Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب

  امام ابنِ تیمیہؒ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب

حضرت حسن بن عمارہ رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے ؛ وہ حکیم سے اوروہ مقسم سے وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں :حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لیے یہ جانتے ہوئے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا ہے کہ وہ باہم لڑا کریں گے۔‘‘[الشریعۃ للآجری(۱۹۷۹۔۱۹۸۰) السنۃ لابن ابی عاصم(۱۰۰۳)]

حضرت عروہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرمایاکرتی تھیں :

’’ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا گیا تھا، مگر لوگوں نے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب التفسیر۔ باب فی تفسیر آیات متفرقۃ(حدیث:۳۰۲۲)۔ ]

صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی نہ دو؛ اللہ کی قسم ! اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[بخاری ۔باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لو کنت متخذا خلیلاً‘‘(ح:۳۶۷۳) صحیح مسلم۔ باب تحریم سب الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم (ح: ۲۵۴۱)۔مسلِم 4؍1967 ۔ 1968 (کتاب فضائِلِ الصحابۃِ، باب تحرِیمِ سبِ الصحابۃِ; سننِ أبِی داود 4؍297 ؛ ِکتاب السنۃِ، باب فِی النہیِ عن سبِ أصحابِ رسولِ اللّٰہِ ۔ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سننِ التِرمِذِیِ 5؍357 کِتاب المناقِبِ، باب فِی من سب أصحاب النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المسندِ ط. الحلبِیِ 3؍11 ؛ 54 ؛ سنن ابن ماجہ 1؍57؛ المقدِمۃ ، باب فضلِ أہلِ بدر۔]

صحیح مسلم میں یہی روایت بعینہٖ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ [صحیح مسلم۔حوالہ سابق۔ حدیث :۲۵۴۰) ]

نیز صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا :

’’کچھ لوگ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں سوء ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔‘‘ تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواباً فرمایا:

’’اس میں حیرت و تعجب کی کون سی بات ہے۔ دارفانی سے کوچ کرنے کے باعث ان کے نیک اعمال کا سلسلہ بند ہو گیا تھا اللہ تعالیٰ کریم نے چاہا کہ ان کے اجرو ثواب کا سلسلہ بند نہ ہو۔‘‘[الشریعۃ للآجری(۱۹۹۹) من طریق ہشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ]

ابن بطہ رحمہ اللہ نے صحیح اسناد سے عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے ‘ وہ فرماتے ہیں : مجھ سے میرے والد نے حدیث بیان کی ؛ وہ کہتے ہیں : مجھ سے معاویہ نے حدیث بیان کی ؛ ان سے رجاء نے ؛ وہ مجاہد سے روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا نہ کہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے لیے استغفار کرنے کاحکم دیا ہے ‘ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ آپس میں لڑیں گے۔ ‘‘[یہ حدیث صحیح مسلم کے بعض نسخوں میں ہے۔ مصنف ابن ابی شیبۃ(۱۲؍۱۷۸)، سنن ابن ماجۃ۔ المقدمۃ۔ باب فضل اھل بدر، (حدیث: ۱۶۲)۔]

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہمافرمایا کرتے تھے: ’’ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے احتراز کیجئے؛ اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ایک گھڑی کی رفاقت و صحبت تمہارے چالیس سالہ اعمال سے افضل ہے۔‘‘

اور حضرت وکیع رحمہ اللہ کی روایت میں ہے:’’ تمہاری ساری زندگی کی عبادت سے بہتر ہے ۔‘‘

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاoوَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا oوَعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِیْرَۃً تَاْخُذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ ہٰذِہٖ وَکَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ وَلِتَکُوْنَ اٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَیَہْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیْمًا oوَاُخْرَی لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہَا قَدْ اَحَاطَ اللّٰہُ بِہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرًا ﴾ (الفتح:۱۸۔۲۱)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، جو کچھ ان کے دلوں میں تھا اس نے معلوم کر لیا ان پر اطمینان و سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح سے نوازا۔اور بہت سی غنائم جنہیں وہ حاصل کریں گے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔اللہ تعالی نے تم سے بہت ساری غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کروگے۔ پس یہ تمہیں جلدی ہی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے تاکہ مومنوں کے لئے یہ ایک نشانی ہو جائے، تاکہ وہ تمہیں سیدھی راہ چلائے ۔اور تمہیں اور (غنیمتیں ) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا اللہ تعالی نے انہیں قابو کر رکھا ہے اور اللہ تعالی ہرچیز پر قادر ہے۔‘‘ [مذکورہ بالا آیت اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبی اسرار کو معلوم کر کے ان سے رضا مندی کا اظہار فرمایا ہے۔ درخت کے نیچے بیعت کرنے والے صحابہ کی تعداد ۱۴۰۰ تھی۔ پھر انہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں حصہ لیا۔ بیعت رضوان سے اس وقت تک مسلمان ہنوز بیعت رضوان میں شرکت کرنے والے صحابہ کے بارے میں : ’’ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْن ‘‘ کی شہادت الٰہی پر قانع چلے آرہے ہیں ۔صحیح مسلم میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی آگ میں نہیں جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم ۔ باب فضائل اصحاب الشجرۃ، (ح۲۴۹۶)۔]

جن لوگوں نے جبل تنعیم کے پاس حدیبیہ کے مقام پر[ ببول کے] درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ؛ ان کی تعداد چودہ سو سے زیادہ تھی۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواور آپ کے صحابہ کو عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ پھر مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کرلی ؛ جسے صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے ۔ یہ ذو القعدہ سن چھ ہجری کا واقعہ ہے۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن سات ہجری کی شروع میں غزوہ خیبر کیا ؛ جس میں اللہ تعالیٰ نے فتح و نصرت سے نوازا۔ آپ نے یہ مال غنیمت اپنے صحابہ میں تقسیم کیا ؛ اور حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والے اعرابیوں میں سے کسی کو اس میں سے کچھ بھی حصہ نہیں دیا ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿سَیَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِِذَا انطَلَقْتُمْ اِِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوہَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّبَدِّلُوْا کَلَامَ اللّٰہِ قُلْ لَنْ تَتَّبِعُوْنَا کَذٰلِکُمْ قَالَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلُ فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا بَلْ کَانُوْا لَا یَفْقَہُوْنَ اِِلَّا قَلِیْلًا ﴾ [الفتح ۱۵]

’’ جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے کلام کو بدل دیں آپ فرما دیجئے!کہ اللہ تعالی ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں )بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (اصل بات یہ ہے ) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں ۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر خبر دی ہے کہ اللہ ان صحابہ پر راضی ہوگیا۔ اور ان کے دلوں کاحال جان لیا ؛ اور عنقریب انہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔ یہی وہ بڑے بڑے سرکردہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ مسلمانوں میں کوئی ایک بھی دوسرا ایسا نہیں تھا جسے آپ پر مقدم کیا جاتا ۔ بلکہ تمام کے تمام مسلمان آپ کی فضیلت سے بخوبی آگاہ تھے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فضیلت کو قرآن میں بیان کیا ہے ‘ ارشاد فرمایا :

﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی ﴾ [الحدید۱۰]

’’ تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ خرچ کیا اور قتال کیا ہے وہ (دوسروں کے)برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں ان لوگوں کی نسبت جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے،ہاں ان سب سے اللہ تعالیٰ کی طرف بھلائی کا وعدہ ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں فتح سے پہلے جہاد کرنے والوں اور اس کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت کا اعلان کیا ہے ۔ یہاں پر فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیبیہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ : کیا یہ فتح ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ ہاں ۔‘‘ [سنن أبي داؤد ۳؍۱۰۱۔]

اہل علم جانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے بارے میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی تھیں :

﴿اِِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا oلِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا oوَّیَنْصُرَکَ اللّٰہُ نَصْرًا عَزِیْزًا﴾ [الفتح ۱۔۳]

’’بیشک ہم نے آپ کو ایک کھلم کھلا فتح دی ہے۔تاکہ آپ کی سابقہ اور آئندہ لغزشیں ؛ سب کو اللہ تعالی معاف فرمائے اور آپ پر اپنا احسان پورا کر دے اور آپ کو سیدھی راہ چلائے۔اور آپ کو ایک زبردست مدد دے۔‘‘

جب یہ آیات نازل ہوئیں تو اہل ایمان عرض گزار ہوئے : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو آپ کے لیے ہوا؛ ہمارے لیے کیا ہے ؟ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِِیْمَانًا مَّعَ اِِیْمَانِہِمْ﴾ [الفتح ۴]

’’وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ ایمان میں اور بڑھ جائیں ۔‘‘

یہ آیت فتح سے پہلے خرچ کرنے والوں کی فتح کے بعد خرچ کرنے والوں پر فضیلت کے باب میں ایک نص کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں :

﴿ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ﴾ (التوبۃ ۱۰۰)

’’اور جو مہاجرین اور انصارمیں سے سابق اور مقدم ہیں ....۔‘‘

سابقین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حدیبیہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لیا ۔ بیعت رضوان والے تمام چودہ سو لوگ اس میں شامل ہیں ۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ : سابقین اولین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی ۔ یہ قول ضعیف ہے۔اس لیے کہ فقط منسوخ قبلہ کی طرف نماز میں کوئی فضیلت نہیں ۔ اس لیے کہ قبلہ کا منسوخ ہونا ان لوگوں کا اپنا فعل نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں فضیلت دی جائے۔ نیز یہ کہ دونوں قبلوں کی طرف رخ کرکے نمازپڑھنے کی فضیلت پر کوئی حدیث [یا آیت ] دلالت نہیں کرتی؛ جیسا کہ انفاق فی سبیل اللہ میں سبقت ؛ جہاد اور بیعت رضوان کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ لیکن اس میں ان لوگوں کی بعد میں آنے والوں پر فضیلت ہے جو ایمان لانے میں سبقت لے گئے اور اس موقع کو پالیا ۔ جیسے پانچ نمازیں فرض ہونے سے پہلے مسلمان ہونے والوں کو بعد میں مسلمان ہونے والوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ایسے ہی جو لوگ حضر میں نماز کی چار رکعت ہونے سے قبل اسلام لائے ؛ انہیں بعد میں اسلام لانے والوں پر فضیلت حاصل ہے۔اور وہ جو لوگ جہاد کی اجازت ملنے سے پہلے ؛ یا فرض ہونے سے پہلے اسلام لائے ؛ انہیں فرضیت جہاد کے بعد اسلام لانے والوں پر فضیلت حاصل ہے۔ ایسے ہی جو لوگ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے اسلام لائے ؛ انہیں بعد میں اسلام لانے والوں پر سبقت حاصل ہے۔ ایسے ہی حج کی فرضیت سے پہلے مسلمان ہونے والوں کو بعد میں مسلمان ہونے والوں پر سبقت حاصل ہے ۔ شراب حرام ہونے سے پہلے اسلام لانے والوں کو بعد میں اسلام لانے والوں پر سبقت حاصل ہے۔ یہی حال سود کی حرمت کا ہے۔

اسلام کے احکام آہستہ آہستہ نازل ہوتے رہے ۔ ہر وہ انسان جو کسی حکم کے نازل ہونے سے پہلے اسلام لے آیا ؛ اسے اس حکم کے نزول کے بعد مسلمان ہونے والوں پر سبقت حاصل ہے۔ اس میں اس کی ایک گونہ فضیلت ہے۔ پس جو لوگ قبلہ منسوخ ہونے سے پہلے اسلام لے آئے ؛ انہیں بعد میں مسلمان ہونے والوں پر فضیلت اسی باب میں حاصل ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی وجہ سے سابقین اولین بعد میں آنے والوں سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہوں ۔ اس لیے کہ ان بعض احکام میں کوئی ایسا سبب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں دوسروں سے بہتر قرار دیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن و سنت اہل حدیبیہ کی تقدیم پر دلالت کرتے ہیں ۔ پس واجب ہوتا ہے کہ اس آیت کی ایسی تفسیر کی جائے جو باقی تمام نصوص کے موافق ہو۔

یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے کہ ان سابقین اولین میں [حضرات صحابہ کرام] ابو بکر ‘ عمر ‘ عثمان‘ علی ‘ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم شامل تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیکر اس پر بیعت کی ۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے پاس بطور سفیر بھیجا تھا؛ اس لیے آپ اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ آپ ہی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لی۔ اس لیے کہ آپ کو خبر ملی تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( لَا یَدْخُلُ اَحَدٌ مِّمَّنْ بَایَعَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ النَّارَ )) [مسلم۔ باب من فضائل اصحاب الشجرۃ (ح: ۲۴۹۶)، سنن ابی داؤد۔ باب فی الخلفاء( ح:۴۶۵۳) ۔]

’’درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی شخص آگ میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ اِنَّہٗ بِہِمْ رَؤُو فٌ رَّحِیْمٌ ﴾ (التوبۃ: ۱۱۷)

’’اللہ تعالی نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی۔ بلاشبہ اللہ تعالی ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین جمع کیا ہے ‘ ارشاد فرمایا :

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ ....إلی قولہ تعالیٰ.... وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ٭ وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓئِکَ مِنْکُمٌ﴾[الأنفال ۷۲۔۷۵]

’’جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ....آگے یہاں تک فرمایا....:وہ لوگ جنہوں نے پناہ دی اور مددکی؛یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔ پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہی ہیں ....۔‘‘

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کے مابین موالات و دوستی کو ثابت کیا ہے ۔ نیز ارشاد فرمایا:

﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَO....إلی أن قال....:اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَOوَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (المائدہ:۵۱۔۵۶)

’’اے ایمان والو!تم یہود و نصاری کو دوست نہ بنا ؤ؛ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا.... یہاں تک کہ فرمایا....(مسلمانو!)تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع(خشوع و خضوع)کرنے والے ہیں ۔اور جو شخص اللہ تعالی سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالی کی جماعت ہی غالب رہے گی۔‘‘

دوسری جگہ ارشاد ہوا:﴿ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ﴾ (التوبہ:۷۱)

مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں ۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین دوستی کو ثابت کیا ہے ‘اور ان سے دوستی لگانے کا حکم دیا گیا ہے، مگر روافض اس کے برعکس ان سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ؛ ان سے دوستی نہیں کرتے۔دوستی کی اصل تو محبت پر قائم ہوتی ہے ۔ اور دشمنی کی اصل بغض و نفرت پر ہوتی ہے۔ رافضی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں محبت نہیں کرتے۔

بعض جہلاء نے اپنی طرف سے یہ قول گھڑ لیا ہے کہ درج ذیل آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب آپ نے نماز میں اپنی انگوٹھی بطور صدقہ ادا کردی۔[[ تب یہ آیت اتری، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿ اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رَاکِعُوْنَ ﴾ (المائدہ:۵۵)

’’جو نمازوں کی پابندی کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔‘‘]]

محدثین کے ہاں باتفاق اہل علم یہ روایت سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ کئی ایک وجوہات کی بنا پر اس کا جھوٹ کھل کر ظاہر ہوتا ہے :

[پہلی وجہ: یہ طرز استدلال سراسر غلط ہے، جسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ] آیت میں ’’الذین‘‘جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک تھے۔ مزید برآں ’’ وَہُمْ رَاکِعُوْنَ ‘‘میں واؤ حالیہ نہیں ۔ اگر واؤ کو حالیہ قرار دیا جائے تو زکوٰۃ کا حالت رکوع میں ادا کرنا ایک ضروری امر ہوگا۔توپھر صرف اس سے محبت و دوستی رکھی جائے جو حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرے۔اس کے علاوہ باقی تمام صحابہ اور اہل بیت سے دوستی نہ کی جائے۔

مزید برآں کسی کی مدح امر واجب یا مستحب کی بنا پر کی جاتی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ حالت نماز میں زکوٰۃ ادا کرنا بالاتفاق واجب ہے نہ مستحب۔اس پر تمام اہل ملت کا اتفاق ہے۔

[دوسری وجہ]: .... نیز یہ کہ نماز میں ایک طرح کی مشغولیت ہوتی ہے، [اورنماز میں زکوٰۃ کی ادائیگی اس کی منافی ہے] ۔ مزید برآں کہ اگر نماز میں ہی زکوٰۃ ادا کرنا کوئی مستحسن فعل ہوتا تو پھر رکوع او رقیام یا سجدہ کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔ بلکہ حالت قعود یا قیام میں زکوٰۃ ادا کرنا زیادہ آسان ہوتا۔

[تیسری وجہ]:.... اس پر طرہ یہ کہ عہد نبوی میں سرے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر زکوٰۃ ہی فرض نہ تھی۔

یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں انگوٹھیاں نہیں تھیں اور نہ ہی وہ انگوٹھیاں پہنا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری ایران کو خط لکھا توآپ سے کہا گیا کہ وہ لوگ کوئی خط اس وقت تک نہیں لیتے جب تک اس پر مہر نہ لگی ہو۔ چنانچہ آپ نے اس وقت چاندی کی انگوٹھی بنوائی ؛ اور اس پر محمد رسول اللہ کا نقش کندہ کروایا۔

[چوتھی وجہ]:.... [اس کی حدیہ ہے کہ آپ کے پاس انگوٹھی بھی نہ تھی]۔نیزیہ کہ اگر آپ انگوٹھی کے علاوہ کسی چیز سے زکوٰۃادا کرتے تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔[ بفرض محال اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ کے پاس انگوٹھی موجود تھی ؛ تو آخر یہ انگوٹھی دے کر کس مال کی زکوٰۃ ادا کی گئی؟]اس لئے کہ اکثر فقہاء زکوٰۃ میں انگوٹھی دینے کو کافی خیال نہیں کرتے ۔

[پانچویں وجہ]:.... شیعہ کی کتب حدیث میں تحریر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ انگوٹھی ایک سائل کو دی تھی۔ زکوٰۃ میں مدح کا پہلو صرف یہ ہے کہ فوری طور پر بلاتا خیر ادا کی جائے کسی سائل کے سوال کا انتظار نہ کیا جائے ۔

[چھٹی وجہ]:.... یہ آیت کفار کے ساتھ دوستی کے سیاق میں چل رہی ہے۔جس میں [کفار کی دوستی ترک کر کے ] مؤمنین کے ساتھ دوستی لگانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جیساکہ اس پر سیاق کلام دلالت کررہا ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔

رافضیوں کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی دلیل سے استدلال کرتے ہیں ‘ وہ الٹا ان کے گلے میں پڑ جاتی ہے۔ جیسا کہ اس آیت سے انہوں نے ولایت پر استدلال کیا ہے ؛جس سے مراد وہ امارت لیتے ہیں ۔ یہاں پر ولایت سے مقصود امارت [حکومت ] نہیں ‘ بلکہ اس سے دوستی مراد ہے جو کہ دشمنی کی ضد ہے ۔ رافضی بالکل اس کے برعکس چلتے ہیں ۔

اسماعیلیہ ‘ نصیریہ اور اس طرح کے دیگر فرقے یہود و نصاری اور مشرکین و منافقین کفار کے ساتھ محبت اور دوستی رکھتے ہیں ۔ اور مہاجرین و انصار اور تابعین اور ان کے بعد آنے والے مسلمانوں سے دشمنی اور بغض رکھتے ہیں ۔