۔‘‘ خصوصاً شیعہ کے ہاں امامت نص سے ثابت ہوتی ہے۔ اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی نص موصول نہیں ہوئی جس کی روشنی میں آپ کی امامت اور اطاعت واجب ہوتی ہو۔‘‘

ظاہر ہے کہ اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ عذر معقول ہے۔ اس لیے کہ شیعہ امامیہ جس نص جلی کا دعویٰ کرتے ہیں ، اگر اسے حق بھی فرض کر لیا جائے(حالانکہ وہ باطل ہے) [اہل سنت کے نزدیک وہ نص باطل ہے۔ اس لیے کہ اگر ایسی کوئی نص موجود ہوتی تو اصحاب ثلاثہ کی دین داری، اخلاق و مروّت اور حکومت و سلطنت سے بیزاری کی بنا پر توقع کی جاتی تھی کہ سب سے پہلے وہ اس نص پر عمل کرتے۔] تویہ نص ابو بکر و عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم خلفاء ثلاثہ کے عہد خلافت میں پوشیدہ رکھی گئی تھی۔ تو پھر ہم کیسے واجب کرسکتے ہیں کہ اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ اس سے آگاہ ہوں ۔ یہ مفروضہ اس صورت میں ہے جب نص مذکور حق ہو؛ مگر وہ حق نہیں بلکہ باطل ہے۔ 

[مدت خلافت ]

شیعہ کا یہ کہنا کہ : ’’ خلافت تیس سال تک ہوگی ۔‘‘ وغیرہ ۔

[جواب] : یہ احادیث [اس وقت ]اتنی مشہور نہیں تھیں کہ سبھی لوگ اس کو جانتے ہوتے ۔ یہ روایت چند خاص لوگوں نے نقل کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بخاری اور مسلم وغیرہ جیسے محدثین نے یہ روایت نقل نہیں کی۔ جب عبد الملک بن مروان جیسے انسان پر یہ حدیث مخفی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:

’’ اے عائشہ !اگر تمہاری قوم سے جاہلیت کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو منہدم کر دیتا اور[ اس میں سے جو حصہ نکال دیا گیا ہے اسے میں اس میں شامل کر دیتا] اور اس کو زمین سے ملا دیتا اور اس میں دو دروازے رکھتا۔ ‘‘[]رواہ البخاری ‘ حج کا بیان :ح:۲۳۶۔ مکہ کی فضیلت اور اس کی عمارتوں کا بیان۔

جب حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی تعمیر کو منہدم کردیا گیا‘ اور اس تک یہ روایت پہنچی تو اس نے کہا :

’’ میری تمنا تھی کہ جو کام آپ نے کیا تھا وہ میرے ہاتھوں سے ہوا ہوتا ۔‘‘

حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بالکل صحیح اور متفق علیہ ہے ۔ پس اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ : ’’ میرے بعد خلافت تیس سال تک ہوگی ‘ اور پھر اس کے بعد بادشاہت ہوگی ۔‘‘ بالاولی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب پر مخفی رہی ہوگی۔ حالانکہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ابتداء تھی؛ اور اس حدیث میں کسی کی ذات کاکوئی تعین نہیں تھا۔ یہ دلالت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اس نص کی روشنی میں معلوم ہوئی۔ حالانکہ اس حدیث میں کسی متعین خلیفہ کی تحدید نہیں ۔

اور جو لوگ ایک ہی وقت میں دو خلیفہ کی تجویز دیتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں :

’’ان دونوں کی خلافت خلافت نبوت ہوگی؛ بیشک حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آخری ایام کی نسبت شروع میں اکثر لوگوں کے نزدیک زیادہ قابل تعریف اور محمود تھے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت اہل شان و شوکت کی بیعت کی وجہ سے ثابت ہوگئی تھی؛ جیسے ان سے پہلے حضرات کی خلافت ثابت ہوتی ہے۔ اس سے مراد حضرت طلحہ پر رد کرنا ہے جنہوں نے بحالت اکراہ ان کی بیعت کی تھی۔ اور جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی؛ انہوں نے ہی آپ سے جنگ بھی کی ؛ اس لیے اہل شان وشوکت آپ کی اطاعت گزاری پر یک زبان نہ ہوسکے۔

مزیدبرآں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی بیعت بھی ویسے ہی واجب تھی جیسے آپ سے پھلے لوگوں کی بیعت واجب تھی؛ جب آپ اپنے متقدمین کی سیرت پر عمل پیرا رہتے۔ وہ حضرات اپنی بیعت کرنے والوں کا ظلم سے دفاع

کرنے پر قادر تھے۔ اور اس سلسلہ میں جو کچھ وہ کرسکتے تھے؛ کر گزرتے۔ جب کہ ان حضرات کا کہنا تھا کہ اگر ہم آپ کی بیعت کر لیں ؛ تو ہم آپ کی ولایت میں مظلوم ہی ہوں گے؛ اور اس پر مستزاد اس سے پہلے جو ظلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ہو چکا ہے؛ انہوں نے تو اپنی عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے ہمیں اس سلسلہ میں انصاف نہیں دلایا۔ بھلے یہ آپ کی تأویل کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ یا پھر اس وجہ سے ہو جو کچھ دوسرے لوگ آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ آپ ان سے دفاع کرنے میں عاجز تھے۔ اور بلاشک و شبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین اور ان کے حلیف ہمارے دشمن ہیں ۔ اور ان کی بڑی تعداد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھی۔ اور آپ ان سے دفاع کرنے میں عاجز تھے۔ اس کی دلیل یوم جمل کا واقعہ ہے۔ بیشک جب آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین سے انتقام لینے کے لیے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے مدد چاہی تو وہ لوگ ان کے خلاف جمع ہوکر بر سر پیکار جنگ ہوگئے۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں پر ہاتھ اٹھانے سے باز رہنا مصلحت کا تقاضا تھا۔ جیسا کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے مشورہ کے بعد اس پر اتفاق ہوگیا تھا۔مگر جب قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو اکابرین کے اس اتفاق کا علم ہوا تو انہیں نے فتنہ و فساد پھیلادیا۔ اور انہوں نے پہل کرکے حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر پر حملہ کر دیا۔اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے:’’ حملہ کرنے میں پہلے انہوں نے کی ہے ۔‘‘پس ان میں سے ہر دو فریق اپنے اپنے دفاع میں لڑتے رہے ۔ اس جنگ سے حضرت علی یا حضرت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کو کوئی سر وکار نہیں تھا۔ بلکہ یہ فتنہ و فساد قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا پیدا کردہ تھا۔[پس اس پر وہ کہتے تھے:]

’’جب وہ ہمارے ساتھ ہماری نصرت کے بارے میں اپنی عاجزی یا تاویل کی وجہ سے انصاف نہیں کرسکتے؛ تو ہم پر بھی یہ لازم نہیں ہوتا کہ ہم اس انسان کی بیعت کریں جس کے دور میں ہم ظلم کی شکایت کرتے ہیں ‘ جو لوگ ہم سے جنگ کرنے کو جائز کہتے ہیں ؛ ان کا کہنا ہے : ’’ ہم باغی ہیں ۔‘‘ اور بغاوت کرنا ظلم ہے ۔ اگر صرف ظلم کی وجہ سے قتال حلال ہوجاتاہے ‘ تو یہی ظلم بیعت ترک کرنے کے جواز میں زیادہ اولی اور مناسب ہے ۔ اس لیے کہ جنگ کرنے میں بغیر جنگ کے بیعت ترک کر دینے سے بڑھ کر فساد ہے ۔‘‘

٭ اگرشیعہ کی طرف سے یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ ان پر ظلم نہیں کرنا چاہتے تھے ‘ بلکہ آپ عدل قائم کرنے میں مجتہد تھے ‘وہ ان کے ساتھ بھی عدل کرنا چاہتے تھے اور ان پر عدل قائم کرنا چاہتے تھے۔

٭ تواسکے جواب میں [اصحاب معاویہ کی طرف سے] کہا جاسکتا ہے کہ :’’ ہم بھی عمداً بغاوت نہیں کرنا چاہتے ؛ بلکہ ہم ان کیساتھ اور اپنے ساتھ عدل کرنا چاہتے ہیں ۔اور اگر مان لیا جائے کہ ہم تاویل کی بنا پر باغی بھی ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ساتھ جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا؛اور فقط کسی کی بغاوت سے اسے قتل کرنا حلال نہیں ہوجاتا ۔ بلکہ فرمان الٰہی ہے:

﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا﴾ [الحجرات۹]

’’اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو۔‘‘

یہاں پر اللہ نے پہلے ان کے مابین صلح کرانے کا حکم دیا ہے ۔ اور پھر یہ ارشاد فرمایا: ﴿فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ [الحجرات۹] ’’ پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔‘‘

یہ زیادتی و بغاوت قتال و جنگ کے بعد کی ہے؛ کہ دو جنگجو گروہوں میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرتا ہے۔ جنگ کے بغیر کوئی زیادتی اور بغاوت نہیں ۔پس اس بنا پر صرف زیادتی کی وجہ سے کسی کو قتل کرنا حلال نہیں ہوجاتا ۔ حالانکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ والی روایت میں موجود ہے کہ انہیں باغی گروہ قتل کرے گا۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو آپ کو قتل کرنے میں براہ راست ملوث رہے ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے جنگ کی ضرورت کے بغیر ہی لڑائی شروع کر رکھی تھی۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جنگ سے پہلے باغی نہ ہو ں ؛لیکن جب ان کے مابین جنگ واقع ہوئی تو ایک دوسرے پر بغاوت او ر زیادتی کرنے لگ گئے۔ پس اس صورت میں حضرت عمار کو ایک باغی گروہ نے ہی قتل کیا ہوگا۔ پس حدیث میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ یہاں پر بغاوت جنگ سے پہلے ہی ہوگئی ہو۔ تو جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر نے زیادتی کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لشکر انتہائی کمزوری کا شکار ہوگیا ؛ اور وہ جنگ پر قابو نہ پاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں :

’’لوگوں نے اس آیت پر عمل نہیں کیا ۔‘‘

[اٹھارھواں اعتراض]:شیعہ کا یہ قول کہ ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خیارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک کثیر جماعت کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔‘‘

[جواب]:بات یہ ہے کہ مقتولین کسی ایک جماعت میں محدود نہ تھے بلکہ ہر فریق نے فریق مخالف کے اعوان وانصار کو قتل کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ فریقین میں سے جو جنگ آزما لوگ تھے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کے بھی اطاعت کیش نہ تھے؛جبکہ حضرت علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہما دونوں مصالحت چاہتے تھے اور خون ریزی سے بیزار تھے ۔ لیکن اس واقعہ کے پیش آنے میں دونوں [فسادیوں کے سامنے ] مغلوب ہوگئے تھے۔[ان دونوں کے رفقاء بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے]۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ فتنہ کی آگ جب ایک مرتبہ مشتعل ہو جاتی ہے تو دانش مندوں کے بجھائے بھی فرو نہیں ہوتی۔ فریقین میں اشتر نخعی؛ ہاشم بن عتبہ [ہاشم بن عتبہ المرقال حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بھتیجا تھا۔ اس نے اپنے چچا کے ساتھ جنگ قادسیہ میں حاضر ہو کر بہادری کے جوہر دکھائے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جو لشکر جلولاء کے مقام پر یزدگرد شاہ ایران سے لڑنے کے لیے بھیجا تھا۔ ہاشم اس کے سپہ سالار تھے، جنگ صفین میں ہاشم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا، یہ آپ کی فوج کے علم بردار تھے۔ یہ جنگ صفین میں مارے گئے۔ ]، عبدا لرحمن [ایک قدیم مورخ سیف بن عمر تمیمی جس سے مورخ طبری بھی استفادہ کر چکے ہیں ، لکھتا ہے:’’ عبد الرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ساتھ فتوحات شام میں شریک تھے۔ یہ اس وقت بالکل نوعمر تھے۔ ابن سعدنے ان کو تابعین مدینہ کے طبقۂ اوّل میں شمار کیا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کے زمانہ میں مسلمانوں نے رومیوں سے جو جنگیں لڑیں ۔ یہ ان میں سپہ سالار ہوا کرتے تھے، یہاں تک (]بن خالد بن ولید؛اور ابو الاعور السُّلَمِی [کہ ابو ایوب انصاری جیسے مقتدر صحابہ آپ کے زیر قیادت شریک جہاد ہوئے۔ عبدالرحمن اس وقت عنفوان شباب میں تھے۔ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عبد الرحمن نے چار عجمی کافر قید کیے اور حکم دیا کہ انھیں تیروں سے قتل کیا جائے، جب حضرت ابوایوب کو پتہ چلا تو انھوں نے اس سے منع فرمایا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ عبد الرحمن نے اس گناہ کی پاداش میں چار غلام آزاد کیے۔ (سنن ابی داؤد۔ کتاب الجہاد۔ باب فی قتل الاسیر بالنبل (حدیث: ۲۶۸۷)، و سندہ ضعیف ۔اس کی سند میں بکیر بن الاشج راوی مجہول الحال ہے۔خلافتِ عثمانی میں حضرت معاویہ نے عبد الرحمن کو ملک شام کی شمالی جانب حمص سے لے کر جزیرہ ابن عمر تک کا حاکم مقرر کیا تھا۔ آپ نے ایک بیدار مغز اور جرأت مند حاکم کی طرح اپنے فرائض منصبی ادا کیے۔ خلافت عثمانی میں جب فتنہ پردازوں نے کوفہ میں شرانگیزی کا آغاز کیا تو حضرت عثمان نے ان کو معاویہ کی خدمت میں بھیجنے کا حکم صادر فرمایا۔ حضرت معاویہ نے اپنے حلم و ادب کے ذریعہ ان کی اصلاح کرنا چاہی مگر وہ حلم و ادب کی لغت سے واقف ہی نہ تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت معاویہ نے ان کو عبدالرحمن بن خالد کے پاس بھیجا۔ عبد الرحمن نے ان کو متنبہ کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس میں یہ الفاظ بھی شامل تھے: ’’اے شیطان کے آلہ کارو! میں تمھیں خوش آمدید نہیں کہنا چاہتا۔ اب شیطان تھک کر عاجز آگیا ہے، مگر تمہاری پھرتی و چالاکی میں کمی نہیں آئی۔ اﷲ عبدالرحمن کو ناکارہ کردے، اگر ادب سکھا کر وہ تمھیں فرماں بردار نہ بنائے۔ اے ان لوگوں کے گروہ جن کے متعلق مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ عرب ہیں یا عجم۔ تمھیں واضح ہو کہ میں اس خالد بن ولید کا بیٹا ہوں جو بڑی مشکلات سے دوچار ہوئے۔ جنھوں نے فتنہ ارتداد کی آگ کو فرو کیا۔ اے صعصعہ بن ذلّ اگر مجھے پتہ چلا کہ میرے رفقاء میں سے کسی نے تیری ناک توڑی اور پھر تجھے دودھ پلایا تو میں تجھے عبرتناک سزادوں گا۔‘‘ (تاریخ طبری:۵؍۸۷)عبد الرحمن بن خالد کہا کرتے تھے:’’ جس کی خیر سے اصلاح ممکن نہ ہو اسے شر کے ذریعے ٹھیک کر سکتے ہیں ۔‘‘یہ سن کر سب شریرعبد الرحمن سے کہنے لگے:’’ہم بارگاہ ایزدی میں توبہ کرتے ہیں ، ہمیں معاف فرمائیے اﷲ تعالیٰ آپ کو معاف کرے۔‘‘ (طبری:۵؍۸۷۔۸۸) مگر ان کی یہ توبہ مخلصانہ نہ تھی۔ رہا ہو کر انھوں نے حج کرنے کے بہانے سے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کردی۔ عبد الرحمن بن خالد جنگ صفین میں حضرت معاویہ کے ہم راہ تھے، جیسا کہ شٰخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔  ابو اعور کااصلی نام عمر بن صفوان ذکوانی ہے۔ ذکوان بنی سُلیم کے ایک قبیلہ کا نام ہے۔یہ صحابی ہیں غزوۂ حنین کے بعد اسلام لائے۔محمد بن حبیب لکھتے ہیں :’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف دیار و امصار کے امراء کو لکھا تھا کہ ہر علاقہ میں سے ایک صالح ترین شخص آپ کی خدمت میں بھیجا جائے۔ چنانچہ بصرہ، کوفہ اور شام و مصر سے چار آدمی آپ کے یہاں بھیجے گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ چاروں قبیلہ بنی سلیم سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے ایک ابو اعور سُلَمِی تھے۔ امام مصر حضرت لیث بن سعد فرماتے ہیں :’’جب ۲۳ھ میں عموریہ کی جنگ ہوئی تو اس میں مصری فوج کے امیر وہب بن عمیر جُمحی تھے اور شامی لشکر کے سپہ سالار ابو اعور سلمی تھے۔‘‘ابو زرعہ اپنی تاریخ دمشق میں لکھتے ہیں :’’۲۶ھ میں ابو اعور سلمی نے قبرص کی جنگ میں شرکت کی تھی ۔ ‘‘ جنگ صفین میں ابو اعور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور بہت بڑے قائد خیال کیے جاتے تھے۔ ان کی شجاعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابو اَعور نے یہ سمجھ کر اشتر نخعی کا مقابلہ کرنے سے انکار کردیا تھا کہ وہ ان کا حریف نہیں ہو سکتا۔]جیسے لوگ تھے جو جنگ کی آگ کو فرو نہیں ہونے دیتے تھے۔ 

کچھ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شدید حمایت کرتے تھے اور کچھ ان کے خلاف تھے۔ دوسری طرف حامیان علی رضی اللہ عنہ تھے اور کچھ لوگ ان سے اختلاف رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں جو لوگ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی تھے، وہ ذات معاویہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر اسباب و محرکات کی بنا پر شریک جنگ ہوئے تھے۔ جنگ، فتنہ اور قتال جاہلیت کی طرح ایک ہی قسم کے مقاصد و اعتقادات کے تحت وقوع پذیر نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقاصد مختلف ہوا کرتے ہیں ، امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جب فتنہ بپا ہوا تو اصحاب رسول کی تعداد کچھ کم نہ تھی۔ جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بات پر اجماع کر لیا تھا کہ جس خون ، مال یا عفت و عصمت کو بنا بر تاویل حلال کیا گیا ہو وہ ہدرہے (جس پر شرعی سزا نہ دی جائے) ؛ اور اسے جاہلیت کا سا معاملہ سمجھاجائے ۔‘‘

جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے لعنت کا تعلق ہے، فریقین دعا میں ایک دوسرے پر لعنت کرتے تھے؛ جیسا کہ ان کے مابین جنگ بھی بپا ہوئی۔ان کے سردار اُن پراپنی دعاؤوں میں لعنت کرتے تھے ‘ اور دوسرے گروہ کے سردار پہلے گروہ کے بڑوں پر لعنت کرتے تھے۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے ہر گروہ دوسرے کے خلاف دعاء قنوت پڑھ کر بددعا کرتاتھا ۔ کسی کے خلاف جنگ آزما ہونا اس پر لعنت بھیجنے سے بھی عظیم تر ہے۔ لعنت بھیجنے کا فعل خواہ گناہ ہو یا صحیح و غلط اجتہاد پر مبنی ہو، اللہ کی مغفرت کا حصول بنا بر توبہ گناہوں کا ازالہ کرنے والے اعمال صالحہ اور گناہوں کا کفارہ بننے والے حوادث و آلام کی وجہ سے ممکن ہے۔پھرعجیب بات یہ ہے کہ روافض سَبِّ علی رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے ہیں اور خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنے اور ان کو اور ان سے محبت رکھنے والوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں شرماتے۔ بخلاف ازیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے احباب و انصار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کرتے ، آپ کی تکفیر صرف خوارج کرتے ہیں ، جو دین اسلام سے نکل چکے ہیں ،رافضہ ان سب سے برے ہیں ۔اگر خوارج اس گالم گلوچ کا انکار کرتے تو ان کے قول میں تناقض ہوتا۔توپھر رافضی اس کا انکار کیسے کرسکتے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کوگالی دینا جائز نہیں ۔نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کونہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور نہ ہی ان دونوں کے علاوہ کسی اور کو ۔ پھر جو کوئی حضرات ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو گالی دے ‘ اس کا گناہ اس سے بڑھ کر ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دے ۔ اگرچہ ان صحابہ کو گالی دینے والا کسی تاویل کا بھی شکار ہو ؛تو اس کی تأویل حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے والے کی تاویل سے بڑھ کر فاسد اور بے کار ہے۔ اگر ان صحابہ کو تاویل کی وجہ سے گالی دینے والا برانہیں ہے تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی برے نہیں ہوسکتے ۔اور اگریہ حرکت مذموم ہے ‘ تو پھر شیعہ جو کہ خلفاء ثلاثہ کو گالی دیتے ہیں وہ نواصب سے بڑھ کر مذمت کے مستحق ہیں جو کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کوگالی دیتے ہیں ۔ خواہ جس زاویہ سے بھی اس معاملہ کو لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ شیعہ سب سے زیادہ حق سے دور ہیں ۔

صحیحین میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو، مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم میں سے کوئی شخص احد کے پہاڑ جتنا سونا بھی خرچ کرے، تو وہ ان کے عشرعشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، لو کنت متخذاً خلیلاً (ح:۳۶۷۳)، مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب تحریم سب الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم ( ح:۲۵۴۱) العواصم من القواصم: ۳۲تا ۳۴۔]

[حضرت حسن رضی اللہ عنہ کاقاتل کون؟]:

[انیسواں اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسن کو رضی اللہ عنہ زہر کھلایا تھا۔‘‘

[جواب]:بعض لوگوں نے یہ بات کہی ہے۔[یہ شیعہ کا قول ہے، جو بلا دلیل و ثبوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر اتہام طرازی کرتے رہتے ہیں یا وہ لوگ اس کے قائل ہیں جو شیعہ کے دام فریب میں آکر ان کے جھوٹے اقوال سے متاثر ہو جاتے ہیں ۔]مگر کسی شرعی دلیل و برہان سے یا کسی معتبر کے اقراریا کسی سچے ناقل کے کلام سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔اور نہ ہی اس کا علم ممکن ہے۔پس یہ کہنا کہ آپ نے حضرت حسن کو زہر دیا تھا؛ بغیر علم کے بات ہے۔ہمارے اس زمانے میں بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں بادشاہ کو زہر دے کر قتل کیا گیا ۔مگر لوگوں کا اس میں اختلاف ہوتا ہے۔یہاں تک کہ جس جگہ و مقام پرجس قلعہ میں اس بادشاہ کا انتقال ہوگیا ہو‘ وہاں کے رہنے والوں میں بھی اس حقیقت میں اختلاف ہوتا ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر آدمی دوسرے کے برعکس کوئی اور بات کہتا ہے۔کوئی ایک کہتا ہے: اس کو فلاں نے زہر دی۔دوسرا کہتا ہے: نہیں اسے فلاں نے زہر دی؛ کیونکہ اس کے ساتھ کوئی معاملہ پیش آگیا تھا۔یہ حال تو آپ کے زمانے میں پیش آنے والے واقعات کا ہے۔اوران لوگوں کا بیان ہے جو خود اس قلعہ کے اندر موجود تھے۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو زہر دیا گیا۔اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ممکن بھی ہے۔ اس لیے کہ زہر دے کر قتل کیے جانے والے کی موت کسی پر مخفی نہیں رہتی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آپ کو زہر کھلایا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی موت مدینہ طیبہ میں واقع ہوئی۔جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں تھے ۔اس بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی کو بھیجاہو‘یا پھر کسی کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہو۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کی بیوی نے آپ کو زہر اس لیے دیا چونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کثرت سے طلاق دیا کرتے تھے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ان کی بیوی نے کسی مقصد کے لیے آپ کو زہرکھلایا ہو۔ واللہ اعلم۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ اس عورت کے والد اشعث بن قیس نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو زہر کھلانے کا حکم دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اندرونی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسن رضی اللہ عنہ سے منحرف ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے والد کو اس بات پر مامور کیا تھا۔ یہ ظن محض ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ‘‘[صحیح بخاری،کتاب الادب۔ باب ما ینھی عن التحاسد والتدابر،(حدیث:۶۰۶۴)، صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظن والتجسس(حدیث:۲۵۶۳)۔]

’’بدگمانی سے بچو، کیوں کہ یہ بڑی جھوٹی بات ہے۔‘‘

خلاصہ یہ کہ باتفاق مسلمین شرعاً ایسی بلا دلیل بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس پر کسی کی مدح یا مذمت کا ترتب درست ہے۔

پھر یہ کہ اشعث بن کا انتقال ۳۰ہجری میں ہوا۔اور ۳۱ ہجری بھی کہا گیاہے۔ اسی لیے اس کا نام اس صلح میں نہیں آتاجواتفاق والے سال حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مابین ہوئی تھی۔یہ سن ۳۱ ہجری کا واقعہ ہے۔ اشعث بن قیس حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے سسر تھے۔ [اشعث بن قیس بن معدیکرب الکندی ابو محمد ؛ صحابی ہیں ؛ سن دس ہجری میں ستر ساتھیوں کے ساتھ وفد کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کندہ کے بادشاہوں میں سے تھے۔ آپ نے اسلام قبول کیا۔ جنگ یرموک میں شرکت کی۔ اور اس جنگ میں آپ کی ایک آنکھ جاتی رہی ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں زکواۃ دینے سے انکار کیا ؛ تو ان سے جنگ کی گئی ۔ جس میں آپ نے ہتھیار ڈال دیے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آزاد کردیا؛ اور ام فروہ سے آپ کی شادی کردی۔ آپ مدینہ میں قیام پذیر رہے۔ اور کئی جنگوں میں شرکت کی ۔ عراق کی جنگوں میں شریک ہوئے۔ اور صفین اور نہروان کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ پھر واپس کوفہ چلے گئے اور سن ۴۰ ہجری میں انتقال فرمایا۔ بخاری او رمسلم میں آپ سے نو احادیث روایت کی گئی ہیں ۔ دیکھیں : الاصابہ ۱؍ ۶۶؛ الأعلام ۱؍ ۳۳۳۔ ]اگر وہ اس موقع پر موجود ہوتے تو ان کا ذکر ضرور کیا جاتا۔اور اگر اس کی وفات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی وفات سے بیس سے پہلے ہوچکی تھی؛ تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کو حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو زہر دینے کا حکم دیا ہو۔ حقیقت حال کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ اور وہی ان کے اختلافی امور میں فیصلہ کرے گا۔اور اگر ایسی کوئی بات ہوئی ہے ؛ تو یہ پھر وہی باہمی جنگ و قتال ہے جیسے کہ پہلے گزر چکا؛ کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے کو تأویل کی بنا پر قتل کیا۔اور ایک دوسرے پر سب و شتم بھی کیا۔ اور کفر کے فتوے بھی لگائے۔ یہ ایک بہت بڑا باب ہے؛ جو اس بارے میں حقیقت واجب نہ جانتا ہو تو وہ گمراہ ہو جاتا ہے۔ 

[حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کس نے قتل کیا]:

[بیسواں اعتراض]: کہتے ہیں : ’’ معاویہ کے بیٹے یزید نے حضرت حسین کو قتل کیااور ان کی عورتوں کو قیدی بنایا ۔‘‘

[جواب]: یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید نہیں کیا ‘ اور نہ ہی آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا ؛ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ مگر اس نے ابن زیاد کو یہ خط لکھا کہ آپ کو عراق کی ولایت سے روکے۔جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ اہل عراق آپ کی نصرت کریں گے ؛ اور آپ کی طرف لکھے گئے وعدے پورے کریں گے۔[ہمارے معاصر مشہورشیعہ شاعر محمد جواد خضر نے ان تاریخی حقائق کو تسلیم کیا ہے اور اس طرح اﷲ تعالیٰ نے حق و انصاف کو اس کی زبان پر جاری کردیا، حضرت علی بن حسین بال بچوں سمیت جب کربلا سے کوفہ پہنچے اور خیانت کارشیعہ مستورات سمیت روتے دھوتے اور دامن پھاڑتے آپ کے استقبال کے لیے نکلے(جیسے شیعہ آج کل عاشوراء کے موقع پر کرتے ہیں ) تو آپ نے اہل کوفہ کو مخاطب کرکے کہا:’’ اہل کوفہ! اب تم رو رہے ہو بتلائیے تمہارے سوا ہمیں اور کس نے قتل کیا ہے؟‘‘] چنانچہ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا۔ جب انھوں نے دھوکہ سے مسلم کو قتل کرکے ابن زیاد کی بیعت کرلی، تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا، مگر ابن ز یاد کی ظالم فوجوں نے آپ کو واپس جانے سے روکا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ: مجھے یزید کے پاس جانے دیا جائے۔ یا ملکی سرحد کی راہ لینے دی جائے۔ یا اپنے شہر کو واپس جانے دیا جائے۔ مگر انھوں نے آپ کو قیدی بنانے کے سوا دوسری سب تجویزیں مسترد کردیں ۔ آپ نے قیدی ہونے اور عبداللہ بن زیاد کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا اور ان کے خلاف لڑتے ہوئے بحالت مظلومی شہادت پائی۔ جب یزید کو شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو اس نے بڑے درد و کرب کا اظہار کیا اور اس کے اہل خانہ نے آہ و بکا کا آغاز کیا۔ یزید رحمہ اللہ نے اہل بیت کی خواتین میں سے کسی کو قید نہیں کیا تھا۔[اس فقرہ سے شیعہ کی تردید مقصود ہے، ورنہ یزید اور اس کے اہل بیت آج کل کے جھوٹے مدعیان حب اہل بیت سے کہیں بڑھ چڑھ کر بنی ہاشم کا اعزاز و احترام بجا لاتے تھے، موجودہ شیعہ حب اہل بیت کے بہانہ سے ان کے دین میں مسخ و تحریف کرنا چاہتے ہیں ایک مرتبہ حجاج ثقفی نے بنی ہاشم کے قبیلہ میں رشتہ کرنا چاہا تو بنو امیہ نے اسے ناپسند کیا کیوں کہ وہ حجاج کو بنو عبد مناف کا کفو(ہمسر) تصور نہیں کرتے تھے۔]بلکہ انھیں عطیہ جات دیے اور عزت و احترام سے انھیں مدینہ رخصت کردیا۔ [ اس لیے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو خصوصی وصیت کی تھی کہ ہر قیمت پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اکرام و احترام ملحوظ رکھے]۔

اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ : ’’ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا ‘‘ تو اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا کیا گناہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی﴾ [فاطر۱۸]

’’ کوئی جی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔‘‘

تمام لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق کا خیال رکھنے ‘ آپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے ‘ اور آپ کی تعظیم و توقیر بجالانے کی وصیت کی تھی۔ عمر بن سعد اس جماعت کا سردار تھا جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ۔ جب کہ اس کے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ فتنہ سے دور رہنے والے تھے۔اس بیٹے کا اپنے باپ کیساتھ طلب خلافت کے مسئلہ میں ایک مشہور مکالمہ ہے ؛ جس میں حضرت سعد اس مطالبہ سے باز رہے۔ اس وقت آپ کے علاوہ اہل شوری میں سے کوئی ایک بھی زندہ باقی نہیں تھا۔

صحیح مسلم میں ہے حضرت عامر بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے اونٹوں میں (موجود) تھے کہ اسی دوران ان کا بیٹا عمر آیا؛ تو جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا تو فرمایا :

’’میں اس سوار کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ جب وہ اترا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا کہ: کیا آپ اونٹوں اور بکریوں میں رہنے لگے ہیں اور لوگوں کو چھوڑ دیا ہے اور وہ ملک کی خاطر جھگڑرہے ہیں ۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : خاموش ہوجا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:’’ اللہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو پرہیزگار اور غنی ہے اور ایک کونے میں چھپ کر بیٹھا ہو۔‘‘[صحیح مسلم ‘زہد و تقوی کا بیان :۱۰۶۔]

محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کرنے میں مدد کی تھی۔ جبکہ اس کے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں میں سب سے زیادہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرنے والے تھے ۔ توکیا اس بیٹے کی وجہ سے کسی ایک اہل سنت نے بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کی ہے ؟

[اکیسواں اعتراض]:اگر یہ کہا جائے کہ : ’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ مقرر کردیا تھا ؛ اس کی ولایت کی وجہ سے یہ فساد پیدا ہوا ۔‘‘ 

[جواب] : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے اس کو خلیفہ مقرر کرنا جائز تھا۔ اس فعل سے آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا ۔ اگر آپ کے لیے اس کو خلیفہ مقرر کرنا ناجائز بھی ہوتا تو یہ علیحدہ سے ایک گناہ تھا؛ اگرچہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل نہ بھی کرتا۔ یزید لوگوں میں سب سے بڑھ کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عزت و آبرو کا خیال رکھنے کا حریص تھا چہ جائے کہ وہ آپ کے خون کا پیاسا ہوتا ۔ اس کوشش و جدوجہد کے باوجود فسادیوں کے افعال کو آپ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ 

[بائیسواں اعتراض]:رافضی مضمون نگار کا یہ قول کہ ’’[معاویہ کے والد]ابوسفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت توڑے تھے؛ اور اس کی والدہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا۔‘‘ 

[جواب]: اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو سفیان احد کے موقع پر مشر کین کے لشکر کا قائد تھا۔ اور اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت بھی توڑے گئے ۔مگر کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ آپ کے دندان مبارک پر وارکرنے والاابو سفیان تھا۔ بلکہ یہ دانت توڑنے والا عتبہ بن ابی وقاص تھا۔[دیکھیے تاریخ طبری(۳؍۱۷) طبع حسینیہ نیز(ج:۱؍۴۰۳) طبع یورپ۔ عتبہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اورعتبہ جہنمی۔ محمد بن اسحاق حضرت سعد سے روایت کرتے کہ وہ کہا کرتے تھے:’’اﷲ کی قسم! میں عتبہ سے بڑھ کر کسی شخص کو قتل کرنے کا حریص نہ تھا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ اپنی قوم میں بدخلق مشہور تھا اور سب لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میرے لیے سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کافی ہے کہ:’’ اس شخص پر اﷲ کا شدید غضب ہو گا جس نے رسول اﷲ کے چہرے کو خون آلود کیا۔‘‘(طبری:۳؍۲۰) ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردمقسم روایت کرتے ہیں کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے حق میں بد دعا کی تھی کہ سال گزرنے سے پیشتر وہ بہ حالت کفر مرجائے گا۔‘‘ چنانچہ عتبہ ایک سال کے اندر اندر کافر ہونے کی حالت میں مر گیا۔ یہ بھی مروی ہے کہ جنگ بدر کے بعد حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے عتبہ پر قابو پا کر اس کا سر اڑا دیا تھا۔(رواہ الحاکم فی المستدرک) اورسیرۃ ابن ہشام (ص:۳۸۶)۔]

یہ درست ہے کہ ہند زوجۂ ابو سفیان نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جگر لے کر چبایا تو اسے نگل نہ سکی؛ پھر اسے تھوک دیا تھا۔[سیرۃ ابن ہشام(ص:۳۹۳)، مسند احمد۱۰؍۴۶۳)،مطولاً] یہ اسلام لانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ پھریہ تمام گھرانہ عنایت ایزدی سے مشرف بہ اسلام ہو گیا ؛ اور اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہند رضی اللہ عنہا کی اس بنا پر تکریم فرمایا کرتے تھے[ کہ رشتہ سے وہ آپ کی ساس ہوتی تھی]۔نیزیہ کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔[صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون الاسلام۔ یھدم ما قبلہ(حدیث:۱۲۱)] اللہ تعالیٰ فرماتے تھے:

﴿قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ (الانفال:۳۸) 

’’ جو لوگ کافر ہیں ، ان سے فرمائیں کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کردیجیے جائیں گے۔‘‘

صحیح مسلم میں حضرت عبدالرحمن ابن شماسہ سے مروی ہے؛ فرماتے ہیں :کہ ہم عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے ؛وہ بہت دیر تک روتے رہے اور چہرہ مبارک دیوار کی طرف پھیر لیا۔ ان کے بیٹے ان سے کہہ رہے تھے کہ:’’ اے ابا جان آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو[جنت کی] بشارت نہیں سنائی؟ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ادھر متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:

’’ ہمارے نزدیک سب سے افضل عمل اس بات کی گواہی دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ اور مجھ پر تین دور گزرے ہیں ایک دور تو وہ ہے جو تم نے دیکھا کہ میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی مبغوض نہیں تھا اور مجھے یہ سب سے زیادہ پسند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قابو پا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں ۔ اگر میری موت اس حالت میں آجاتی تو میں دوزخی ہوتا۔ پھر جب اللہ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اللہ! اپنا دایاں ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کروں ۔‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ روک لیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے عمرو کیا بات ہے؟ ‘‘

میں نے عرض کیا : ایک شرط ہے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا شرط ہے؟

میں نے عرض کیا : ’’ یہ شرط کہ کیا میرے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عمرو کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام لانے سے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اور ہجرت سے گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ اور حج کرنے سے بھی گزشتہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔‘‘[صحیح مسلم:جلد اول:ح 321]

صحیح بخاری میں ہے کہ: جب حضرت معاویہ کی والدہ ہند حلقہ بگوش اسلام ہوئیں تو اس نے کہا:’’اللہ کی قسم! کرۂ ارضی پر کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کے اہل خانہ کا رسوا ہونا مجھے آپ کے اہل خانہ کے رسوا ہونے سے زیادہ عزیز تر ہو اور آج یہ عالم ہے کہ اس کائنات ارضی پر کسی اہل خانہ کا معزز ہونا مجھے آپ کے اہل خانہ کے اعزاز و اکرام سے زیادہ محبوب نہیں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار۔ باب ذکر ھند بنت عتبۃ بن ربیعۃ رضی اللہ عنہا ، (ح:۳۸۲۵)، صحیح مسلم۔ کتاب الاقضیۃ ، باب قضیۃ ھند،(حدیث: ۸؍۱۷۱۴)۔]