Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تعزیہ داری کا حکم، اور ایک شبہ کا جواب


تعزیہ داری کا حکم، اور ایک شبہ کا جواب

سوال: تعزیہ داری کیسا فعل ہے؟ آیا باعثِ ثواب ہے یا مؤجب گناہ؟ اور اگر گناہ بھی ہے تو صغیرہ ہے یا کبیره؟ اگر کوئی شخص بنیت ثواب واقعہ کربلا یاد کرنے کیلئے کرے اور جیسے خانہ کعبہ اور بیت المقدس و مسجد ابراہیم وغیرہ کی زیارت بذریعہ تصویر و فوٹو کے کرتے ہیں اور اپنے دل کو اس کی زیارت سے خوش کرتے ہیں۔ اگر تعزیہ بنا کر غم سیدنا حسینؓ کیلئے اپنے نظروں کے سامنے رکھیں اور تربت کی شکل اتاریں تو از روئے شرع کچھ ممانعت ہے یا نہیں؟

جواب: تعزیہ داری مروج ہند بت پرستی ہے۔ جیسے ہندؤ اپنے بتوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں، اسی طور سے اہلِ بدعت تعزیہ کے ساتھ کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی تصویر پر تعزیہ کو قیاس کرنا باطل ہے۔ خانہ کعبہ کی تصویر کے ساتھ بتوں کا سا معاملہ نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ بھی کوئی ایسا معاملہ کرے تو وہ بھی بت پرستی ہو گی۔

اور اگر محض اظہارِ غم حضرات حسنینؓ کے واسطے کوئی تعزیہ بناتا ہے اور اس کے ساتھ بتوں کا سا معاملہ نہیں کیا جاتا تو علاؤہ تشبه بالروافض و تعزیه پرستان اظہار غم فی نفسه حرام و ممنوع ہے۔ و نیز تعزیہ داری مروج میں بعض امور اظہار غم و حزن کے قبیل سے ہیں، یہ تشبہ بالروافض ہے، اور بعض امور اظہار مسرت کی جنس سے ہیں یہ تشبہ بالخوارج ہے، یہ دونوں حرام ممنوع ہیں۔ غرض یہ کہ تعزیہ داری مروج میں بشرطِ تامل سینکڑوں شرعی و عقلی خرابیاں موجود ہیں۔

(فتاویٰ سهولیه، صفحہ 379)