Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ازروئے حدیث عیسائیوں، یہودیوں وغیرہ سے اختلاط اور میل جول کی ممانعت اور اس کے خطرناک نتائج


ازروئے حدیث عیسائیوں، یہودیوں وغیرہ سے اختلاط اور میل جول کی ممانعت اور اس کے خطرناک نتائج

حدیث کی کتابوں میں سیدنا ابوہریرؓہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: المرء على دين خليله فلينظر احدكم من يخالل: انسان فطرة اپنے دوست کے مذہب و مسلک پر ہوا کرتا ہے (کسی کو دوست بنانے سے پہلے) تمہیں دیکھ لینا چاہئے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو۔

ایک دوسری حدیث میں آیا ہے: ان ابا موسى الاشعؓرى استكتب ذميا فكتب اليه عمرؓ يعنفه وتلا عليه هذه الآية:

يا لأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُوْنِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا :

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ‌ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ  ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُ‌ؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ ۞ (سورۃ آل عمران، آیت نمبر 118)

ترجمہ: اے ایمان والوں نہ بناؤ بھیدی کسی کو اپنوں کے سوا وہ کمی نہیں رتے تمہاری خرابی میں ان کی خوشی ہے تم جس قدر تکلیف میں رہو نکلی پڑتی ہے دشمنی ان کی زبان سے اور جو کچھ مخفی ہے ان کے جی میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے ہم نے بتا دیئے تم کو پتے اگر تم کو عقل ہے،

(عراق کے گورنز) سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے ایک مرتبہ ایک ذمی (نصرانی) کو اپنا منشی (پی اے) مقرر کر لیا تو امیر المؤمنین سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے ان کو سر زنش و ملامت کا خط لکھا اور یہی آیت تلاوت فرمائی۔

ایک اور واقہ ملاحظہ فرمائیں:

ایک مرتبہ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے خلیفتہ المسلمین سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے صوبے کا میزانیہ پیش کیا، سیدنا فاروقِ اعظمؓ کو بہت پسند آیا، سیدنا فاروقِ اعظم ان کا میزانیہ (بجٹ) لے کر مجلسِ شوریٰ میں آئے اور ان سے فرمایا: تمہارا منشی کہاں ہیں؟ تاکہ تمہارا یہ میزانیہ ۔۔۔ اراکینِ شوریٰ کے سامنے پیش پیش کرے، تو سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے عرض کیا کہ وہ تو مسجد نبویﷺ میں نہیں آئے، سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا: کیوں؟ کیا وہ ناپاکی کی حالت میں ہے؟ تو سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے عرض کیا جی نہیں، وہ نصرانی ہے۔ آپؓ نے ان کو سرزنش کی اور فرمایا تم ان نصرانیوں کو اپنے قریب کرتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان کو مسلمانوں سے دور رکھا ہے۔ تم ان جو عزت دیتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان کو ذلیل و رسواء کیا ہے۔ تم ان جو امین (معتمدیہ علیہ) بناتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے ان کو خیانت دار بتلایا ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ سے مروی ہے، آپ کے ارشاد فرمایا اہلِ کتاب (نصرانیوں اور یہودیوں) کو حکومت کا اہل کار افسر مت بناؤ، اس لئے کہ یہ لوگ سود کو حلال سمجھتے ہیں (یہ مسلمانوں میں بھی سودی نظام پھیلا دیں گے) تم سرکاری عہدوں پر اور رعایا پر ایسے لوگوں کو مقرر کرو جو اللہ تعالیٰ جل جلالہ سے ڈرتے ہوں۔

یہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی ملہمانہ بصیرت تھی کہ ان کے نزدیک سود کو حلال سمجھنے کی وجہ سے اہلِ کتاب (یہودی اور نصرانی) اسلامی حکومت کے کسی محکمہ میں کسی بھی عہدے اور ملازمت کے اہل نہ تھے، صرف اس لیے کہ کہیں یہ غیر اسلامی افکار و نظریات ان لوگوں کے حکومت کے عہدوں پر فائز اور محکموں پر قابض ہونے کی بناء پر مسلمانوں میں سرایت نہ کر جائیں۔

سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی اسی حکیمانہ بصیرت پر عمل نہ کرنے اور یہود و نصارٰی (اج کی یورپین اقوام) کو حکومت کے معاملات میں قابلِ اعتماد دوست بنانے، اسلامی ملک کے تمام تر منصوبوں میں ان کی اسکیموں پر بھروسہ کرنے، نہ صرف یہ بلکہ عدلی اور انتظامی کلیدی عہدے ان کے سپرد کرنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تمام اسلامی حکومتوں میں تمام کاروبار یورپ کے بینکاری سودی نظام پر چل رہا ہے، نہ صرف یہ بلکہ بعض نام نہاد مسلمان سود کو حلال کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، اور اسلامی حکومتوں نے اسلامی ملکوں میں ان کو اپنے ان غیر اسلامی افکار اور نظریات کے اشاعت کی نہ صرف آزادی دے رکھی ہے بلکہ ان کی سرپرستی اور کفالت بھی کر رہی ہیں (العیاذ باللہ)۔

نو سو سال پہلے کا حال:

امام قرطبیؒ فرماتے ہیں ۔۔۔ لیکن اب اس زمانہ میں تو حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اہلِ کتاب یہودیوں اور نصرانیوں کو (عام طور پر) اسلامی حکومتوں میں ذمہ دار افسر اور کلرک مقرر کر دیا گیا ہے اور اس طرح انہوں نے نادان و ناسمجھ عوام پر پورا اقتدار حاصل کر رکھا ہے۔

نو سال بعد کا حال:

مصنفؒ فرماتے ہیں ۔۔۔ یہ نوبت تو اب سے نو سال پہلے امام قرطبیؒ کے زمانہ میں پہنچ چکی تھی۔ تو ہم اپنے اس زمانے کے متعلق کیا کہیں جبکہ اسلامی ملکوں میں شریف (دیندار) اور ذلیل (بےدین) لوگ ایک دوسرے میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔ اپنے ملکوں میں اپنے اوپر ہم نے ان کو کس قدر اقتدار دے رکھا۔ ان کے ساتھ میل جول اور الفت و محبت کے روابط و تعلقات کتنے بڑھا رکھے ہیں ۔۔۔؟ حالانکہ ان دشمنانِ دین وہ ملت کے ساتھ اختلاط اور ارتباط، دوستی و موالات کے حرام ہونے کے بارے میں قرآن کریم کی بہت سے واضح اور قطعی آیات اور صریح احادیث صحیحہ موجود ہیں۔

(فتاویٰ بینات جلد 2، صفحہ 107)