واجب الاتباع مذہب کے بیان میں
امام ابنِ تیمیہؒواجب الاتباع مذہب کے بیان میں
دوسری فصل :....کون سا مذہب واجب الاتباع ہے؟
شیعہ مصنف ابن المطہر نے جو مضمون ذکر کیا ہے اس میں کہا ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد لوگوں کا آپس میں اختلاف ہوا؛ تو حق پر غور کرنا اور عدل وانصاف سے کام لینا واجب ہو گیا تھا۔ امامیہ کا مذہب چار وجوہات کی بنا پر واجب الاتباع ہے۔اس لیے کہ یہی مذہب حق پر ہے ۔ اورسب سے سچا مذہب ہے ۔ کیونکہ اصول عقائد میں ان کا مسلک تمام اسلامی فرقوں سے جداگانہ نوعیت کا حامل ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ اپنی نجات اخروی کا کامل یقین رکھتے ہیں ۔ ان کا دین ائمہ معصومین سے ماخوذ ہے۔شیعہ مصنف کے یہی الفاظ ہیں :
رافضی کہتا ہے:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد مصیبت عام ہوگئی اور لوگ اختلاف کا شکار ہوگئے ؛ان کی خواہشات نفس کے مطابق ان کے فرقے بھی متعدد ہوگئے۔[[ امامیہ کے علاوہ دیگر فرقے مختلف الخیال ہیں اور ان کے طرز فکرو نظر میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، چنانچہ درج ذیل افکار و آراء سے اہل سنت کے تغایر و تخالف کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے]]:
۱۔اہل سنت میں سے بعض لوگ بلا استحقاق امارت و خلافت کے طلب گار تھے۔ اور اکثر لوگ محض دنیا طلبی کے نقطہ خیال سے ان کے پیرو بن گئے تھے۔ مثلاً عمر بن سعد بن مالک[جوکہ کچھ عرصہ کے لیے بلاد رے کا حاکم رہ چکا تھا] [مالک کی کنیت ابو وقاص تھی، یہ مشہور صحابی فاتح عراق حضرت سعد رضی اللہ عنہ یکے از عشرہ مبشرہ کے والد تھے۔] ؛کو جب یہ اختیار دیا گیا کہ اگر چاہے تو امام حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہو اور اگر چاہے تو جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لے؛ تو اس نے لڑنا پسند کیا۔ حالانکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل جہنمی ہیں ۔ چنانچہ وہ خود کہتا ہے:
(۱) فَوَ اللّٰہِ مَا اَدْرِیْ وَانِّیْ لَصَادِقٌ، اُفَکِّرُ فِیْ اَمْرِیْ عَلٰی خَطَرَیْنِ
’’اللہ کی قسم! میں سچ کہتا ہوں کہ میں دو خطرات کے بارے میں سوچ بچار کر رہا ہوں اور مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
(۲) اَاَتْرُکُ مُلْکَ الرَّیِّ وَالرَّیُّ مُنْیَتِیْ ، اَوْ اُصْبِحُ مَا ثُوْمًا بِقَتْلِ حُسَیْنِ
’’آیا میں رے کی سلطنت چھوڑ دوں حالانکہ یہ میری دلی تمنا ہے یا قتل حسین کے گناہ کا مرتکب ٹھہروں ۔‘‘
(۳) وَفِیْ قَتْلِہِ النَّارُ الَّتِیْ لَیْسَ دُوْنَہَا، حِجَابٌ وَّلِیْ فِی الرَّیِّ قُرَّۃُ عَیْنِیْ
’’سیدنا حسین کے قتل کی سزا وہ آگ ہے جس میں کوئی پردہ حائل نہیں اور رے کی حکومت میرے لیے فرحت و سرور کی موجب ہے۔‘‘
۲۔ بعض اہل سنت شبہات کا شکار ہو کر دنیا دار لوگوں کے پیچھے چلنے لگے تھے۔ کوتاہ بینی کی بنا پر انہیں حق تک رسائی حاصل نہ ہو سکی، اور اللہ تعالیٰ کی گرفت کے مستوجب ٹھہرے۔اس لیے کہ انہوں نے غور وفکر نہ کرکے یہ حق غیر مستحق کے سپرد کردیا تھا۔
۳۔ بعض لوگ کوتاہ فہمی کی بنا پر مقلد محض ہوکر رہ گئے اور لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر یہ سمجھے کہ شاید کثرت افراد حق و صداقت کی علامت ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انہی کی بیعت کر بیٹھے اور اس آیت کو یکسر نظر انداز کر دیا:
﴿ وَقَلِیْلٌ مَّا ہُمْ ﴾
’’وہ (حق پرست) کم ہی ہوتے ہیں ۔‘‘(ص۲۴)
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ [سباء۱۳]
’’’ اور میرے بندوں میں سے بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہیں ۔‘‘
۴۔ بعض لوگ حق کی بنا پر امارت و خلافت کے طالب تھے، چنانچہ قلیل التعداد بااخلاص مسلمانوں کی ایک جماعت نے جنھیں دنیوی زیب و زینت سے کچھ سرور کار نہ تھا؛ اور جنہیں اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی ہر گزکوئی پرواہ نہیں تھی۔بلکہ انہوں نے اخلاص کیساتھ ان کی اطاعت کا اقرار کر لیا جو تقدیم کے مستحق تھے ؛اور ان کے اوامر و احکام کی اطاعت کرنے لگے۔ جب مسلمان اس آزمائش کا شکار ہوئے ؛توہر ایک پر واجب ہوتا تھا کہ وہ حق میں غور وفکر کریں ۔اور انصاف کا سہارا لیں ۔اور حق کو اس کی جگہ پر رکھا جائے اور مستحق پر ظلم نہ کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ہود:۱۸)
’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔‘‘
ان وجوہات کی بنا پر امامیہ کا مذہب واجب الاتباع ٹھہرا۔‘‘[شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا]۔
[شیعہ مصنف کے نظریات پر رد:]
ان سے کہاجائے گا کہ: شیعہ مصنف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کو چار فرقوں میں تقسیم کیا ہے، حالانکہ یہ صریح قسم کی دروغ بیانی ہے۔ اس لیے کہ معروف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک فرد و احد بھی ان اقسام چہار گانہ سے وابستہ نہ تھا۔ چہ جائے کہ صحابہ میں ان چہار اقسام کے علاوہ کوئی اور قسم بھی نہ ہو۔
بلا استحقاق طالب خلافت سے شیعہ مصنف کے زعم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حق کی بنا پر طالب خلافت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ یہ دونوں کے حق میں صاف جھوٹ ہے۔اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے قبل کبھی اپنے لیے خلافت و امارت کا مطالبہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کبھی خلافت و امارت کا مطالبہ کیا؛ چہ جائے کہ وہ ناحق اس پر قبضہ کرلیتے۔
باقی ماندہ دو قسموں میں سے پہلی قسم کے وہ لوگ شمار کئے ہیں جو طلب دنیا کے لیے دوسروں کی تقلید کا دم بھرتے تھے۔ اور دوسرے وہ جو کوتاہ بینی کے پیش نظر دوسروں کے پیرو تھے۔
حق کی معرفت حاصل کر کے اس کی پیروی کرنا انسان کا فرض ہے۔ یہی وہ صراط مستقیم ہے ‘جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپناانعام کیا۔ان میں انبیاء کرام علیہم السلام ؛ صدیقین ؛ شہداء اور صالحین شمار ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کاراستہ نہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کا راستہ جو راہ ِ حق سے گمراہ ہوئے اور اس راہ سے بھٹک گئے جس راہ کی طرف ہدایت ملنے کی دعا ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں ۔ صحیح سند کیساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہودوہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا۔ اور عیسائی گمراہ ہیں ۔ یہود نے حق کو پہچانا مگر اس کی اتباع نہ کی ۔‘‘[سننِ التِرمِذِیِ 4؍271، ؛ کتاب تفسِیرِ القرآنِ، باب: ومِن سورِۃ فاتِحۃِ الکِتابِ؛ فِی المسندِ ط. الحلبِی 4؍378 ؛ وذکرہ الطبرِی فِی تفسِیرِ قولِہِ تعالی: غیرِ المغضوبِ علیہِم ولا الضالِین؛ وذکر رِوایات أخری، وقد خرجہا الشیخ أحمد شاکِر رحِمہ اللہ؛ وصحح ثرہا۔]
ترک اتباع کا سبب حسد و کبر؛ غلو اور خواہشات نفس کی پیروی تھی؛ اس لئے وہ مورد غضب الٰہی ہوئے۔ نصاریٰ حق کی معرفت حاصل نہ کر سکے ۔ وہ جو کچھ اخلاقیات ‘عبادات اور زہد کرتے ہیں ‘ اس کے بارے میں انہیں کوئی علم نہیں ۔بلکہ ان میں جہالت ؛ غلو‘ بدعات؛ اور شرک پایاجاتا ہے۔ اس لیے وہ جادہ مستقیم سے بھٹک گئے۔اگرچہ ان دونوں امتوں میں سرکشی اور بغاوت کا عنصر پایا جاتا ہے ؛ تاہم یہود میں یہ عنصر زیادہ غالب ہے۔ اورگمراہی نصاری پر غالب ہے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی صفات میں سے حسد و تکبر ؛ اتباع ہوی ؛ سرکشی؛ فساد اور زمین پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں کو شمار کیا ہے ۔ فرمایا:
﴿اَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُمْ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ ﴾
’’لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا۔‘‘[بقرہ ۸۷]
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ﴾ [النساء۵۴]
’’یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے۔‘‘
مزید اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِہَا وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا وَّ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا﴾ [الأعراف۱۴۶]
’’میں ایسے لوگوں کو اپنے احکام سے برگشتہ ہی رکھوں گا جو دنیا میں تکبر کرتے ہیں ، جس کا ان کو کوئی حق نہیں اور اگر تمام نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اس کو اپنا طریقہ نہ بنائیں اور اگر گمراہی کا راستے دیکھ لیں تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَ قَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا﴾[الإسراء۴]
’’ہم نے بنو اسرائیل کے لئے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے۔‘‘
جب کہ اللہ تعالیٰ نے نصاری کوگمراہی؛ شرک ؛ غلو اور بدعات سے موصوف کیا ہے ۔ ارشاد فرمایا:
﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ۳۱]
’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایااور مریم کے بیٹے مسیح کو؛ حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ﴾ [المائدۃ ۷]
’’تم پر اللہ کی جونعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد رکھو اور اس کے اس عہد کو بھی جس کا تم سے معاہدہ ہوا ہے جبکہ تم نے کہا: ہم نے سنا اور مانا اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالی دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَّرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوْہَامَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ اِِلَّا ابْتِغَائَ رِضْوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ﴾ [الحدید]
’’ ہاں رہبانیت (ترک دنیا)تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا مگر اللہ کی رضا جوئی کے۔سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔‘‘
یہ موضوع کئی ایک مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گمراہی و سرکشی سے مبرا ومنزہ قرار دیا ہے ۔ ارشاد فرمایا:
﴿وَالنجم اِِذَا ہَوٰی oمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی oوَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی ﴾
[النجم۱۔۳]
’’قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے ! کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔‘‘
گمراہ وہ ہوتا ہے جو حق کو نہ پہچانتا ہو۔اور غاوی وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرے۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاذْکُرْ عِبَادَنَا اِبْرَاہِیْمَ وَاِِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ اُوْلِی الْاَیْدِیْ وَالْاَبْصَارِ ﴾ [ص ۴۵]
’’ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کا بھی لوگوں سے ذکر کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے۔‘‘
یہاں پر ہاتھوں سے مراداللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قوت ہے‘اور ابصار سے مراد دین میں بصیرت ہے ۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالْعَصْرِ oاِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ [العصر]
’’زمانے کی قسم! بے شک انسان یقینی گھاٹے میں ہے۔ مگر وہ لوگ نہیں جو ایمان لائے اورنیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی۔‘‘
پس اتباع ِ صراط ِمستقیم کے لیے حق بات کا علم ہونا اوراس پر عمل کرنا ضروری تھا۔ یہ دونوں چیزیں واجب ہیں ۔ کوئی بھی انسان ان دو امور کے بجا لائے کے بغیر کامیاب اورنجات پانے والے نہیں ہوسکتا ۔
[یہ حقیقت ہے کہ ]امت محمدی خیر الامم ہے۔ اور اس کے بہترین لوگ پہلی صدی کے لوگ ہیں ۔ پہلی صدی کے لوگ علم نافع اور عمل صالح کے اعتبار سے اکمل ترین لوگ تھے۔
جب کہ یہ [رافضی] جھوٹے انہیں اس کے برعکس صفات سے موصوف کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ ہی حق بات جانتے تھے اور نہ ہی اس کی پیروی کرتے تھے۔ بلکہ ان کے نزدیک اکثر صحابہ حق بات جانتے ہوئے بھی اس کی مخالفت کرتے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم ؛ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم ؛ اور باقی امت میں سے بہت سارے لوگ حق بات نہیں جانتے تھے۔بلکہ وہ اپنی جہالت اور غور وفکر نہ کرنے کی بنا پر ظالمین کی پیروی کرتے تھے۔ جو انسان غور و فکر نہیں کرتا اس کا سبب کبھی خواہشات نفس کی پیروی اور دنیا طلبی ہوتی ہے۔ اور کبھی کوتاہ فہمی اورنقص ادراک کی وجہ سے۔
شیعہ کا دعوی ہے کہ : ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو حق کی بنیاد پر خلافت کے طلبگار تھے۔اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ بات ہمیں اضطراری طورپر معلوم ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ان کے اس قول کی روشنی میں لازم آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ساری کی ساری امت گمراہ ہوچکی ہو‘اور ان میں سے کوئی ایک بھی ہدایت یافتہ نہ ہو۔ توپھر یہودو نصاری نسخ و تبدیل کے بعد بھی ان سے بہتر ٹھہرے۔ اس لیے کہ ان میں ایسے لوگ تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ﴾ [الأعراف ۱۵۹]
’’اور قوم موسی میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتی ہے ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی تھی کہ:
’’ یہودی اورعیسائی ستر سے زیادہ فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ [اوریہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی]؛ ان میں سے ایک فرقہ جنتی ہوگا۔‘‘ [سننِ أبِی داود 4؍276 ؛ کتاب السنۃِ، باب شرحِ السنۃِ؛ سننِ التِرمِذِیِ 4؍134 ؛ کتاب الإِیمانِ باب افتِراقِ ہذِہِ الأمۃِ ؛ سنن ابن ماجہ 2؍1321؛ کتاب الفتن باب افتِراقِ الأمۃِ : وقال المحقِق: وإِسنادہ صحِیح 3؍120 ۔]
شیعہ کے قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعداس امت کا کوئی بھی گروہ عدل و انصاف اور حق پر قائم نہیں رہا ۔
جب خیر القرون میں ایسے لوگ موجود نہیں تھے ‘ تو بعد کے ادوار میں بالاولی نہیں ہوں گے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ یہودونصاری نسخ اور تبدیلی واقع ہونے کے بعد بھی اس بہترین امت سے بہتر ہوں جنہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے نکالا گیا ہے ۔ یہ ان کے اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ ہے جو کچھ شیعہ کہتے ہیں ۔ اگر یہ حکایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد کی ہے کہ امت میں اتنا اختلاف واقع ہوگیا تھا؛توپھر ان باقی سارے احوال کا کیا عالم ہوگا جن سے استدلال کیا جارہا ہے ۔ اس حکایت میں جتنے بھی جھوٹ ہیں ‘ ہم ان کا پول کھول کر رکھ دیں گے۔