Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....بقول روافض اہل یمامہ مرتد نہ تھے

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....بقول روافض اہل یمامہ مرتد نہ تھے

[اعتراض]:شیعہ مصنف کہتا ہے کہ ’’ بنو حنیفہ نے چونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ نہ دی تھی۔ اس لیے انھیں مرتدین کا نام دیا۔‘‘

[جواب ]: یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بنو حنیفہ کے خلاف اس لیے صف آراء ہوئے تھے کہ انھوں نے مسیلمہ کذاب کو نبی تسلیم کیا تھا،اور اس کے نبی ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ باقی رہے مانعین زکوٰۃ تو وہ بنو حنیفہ نہ تھے، بلکہ دیگر قبائل تھے۔ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ لڑنے میں بعض صحابہ کو شبہ لاحق ہوا تھا ۔ البتہ بنو حنیفہ کے خلاف جنگ آزما ہونے میں سب صحابہ یک زبان تھے اور کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا تھا۔جب کہ مانعین زکاۃ کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :اے خلیفہ ء رسول اللہ ! آپ ان لوگوں سے جہاد کس طرح کریں گے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ میں حکم دیا گیا ہوں کہ لوگوں سے جنگ کروں ، یہاں تک کہ وہ گواہی دین کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔جب وہ اس کلمہ کا اقرار کرلیں تومجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو بجز اس کے حق کے بچا لیں گے؛ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : کیا یہ نہیں فرمایا :’’ اس کے حق کے ساتھ‘‘ بیشک زکوٰۃ اسلام کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر ان لوگوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دیا کرتے تھے، تو میں اس کے نہ دینے والوں سے جنگ کروں گا۔‘‘ [صحیح بخاری:ح۲۱۶۰؛ ۹؍۹۳ ؛ کتاب الاعتصام ؛ باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ مسلم ۱؍ ۵۱؛ کتاب الإیمان ؛ باب الأمر بقتال الناس حتي یقولوا لا إلہ إلا اللّٰہ ؛ سنن النسائی ۵؍۱۰ ؛ کتاب الزکاۃ ؛ باب مانع الزکاۃ۔]

ان لوگوں سے اس وجہ سے قتال نہیں کیا گیا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃادا نہیں کرتے تھے۔کیونکہ اگر یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے زکوٰۃ ادا کرتے ‘ اور خود فقراء و مساکین میں تقسیم کردیتے تو ان کے خلاف جنگ نہ لڑی جاتی۔یہی جمہور علماء کرام کا قول ہے جیسے کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؛ امام احمد رحمہم اللہ وغیرہ ۔

ان کا کہنا ہے : اگر کوئی یہ کہے کہ: ہم اپنی زکوٰۃ حکمران کو نہیں دیں گے ‘ بلکہ اپنے ہاتھوں سے تقسیم کریں گے۔توان کے خلاف لڑنا جائز نہیں ۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کسی ایک سے بھی اپنی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے جنگ نہیں کی۔ اور نہ ہی کسی ایک پر اپنی بیعت کو لازم ٹھہرایا ۔ اسی لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کی بیعت کرنے سے پیچھے رہے ‘ مگر آپ نے انہیں بیعت کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا ۔

٭ شیعہ کا یہ کہنا کہ : ’’ بنو حنیفہ نے چونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ نہ دی تھی؛ اور آپ کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس لیے انھیں مرتدین کا نام دیا۔‘‘

٭ جواب : ہم کہتے ہیں : یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔اسی طرح یہ دعوی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بنو حنیفہ سے جنگ کا انکار کیا ۔صاف دروغ گوئی پر مبنی ہے ۔ [جیسا کہ ابھی سطور بالا میں واضح کیا ]۔ 

[دوبارہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کا جواب ]

[اعتراض]: شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’جن لوگوں نے مسلمانوں کو مباح الدم قرار دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوئے، اہل سنت ان کو مرتد نہیں کہتے، حالانکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا ہوا ہے :

((یَا عَلِیُّ حَرْبِیْ حَرْبُکَ وَ سَلْمِیْ سَلْمُکَ۔))

’’ اے علی تیری جنگ میری جنگ ہے ‘ اور تیری صلح میری صلح ہے ۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والا بالاتفاق کافر ہے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جواب]: یہ دعوی کرنا اہل سنت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سن رکھی تھی ؛محض کذب ودروغ ہے ۔ کس نے یہ بات نقل کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہوئی تھی؟حدیث کی کتب معروفہ میں موجود نہیں اس کی کوئی سند معروف نہیں اور یہ جھوٹی اور موضوع حدیث ہے۔ اگر تسلیم کرلیا جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایسا فرمایا بھی تھا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ سب نے سنا ہو۔ اس لیے کہ جو کچھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے ‘ تمام لوگ اسے نہیں سنا کرتے تھے[بلکہ وہ صحابہ جو موقع پر موجود ہوتے ‘ وہی سنا کرتے تھے]۔ تو پھر اس وقت کیا کیفیت ہوگی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی ہی نہ ہو۔ اور نہ ہی وہ معروف اسناد کیساتھ منقول ہو۔ بلکہ اس پر مستزاد کہ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑی گئی ہے۔ اور اس پر تمام اہل علم و محدثین کا اتفاق ہے۔ 

علاوہ ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل و صفین سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بنا پر نہیں لڑی تھی بلکہ اپنے اجتہاد کی بنا پر لڑی تھی۔امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں حضرت قیس بن عباد سے نقل کیا ہے ‘وہ کہتے ہیں : میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ جنگ لڑنے کا عہد لیا تھا یا آپ اپنی مرضی سے جنگ کر رہے ہیں ؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم نہیں بلکہ میری رائے پر مبنی ہے۔‘‘[مسند احمد(۱؍۱۱۴) و فضائل الصحابۃ لامام احمد (۴۴۷)، والسنۃ لعبد اللہ بن احمد (۱۳۲۷)۔قیس بن عباد اصحاب علی رضی اللہ عنہ سے ہیں ، ان سے روایت کردہ احادیث بخاری، مسلم، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ میں موجود ہیں ۔یہ حضرت حسن بصری کے استاد تھے۔]

اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے والا محارب رسول اور دین اسلام سے مرتد ہوتا تو آپ ان جنگ آزماؤں سے مرتدین جیسا سلوک کرتے۔ بلکہ بروایات متواترہ آپ سے منقول ہے کہ آپ نے جنگ جمل میں کسی بھاگنے والے کا تعاقب کیا نہ کسی زخمی کو قتل کیا ان کے مال کو مال غنیمت قرار دیا نہ ان کے بچوں کو قیدی بنایا ۔ آپ نے منادی کرنے والے کو حکم دیا کہ وہ لشکر میں اعلان کرے کہ : بھاگنے والا کاپیچھا نہ کیا جائے ۔زخمی کو قتل نہ کیا جائے ‘ اور ان کے اموال کو غنیمت نہ بنایا جائے۔ اگر یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک مرتد ہوتے تو آپ ان کے زخمیوں کو قتل کرتے ‘ اور بھاگنے والوں کا پیچھا کرتے ۔

خوارج نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف یہی اعتراض اٹھایا تھا۔ خوارج نے کہا:’’اگر آپ کے مخالفین مومن ہیں ، تو آپ ان کے خلاف جنگ آزما کیوں ہوئے؟ اور اگر کافر ہیں تو ان کی عورتیں اور مال کیوں کر حرام ٹھہرا۔‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج سے مناظرہ کرنے کے لیے اپنے چچا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خوارج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

’’مخالفین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ، اگر تم کہو کہ وہ تمہاری ماں نہیں تو تم نے قرآن کو جھٹلایا اوراگر یہ کہو کہ وہ ہماری ماں ہیں اور تم ان کو قید کرنے اور ان سے مجامعت کرنے کو حلال قرار دو تو تم کافر ٹھہرے۔‘‘[مسند احمد(۱؍۸۶۔۸۷) بمعناہ، طبقات ابن سعد(۳؍۳۲)، معجم کبیر طبرانی (۱۰؍ ۳۱۴) مجمع الزوائد(۶؍۲۳۹)، تاریخ الاسلام للذہبی(عہد الخلفاء: ،ص:۵۸۸۔۵۹۰)]

حضرت علی رضی اللہ عنہ اصحاب جمل کے بارے میں فرمایا کرتے تھے:

’’وہ ہمارے بھائی ہیں ، مگر انھوں نے ہمارے خلاف بغاوت کر دی، اور تلوار نے ان کو گناہوں سے پاک کردیا۔‘‘[سنن کبریٰ بیہقی(۸؍۱۸۲)۔]

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فریقین کے مقتولوں کا جنازہ پڑھایا تھا۔اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو آگے آرہی ہے۔

’’علاوہ ازیں اگر اہل صفین مرتد تھے تو بقول شیعہ امام حسن رضی اللہ عنہ جیسے امام معصوم کے لیے خلافت سے دست برداری اور اسے ایک مرتد کو تفویض کرنا کیوں کر جائز ہوا؟ان کے عقیدہ کے مطابق معصوم نے اسلام کی باگ ڈور ایک مرتد کے سپرد کردی ۔ یہ توکسی عام مسلمان کا کام بھی نہیں ہوسکتا چہ جائے کہ کوئی معصوم ایسی حرکت کرے؟ ‘‘

نیز یہ بھی کہا جائے گا کہ : اگر محض حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی مؤمنین تھے‘ اور ان کے مخالفین مرتد تھے؛ تواس سے لازم آتا ہے کہ کفار اور مرتد ہمیشہ مؤمنین پر غالب رہے ۔جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :

﴿اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ [غافر۵۱]

’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہونگے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فرماتے ہیں :

﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ oاِِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُوْنَ oوَاِِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُوْنَ ﴾ [الصافات۱۷۱۔۱۷۳]

’’اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں ۔بیشک یقیناً ان کی مدد کی جائے گی۔اور بیشک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ۔‘‘

اورایسے ہی اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں ارشاد فرماتے ہیں :

﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [المنافقون ۸]

’’حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اورایمان والوں کے لیے ہے۔‘‘

یہ روافض جن کا دعوی ہے کہ ہم مؤمن ہیں یہ ہمیشہ ذلت اور پستی میں رہے ہیں ۔[فرمان الٰہی ہے]:

﴿ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ

’’ان پر ہر جگہ میں ہمیشہ کے لیے ذلت مسلط کردی گئی ہے ‘ سوائے اس کے کہ یہ لوگوں کا سہارا لیں ۔‘‘ اور کچھ اللہ کی طرف سے انہیں ڈھیل مل جائے۔

[لڑنے والے دونوں فریق مومن ہیں ]:

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ ذیل آیت میں فریقین کو آپس میں جنگ و قتال اور زیادتی کے باوجود مومن قرار دیا ہے؛ ارشاد فرمایا :

﴿وَ اِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا﴾[اہل ایمان سے خطاب کرکے فرمایا کہ: ان کا موقف یہ ہونا چاہئے کہ فریقین جب بھی برسر پیکار ہوں وہ ان کے مابین صلح کرانے کے لیے سعی و جہد کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں ۔ کسی شخص میں اصلاح بین المومنین کا جذبہ جس حد تک بھی موجزن ہو گا وہ اس قدر صادق الایمان ہوگا اور وہ اتنا ہی زیادہ روح اسلام اور اس کے غایات و مقاصد سے قریب تر ہوگا۔ اور وہ جس قدر متنازع فریقین کے مابین شقاق و نفاق کا آرزو مند ہوگا، اسی قدر ضعیف الایمان اور روح ایمان سے بعید تر ہو گا۔ مختلف مذاہب و ادیان کے لوگ اس کتاب کا مطالعہ کریں گے ۔ غیر مسلم قاری جب جملہ اختلافی مباحث کے بارے میں اہل سنت و شیعہ کے رجحانات و میلانات کا موازنہ کرے گا تو وہ یہ دیکھ کر حیران ہوگا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے برادران کرام صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں شیعہ کی ہر ممکن کوشش ہو گی کہ وہ شدت وحدت اور الحاح و اصرار سے ان کو بڑھاتا اور پھیلاتا چلا جائے ۔ اس کے عین برعکس اہل سنت اس امر میں کوشاں ہوں گے کہ حکمت و دانش اور رفق و انصاف کو کام میں لاکر فریقین کے درمیان کوئی عذر شرعی تلاش کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ دونوں فریق حق سے دور نہیں ۔ نیز یہ کہ یہ واقعات خارجی عوامل و اسباب کے تحت وقوع پذیر ہوئے۔ جن میں سب سے بڑا مؤثر اہل فتنہ کا وجود نا مسعود ہے۔ اہل سنت ہمیشہ اتحاد و یگانگت اور موافقت و مطابقت کا پہلو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مومن خالص اور زیر تبصرہ آیت کا(] (الحجرات:۹)

’’اگر مومنوں کے دو گروہ لڑپڑیں تو ان دونوں کے ما بین صلح کرادیجیے۔‘‘

صحیح حدیث میں یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا :

مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی کے وقت ایک فرقہ کا ظہور ہوگا ‘ اور ان دو گروہوں میں سے ان کو وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے ۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۳۵؛ سنن ابو داؤد ۳؍۳۰۰]

سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میرا یہ بیٹا(حضرت حسن رضی اللہ عنہ ) سردار ہے۔ اللہتعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے مابین صلح کرائے گا۔‘‘[اصلی مخاطب تصور کرتے ہیں جب کہ شیعہ اپنے آپ کو اس آیت کا مخاطب تسلیم نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ حضرت ابوبکر و عمر اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی راہ پر گامزن نہیں ،جو مسلک محمدی کے سالک تھے۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اہل سنت صالحین کے وارث ہیں اور شیعہ ان اہل فتنہ کی یاد گار ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شریک تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ شیعہ آج تک اسی ڈگر پر گامزن ہیں اور فتنہ پردازی کے پرانے طریق کار کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ یہ وہی بات ہے جو عبد اﷲ بن مصعب بن زبیر نے خلیفہ ہارون الرشید کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہی تھی۔ حضرت عبد اﷲ بن مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا:’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جن لوگوں نے اعتراضات کیے تھے وہ شیعہ خارجی اور اہل بدعت تھے اور جن لوگوں نے آپ کی حمایت کی تھی وہ وہی لوگ تھے جن کو آج کل اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔‘‘خلیفہ ہارون الرشید نے غوروفکر کے بعد اس بات کو درست پایا اور کہا:’’ اس کے بعد مجھے یہ مسئلہ دریافت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔‘‘  صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۷۰۴)۔]

نیز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا : ’’ اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘

یہ نہیں فرمایا کہ : ’’تجھے کافروں کاگروہ قتل کرے گا ۔‘‘[یہ حدیث پہلے کئی مقامات پر گزر چکی ہے ]

یہ احادیث مبارکہ اہل علم کے ہاں صحیح ہیں ‘ اور متعدد اسناد سے روایت کی گئی ہیں ۔ان میں سے کوئی حدیث بھی دوسری روایت سے تعارض نہیں رکھتی۔ان احادیث کے مضمون سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں متفرق گروہ مسلمان ہوں گے اور اس انسان کی مدح کی ہے جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ ان دونوں کے مابین صلح کرائے گا۔ اور یہ بھی خبر دی کہ اسلام سے ایک گروہ نکلے گا ‘ اور انہیں ان دوجماعتوں میں سے وہ لوگ قتل کریں گے جو حق کے زیادہ قریب ہوں گے۔پھر اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نواصب(اللہ ان کو رسوا کرے) شیعہ سے کہیں کہ:

’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو مباح الدم قرار دیا اور حصول اقتدار کے لیے جنگ لڑی، حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الایمان ، باب خوف المؤمن من ان یحبط عملہ، (ح: ۴۸) ،صحیح مسلم۔ کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سباب المسلم فسوق....‘‘(حدیث:۶۴)]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’ میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرتے پھرو۔‘‘[صحیح بخاری،کتاب العلم، باب الانصات للعلماء(ح:۱۲۱،۷۰۸۰) صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان معنی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ لا ترجعوا بعدی کفاراً ‘‘ (ح:۶۵،۶۶)]

تو اس حدیث کی رو سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کافر ٹھہرے ۔تمہاری[شیعہ کی ] دلیل نواصب کی دلیل سے زیادہ قوی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ نواصب نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے ‘ وہ صحیح روایات ہیں ۔ ایسے ہی نواصب [روافض سے ] یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ : کسی نفس کو قتل کرنا زمین میں فساد پھیلانا ہے۔ اور جو کوئی اپنی اطاعت منوانے کے لیے لوگوں کو قتل کرے وہ بلند مرتبہ کی تلاش میں زمین میں فساد پھیلانے والا ہے ۔ یہی حال فرعون کا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾ (القصص۸۳)

’’ یہ آخرت کا گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔‘‘

جوکوئی زمین میں فساد و سرکشی پھیلائے وہ آخرت میں اہل سعادت میں سے نہیں ہوسکتا۔یا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین سے قتال کی طرح نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر قتل کیا تھا؛ نہ کہ اپنی اطاعت پر۔ اس لیے کہ زکوٰۃ ان پر فرض تھی۔تو آپ نے ان سے اس کا اقرار کروانے اور ادا کروانے کے لیے قتال کیا۔بخلاف اس کے جو صرف اس وجہ سے قتال کرے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ ‘ امام احمد اور دوسرے علماء کرام رحمہم اللہ نے فرمایا ہے :

’’ جو انسان یہ کہے کہ :’’ میں زکوٰۃ ادا کرتا ہوں ‘ مگر حاکم وقت کو نہیں دوں گا[بلکہ خود اپنے ہاتھ سے کسی کو دوں گا] تو امام کے لیے اس کے خلاف جنگ کرنا جائز نہیں۔[اس مسئلہ کی مزید تفصیل منہاج السنہ میں یوں نقل کی گئی ہے ]]:واضح رہے کہ فقہائے حنفیہ ، شافعیہ اور حنابلہ کی ایک جماعت نے مانعین زکوٰۃ اور خوارج سے لڑنے کو باغیوں کے خلاف جہاد و قتال قرار دیا ہے ۔ ان کے نزدیک جمل و صفین کی لڑائیاں بھی اس میں شامل ہیں ۔ یہ قول مبنی بر خطا اور امام ابوحنیفہ، مالک، احمد اور دیگر اسلاف کی تصریحات نیز سنت نبوی کے بھی خلاف ہے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے لڑنے کا حکم دیا تھا اور سب صحابہ اس میں یک زبان تھے۔ البتہ جمل و صفین کی لڑائی قتال فتنہ تھی ؛ باغیوں کے خلاف جنگ نہ تھی۔ اس کے بارے میں آپ نے کوئی حکم دیا نہ اس پر اجماع صحابہ قائم ہوا۔ علاوہ ازیں اہل صفین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑائی کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔[اس ضمن میں حضرات صحابہ تین فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ اس لیے اجماع منعقد نہ ہوسکا۔ ایک فریق تو حضرت علی کا معاون تھا اور دوسرا حضرت معاویہ کا۔ تیسرا فرقہ جس کے سرخیل عبد اﷲ بن عمر بن خطاب تھے، اسے فتنہ قرار دیتے اور اس سے کنارہ کش تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب تحکیم کے واقعہ میں عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کی پیش کش کی گئی تو آپ نے معذرت فرمائی۔ ان امور میں صحابہ کا اجماع منعقد نہیں ہوا تھا۔‘‘] امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر علماء باغیوں سے اس وقت لڑنے کی اجازت دیتے ہیں جب وہ حاکم وقت کے خلاف لڑائی کا آغاز کردیں ۔ امام ابوحنیفہ، مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نزدیک خلیفہ ان لوگوںسے لڑنے کا مجاز نہیں جو شرعی واجبات ادا کرتے ہوں مگر یہ کہیں کہ ہم فلاں شخص کو زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ بنا بریں قتال مرتدین اور خوارج کے خلاف جہاد و قتال کے مابین فرق و امتیاز ضروری ہے۔ البتہ مانعین زکوٰۃ جب زکوٰۃ بالکل ادا نہ کریں اور اس کی فرضیت کے بھی قائل نہ ہوں تو ان کے خلاف صف آراء ہونا خوارج کے مقابلہ میں لڑنے سے زیادہ ضروری ہے۔مزید براں قرآن کریم میں باغیوں کی جس لڑائی کا ذکر کیا گیا ہے وہ سابقاً ذکر کردہ دونوں لڑائیوں سے(]

یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں فقہاء کے مابین اختلاف و نزاع ہے ۔پس جو لوگ حکمران کی اطاعت ترک کرنے پر قتال کو جائز قرار دیتے ہیں ‘ وہ اس جنگ کو بھی جائز کہتے ہیں ۔ یہ فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے ‘اور امام شافعی سے بھی منقول ہے۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ترک کے علاوہ کسی چیز پر قتال کو جائز نہیں سمجھتے ‘ اور نہ ہی کسی متعین شخص [حاکم] کی اطاعت ترک کرنے پر قتال کو جائز سمجھتے ہیں ‘ وہ ان لوگوں سے قتال کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔

پس جملہ طور پر خلاصہء کلام یہ ہے کہ : جن لوگوں سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ‘ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے رکے ہوئے تھے اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کو نہیں مانتے تھے۔اسی وجہ سے وہ مرتد ٹھہرے ۔ بخلاف ان لوگوں کے جو اس کا اقرار کرتے ہیں ؛ لیکن کسی متعین شخص کی اطاعت کو تسلیم نہیں کرتے؛ جیسے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام ۔ اس لیے کہ یہ لوگ ان تمام چیزوں کو مانتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے۔ نماز قائم کرتے تھے ‘ زکوٰۃ ادا کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے : ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت میں داخل ہوئے بغیر بھی واجبات ادا کریں گے۔ ایسا کرنے میں ہمیں ضرر لاحق ہوگا۔ تو پھر کہاں یہ لوگ اور کہاں وہ لوگ ؟ [تو شیعہ اس کے جواب میں نواصب کو کیا کہیں گے؟]

[مانعین زکواۃ اور فقہاء کا مؤقف ]:

یہ جان لینا چاہیے کہ فقہائے کرام جن کا تعلق امام ابو حنیفہ ؛ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے اصحاب سے ہے؛ وہ خوارج اور مانعین زکواۃ سے جنگوں کو باغیوں کے خلاف جنگیں قرار دیتے ہیں ۔ اوروہ جمل اور صفین کو بھی اسی باب سے شمار کرتے ہیں ۔ یہ قول کبار ائمہ اسلام کے قول کے خلاف ہے؛ اورامام مالک ؛ احمد اور ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ سلف رحمہم اللہ سے وارد منصوص کے بھی خلاف ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد سنت کے بھی مخالف ہے۔ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھا؛ اوراس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اتفاق تھا۔ جبکہ جمل اور صفین کی جنگیں فتنہ کی

[بالکل مختلف ہے اور وہ قتال کی تیسری جداگانہ قسم ہے اس لیے کہ اﷲتعالیٰ نے باغیوں سے ابتدائً لڑنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ ان کی اصلاح کا حکم دیا ہے، حالانکہ مرتدین اور خوارج کے بارے میں شرعی حکم اس سے مختلف ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا جنگ جمل و صفین باغیوں کے خلاف لڑی گئیں یا ان کو قتال فتنہ قرار دیا جائے۔ جس میں بیٹھ رہنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے۔ صحابہ میں سے جو لوگ ان میں شریک نہیں ہوئے تھے اور وہ جمہور اہل حدیث ان کو قتال فتنہ ٹھہراتے ہیں ۔ ان کا نقطہ ٔ نگاہ یہ ہے کہ اگر اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کرنے کی بنا پر باغی ہو گئے تھے تو مذکورہ آیت میں ان کے جنگ آزما ہونے کا حکم موجود نہیں اور اگر فرض کیا جائے کہ وہ جنگ کے بعد باغی ہوگئے تھے تو صلح کرانے والا کوئی نہ تھا۔امام ذہبی کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمار والی حدیث میں کہ ’’ تجھے باغی جماعت قتل کرے گی‘‘ ان کو باغی قرار دیا ہے۔ یہ ایسے مباحث ہیں جن کی بنا پر اصحاب معاویہ کی تکفیر ہر گز درست نہیں ۔ ایک مرتبہ ابو موسیٰ منبر پر لوگوں کو یہ حدیث سنا رہے تھے، اسی دوران اشتر نخعی نے چند آدمیوں سمیت دارالامارۃ پر قبضہ کر لیا۔ جب ابو موسیٰ دارالامارۃ کی طرف لوٹے تو اشتر نے یہ کہہ کر داخل ہونے سے روک دیا کہ ’’ ہماری امارت کو چھوڑ دو۔‘‘ ابو موسیٰ فتنہ بازی کی یہ زندگی چھوڑ کر عروض نامی گاؤں میں عزلت گزیں ہو گئے، جب لوگ خون ریزی سے سیر ہو گئے اورانھوں نے محسوس کیا کہ ابو موسیٰ جنگ سے روکنے میں حق بجانب تھے تو انھوں نے حضرت علی سے مطالبہ کیا کہ ابو موسیٰ تحکیم کے معاملہ میں اہل عراق کے نمائندہ ہوں ۔ چنانچہ حضرت ابوموسیٰ کو گوشہ عافیت سے اٹھا کر لایا گیااور آپ نے ایک ناصح کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کیا۔]

جنگیں تھیں ۔ اس بارے میں نہ ہی اللہ اور رسول کا کوئی حکم تھا اور نہ ہی اجماع صحابہ۔ جب کہ مانعین زکواۃ سے جنگ؛ جب کہ وہ بالکل زکواۃ کی ادائیگی یا اس کی فرضیت کو تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہوں ؛ تو یہ خوارج کے ساتھ قتال سے بڑا جہاد ہے۔

اہل صفین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ شروع نہیں کی تھی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر حضرات باغیوں سے قتال کو اس وقت تک جائز نہیں سمجھتے جب تک وہ امام سے برسر پیکار جنگ نہ ہوجائیں ۔ ایسے ہی امام احمد ؛ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ ان لوگوں سے قتال کو جائز نہیں کہتے جو واجب ادا کرتے ہوں ؛ لیکن کسی وجہ سے انکار کررہے ہوں ۔ مثلاً وہ یہ کہیں کہ : ہم فلاں کو زکواۃ نہیں دیتے؛ [بلکہ خود ادا کریں گے]۔تواس صورت میں مرتدین اور خوارج کے درمیان جنگ کے لیے فرق کرنا پڑتا ہے۔ قرآن کریم میں مذکور باغیوں سے جنگ ایک تیسری قسم ہے؛ جو کہ پہلی دونوں اقسام میں سے نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ حکم یہ دیا ہے کہ جب اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کروادو۔ جبکہ مرتدین اور خوارج کا یہ حکم نہیں ہے۔ جب کہ جمل اور صفین کی لڑائیوں کی بابت اختلاف ہے ؛ کیا ان سے جنگ باغیوں کے ساتھ جنگ ہے جس کا حکم قرآن میں دیا گیا ہے۔ یا پھر فتنہ کی جنگ تھی جس میں بیٹھا ہوا انسان کھڑے انسان سے بہتر ہوتا ہے۔ پس اس جنگ سے بیٹھ رہنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ؛ جمہور اہل سنت محدثین ؛ ائمہ فقہاء؛ اور ان کے بعد والے کہتے ہیں : یہ فتنہ کی جنگیں تھیں ۔ یہ باغیوں کی ساتھ جنگ نہیں تھی جس کا حکم قرآن کریم میں دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے باغی اہل ایمان سے ؛ محض ان کی بغاوت کی وجہ سے جنگ کی ابتداء کرنے کا حکم نہیں دیا۔بلکہ حکم یہ دیا ہے کہ جب دو اہل ایمان لڑ پڑیں تو ان کے مابین صلح کرادیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی ﴾ (الحجرات:۹)

’’ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو[ اس سے لڑو]۔‘‘

یہاں پر ضمیر کامرجع اہل ایمان کے وہ دو گروہ ہیں جو آپس میں لڑپڑے ہیں ۔ اس کا مرجع وہ مؤمن گروہ نہیں جو کسی سے لڑا ہی نہیں ۔ تو تقدیر عبارت یوں ہو گی: ﴿ فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَی الطائفتین المؤمنین المقتتلین عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الباغیۃ حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ ﴾ ’’ اگردو متحارب اہل ایمان گروہوں میں سے ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو اس ظلم کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی جانب واپس آجائے۔‘‘

پس جب کوئی گروہ باغی تو ہو مگر وہ لڑ نہ رہا ہو ؛ تو اس آیت میں ان سے جنگ کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں ۔

پھر یہ فرمان الٰہی : ﴿فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی﴾ (الحجرات:۹)

’’ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو ....‘‘اگر اصلاح کے بعد یہ ظلم و زیادتی ہو یہ حکم تاکیدی ہو جاتا ہے۔ اگر جنگ سے بعد میں مقصود حاصل ہوسکتا ہو۔

پس درایں صورت حضرت امیر معاویہ اور ان کے اصحاب نے جنگ سے پہلے زیادتی تو کی کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ لیکن اس آیت کریمہ میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ جو کوئی زیادتی تو کر رہا ہو مگر جنگ نہ کر رہا ہو ؛ اس سے جنگ لڑی جائے۔ اگر ان کی یہ زیادتی لڑائی اور صلح کے بعد ہوتی تو ان سے لڑنا واجب ہوجاتا ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کسی ایک نے بھی ان کے مابین صلح نہیں کروائی ۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وقوع فتنہ کے وقت ارشاد فرمایا تھا: ’’ لوگوں نے اس آیت پر عمل کو ترک کردیا۔‘‘

جب ان کی زیادتی لڑائی کے بعد اور اصلاح سے پہلے تھی۔ تو یہاں سے اس قتل کے جواز کا نقطہ نکالا جاتا ہے۔اور اسی قدر اس جنگ کے دوران ہوا بھی۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی ڈگمگاگئے؛ اور وہ ثابت قدم نہ رہ سکے؛ اسی لیے انہوں نے قرآنی مصاحف بلند کر لیے۔ پس جس حالت میں انہیں جنگ کرنے کا حکم تھا؛ اس میں تو انہوں نے جنگ نہیں کی۔ اور جب انہوں نے جنگ کی ؛ اس وقت وہ اس حکم کے مخاطب نہ تھے۔اگروہ لوگ باغی اور زیادتی کار تھے؛ تو یہ بھی اپنی ذمہ داری میں متساہل اور کوتاہ عمل تھے۔ اسی لیے انہیں عاجزی اورپستی کا سامنا کرنا پڑا؛ او رتفرقہ کا شکار ہوگئے۔ اورامام وقت کو ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم نہیں ہوتا۔

خلاصہ کلام! اس بحث کے انتہائی دقیق امور کو تلاش اور بیان کرنا اہل علم میں سے خاص لوگوں کا کام ہے؛ بخلاف اس کے کہ ان کی تکفیر میں کلام کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایسا معاملہ ہے جس کی خرابی کو کثیر دلائل کی بنا پر خواص اور عوام سبھی جانتے ہیں ۔

جنگ جمل و صفین کی شرعی حیثیت:

٭ شیعہ مصنف کی پیش کردہ حدیث :’’ اے علی تجھ سے لڑائی مجھ سے جنگ آزما ہونے کے مترادف ہے۔‘‘

٭ جواب : اس روایت کاکذب اس بات سے ظاہر ہے کہ اگر حرب علی، حرب رسول ہوتی تو جنگوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کامیابی ناگزیر تھی، اس لیے کہ اللہتعالیٰ انبیاء و رسل کی نصرت و تائید کا کفیل ہے۔اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ [غافر۵۱]

’’یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔‘‘

نیز فرمایا:﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ oاِِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُوْنَ o وَاِِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُوْنَ ﴾ [الصافات۱۷۱۔۱۷۳]

’’اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں ۔بیشک یقیناً ان کی مدد کی جائے گی۔اور بیشک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا ۔‘‘

اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ حدیث صحیح ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعداء ہمیشہ مغلوب ہوتے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔بلکہ خوارج جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کا حکم دیا تھا‘ وہ حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں میں سے بھی تھے ۔ ان کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کونصرت حاصل ہوئی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مرسلین علیہم السلام کے دور میں ان کے مخالفین پر مدد کی جاتی تھی ۔ اگرچہ ان جنگوں میں بہت بڑے امتحان کا بھی سامنا کرنا پڑا ؛ مگر آخر میں اچھا انجام کار مؤمنین کے حق میں ہی ہوتا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ ہوتی تو آخر کار آپ کو فتح و کامرانی ضرور نصیب ہوتی۔حالانکہ ایسا ہوا نہیں ۔ بلکہ آخر میں آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ بندی اور صلح کرنا چاہی ۔اور معاملہ ویسے ہی ہوا جیسے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شروع میں چاہتے تھے۔

اس سے معلوم ہوا کہ :یہ جنگ و قتال ؛ اگرچہ اس کی بنیاد اجتہاد پر تھی ؛ مگر یہ ایسی جنگ بھی نہیں تھی کہ اس جنگ کے لڑنے والوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے والے سمجھ لیا جاتا۔ اور پھر اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے تھے ؛ تو ان محاربین کا حکم راہزنوں کا حکم ہوتاہے ؛ اگر یہ مسلمان ہوں تو انہیں کافر نہیں کہا جاسکتا ۔ اللہتعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں لوگوں کا اختلاف ہے:

﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا ﴾ (المائدۃ ۳۳]

’’ ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں ، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے۔‘‘

کیایہ آیت کفار کے بارے میں ہے یا مسلمانوں کے بارے میں ؟ جو لوگ کہتے ہیں : یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں ہے؛ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کافرمان یہ ہے :

﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَ اَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ﴾ (المائدۃ ۳۳]

’’ ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں ، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں ، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔‘‘

اگر یہ لوگ کفار اور مرتد ہوتے تو صرف ان کے ہاتھ کاٹنے یا ملک بدر کرنے پر اکتفا کرنا جائز نہ ہوتا۔ بل ان کا قتل کرنا واجب ہوتا۔ کیونکہ مرتد کو قتل کرنا واجب ہے۔

ایسے ہی جو کوئی اپنے محاربہ میں متأول اور مجتہد ہو تو وہ کافر نہیں ہوتا۔ جیسے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا اس مسلمان کو تأویل کی بنا پر قتل کرنا؛ اس وجہ سے آپ کافر نہیں ہوئے۔ اور اگر کوئی کسی معصوم مسلمان کے قتل کرنے کو حلال سمجھتا ہو ؛ تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ یہی حال مؤمن کی تکفیر کرنے والے کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’ جب کوئی انسان اپنے بھائی سے کہتا ہے : یا کافر ؛ تو وہ دو باتوں میں سے ایک کے ساتھ لوٹتا ہے۔‘‘[البخاری ۸؍۲۶ ؛ کتاب الأدب باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال ؛ مسلم ۱؍ ۷۹ ؛ کتاب الإیمان باب بیان حال إیمان من لأخیہ مسلم : یا کافر۔ سنن الترمذي ۴؍ ۱۳۲۔]

مگراس کے باوجود اگروہ یہ جملہ تأویل کی بنیاد پر کہے تو وہ کافر نہیں ہوگا؛ جیسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا تھا:

’’مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق اور اس کے ساتھیوں کی گردن اڑا دوں ۔‘‘

اورحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے واقعہ افک میں کہا تھا:

’’ بیشک تم منافق ہو؛ منافقین کی طرف سے جھگڑا کر رہے ہو ۔‘‘