فصل:....بقول شیعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شیطان سے بدتر ؟
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....بقول شیعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ شیطان سے بدتر ؟
[کج فہمي]:شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’ بعض فضلاء نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ:’’ معاویہ رضی اللہ عنہ شیطان سے بدتر تھے، کیونکہ شیطان نے تو کچھ نیکیاں بھی انجام دی تھیں ، اس کے برخلاف معاویہ اعمال صالحہ سے محروم تھے۔ البتہ میدان معصیت میں شیطان کیساتھ تھا ۔ علماء کے ہاں مسلّم ہے کہ ابلیس سب فرشتوں سے زیادہ عبادت کرتا تھا ۔اور اس نے چھ ہزار سال تک تنہا عرش معلیٰ کو اٹھائے رکھا ۔جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوپیدا کیا ‘اور انہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔اور اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا، تویہ تکبر کرکے ملعون ومردود ٹھہرا۔ مگر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام لانے تک مشرک اور صنم پرست رہا‘ یہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح کے ایک لمبے عرصہ بعد اسلام قبول کیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنا بر کبر خلیفہ [امام ]نہ مان کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے تکبر کیا ‘حالانکہ تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی تھی ؛ اور آپ کو مسند خلافت پر بیٹھا دیا تھا؛ لہٰذا وہ ابلیس سے بد تر ٹھہرا۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]
[جواب]: ہم کہتے ہیں کہ یہ کلام جہالت و ضلالت کا آئینہ داراور دین اسلام اور ہر دین سے خروج ہے۔ بلکہ اس عقل سلیم کے بھی منافی ہے جو بہت سارے کفار کو میسر ہوتی ہے۔اس کی وجوہات کسی بھی غور کرنے والے پر مخفی نہیں رہ سکتیں ۔
[پہلی بات] :بلاشبہ ابلیس لعین سب کفار سے بڑاکافر ہے، بلکہ سب کافر اس کے اتباع اور کشتہ ٔ ضلالت ہیں ۔ پس جو کوئی بھی جہنم میں داخل ہوگا ‘ وہ اس کے اتباع کاروں میں سے ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿لَاَمْلَاَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ ﴾ [ص ۸۵]
’’میں ضرور جہنم کو تجھ سے اور ان لوگوں سے بھر دوں گا، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے۔‘‘
شیطان ہر برائی کا حکم دیتا ہے ‘ اور اسے لوگوں کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے ۔ توپھر کوئی شیطان سے بڑھ کر برا کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور پھر خاص کر مسلمانوں میں سے اور خصوصاً صحابہ کرام میں سے ؟
شیعہ کا یہ کہناہے کہ : ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ شیطان سے بدتر تھے، کیوں کہ شیطان نے توکچھ نیکیاں بھی انجام دی تھیں ، اس کے برخلاف معاویہ اعمال صالحہ سے محروم تھے۔ البتہ میدان معصیت میں شیطان کیساتھ تھا ۔‘‘
٭ اس جملے کا تقاضا یہ ہے کہ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے ‘ وہ ابلیس سے بدتر ہو۔اس لیے کہ اس کا اطاعت میں کوئی سابق یا پیشوا نہیں ہوتا ۔اوروہ میدان معصیت میں اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ تو پھر اس بنا پر آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد ابلیس سے بدتر ہوں گے۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے :
’’ تمام کے تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور ان میں سے بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں ۔‘‘ [ترمذی۳؍۷۰ ؛ سبق تخریجہ ]
پھر کیا اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ : ’’ مسلمانوں میں سے جو کوئی گناہ کرے وہ شیطان ابلیس سے بھی بدتر ہوگا؟ کیا اس قول کا باطل اورفاسد ہونا دین اسلام میں اضطراری طور پر معلوم نہیں ہے؟ ایسی بات کا کہنے والایقیناًکافر ہے اس کا کفر دین اسلام میں ضرورت کے تحت معلوم ہے۔
اس قول کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ : شیعہ ہمیشہ گناہ کرتے ہیں ۔توان میں سے ہر ایک ابلیس سے بھی بڑھ کر برا ہوگا؟پھر اگر خوارج کہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گناہ کیا ؛ لہٰذاآپ بھی ابلیس سے برے ہوئے۔‘‘تو روافض کے پاس آپ کی عصمت کے دعوی کی کوئی دلیل نہ ہوگی۔اور نہ ہی شیعہ اس پر قادر ہیں کہ[اپنے اصولوں کے مطابق]خوارج کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان ‘ امامت اور عدالت پر حجت پیش کرسکیں ۔تو پھر آپ کے معصوم ہونے پر حجت کیسے پیش کرسکتے ہیں ؟ ۔ لیکن اہل سنت والجماعت اس پر قادر ہیں کہ آپ کے ایمان اور امامت پر حجت قائم کرسکیں ۔اس لیے کہ رافضی جس چیز سے استدلال کرتے ہیں ان میں بہت سارا تناقض اور تعارض پایا جاتا ہے اس وجہ سے ان سے استدلال کرنا باطل ہوجاتاہے۔ پھر جمہور کے قول پر قرآن کریم سے دلیل بھی قائم ہے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی﴾ [طہ ۱۲۱]
’’ آدم سے اپنے رب کی نافرمانی ہوئی اور راہِ راست سے ہٹ گیا۔‘‘
[اگر اسے شیعہ مسلک کے مطابق لیا جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ] آدم علیہ السلام ابلیس سے بھی برے ہوں ۔ الغرض ان کے اس عقیدہ کی وجہ سے جو برائیاں پیدا ہوتی ہیں ‘ وہ اعداد و شمار سے بڑھ کر ہیں ۔
دوسری بات :....رافضی کا کلام بغیر کسی دلیل کے ہے۔ بلکہ وہ فی نفسہ باطل ہے ۔ تم نے یہ کیوں کہا کہ: شیطان سے بدتر وہ ہے اطاعت میں جس کا کوئی سلف نہ ہو‘ اور میدان معصیت میں اس کے ساتھ ساتھ ہو؟ ۔اس لیے کہ شیطان کاہر میدان معصیت میں مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اور نہ ہی اس کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ انسانوں میں سے کوئی ایک نافرمانی میں ابلیس کے برابر ہو۔ اوروہ لوگوں کو بہکاتا اورگمراہ کرتا ہو۔
ابلیس کی سابقہ اطاعت ؛ اس کے کفر کی وجہ سے ضائع ہوگئی ۔اس لیے کہ مرتد ہوجانے بعد تمام اعمال ضائع ہو جاتے ہیں ۔ پس اگر اس نے اس سے پہلے کوئی اطاعت و فرمانبرداری کے کام کیے ہوں گے تو وہ کفر اور ارتداد کی وجہ سے باطل ہوگئے اور جو کچھ نافرمانی کے کام کرتا ہے ‘ ان میں اس کا کوئی مماثل و مقابل نہیں ۔ توپھر یہ کہنا غلط ہوا کہ فلاں انسان ابلیس سے بڑھ کر برا ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہوسکتی ہے جیسے کو ئی انسان مرتد ہوجائے ‘ پھر زنا کرے ‘ لوگوں کو قتل کرے ‘ اور اپنی سابقہ اطاعت گزاری کے بعد انواع و اقسام کے گناہ کرے۔ پس جو شخص اس کے بعد آئے؛ وہ ان ضائع شدہ اطاعات میں اس کے مقام کو نہ پہنچ سکے ؛ مگر وہ کچھ محدود گناہوں میں اس کے ساتھ شریک رہے ؛ تو ان کی وجہ سے وہ اس سے برا نہیں ہوجائے گا۔ توپھر کوئی ابلیس سے بڑھ کر برا کیوں ہوسکتا ہے؟ ۔
اس سے خود شیعہ کے اصولوں پر کاری ضرب لگتی ہے ۔ خواہ وہ حق ہوں یا باطل۔ اس سے سب سے کم یہ چیز لازم آتی ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وہ ساتھی جو آپ سے مل کر بر سر پیکار رہتے تھے ‘ وہ کبھی کبھار حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نافرمانی بھی کیا کرتے تھے؛ وہ ان لوگوں سے برے ہوئے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی بیعت کرنے سے رک گئے تھے۔اس لیے کہ ان لوگوں نے اصحاب علی رضی اللہ عنہ سے پہلے اللہ کی بندگی کی ؛ جب کہ یہ لوگ میدان معصیت میں ساتھ چلتے رہے ۔
تیسری بات:....کون کہتا ہے کہ ابلیس فرشتوں سے زیادہ عبادت گزار تھا؟ [اس کی کیا دلیل ہے کہ] اس نے تنہا عرش کو چھ ہزار سال تک اٹھائے رکھا؟یا پھر اس کا شمار عرش اٹھانے والوں میں ہوتا تھا؟ یایہ کہ وہ ’’ طاؤس الملائکہ‘‘(فرشتوں کا مور) تھا؟ اور اس نے زمین و آسمان پر کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں سجدہ نہ کیا ہواو رایک رکعت ادا نہ کی ہو؟ یا اس طرح کی دیگر باتیں جو عوام الناس میں مشہور کی گئی ہیں ؛ظاہر ہے کہ اس کی اساس نقل صادق پر ہونی چاہیے۔ حالانکہ یہ کسی آیت میں یا صحیح حدیث میں مذکور نہیں ۔تو پھر کیا اس سے کوئی انسان استدلال کرسکتا ہے سوائے اس کے جو اصول دین میں سب سے بڑا جاہل ہو۔
[شبہ] : بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ : ’’ رافضی مصنف کہتا ہے:’’ علماء کے مابین اس بابت کو ئی شک نہیں کہ ابلیس ملائکہ سے زیادہ عبادت گزار تھا۔‘‘
[جواب]: ہم پوچھتے ہیں کہ : ’’ یہ بات کس نے کہی ؟ صحابہ کرام تابعین عظام میں سے کسی نے یا دیگر علماء کرام نے ؟ ۔ تو پھر چہ جائے کہ یہ دعوی کیا جائے کہ علماء کرام کے مابین متفق علیہ ہے ۔ یہ بات ہر گز کسی ایسے مسلمان عالم نے نہیں کہی جس کی بات قابل قبول ہو۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں صرف منقول پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ یہ حکایت کسی طرح بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل نہیں کی گئی ؛ نہ ہی کسی صحیح سند سے اور نہ ہی کسی ضعیف سند سے ۔ شیعہ مصنف کی افتراء پردازی کا یہ عالم ہے کہ اس جھوٹ کو علماء کے ہاں مسلم قرار دیتا ہے، اگر یہ بات کسی وعظ گو ملا نے کہی ہو یا ترغیب و ترہیب[یہ وہ کتب ہیں جو عوام کو وعظ سنانے کے لیے ترتیب دی گئی ہیں ، ان میں ترغیب و ترہیب پر مشتمل مبالغہ آمیز حکایات ہوتی ہیں ، جو تاریخ و تراجم کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ۔ یہ مبالغہ سنت الٰہی کے منافی ہو یا نہ ہو، البتہ کتاب و سنت کی تصریحات کے ضرور خلاف ہوتا ہے، ان کتب کے مصنفین باسند یا بے سند اور مصادر کا نام لے کر یا نام لیے بغیر جو احادیث بیان کرتے ہیں ان کی صحت کے اثبات میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کہ یہ احادیث عوام کو وعظ سنانے کے لیے ذکر کی جاتی ہیں ، استنباط احکام کے لیے نہیں ، حالانکہ ان لوگوں کو احادیث سنانے کی بجائے ان کے سامنے اپنا عملی نمونہ پیش کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ احادیث سنتے تو ان میں سے اکثر کو ردّ فرما دیتے۔] کی کسی کتاب میں درج ہو۔ یا کسی ایسی بے اصل تفسیر میں منقول ہو جو اسرائیلیات سے لبریز ہو تو بھی اس سے کسی معمولی بات پر احتجاج کرنا بھی درست نہیں چہ جائیکہ اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا جائے کہ ابلیس گناہ گار بنی آدم سے افضل تھا اور صحابہ کو ان لوگوں کو شامل کیا جائے جن سے ابلیس بہتر تھا۔
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں بھی ابلیس لعین کا ذکر مدح وستائش کے انداز میں نہیں کیا۔نہ ہی اس کی سابقہ کی عبادت کی وجہ سے اور نہ ہی کسی دوسری وجہ سے ۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ اگر اس کی کوئی عبادت تھی بھی؛ تووہ اس کے مرتد ہونے سے ضائع ہوگئی۔
اس سے بھی عجیب رافضی کا یہ کہنا ہے کہ: ’’ اکیلے ابلیس نے چھ ہزار سال تک اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے رکھا ۔‘‘
سبحان اللّٰہ! کیا یہ بات کسی ایسے مسلمان عالم نے کہی ہے جس کی بات مسلمانوں میں مقبول ہو؟ اور کیا کسی جاہل اور غلو کار کے علاوہ کوئی دوسرا بھی یہ بات کہہ سکتا ہے ؟ اگر یہ بات سچ ہوتی تو کسی بھی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور منقول ہوتی۔
پھر اکیلے فرشتہ کا بھی عرش کو اٹھانے کا کہنا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ابلیس توحاملین عرش میں بھی شامل نہ تھا، تنہا حامل عرش ہونا تو ایک جداگانہ بات ہے ۔ یہ سب یاوا گوئی ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ ابلیس کے جملہ اعمال صالحہ اگر تھے بھی تو وہ ضائع ہو گئے تھے۔[نیز یہ کس نے کہا کہ : اکیلا ابلیس حاملین عرش میں سے تھا ؟]یہ سب سے بڑا اور کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ [غافر۷]
’’وہ جو عرش کواٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اورا ن لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ایمان لائے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کا عرش اٹھانے والے کئی فرشتے ہیں ‘ صرف کوئی ایک نہیں ہے۔ اور یہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح بیان کرتے ہیں اور اہل ایمان کی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے :’’ یہ عرش اٹھائے جانے کے متعلق مطلق ایک خبر ہے ۔ اس میں کہیں بھی بیان نہیں ہے کہ وہی حاملین ابھی تک عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا : صحیح روایات میں آیا ہے کہ وہی حاملین عرش ابھی تک اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔ عبد اللہ بن صالح اور معاویہ بن صالح سے روایت ہے :’’ جب اللہ تعالیٰ نے عرش کو پیدا کیا تو فرشتوں کو عرش اٹھانے کا حکم دیا ۔ وہ عرض گزار ہوئے :ہم اس عرش کو کیسے اٹھائیں گے جب کہ اس پر آپ کی عظمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’ کہو: لا حول و لا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ جب فرشتوں نے یہ کلمہ کہا تو ان میں عرش اٹھانے کی طاقت پیدا ہوگئی۔‘‘
چوتھی بات : ان سے کہا جائے گا کہ : ابلیس نے کفر کیا تھا؛ جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق خبری دی ہے ‘ فرمایا:
﴿اِِلَّا اِِبْلِیسَ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ﴾ [ص ۷۳]
’’ سوائے ابلیس کے ‘ اس نے تکبر کیا ‘اور وہ کافروں میں سے تھا۔‘‘
اگر تسلیم کرلیا جائے کہ اس کے کچھ نیک اعمال بھی تھے ‘ تو اس کے کفر کرنے کی وجہ سے وہ سارے ضائع ہوگئے۔ ایسے ہی باقی لوگوں کا حال ہے ؛ جو بھی کفر کریگا اس کے اعمال ضائع کردیے جائیں گے ۔ تو پھر ایسے مؤمنین سے تشبیہ کیسی ؟
پانچویں بات:....ان سے کہا جائے گا : ’’ تمہارا یہ کہنا کہ معاویہ شرک و کفر میں ہی رہے یہاں تک اسلام قبول کرلیا ۔‘‘
اس سے ان دونوں کے درمیان اجتماع کا فرق واضح ہوجاتا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کفر کے بعد ایمان لائے؛ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْلَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ (الانفال:۳۸)
’’آپ کافروں سے فرمائیں کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کردیجیے جائیں گے۔‘‘
آپ نے اپنے شرک سے توبہ کی ؛ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنَِ ﴾ [التوبۃ۱۱]
’’اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ اداکریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔‘‘
ابلیس نے ایمان کے بعد کفر کیا ‘ جس کی وجہ سے اس کے ایمان والے سارے اعمال ضائع ہوگئے ۔ جب کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کفر کے بعد اسلام قبول کیا ؛ تو اسلام لانے سے ان کے دور کفر کے تمام اعمال ختم ہوگئے ۔ تو پھر ان دونوں کے درمیان موازنہ کیسے کیا جاسکتا ہے جب کہ ایک ایمان لانے کے بعد کافر ہوا؛ اور دوسرا کافر تھا ایمان لے آیا ؟
چھٹی بات : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا ثابت ہے۔ اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا کر رکھ دیتا ہے۔اب جو کوئی آپ کے مرتد ہونے کا دعوی کرے ؛ اور اس کا جھوٹا ہونا معلوم نہ بھی ہو تب بھی یہ دعوی بغیر کسی دلیل کے ہے ۔تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب اس دعویدار کا جھوٹا ہونا معلوم ہو۔ آپ مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے۔ جس طرح دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسلام پر باقی رہنا معلوم ہے۔ جس ذریعہ سے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا [مرتے دم تک ] اسلام پر قائم رہنا معلوم ہوتا ہے ؛ اسی ذریعہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھی اسلام پر قائم و باقی رہنا معلوم ہوتا ہے۔ شیعہ حضرت ابو بکر و عمرو عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کو مرتد قرار دینے میں اسی طرح غلطی پر ہیں جیسے خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر تصور کرنے میں ۔ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینے والے جھوٹے ہیں ‘ ایسے ہی ان باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر و مرتد قرار دینے والوں کا جھوٹ بالکل واضح اور ظاہر ہے ۔اس لیے کہ ان لوگوں کے ایمان پر باقی رہنے کی دلیل صاف واضح اور ظاہر ہے۔اور خوارج کا شبہ روافض کے شبہ سے زیادہ قوی ہے ۔
ساتویں بات : ....اگر اس دعوی کو سچ تسلیم کرلیا جائے تو اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور دیگر کے لیے قدح واہانت ہے جو کہ کسی پر بھی پوشیدہ نہیں ۔[شیعہ صحابہ کو مرتد قرار دیتے ہیں تواس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ] حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ مرتدین کے مقابلہ میں مغلوب رہے۔ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبردار ہو کر اسے مرتدین کو تفویض کردیا۔جبکہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مرتدین کو مغلوب و مقہور کیا تھا۔تونتیجہ یہ ہوا کہ کفار کے خلاف نصرت الٰہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بجائے ہمیشہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے شامل حال رہی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ عادل ہے ؛ وہ کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ تو پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا فتح و نصرت کا استحقاق حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر تھا ۔ اس وجہ سے وہ اللہ کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ٹھہرے ۔
یہی نہیں ‘ بلکہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے لشکر اور نائبین کافروں پر غالب و فاتح رہے ؛ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مرتدین کی سرکوبی سے عاجزر ہے ؛ یہ مرتدین بھی کفار ہی تھے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ [آل عمران۱۳۹]
’’اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب رہوگے ، اگر تم مومن ہو۔‘‘
نیزاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ﴾ [محمد۳۵]
’’پس نہ کمزور بنو اور یہ کہ صلح کی طرف بلاؤ اور تم ہی سب سے اونچے ہو اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تم سے تمھارے اعمال کم نہ کرے گا۔‘‘
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ملک کی حفاظت نہ کرسکے [اور ہر طرف سے شورشوں کے مقابلہ میں عاجز آگئے ] تو انہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس شرط پر صلح طلب کی کہ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے علاقہ پر حاکم رہے گا ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ کافرما ن ہے :
﴿فَلَا تَہِنُوْا وَتَدْعُوْا اِِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ َ﴾ [محمد۳۵]
’’پس نہ کمزور بنو اور نہ صلح کی طرف بلاؤ اور تم ہی سب سے اونچے ہو؛ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے ؛اور وہ ہر گز تم سے تمھارے اعمال کم نہ کرے گا ۔‘‘
[شیعہ کے مفروضات کے مطابق ] اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی ہی مؤمن تھے ‘اور ان کے مخالفین مرتد تھے ؛ تو ضروری تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی غالب رہتے ؛ حالانکہ واقعات حال اس کے خلاف ہیں ۔
آٹھویں بات : ....جو کوئی یہ کہتا ہے :’’ معاویہ رضی اللہ عنہ نے امیر المؤمنین کوحاکمیت تسلیم کرنے کے حکم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری سے تکبر کیا ۔‘‘[ہم اس سے پوچھتے ہیں ]آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت صحیح ہونے کا علم تھا؟ اور یہ کہ آپ کی اطاعت گزاری ان پر واجب ہے ؟ اس لیے کہ آپ کی ولایت کے ثبوت اور اطاعت کے واجب ہونے کی دلیل ان مشتبہ مسائل میں سے ہے جو بحث و نظر کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔ بخلاف ان کے کہ جن کی اطاعت پر لوگوں کا اجماع ہوچکا ہے ۔ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوچکا تھا؛ تو [سیاسی مسائل میں ] ہر نافرمانی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے تکبر کرنے والا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ نافرمانی کبھی شہوت کی وجہ سے صادر ہوتی ہے اور کبھی تکبر کی وجہ سے۔ تو پھر کیا یہ حکم لگایا جاسکتا ہے کہ ہر نافرمان اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ایسے ہی تکبر کرنے والا ہے جیسے ابلیس نے تکبر کیا تھا؟
نویں بات :....[شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت کہتا ہے ] ’’عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی ۔‘‘ اگر اس دلیل [اجماع]میں کوئی حجت نہیں تو پھر اس کے ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اگریہ حجت ہے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ان تمام کا اجماع تھا اور آپکی بیعت بھی بہت عظیم الشان تھی۔ جبکہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت سے سرکشی کرنے والے کو کافر نہیں کہتے بلکہ اسے مؤمن اور متقی شمار کرتے ہیں ۔
دسویں بات:....تمہارے اس قول کے مطابق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اجتماع زیادہ کامل تھا۔ تم اور دوسرے لوگ کہتے ہو: حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی خلافت سے ایک مدت تک پیچھے رہے ۔ تو تمہارے اس قول کے مطابق حضرت علی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امام تسلیم کرنے میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک عرصہ تک تکبر کرتے رہے ۔ تو تمہاری اس حجت کے مقتضی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کفر لازم آتا ہے[معاذ اللہ] ۔ یا پھر تمہاری یہ دلیل ہی سرے سے باطل ہے۔یہ بات یقینی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر کا قول باطل ہے ؛ تو اس سے لازم ہوا کہ تمہاری دلیل سرے سے باطل ہے ۔
گیارھویں بات :....یہ کہنا کہ :’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی ۔‘‘ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ بہت سارے مسلمان ؛ آدھے یا اس سے کچھ زیادہ یا کم آپ کی بیعت میں شریک نہیں ہوئے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ نے آپ کی بیعت نہیں کی ۔
بارھویں بات :....[شیعہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتا ہے ] ’’وہ آپ کی جگہ پر بیٹھ گیا ۔‘‘یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شروع میں اپنے لیے ہر گز خلافت طلب نہیں کی تھی۔ اورنہ ہی آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امارت سے معزول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ اورآپ اس علاقے پروالی رہے جہاں کی ولایت حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں آپ کے پاس تھی۔ جب فریقین کے درمیان صلح کے لیے جرگہ ہوا تو اس وقت آپ صرف اپنی رعیت کے متولی تھے ۔ ہاں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے اپنے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ؛ تو پھر یہ بات درست ہے۔لیکن حضرت امیر معاویہ فرمایا کرتے تھے : ’’ جو چیز آپ کے ہاتھ میں ہے میں اس کے بارے میں آپ سے جھگڑا نہیں کرتا ؛ لیکن میرے ہاں کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں ہے جس کی روشنی میں مجھ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت گزاری میں داخل ہونا واجب ہوتا ہو۔‘‘
یہ کلام خواہ حق ہو یا باطل ؛ مگر اس کے قائل کوہر گز ابلیس سے برا نہیں کہا جاسکتا ۔ پس جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ابلیس سے برا کہتا ہے : تو اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر؛ اس کے رسول پر اور اہل ایمان پر جھوٹ گھڑنے والا اور بہتان تراشی کرنے والا او رخیر القرون پر سر کشی کرنے والا کوئی دوسرا نہیں ھوسکتا ۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ :
﴿اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ [غافر۵۱]
’’بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘
جب کسی انسان کو ہواپرستی اس حد تک پہنچادے تو وہ عقل کے دائرہ سے بالکل باہر ہوجاتا ہے۔ چہ جائے کہ اس کے پاس علم اور دین ہو۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ایسی باتیں کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرے۔ اور اپنے مؤمن بندوں ۔اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او ردیگر۔ کی نصرت فرمائے ۔ او ران ظالموں اور جھوٹوں کے ظلم سے نجات عطا فرمائے ۔