Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل سنت دلیل 3 قدیم ترین ثقہ شیعہ عالم سعد بن عبداللہ القمی کا اعتراف بمعہ تین  أصحاب ابن سبا کے نام

  جعفر صادق

اہل سنت دلیل 3 

قدیم ترین ثقہ شیعہ عالم سعد بن عبداللہ القمی کا اعتراف بمعہ تین أصحاب ابن سبا کے نام

میں اپنی  گذشتہ دلیل کو مکمل کرتے ہوئے قدیم ترین ثقہ شیعہ عالم  سعد بن عبداللہ القمی  (المتوفی 301 ھجری ) سے  ایک اور  اعتراف بھی پیش کردیتا ہوں۔

⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️⬇️

 

 

*شیعہ مذہب کا نامور عالم اور فقیہ سعد بن عبد الله القمی ابن سبا کے وجود کا اعتراف اور اس کے چند ساتھیوں کا نام تک ذکر کرتا ہے*، جو اس کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے تھے۔ پھر اس کے فرقے کو *سبائیہ* نام سے ملقب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ *دین اسلام میں سب سے پہلے غلو کا اظہار کرنے والا یہی فرقہ تھا۔ بعد ازاں ابن سبا کو وہ پہلا شخص قرار دیتا ہے، جس نے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور صحابہ کرام پر اعلانیہ طعن و تشنیع کا اظہار کیا (معاذاللہ) اور ان سے براءت ظاہر کی اور دعویٰ کیا کہ حضرت علی رض  نے اسے اس کام کا حکم دیا ہے۔*

پھر سعد قمی ذکر کرتا ہے کہ جب على رض کو اس کے عقائد کی خبر ہوئی تو انھوں نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن پھر چھوڑ دیا اور صرف اسے مدائن کی طرف جلا وطن کرنے پر اکتفا کیا،  آگے سعد بن عبداللہ نے مشہور زمانہ جملے بیان کئے ہیں۔

عبداللہ بن سبا یہودی تھا، پھر اس نے اسلام قبول کیا اور علی رض سے محبت کا اظہار کیا۔جب وہ یہودی تھا تو یوشع بن نون سے متعلق یہی کہتا تھا کہ وہ موسی علیہ السلام کے وصی ہیں ، پھر وفات نبوی کے بعد اسلام قبول کر کے یہی بات سیدنا علی کے حق میں کہنے لگا کہ وہ نبی کریم کے وصی ہیں۔ اس شخص نے سب سے پہلے سیدنا علی کی امامت کے فرض ہونے کا ذکر کیا اور ان کے دشمنوں سے براءت ظاہر کی اور انھیں کافر قرار دیا۔ اسی بنیاد پر شیعہ کے مخالفین نے کہا ہے کہ رافضی مذہب در اصل یہودیت سے ماخوذ ہے ۔

آگے قمی ذکر کرتا ہے کہ جب ابن سبا کو علی رض کی وفات کی اطلاع ملی تو اس نے دعویٰ کیا کہ وہ فوت نہیں ہوئے، بلکہ دوبارہ دنیا میں واپس آ کر اپنے دشمنوں سے لڑیں گے، پھر وہ اس عقیدے ونظریے میں غلو کرنے لگا۔

⬅️ یہ ہے وہ حقیقت جو سعد بن عبداللہ قمی اپنی کتاب المقالات والفرق میں عبداللہ ابن سبا ملعون یہودی کے متعلق بیان کرتا ہے۔ یہ قمی شیعہ کے نزدیک ثقہ اور معرفت روایات میں وسیع النظر ہے، اہل تشیع کے ہاں اس کی معلومات نہایت اہمیت کی حامل ہیں، کیوں کہ ایک تو وہ زمانے کے اعتبار سے متقدم ہے اور دوسرا یہ کہ شیعہ عالم صدوق بیان کرتا ہے کہ یہ (قمی) شیعہ کے امام معصوم حسن عسکری سے ملا اور اس نے ان سے سماع کیا ہے۔

    سعد بن عبداللہ العشری القمی المقالات الفراق ص 20 پر کہتا ہے۔۔

السبئية أصحاب عبد الله بن سبأ، وهو عبد الله بن وهب الراسبي الهمداني، وساعده على ذلك عبد الله بن خرسي وابن اسود وهما من أجل أصحابه، وكان أول من أظهر الطعن على أبي بكر وعمر وعثمان والصحابة وتبرأ منهم

*استدلال:*

اہل تشیع  کے اہم ترین متقدمین  شیعہ عالم سعد بن عبداللہ قمی (متوفی 301ھجری) کا دوٹوک اقرار

1: السبائیہ جو کہ عبداللہ بن سبا کے اصحاب تھے۔ عبداللہ بن وہب الھمدانی ، عبداللہ بن حرس اور ابن اسود  اس کے ساتھیوں میں سے تھے اور مدد کرتے تھے۔

2: سب سے پہلے سبائیہ نے اعلانیہ ابو بکر عمر و عثمان اور صحابہ پر تبرا کیا اور ان سے بیزاری کا اعلان کیا۔

 3: سب سے پہلے سبائیہ نے امامت علی کا ماننا فرض کیا اور اعلانیہ ان کے دشمنوں سے بیزاری کی اور انہیں کافر قرار دیا جو آج کے شیعوں کے دین و ایمان کا حصہ ہے۔

 آگے آپ نے الٹی گنگا بہانے کی کوشش کی ہے۔

شیعہ مناظررانا سعید  کا اشکال: اہل سنت بزرگان اصحاب علی میں شامل نہ تھے!

آپ نے اعتراض وارد کیا ہے کہ میرے جملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اہل سنت بزرگان اصحاب علی میں شامل نہ تھے، ان کا حضرت علی سے کوئی واسطہ نہ تھا وغیرہ وغیرہ

⬅️ اصل میں جس کے ذہن میں سبائی عقائد رچ بس گئے ہوں، اسے سادہ باتیں بھی سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔

پہلی بات وہ دور صحابہ کرام کا دور تھا، اکثریت صحابہ کرام کی تھی نہ کہ وہ ایک دوسرے کے صحابی تھے۔۔۔ باقی جو بعد میں سچے دل سے اسلام لائے وہ تابعین میں شامل ہوئے، حضرت علی کے اصحاب میں تابعین اور ساتھیوں میں کئی جلیل القدر صحابہ کرام  بھی شامل تھے۔ 

آپ لفظوں سے من پسند مفہوم نکال کر حقائق بدل نہیں سکتے۔ابن سبا کا فتنہ حضرت عثمان غنی کے دور سے شروع ہوا تھا، حضرت علی کے دور میں صحابی رسول اور تابعین دونوں  موجود تھے، جن اصحاب علی کی بات ہورہی ہے وہ تابعین تھے، ابن سبا ان میں شامل ہوکر سازشوں میں مصروف ہوگیا تھا، مکہ و مدینہ میں صحابی رسول کی اکثریت تھی اس لئے اس کی دال نہیں گلی، پھر اس نے مصر بصرہ اور کوفہ کے خفیہ دورے کئے اور اپنے شاطرانہ ذہن اور عالمانہ قابلیت سے کئی عقائد کی شروعات کردی۔ اسی کا اعتراف میں نے  اپنی دلیل میں علامہ کشی، نوبختی اور آج سعد بن عبداللہ قمی سے بھی دکھا دیا ہے۔

 بالفرض   آپ کی یہ تاویل مان لی جائے تو پھر بعد میں آنے والے شیعہ علماء نے وہ مکمل چار لفظ لکھنے کے بجائے ان میں کمی کیوں کردی پورے پیراگراف میں  سے  صرف شروعاتی چار الفاظ بھاری لگے ؟  

یہ بھی آپ نے خوب کہا ہے کہ بعض تو بعض ہوتے ہیں چاہے اہل علم ہوں یا نہ ہوں!

یہ وہی بات ہوگئی کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے سچی ہو یا جھوٹی !

⬅️ آپ  اہل علم اور جاہلوں کا فرق بھی نہیں جانتے! کمال ہوگیا۔  اگر کوئی عالم  بعض لکھ کر کوئی بات کہے اور کوئی بعض اہل علم کہہ کر کوئی بات کہے تو دونوں کی باتیں ایک جیسی قرار دے رہے ہیں۔۔۔ مطلب ان دونوں جملوں میں کوئی فرق آپ کو نظر نہیں آتا؟

رہی بات سند کی تو اس کی ضرورت روایات اور واقعات میں پڑتی ہے، مؤقف اور نظریات اہل علم لوگوں کے ہوتے ہیں اور اہل علم ہی بیان کرتے ہیں، اور وہی اہل علم بیان کرتے ہوئے دوسرے اہل علم کا ذکر بھی یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ بعض اہل علم نے بیان کیا ہے کہ الخ

*ذکر کرنے والے بھی اہل علم جو ان کا ذکر بیان کر رہے ہیں  وہ خود بھی اہل علم*

بعض اہل علم کے الفاظ کہہ کر جاہل لوگوں کے نظریے کی گنجائش ہی ختم کردی  گئی ہے، مجہول لوگ بھی خارج۔۔۔ !!اگر کوئی ثقہ عالم چند صحیح روایات نقل کر کے اہل علم کی رائے  اس کے ساتھ بیان کردے تو اس کا انکار کرنا دیگر اہل علم کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

آپ کوشش کر کے دیکھیں۔ اوپر کچھ آپشنز بھی دے چکا ہوں۔

  میرا دعویٰ من و عن وہی ہے جو تین متقدمین شیعہ علماء نے بیان کیا ہے۔ ذاتی استدلال تو ہرگز نہیں ہے۔ یہ اعتراف بھی ان علماء نے اسی جگہ بیان کیا گیا ہے جہاں تین صحیح روایات میں عبداللہ ابن سبا کا ذکر کیا گیا ہے۔ آپ تینوں روایات کو ان اعترافات سے الگ تھلگ نہیں کرسکتے کیونکہ اوپر نیچے ہر جگہ مکمل عبداللہ ابن سبا کا نام لکھ کر وہ حقائق بیان کئے گئے ہیں۔

رانا سعید شیعہ کا اعلان! آپ کے دعوے میں موجود  اپنے عقائد کا  اپنے ائمہ کی زبانی  اثبات کروں گا!

مجھے اس کا انتظار رہے گا۔  

  اللہ کے بندے۔۔۔ نوبختی نے فرق الشیعہ نامی کتاب لکھی ہی شیعہ فرقوں پر ہے۔

 یہ العلویہ شیعہ اگر واقعی دور سیدنا علی میں موجود تھے تو انہیں صحیح روایات سے ثابت کردیں۔

دوسری بات یہ کہ اہل سنت دلائل میں نوبختی اور دیگر شیعہ علماء کے اقوال صحیح روایات کے ذیل میں ثابت کر کے ، آپ پر حجت قائم کی گئی ہے۔

 فرقہ العلویہ کی اس تفصیل میں جو کچھ نوبختی نے بیان کیا ہے اس کی صداقت کہاں ہے؟ کیا کوئی ایک صحیح روایت اس فرقے کو ثابت کرنے کے لئے بیان ہوئی ہے؟ مجھے تو نظر نہیں آئی۔۔۔ آپ نشاندہی کردیں۔ مجھ سے علماء کے اعترافات کی سند مانگ رہے ہیں اور یہاں نوبختی براہ راست دور نبویﷺ اور دور علی کے واقعات بیان کر رہا ہے؟ ان واقعات کی اطلاع نوبختی کو کس ذریعہ سے ملی؟ کیا یہاں بھی بعض اہل علم نے انہیں یہ حقائق بتائے تھے؟

 یہ پوری تفصیل نوبختی براہ راست بغیر کسی معتبر ذریعے کے بیان کر رہا ہے۔ پھر تو اس کی پوری کتاب فرق الشیعہ کو صحیح کا درجہ دے دینا چاہئے۔۔کیا خیال ہے؟

  ذریعہ؟ سند؟

کوئی ایک صحیح روایت ہی پیش کردیں۔

⬅️ دیکھیں شرائط میں واضح لکھا ہے کہ آپ میرے دلائل کا رد مسلمہ اصولوں کے مطابق کریں گے، جب میں تین صحیح روایات اور انہی کے ذیل میں اعترافات شیعہ علماء سے استدلال پیش کرتا آ رہا ہوں تو آپ کو بھی کم از کم ایک صحیح روایت کے ساتھ اقوال علماء تو ضرور پیش کرنے چاہئیں۔

ورنہ اس طرح تو ابن سبا پر کئی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ آنکھ بند کر کے ہر کسی پر یقین کیسے کر لیا جائے۔ آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔

ہر عالم بہت کچھ کہتا ہے۔ اس کی صرف وہی بات تسلیم کی جاتی ہے جو صحیح روایات کے مطابق ہو، دیگر متعارض روایات موجود نہ ہوں۔ اگر عالم ایسی بات کہے جس کے خلاف ایک بھی صحیح روایت موجود ہو تو اس قول کو تسلیم کرنا اہل علم کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔

آپ میرے دلائل کا اسی طرح رد کرسکتے ہیں۔

 میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ ایک عالم جو چاہے کہے وہ تائید یافتہ عقیدہ بن جاتا ہے۔ میری کوئی بات سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لیا کریں۔

⬅️ قاتلین عثمان کے حوالے سے کس سُنی عالم نے صحیح روایت نقل کر کے کوئی اعتراف بیان کیا ہے؟ اصل نکتہ ہی یہ ہے سرکار۔۔۔ آپ خود جو الزام لگارہے ہو اسی الزام میں میری سچائی بھی لکھ دی ہے۔ میرے مطالبے کو لکھ دیا لیکن سمجھنے سے قاصر ہیں۔

اس گفتگو میں صحیح روایات کا مطالبہ اسی لئے کر رہا تھا کہ صرف عالم کا قول قابل حجت نہیں ہوتا ، صحیح روایات کا ہونا بھی ضروری ہے۔ فیس بک پر گفتگو کرتے ہوئے  میں نے قاتلین عثمان پر صحیح روایات اور کئی قرائن پیش کر کے اپنا مؤقف ثابت کیا تھا۔ آپ کی طرح ذاتی تاویلات ہرگز پیش نہیں کی تھیں۔

رانا سعید شیعہ کے تحقیقی جوابات کے بجائے الزامی جوابات (علامہ ابن اثیر)

 آپ مجھے اس پیج پر علامہ ابن اثیر کی طرف سے کسی صحیح روایت کو بنیاد بناکر یہ مؤقف ثابت کر کے دیں۔  

میرے دلائل دیکھیں اور اپنے الزامی جواب کی لیول دیکھیں۔ میں کچھ کہوں گا تو ناراض ہوجائیں گے۔

رانا سعید شیعہ کے تحقیقی جوابات کے بجائے الزامی جوابات (علامہ ابن حجر)




آپ مجھے اس پیج پر علامہ ابن حجر کی طرف کسی صحیح روایت کو بنیاد بناکر یہ مؤقف ثابت کر کے دکھائیں۔

  میرے دلائل دیکھیں اور اپنے الزامی جواب کی لیول دیکھیں۔

  آپ مجھے اس پیج پر علامہ ابن اثیر کی طرف سے کسی ایک صحیح روایت کو بنیاد بناکر یہ مؤقف ثابت کر کے دکھادیں۔  میرے دلائل دیکھیں اور اپنے الزامی جواب کی لیول دیکھیں۔ علامہ کشی، نوبختی اور سعد بن عبداللہ نے بے بنیاد باتیں نہیں لکھیں۔ بلکہ پہلے صحیح روایات نقل کی ہیں۔ پھر مستند مؤقف کو اہل علم کے ذکر سے شروع کر کے بیان کیا ہے۔

کیا کوئی جیّد معتبر عالم کسی ایک مجہول یا کذاب کی خبر بیان کرتے ہوئے یہ لکھ سکتا ہے کہ مجھے کچھ اہل علم شخصیات نے بتایا ہے کہ الخ ۔۔۔۔۔

کوئی عام کم درجے کا عالم بھی اس طرح بیان نہیں کرے گا۔۔۔ اور آپ متقدمین علماء کے لئے یہ تاویل کر رہے ہیں۔ اللہ اکبر

جب ایک غیر معروف عالم کسی ایک کذاب کی خبر اس طرح بیان نہیں کرسکتا تو علامہ کشی بمعہ اصول اربعہ میں شامل دو کتب کے مصنف طوسی جب رجال کشی پر تحقیق کر کے اختیار معرفتہ الرجال تصنیف کرتا ہے تو اس میں کئی کذاب لوگوں کو بعض اہل علم کہہ کر کیسے ان کے نظریات بیان کر سکتا ہے؟

بس رہے نام اللہ کا!

  شیعہ کی تین صحیح روایات کے مقابل تین اہل سنت کی صحیح روایات بطور الزامی جواب بھی پیش نہیں کرسکے عالم صاحب۔۔۔آپ کے تمام جوابات کا شافی کافی رد کرچکا ہوں۔ممکن ہو تو  میرے پوچھے گئے نکات کو کلیئر کردیں۔مجھ سے کوئی جواب طلب نکتہ پوچھنا ہو تو نمبر ڈال کر پوچھ سکتے ہیں۔ذاتی تاویلات کے بجائے کوئی علمی رد آیا تو جواب دوں گا۔۔۔ بصورت دیگر میں اپنے دعویٰ کے حق میں مزید دلائل  پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ۔

  گفتگو میں جو بے جا مداخلت شیعہ مناظر  رانا صاحب نے کی اور جو جوابات  دئے۔۔۔ ان پر کوئی کمنٹ نہیں کر رہا ہوں۔ میرا ٹرن مکمل ہوچکا۔ شیعہ مناظر کو ایڈمن بنایا جائے تاکہ اپنے مذہب کا بھرپور دفاع کر سکیں۔

  رانا محمد سعید شیعہ : ساری طویل گفتگو دجل و فریب اور مکر و خیانت کا پلندہ ہے ۔ جس کا مختصر جواب ہے۔

  سبحان اللہ اپنی ہی گفتگو میں اپنے ہی اصولوں میں واضح ترین تضادات ، موصوف اسی کتاب کے بلاسند اقوال کو ہم پر حجت پیش کر رہے ہیں جب اسی کتاب کے اقوال کو ہم بطور دلیل ان کے خلاف پیش کر رہے  ہیں تو کہتے ہیں صحیح سند کے ساتھ لاؤ۔  جبکہ ہمارا بھی تو یہی مطالبہ ہے کہ محترم

*جس قول کی بنیاد پر آپ نے دعوے کی عمارت کھڑی کر رکھی ہے اس قول کی کوئی سند تو لاؤ ، کشی سے اصحاب علی تک، نوبختی سے اصحاب علی تک ، اور اشعری قمی سے اصحاب علی تک ۔ کوئی ایک سند لاؤ کہ کس سند سے اصحاب علی کا یہ قول کشی تک ، نوبختی تک اور اشعری قمی تک پہنچا ہے۔*

  علامہ کشی کی تینوں روایات کو زبردستی موضوع کے ساتھ جوڑنے کی کوشش جاری رکھتے ہوئے  دوبارہ انہی کا ذکر جبکہ ان روایات میں دعویٰ کے اندر مذکور پانچوں عقائد میں سے ایک بھی عقیدہ مذکور نہیں ہے ۔ نتیجتا یہ تینوں روایات خارج از موضوع ہیں   اور ان پر گفتگو سوائے ممبران کو تکلیف دینے اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ بھی نہیں۔

اصل محور علامہ کشی کا نقل کردہ وہ بلا سند قول ہے جسے مکاری کے ذریعے ان کا نظریہ اور سابقہ روایات کی وضاحت بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس قول کی سند مل جائے اور ان بعض اہل علم افراد کا تعین ہو جائے تو گفتگو آگے بڑھے گی ۔ ورنہ شرائط کے مطابق دعویٰ پر کوئی دلیل نہیں دی گئی اب تک ۔

اہل سنت کی طرف سے شیعہ اشکال 2  کا رد اور شیعہ مناظر کی ذاتی تاویل  

صرف  دس الفاظ میں رد!

رانا محمد سعید شیعہ :   فضول خودساختہ اصول اور اس پر ایک خود ساختہ نظریہ ۔

اہل سنت کی طرف سے شیعہ اشکال 3  کا رد اور شیعہ مناظر کی ذاتی تاویل!



  فضول خود ساختہ اصول اور منگھڑت استدلال ، مؤرخ کیلئے لازم نہیں کہ وہ تاریخی اقوال کو نقل کر کے ان کا رد یا اثبات کرے ورنہ اسکا نظریہ اور اسکی تائید شامل حال ہوگی ۔ یہ آپ کا خود ساختہ اصول ہے اور حقائق کے برعکس ہے۔



 

  کشی کی تینوں روایات کا دعوے سے کوئی تعلق نہیں ۔ اسماء الرجال کی کتب میں کسی شخص کے بارے میں  جو بھی دستیاب اقوال ہوں وہ نقل کرنا الگ بات ہے اور کسی کے بارے  میں اپنی رائے دیکر اسکی تضعیف و توثیق کرنا ایک الگ بات ہے۔ آپ یہاں خیانت در خیانت کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ کشی جتنا بھی ثقہ ہو  ان کے کسی قول کو نقل کر دینا ان کا نظریہ یا تائید قرار نہیں دی جا سکتی جبکہ اسکی کوئی اصل اور سند ہی نا ہو ۔ وہ بھی عقائد کی بنیاد ثابت کرنے کیلئے اللہ اللہ ۔   قارئین غور فرمائیں ۔ شیخ نجاشی نے شیخ کشی کی منہج کتاب پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ شیخ کشی کسی راوی کی توثیق یا تضعیف کی بات نہیں کرتے ، وہ راوی کا ذکر کرتے ہیں اور اسکی بیان کردہ روایات ذکر کرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ وہ *وہ باتیں ذکر کرتے ہیں جو اس راوی کے باری کہی گئیں۔

* ⬅️ بات واضح ہے کہ شیخ کشی نے یہاں کسی کی روایت کی تائید یا نفی یا کسی کے بارے میں  کسی قسم کی تائید یا نفی میں کتاب نہیں لکھی نا ان کا یہ منہج تھا۔  ان کا منہج اس راوی کی مرویات چاہے ثقات سے ہو یا ضعفاء سے انہوں نے جو ملا نقل کر دیا، نا راوی کی توثیق کی بات کی، نا کسی راوی کے بارے اپنا نظریہ لکھا ،نا ہی کسی عقیدے کی تائید یا تردید کی ۔ *تو الحمد للہ اس سے ہمارا موقف مضبوط ہوا کہ علامہ کشی نے یہ اپنا قول نہیں لکھا ، نا ہی اس مجہول قول کی تائید کی بلکہ ان تک کسی راوی کے بارے میں جو پہنچا ،چاہے وہ بات ثقہ اور ثبت تھی یا ضعیف و مجہول انہوں نے نقل کر دی*۔