Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....اہل سنت پر تعصب کا الزام

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....اہل سنت پر تعصب کا الزام 

[اشکالات]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ بعض اہل سنت نے اس حد تک غلو سے کام لیا حتی کہ یزیدبن معاویہ کو امام تصور کرنے لگے؛ حالانکہ اس نے انتہائی قبیح افعال کا ارتکاب کیا؛اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا؛ ان کے اموال پر قبضہ کرلیا؛اور عورتوں کو قیدی بنالیا۔ اور اہل بیت خواتین کو ننگے اونٹوں پر سوار کرکے مختلف شہروں میں گھمایا۔ جب کہ زین العابدین کے گلے میں طوق پڑا تھا۔ صرف قتل حسین رضی اللہ عنہ پر ہی اکتفاء نہیں کیا ؛ بلکہ آپ کو گھوڑوں کے نیچے کچل ڈالا؛ اور آپ کی پسلیاں توڑ دیں ۔ اور آپ کے سر کو نیزے پر اٹھایا گیا۔ حالانکہ مشائخ نے یہ روایت کیا ہے کہ جس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ قتل کیے گئے اس دن آسمان سے خون کی بارش برسی ۔ رافعی نے اپنی کتاب ’’ شرح الوجیز‘‘میں اور ابن سعد نے ’’الطبقات ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ :جس دن حسین رضی اللہ عنہ قتل ہوئے اس دن آسمان میں ایک سرخی ظاہر ہوئی جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ۔ نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اس دن دنیا میں کوئی ایسا پتھر نہیں اٹھایا گیا جس کے نیچے سے خون نہ نکلا ہو۔ آسمان سے ایسی بارش برسی کہ اس کا اثر کپڑوں میں ان کے ختم ہونے تک رہا ۔ امام الزہری فرماتے ہیں : ’’ قاتلین حسین میں سے کو ئی بھی ایسا نہیں بچا جسے دنیا میں سزا نہ مل گئی ہو۔ یا تو اسے قتل کردیا گیا ؛ یا پھر وہ اندھا ہوگیا ؛ یااس کا چہرہ کالا ہوگیا ؛ یا پھر بہت ہی کم مدت میں اس کی حکومت ختم ہوگئی ۔‘‘ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی بابت وصیت فرمایا کرتے تھے۔اور فرماتے تھے : یہ دونوں تمہارے پاس میری امانت ہیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿ قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (الشوریٰ۲۳)

’’ فرمادیں : میں قرابت داری کی محبت رکھنے کے سوا تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جواب]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’ بعض اہل سنت نے اس حد تک غلو سے کام لیا حتی کہ یزیدبن معاویہ رضی اللہ عنہ کو امام تصور کرنے لگے۔‘‘

اگر شیعہ مصنف کی مراد یہ ہے کہ اہل سنت و الجماعت یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید بھی ہدایت یافتہ خلفاء راشدین ابو بکر و عمرو عثمان او رعلی رضی اللہ عنہم کی طرح تھا؛ تو [یہ جان لینا چاہیے کہ ] مسلمان علماء میں سے کوئی ایک بھی یہ بات نہیں کہتا۔ اگرچہ بعض جاہل [اور متعصب ] لوگ اس طرح کا نظریہ رکھتے ہوں ۔ جیسا کہ بعض جاہل کُردوں سے نقل کیا گیا ہے ؛ جو کہتے ہیں کہ : یزید صحابہ کرام میں سے تھا ۔ یا بعض کہتے ہیں : وہ نبی تھا۔بعض کہتے ہیں : وہ خلفاء راشدین میں سے تھا۔ یہ نظریات رکھنے والے ان قابل اعتماد اہل علم میں سے نہیں ہیں جن کی باتیں قابل نقل و حجت ہوں ۔ مگر اس جہالت کے باوجود وہ شیعہ کے جہلاء و ملحدین سے بہتر ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے الٰہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔یا پھر آپ کو نبی مانتے ہیں ۔یا پھر کہتے ہیں کہ : شریعت کاباطن اس کے ظاہر کے خلاف ہے۔ جیسا کہ اسماعیلیہ ‘ نصیریہ اوردوسرے [شیعہ فرقے ] کہتے ہیں کہ : ان کے خواص سے نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج ساقط ہوچکے ہیں ۔ یہ لوگ معاد [آخرت ]کے منکر ہیں ۔بلکہ ان میں سے غالی لوگ تو خالق کے ہی منکرہیں ۔ان کا عقیدہ ہے کہ محمد بن اسماعیل [اسماعیلیہ فرقہ کا امام] محمد بن عبد اللہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ] سے بہتر ہے اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کردیاہے۔ اور اپنے ائمہ کے متعلق اعتقاد رکھتے ہیں کہ تمام ائمہ معصوم ہیں ۔ [شیخ عدی بن مسافر المتوفی(۴۶۷۔۵۵۷) ایک عابد و زاہد شخص تھے انھوں نے دیکھا کہ شیعہ یزید پر طرح طرح کے بہتان باندھتے اور اس کے دین و اخلاق پر حملے کرتے ہیں ۔ روافض کے اس رویہ سے تنگ آکر شیخ عدی نے اعلان کردیا کہ یزید امام تھا اور شیعہ کے سب اتہامات اس کے خلاف کذب ہیں ۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ’’ العدویہ‘‘ میں لکھا ہے کہ شیخ عدی کا مسلک افراط و تفریط سے پاک تھا۔ شیخ عدی کے ایک نائب حسن کے زمانہ میں روافض اتباع عدی کی ایک جماعت پر حملہ آور ہوئے۔ اور عدی کے خلیفہ شیخ حسن کو قتل کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ عدی کے مریدوں نے اس طرح غلو سے کام لینا شروع کیا جس طرح شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کے بارے میں مبالغہ آمیزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ کرد جو شیخ عدی کے مرید تھے یزید کو نبی قرار دینے لگے۔ امام ابن تیمیہ کے زمانہ میں بعض کرد یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ شیخ الاسلام نے ان کو راہ راست پر لانے کے لیے ’’الرسالہ العدویہ‘‘ تصنیف کیا اور اس میں واضح کیا کہ شیخ عدی نیک آدمی تھے۔ اگر اس وقت زندہ ہوتے تو ارادت مندوں کے اس اغراق و مبالغہ کو ناپسند کرتے۔’’الرسالہ العدویہ‘‘ کا ایک قدیم ناقص الآخر نسخہ دارالکتب المصریہ میں تاہنوز محفوظ ہے۔ علامہ محقق احمد تیمور پاشا نے الرسالہ العدویہ کے چند فقرے اپنے رسالہ ’’الیزیدیت‘‘ میں درج کیے ہیں ہم رسالہ مذکورہ کو دو مرتبہ طبع کراچکے ہیں ۔ آخری مرتبہ یہ ۱۳۵۲ ہجری میں چھپا۔ رسالہ مذکور سے واضح ہوتا ہے کہ کرد یزید کو نبی قرار دیتے ہیں ، پھر اس سے بڑھ کر منصب الوہیت پر فائز کردیا، اس فرقے کا نام ’’یزیدیہ‘‘ ہے۔ قبیلہ کرد کی یہ جماعت شمالی عراق کے علاقہ منجارمیں بودو باش رکھتی ہے۔ کچھ لوگ روس کے صوبہ اور دمشق و بغداد و حلب کے نواح میں بھی سکونت گزیں ہیں ۔ شیخ عدی کردوں کے یہاں جبال ہکار میں جانے سے پیشتر لبنان و شام کے ایک گاؤں میں رہ کر مصروف عبادت رہا کرتے تھے۔ یہ بعلبک کے قریب بیت فارنامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ تصوف میں شیخ عبد القادر جیلانی اور عبد القاہر سہروردی، عقیل ینجی ۔ حماد دبّاس اور ابوالوفا حلوانی کے شاگر دتھے۔ اگر شیخ عدی کے اتباع ان کے طریقہ پر گامزن رہتے تو نہایت ہی صالح مسلمان ہوتے مگر انھوں نے کفر کی حد تک غلو سے کام لیا۔ دراصل ان کا غلوّ روافض کے غلو سے پیدا شدہ اور اس کے توڑکی کوشش ہے۔]

جیسے ان کا مہدی اور اس کی اولاد ؛ مثلاً : معز ‘ حاکم اوران کے امثال۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ جو لوگ خلفاء بنو امیہ اور بنو عباس کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں [اگرچہ یہ بھی غلط ہے ؛ تاہم ] یہ لوگ شیعہ سے کئی وجوہات کی بنا پر بہتر ہیں ۔ اس لیے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفاء ظاہری و باطنی طور پر مسلمان تھے۔ ان کے گناہ بھی ایسے ہی تھے جیسے دیگر کسی مسلمان کے گناہ ہوسکتے ہیں ؛ وہ کافر یا منافق نہیں تھے۔

یہ باطنیہ [ شیعہ] فرقہ کے لوگ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔ جوان کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھے وہ ان لوگوں سے بڑھ کر جاہل اور گمراہ ہے جو خلفاء بنو امیہ اور بنو عباس کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ بلکہ اگر کوئی تمام مسلمان بادشاہوں کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھے جو ظاہری وباطنی طور پر مسلمان تھے؛ تو پھر بھی [باطنی شیعہ ان سے بڑھ کر گمراہ ہیں ؛ یہ لوگ ]ان سے بہتر ہیں جو ان ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو جہالت اہل سنت والجماعت کے لوگوں میں پائی جاتی ہے ؛ شیعہ میں پائی جانے والی جہالت اور گمراہی اس سے کئی درجہ بڑھ کر ہے۔ خصوصاً ان [باطنیہ ‘ اسماعیلیہ وغیرہ] کی گمراہی نفاق اور زندیقیت پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ جہالت اورتأویل کی وجہ سے ۔ جب کہ ان [اہل سنت] میں اس کی وجہ جہالت ہوتی ہے؛ زندیقیت یا نفاق نہیں ہوتے۔بلکہ ان کی وجہ بدعات ؛ تاویل یا علم شریعت کی کمی ہوتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت کا صحیح پیغام جب ان لوگوں کے سامنے آتا ہے تو اپنے سابقہ عمل و عقیدہ سے رجوع کرلیتے ہیں ۔ جب کہ ملحدین اپنے باطن میں یہ یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کے ساتھ تناقض رکھتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اس مخالفت پر اس لیے کمر بستہ رہتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ آپ نے اپنے عقل و فضیلت کی بنا پر ناموس [دین کوپوشیدہ اور راز میں ] رکھا تھا ۔ پس ہمارے لیے بھی ایسے ہی ناموس رکھنا جائز ہے جیسے آپ نے رکھا تھا۔[یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دین چھپانے کا الزام لگا کر خود حق بات چھپاتے ہیں ]۔اس لیے کہ ان کے ہاں نبوت ایک کسبی چیز ہے۔ ان کے ہاں نبوت ایسے ہی جیسے علماء و عباد کو حاصل ہونے والی فضیلت ۔ اور شریعت ویسے ہی ہے جیسے کسی عادل بادشاہ کی سیاست ۔ اس بنا پر وہ اس شریعت کو کسی دوسرے امام کی وضع کردہ شریعت سے منسوخ کرنا جائز سمجھتے ہیں ۔ ان کاکہنا ہے : ’’بیشک شریعت عامہ [عوام الناس؛ یا اہل سنت] کے لیے ہے ۔ جب کہ ان کے لیے وہی کچھ ہے جس پر باطن میں وہ عمل کرتے ہیں ۔ ان سے واجبات ساقط ہوچکے ہیں ‘ او رمحرمات ان کے لیے مباح کردی گئی ہیں ۔

یہ لوگ اوران جیسے دوسرے لوگ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ۔بلکہ اگر مان لیا جائے کہ کچھ لوگ بنی امیہ یا بنی عباس میں سے کسی ایک عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں ‘ یا [ خیال کرتے ہیں کہ ] ان کا کوئی گناہ نہیں ؛ یا پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے ان کے گناہوں پر مؤاخذہ نہ کرے گا۔ جیسا کہ بنو امیہ کے بعض اتباع سے نقل کیا گیا ہے کہ خلیفہ کے نیک اعمال قبول کیے جاتے اور برے اعمال سے درگزر کی جاتی ہے۔ یہ لوگ بلاشبہ گمراہ ہیں ۔ مگر ان کی گمراہی ان لوگوں کے مقابلہ میں کم ہے جو امام منتظر کی عفت و عصمت کا عقیدہ رکھتے ہیں جوکہ اصل میں معدوم ہے۔یا ان لوگوں کی عصمت کے قائل ہیں جنہیں کوئی قوت و اختیار حاصل نہیں جس سے کوئی فائدہ حاصل ہوسکے ۔ اور نہ ہی ان کے پاس کسی عام مسلمان سے بڑھ کر کوئی علم اور دین ہے۔[جب کہ اس کے برعکس]ان [اہل سنت ]کا عقیدہ ہے کہ حاکم کی نیکیاں بھی اتنی زیادہ ہوتی ہیں جو اس کے گناہوں کو ڈھانک لیتی ہیں ۔ اور ایساہونا فی الجملہ ممکن ہے ۔ کسی بھی مسلمان کے لیے اس بات کا امکان ہے اس کی نیکیاں اتنی ہوں جو اس کی برائیوں پر غالب آجائیں ۔ اگرچہ یہ گواہی کسی متعین شخص کے لیے بغیر کسی شرعی دلیل کے نہیں دی جاسکتی۔ مگر یہ دعوی کرنا کہ مسلمانوں میں کوئی[ ایک صاحب شریعت سے] بڑھ کر دیندار اور عالم ہے ‘ اور خطأ سے معصوم ہے ؛ تو یہ نظریہ بالکل باطل ہے۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کے لیے بھی معصوم ہونے کا دعوی کرنا قطعی طور پر باطل ہے ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ ان لوگوں میں سے جس کسی نے کسی کے معصوم ہونے کا دعوی کیا ہے وہ اپنی جہالت اور گمراہی کے باوجود حق کے زیادہ قریب اور رافضیوں سے کم درجہ کا جاہل ہے ۔جس انسان نے یزید کے صحابی یا نبی ہونے کا دعوی کیا وہ [گمراہ ہونے کے باوجود] ان رافضیوں سے جہالت و گمراہی میں کم تر ہے جو شیعہ شیوخ کے لیے نبوت و الوہیت کا دعوی کرتے ہیں ۔ خصوصی طور پر اسماعیلیہ اورنصیریہ کے شیوخ؛ جو کہ یہود و نصاری سے بڑے کافر ہیں ‘ اور ان کے ماننے والے ان کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔

جب کہ علماء اہل سنت والجماعت کے مقبول ومروی قول کے مطابق ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو یزید اور اس جیسے دوسرے خلفاء کو جناب حضرت ابو بکر و عمر و عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خلفاء راشدین مہدیین کے برابر سمجھتے ہوں ۔بلکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ و ایمان اصحاب سنن کی روایت کردہ اس حدیث کے مطابق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی پھر ملوکیت کا آغاز ہوگا۔‘‘[یہ حدیث پہلے گزرچکی ہے]۔

اگر یزید کی امامت سے مراد یہ ہے کہ وہ دیگر اموی و عباسی خلفاء کی طرح سلطان وقت اور صاحب السیف تھا تو یہ ایک یقینی بات ہے جسے سبھی جانتے ہیں ۔اور اس کا انکار کرنے والا حقیقت واقعہ کا منکر ہے۔یزید کی بیعت اس وقت کی گئی جب ان کے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔اس طرح یزید بلاد شام؛ مصر‘ عراق؛ خراسان اور دیگر علاقوں کا حاکم بن گیا۔[خلافت یزید کے سلسلہ میں دو باتیں محل فکر و نظر ہیں (۱) آیا یزید منصب خلافت کا اہل تھا یا نہیں ؟ (۲) یزید کی نامزدگی۔ جہاں تک پہلے مبحث کا تعلق ہے، ہم اس پر قبل ازیں اظہار خیال کر چکے ہیں کہ یزید اپنے ننھال قبیلہ قضاعہ کے بدویانہ خیموں میں جرأت و شہامت اور تکلف و تصنع سے پاک و سادہ ماحول میں پروان چڑھا۔ شیعہ نے اپنی کتابوں میں یزید کی سیرت و سوانح سے متعلق جھوٹ کا جو طوفان باندھا ہے، یہ یزید پر عظیم ظلم ہے ۔ یزید کی سیرت و کردار کے بارے میں حضرت محمد بن حنفیہ کی شہادت کے بعد مزید کسی تصدیق کی ضرورت نہیں ۔ جب حضرت ابن زبیر کا داعی عبد ﷲ بن مطیع لوگوں کو یزید کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر رہا تھا اور یزید کی جانب ان باتوں کو منسوب کر رہا تھا جو اس میں نہ تھیں مثلاً یہ کہ یزید شراب پیتا ہے ۔ نماز نہیں پڑھتا اور احکام قرآنی سے تجاوز کرتا ہے ۔ یہ سن کر محمد بن علی بن ابی طالب المعروف بہ ابن الحنفیہ نے فرمایا: (]

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ سن ۶۱ ھ؛ دس محرم کو پیش آیا ۔یہ یزید کی بادشاہی کا پہلا سال تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کسی بھی شہر پر غلبہ حاصل کرنے سے پہلے ہی واقع ہوگئی۔ پھر یزید اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ

[’’تم یزید کے بارے میں جن باتوں کا ذکر کرتے ہو وہ میں نے اس میں نہیں دیکھیں ۔ حالانکہ میں نے اس کے یہاں قیام کیا تھا۔ دوران قیام میں نے دیکھا کہ یزید پابندی سے ہمیشہ نماز ادا کرتا۔ نیک اعمال میں پوری دلچسپی لیتا اور فقہی مسائل کا جواب دیتا، اس کے ساتھ ساتھ وہ سنت نبوی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’یزید آپ کو دکھانے کے لیے یہ اعمال انجام دیتا تھا۔‘‘ یہ سن کر امام ابن الحنفیہ نے فرمایا: ’’یزید کو مجھ سے کس بات کا خوف یا لالچ تھا کہ اس نے تصنع سے عجز و انکساری کا اظہار کیا؟ کیا تم نے خود اسے شراب پیتے دیکھا ہے ؟ اگر تمہارا جواب اثبات میں ہے تو تم شراب پینے میں اس کے شریک ٹھہرے، اور اگر نہیں دیکھا تو علم کے بغیر شہادت دینا تمہارے لیے کیوں کرروا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا :’’ اگرچہ ہم نے یزید کو شراب پیتے نہیں دیکھا تاہم یہ بات درست ہے۔‘‘اس کے جواب میں حضرت ابن الحنفیہ نے فرمایا: ﷲ تعالیٰ اہل شہادت کے بارے میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔ قرآن میں فرمایاگیا ہے:﴿ اِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ (سورہ زخرف:۸۶) میں اس معاملہ میں تم سے بری ہوں ۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ آپ خلیفہ بننا چاہتے ہیں تو چلیے ہم آپ کو اپنا حاکم تسلیم کرتے ہیں ۔‘‘ امام ابن الحنفیہ نے فرمایا:میں حاکم یا محکوم کسی صورت میں بھی لڑائی کو حلال نہیں سمجھتا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ آپ اپنے والد کی حمایت میں لڑ چکے ہیں ۔‘‘ابن الحنفیہ نے فرمایا: ’’ میرے والد جیسا کوئی شخص لے آؤ، میں اس کیحمایت میں لڑنے سے گریز نہیں کروں گا۔‘‘لوگوں نے کہا:’’ تو اپنے دونوں بیٹوں قاسم اور ابو القاسم سے کہیے کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر دشمن سے لڑیں ۔‘‘ ابن الحنفیہ نے کہا:’’ اگر میں نے بیٹوں کولڑائی کا حکم دے دیا تو گویا خود لڑائی میں شریک ہوا۔‘‘ لوگوں نے کہا:’’ ہمارے ساتھ کسی جگہ چل کر لوگوں کو جنگ کی رغبت دلائیں ۔‘‘ابن حنفیہ نے کہا:’’ سبحان ﷲ! میں لوگوں کو ایسی بات کہوں جس پر خود عمل پیرا نہیں اور اسے پسند بھی نہیں کرتا۔‘‘لوگوں نے کہا: ’’تو ہم آپ کو اس بات پر مجبور کریں گے۔‘‘ ابن حنفیہ نے فرمایا: میں تو لوگوں کو ﷲ سے ڈرنے اور اس بات کا حکم دوں گا کہ مخلوق کو راضی کرنے کے لیے ﷲ کی ناراضگی مول نہ لیں ۔‘‘اس کے بعد ابن حنفیہ عازم مکہ ہوئے۔ (البدایہ والنہایۃ ، لابن کثیر:۸؍۲۳۳) یزید کے حق میں یہ ایک عینی شاہد کی بیان کردہ تاریخی نص ہے۔ ابن حنفیہ ایک ایسے معتبر راوی ہیں کہ اگر ان سے کوئی بھی نص شرعی منقول ہوتی تو سب آئمہ اسلام اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے۔ اس سے بڑھ کر اور کون سا وصف مطلوب ہے کہ ابن حنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جگر گوشہ ہیں ۔ صحیح مسلم کی کتاب الامارۃ میں حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اس ضمن میں عبد ﷲ بن مطیع کے یہاں گئے، تو اس نے کہا ابو عبد الرحمن کے لیے مسند رکھیے۔ حضرت عبد ﷲ نے کہا: میں آپ کے یہاں بیٹھنے کے لیے نہیں آیا بلکہ ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ نے فرمایا:’’ جس نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا وہ بروز قیامت ﷲ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو شخص بیعت کے بغیر مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ (صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین(حدیث:۱۸۵۱) صحیح بخاری کتاب الفتن میں ہے کہ جب اہل مدینہ نے یزید کی بیعت ترک کردی تو حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے خدم و حشم اور بچوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے:’’ ہر دھوکہ باز کے لیے بروز قیامت جھنڈا نصب کیا (] کے مابین جو کچھ واقعات پیش آئے ؛ اور اہل مکہ اور حجاز میں سے جن لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ آپ کا ظہور یزید کی موت کے بعد ہوا ؛ جب آپ نے خلافت کی طلب شروع کی ۔ اس وقت آپ امیر المؤمنین کہلانے لگے۔ اہل شام کے علاوہ باقی لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی ۔ اسی لیے آپ کی ولایت کو یزید کی موت کے بعد سے شمار کیا جاتاہے۔

[جائے گا۔‘‘’’ہم ﷲ و رسول کے حکم کے مطابق یزید کی بیعت کر چکے ہیں اور میرے نزدیک اس سے بڑا دھوکا اور کچھ نہیں کہ حکم الٰہی کے مطابق ایک شخص کی بیعت کی جائے پھر اس کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جائے۔ مجھے جس شخص کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس نے یزید کی بیعت ترک کرکے کسی اور کی بیعت کر لی ہے میں اس سے باز پرس کروں گا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الفتن۔ باب اذا قال عند قوم شیئاٍ ثم خرج....‘‘(حدیث:۷۱۱۱) حافظ ابن کثیر ’’البدایہ والنہایۃ‘‘ (۸؍۲۲۸) میں امام مدائنی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے، اسی دوران یزید تعزیت کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب یزید چلا گیا تو ابن عباس نے کہا: جب بنو امیہ رخصت ہو جائیں گے تو اہل علم کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔(البدایۃ والنہایۃ:۸؍۲۲۸) یہ وہ امور ہیں جو یزید کی صلاحیت امامت، صحابہ کے اس کو تسلیم کرنے اور ابن حنفیہ کی یزید کے حق میں تائید و شہادت سے متعلق ہیں ۔ ابن حنفیہ نے تصریحاً کہہ دیا کہ یزید کے بارے میں دھوکہ بازوں نے جو کچھ کہا تھا وہ صاف جھوٹ ہے۔ یہ بات ہنوز محتاج غوروفکر ہے کہ حضرت معاویہ نے یزید کو خلیفہ کیوں مقرر کیا جب قریش کے متعدد نوجوان جو یزید کے معاصر تھے اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر اپنے آپ کو خلافت کا اہل سمجھتے تھے۔ مثلاً سعید بن عثمان بن عفان بلکہ ان سے فروتر درجہ کے لوگ بھی اس منصب کو سنبھالنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ شوریٰ کے ذریعے خلیفہ کا انتخاب ولی عہد نامزد کرنے سے بلاشبہ اولیٰ وافضل ہے۔ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ اگر اس وقت شورٰی کے ذریعہ خلیفہ منتخب کرنے کا سوال اٹھایا گیا تو امت میں خون ریزی کا ایسا دروازہ کھلے گا جو اسی وقت بند ہو گا جب قریش میں ولایت و خلافت کی اہلیت رکھنے والے سب لوگ صفحہ ارضی سے نابود ہو جائیں گے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر یہ بات پوشیدہ نہ تھی کہ فضائل و مناقب اور خصوصیات ان مدعیان خلافت کے مابین تقسیم شدہ ہیں ۔ اگر ایک شخص ایک خصوصیت رکھتا ہے تو دوسرا کسی اور وصف کا حامل ہے جو اس میں موجود نہیں ۔ جہاں تک یزید کا تعلق ہے وہ اپنے معاصر مدعیان امارت و ولایت کے اوصاف و خصوصیات میں برابر کا سہیم وشریک تھا۔ البتہ حکومت و سلطنت کی ایک لابدی خصوصیت یزید میں ایسی تھی جس سے دوسرے یک سر محروم تھے۔ اور وہ یہ ہے کہ یزید عسکری قوت سے بہرہ ور تھا جو بوقت ضرورت اسلام کی ایک عظیم قوت ثابت ہو سکتی تھی اور اگر یزید خلافت میں مزاحمت کرنے والوں کے خلاف نبرد آزما ہوتا تو یہ قوت وہاں بھی اس کا ساتھ دے سکتی تھی۔ علاوہ ازیں اگر یزید کے ننھال قبیلہ قضاعہ اور اس کے حلیف یمنی قبائل کے سوا اس کا کوئی بھی مددگار نہ ہوتا توبھی وہ اپنے سب مخالفین کو زیر کر سکتا تھا۔ اس موقع پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں حضرت حسین کے سفر عراق کا حال بیان کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ قابل ملاحظہ ہے۔ ابن خلدون مقدمہ تاریخ کی فصل ’’ ولایۃ العہد‘‘ میں لکھتا ہے:’’ قوت و شوکت کا اندازہ لگانے میں حضرت حسین سے غلطی سرزد ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مضر کی عصبیت ان دنوں قبیلہ قریش میں محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ قریش کی عصبیت عبد مناف میں اور عبد مناف کی حمایت و طرف داری بنو امیہ میں آکر گھر گئی تھی۔ سب قریش اس حقیقت کا اعتراف کرتے تھے اور کسی کو اس سے مجال انکار نہ تھی۔ آغاز اسلام میں جب لوگ معجزات اور وحی الٰہی میں منہمک ہو گئے تو یہ جاہلی عصبیت فراموش ہو گئی تھی۔ نبوت اور خوارق و معجزات کا انقطاع ہونے کے ساتھ ہی یہ عصبیت لوٹ کر آگئی اور قبیلہ مضر کے لوگ باقی لوگوں کو چھوڑ کر بنو امیہ کا ساتھ دینے لگے۔‘‘ (مقدمہ ابن خلدون) یزید کی نامزدگی میں حضرت معاویہ نے اسلامی شہنشاہیت کی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا تھا جس کا ان دنوں بڑا چرچاتھا اور (] جب کہ یزید کی زندگی میں پہلے آپ اس کی بیعت کرنے سے گریزاں رہے ؛ پھر بیعت کرلی مگر یزید اس پر راضی نہ ہوا اس کا اصرار تھا کہ آپ کو قید کرکے اس کے پاس پیش کیا جائے۔ اسی وجہ سے ان کے مابین فتنہ پیدا ہوا۔ یزید نے آپ کی طرف ایک لشکر روانہ کیا ؛ جس نے مکہ میں آپ کا محاصرہ کرلیا۔ آپ محصور ہی تھے کہ یزید کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد اہل شام کے ایک گروہ او راہل عراق وغیرہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی۔ادھر یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ تخت نشین ہوا ۔ اس میں کچھ خیر او راصلاح کا پہلو موجود تھا ؛ مگر زندگی نے اسے زیادہ موقع نہ دیا۔ یہ صرف چالیس دن تک حاکم رہا ؛ مگر اپنے بعد کسی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ اس کے بعدمروان بن الحکم شام کا امیر بن گیا۔اسے بھی زیادہ مہلت نہ ملی۔ پھر اس کے بعد اس کا بیٹا عبد الملک بن مروان شام کا امیر بن گیا۔اس نے حضرت مصعب بن زبیر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی اور نائب سے لڑنے کے لیے ایک لشکر عراق روانہ کیا ۔ مصعب بن زبیر قتل ہوگئے‘ اور عراق کی حاکمیت عبدالملک کے پاس چلی گئی ۔ ایک لشکر حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کیا ؛ جس نے مکہ میں آپ کا محاصرہ کرلیا۔ ان میں جنگ ہوئی ۔یہاں تک کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے۔اور نظام حکومت مکمل طور پر عبد الملک بن مروان کے ہاتھوں چلا گیا۔ پھر اس کی اولاد میں بھی حکومت مستحکم رہی ۔ اسی کی حکومت میں بخاریٰ اور

[جس کے پھلنے پھولنے اور وسعت پذیر ہونے میں دعوت اسلامی کی توسیع کا راز مضمر تھا۔ یہ توسیع زیادہ تر حضرت معاویہ و عثمان رضی اللہ عنہما اور ان کے خلفاء کے عہد میں ہوئی، نظر بریں اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ عرب کے دونوں بازو یعنی یمن و مضر یا قحطان و عدنان میں کامل اتحاد و یگانگت پیدا ہو جائے۔ یزید کوولی عہد نامزد کرنے سے پیشتر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کو امور سلطنت سکھایا کرتے تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ۴۹ ہجری میں یزید کو رومی سلطنت کے استقبال کے لیے روم بھیجا اوراسلام کے جھنڈے قسطنطنیہ کی دیواروں پر لہرانے لگے۔ یہ وہ بابرکت لشکر تھا جس میں حضرت عبد ﷲ بن عمر، عبد ﷲ بن عباس، ابوایوب انصاری اور عبد ﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شریک تھے۔ اس عظیم اسلامی جہاد کے ذریعہ ﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خواب کی تعبیر ظاہر کی جو آپ نے بمقام قباء حضرت انس رضی اللہ عنہ کی خالہ کے یہاں دیکھا تھا۔(صحیح بخاری، کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوماً فقال عندھم (حدیث: ۶۲۸۲، ۶۲۸۳)،صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل الغزو فی البحر(حدیث:۱۹۱۲) اگر ان تاریخی حقائق پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لخت جگر ابن الحنفیہ کی شہادت کا بھی اضافہ کر لیا جائے جس میں انھوں نے یزید پر عائد کردہ اتہامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا تو اس مظلوم قریشی نوجوان(یزید) کی اصلی صورت سامنے آجاتی ہے جو اس پر ازخیر وبرکت زمانہ سے بالکل ہم آہنگ تھی جس کے ائمہ میں سے یزید بھی ایک امام تھا۔ علاوہ ازیں اس سے تاریخ اسلام کے وہ داغ دھبے دور ہو جائیں گے جن سے شریر لوگ اس کو داغ دار کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر اس کتاب کے دامن میں مزید وسعت ہوتی تو ہم بہت سے تاریخی حقائق بیان کرتے۔ (بعض حقائق کے لیے دیکھیے ہمارے حواشی بر العواصم من القواصم) اگر زندگی نے مہلت دی تو میں اسلام کے اس قرض کو جس سے میری گردن زیر بار ہے صدر اسلام کی ایک ایسی تاریخ پیش کرکے ادا کروں گا جن کو دیکھ کر مسلم نوجوان عش عش کر اٹھیں اور مسلمانوں پر یہ راز آشکار ہو جائے گاکہ اموی دور میں اسلام یورپ اور افریقہ میں کیوں کر اشاعت پذیر ہوا تھا۔ ایسی تاریخ امت مسلمہ کی ایک اہم ضرورت ہے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ ایسے شخص کو اس خدمت کی توفیق ارزانی کرے جو بہمہ وجوہ اس کا حق ادا کرنے کے قابل ہو۔ ] ماوراء النہر کے علاقے فتح ہوئے ۔ انہیں قتیبہ بن مسلم نے فتح کیا ؛ جو کہ حجاج بن یوسف کا نائب تھا۔ حجاج بلاد عراق پر عبد الملک کا نائب تھا۔ ان میں ظلم و ستم ہونے کے باوجود [ان کے دور میں ] مسلمانوں نے ترک بادشاہ خاقان سے جنگ لڑی ؛ خاقان کوشکست دیکراسے اس کی اولاد سمیت قید کرلیا۔ نیز اسی کی حکومت میں بلاد سندھ فتح ہوئے۔ بلاد اندلس پر غلبہ حاصل کیا ۔ قسطنطنیہ پر غزوہ کیا۔ اور ایک مدت تک اس کا محاصرہ کیے رکھا۔ موسم گرما وسرما میں جہاد کو جاری رکھا۔

پھر جب حکومت بنو عباس کے پاس چلی گئی تو بلاد عراق‘ شام ؛ مصر ؛ خراسان ؛ حجاز ؛ یمن؛ اوردیگر جن علاقوں پر بنو امیہ کی حکومت تھی ؛ وہاں پر بنو عباس حاکم بن گئے سوائے بلاد مغرب کے۔ بنو امیہ نے بلادمغرب [اندلس ] پر اپنی حکومت قائم کرلی ۔ اور بلاد قیروان کی حکومت ان دونوں کے درمیان میں تھی۔

یزید اپنے عہد ولایت میں مسلمان بادشاہوں میں سے ایک تھا ؛ جسے اللہ تعالیٰ نے زمین پر حکومت دی تھی۔ لیکن جب یزید کا انتقال ہوا تومکہ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے اس کی بیعت سے خارج تھے ۔ یزید بھی تمام بلاد اسلامیہ پر حاکم نہیں بن سکا جیسے بنو عباس تمام اسلامی ممالک کے حاکم نہ بن سکے۔ بخلاف عبد الملک اور اس کی اولاد کے ؛ انہیں تمام بلاد ِ اسلامیہ پر حاکم بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ایسے ہی خلفاء ثلاثہ اور حضرت امیر معاویہ تمام اسلامی شہروں کے حاکم تھے۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام اسلامی شہروں پر حاکم نہ بن سکے۔

ان لوگوں کے امام ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ حکومت و سلطنت اور سیف و سنان سے بہرہ ور تھے کسی کو حاکم مقرر کرتے اور کسی کو معزول کرتے۔ کسی کو دیتے اور کسی کو نہ دیتے۔ ان کے احکام حدود سلطنت میں نافذ ہوتے تھے۔ وہ شرعی سزائیں دیتے، کفار سے جہاد کرتے اور لوگوں میں مال تقسیم کیا کرتے تھے۔یہ سب باتیں متواتر کی حد تک معروف ہیں اور ان سے مجال انکار نہیں ۔ ان کے امام خلیفہ یا سلطان ہونے کا یہی مطلب ہے، جیسے امام صلوٰۃ وہ ہے جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو جب ہم دیکھیں کہ کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھا رہا ہے تو اس کا امام ہونا ایک مشہود و محسوس امر ہے جس میں جدل و بحث کی کوئی گنجائش نہیں ۔ باقی رہا اس کا نیک یا بد ہونا؛ نافرمان یا تابع فرمان ہونا تو یہ ایک الگ بات ہے۔

اہل سنت سلاطین و خلفاء مثلاً یزید یا عبد الملک یا منصور میں سے جب کسی کو امام تصور کریں گے تو اس کی یہی حیثیت ہو گی۔ جوشخص اس میں جدل یا بحث سے کام لیتاہے وہ اسی طرح ہے جیسے کوئی حضرت ابوبکر وعمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی ولایت یا قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی بادشاہت کو تسلیم نہ کرے اور اس میں جھگڑنے لگے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیایہ آئمہ و خلفاء معصوم تھے؟ یا سب باتوں میں عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل پیرا تھے ؟ اور سب افعال و امور میں اللہتعالیٰ کے اطاعت کیش تھے؟ تو کوئی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھتا۔ایسے ہی ان کے ہر حکم کے واجب الاطاعت ہونے کا عقیدہ کوئی بھی مسلمان عالم نہیں رکھتا ؛ اگران کا حکم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر ہو۔

تاہم اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعات و عبادات اورجن چیزوں میں ان کی مددکی ضرورت ہوتی ہے‘ ان میں ان کے ساتھ شرکت کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ ہم ان کی اقتداء میں جمعہ و عیدین اور دیگر نمازیں پڑھ سکتے ہیں ، اس لیے کہ اگر ان کی اقتداء میں نماز نہ پڑھی جائے تو نمازیں معطل ہو کر رہ جائیں گی۔ ہم ان کے ساتھ مل کر کفار کے خلاف جہاد کر سکتے ہیں ۔ بیت اللہ کا حج کر سکتے ہیں ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اقامت حدود میں ان کا تعاون حاصل کر سکتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ا گر کوئی انسان ایسے ساتھیوں کے ساتھ حج کرنے جائے جن کے کچھ گناہ ہوں ؛ او روہ حج کرنے آئے ہوں ۔ توان کے گناہ اس کو کچھ بھی نقصان نہیں دیں گے۔ایسے ہی غزوات اور دوسرے اعمال صالحہ کا معاملہ ہے۔[کوئی انسان نیک عمل انجام دے] اور اس میں اس کے ساتھ کوئی فاسق و فاجر آدمی بھی شریک ہو تو اس کی شرکت کی وجہ سے اسے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا۔اورپھر اس وقت کیاکہنا جب اس طریقہ کے بغیر کسی کام کرنا ممکن ہی نہ ہو۔اور جب ایسا والی ہوجو گناہ کے کام کرتا ہو؟ اسی طرح عدل و انصاف اور تقسیم مال وغیرہ میں بھی ان سے اعانت طلب کی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ بسا اوقات ان کے احکام اور ان کی تقسیم عدل و انصاف پر مبنی ہوتی ہے وہ نیک کاموں میں اعانت کرتے ہیں [ﷲ کا شکر ہے کہ امت محمدیہ تاہنوز بخیر و عافیت ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امت کے اوّلین ولاۃ و حکام غیر معصوم ہونے کے باوجود صلاح و استقامت کے انتہائی بلند معیار پر فائز تھے اقوام عالم میں جو لوگ مرتبہ و مقام کے لحاظ سے فروتر ہیں وہ ان کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے کارہائے نمایاں کو اجاگر کرنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ان کی لغزشوں کا ذکر نہایت نرم الفاظ میں کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مناسب عذر تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ دورِ حاضر کے بعض شریر ہمارے بعض نیک نہاد سلاطین و ملوک کی سیرت و سوانح کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کے کارہائے نمایاں کو چھپاتے اور ان کی تاویلیں کرتے اور ان سے صادر شدہ لغزشوں کو رائی کا پہاڑ بنا کر دکھا رہے ہیں ، وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ ان ولاۃ و حکام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں حالانکہ اس کا سب سے بڑا نقصان ملت اسلامیہ کو پہنچتا ہے اور وہ یہ کہ اس سے ملت کے اذہان و قلوب میں مایوسی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ اپنے ماضی سے بد دل ہو جاتی ہے۔حق کے پرستار و مددگار اہل سنت مثلاً امام بخاری و مسلم اور دیگر حفاظ حدیث کا معاملہ اس سے یک سر مختلف ہے، صداقت شعار راویان حدیث کی جمع و تدوین میں انھوں نے حد درجہ اعتدال سے کام لیا۔ خلفائے راشدین کے بعد آنے والے ولاۃ و حکام کے اخبار و واقعات جمع کرنے میں مؤرخین غالباً یہ نظریہ رکھتے تھے کہ تقابل کے نقطہ نظر سے وہ حکام خلفائے راشدین کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے، اس لیے انھوں نے ان کے بعض ایسے حقوق ادا کرنے میں فیاضی سے کام لیا جو بذات خود عظیم مگر خلفائے راشدین کے مقابلہ میں فروتر درجہ کے تھے۔ بہر کیف اہل سنت رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ما سوا کسی کو معصوم قرار نہیں دیتے اور ہر مستحق کو اس کا حق دینا چاہتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں جب ہم از سرِ نو تاریخ اسلام کا جائزہ لے کر اسے کذب و دروغ سے پاک و صاف کرنے کا بیڑا اٹھائیں گے تو ہمیں ان اسباب نصرت و توفیق تک رسائی حاصل ہو گی جو ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے مقدر کر رکھے تھے جنھوں نے عالم اسلام کی بنیاد رکھی اور ﷲ کی دعوت کواکناف ارضی تک پہنچایا اس وقت یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئے گی کہ باطل پرستوں نے جن لوگوں کی زندگی کو داغ دار کرنے کی سعی کی ہے وہ تاریخ اسلام کے عظیم ہیرو اور اپنے عصر و عہد کے چشم و چراغ تھے۔( رضی اللہ عنہم )۔] اور اثم و عدوان میں تعاون کرنے میں احتراز کرتے ہیں ۔

[اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف:]

اس مسئلہ کی تفصیل میں لوگوں کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے؛ جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ مثال کے طورپر فاسق حکمران کے عادلانہ احکام کا نفاذ۔ مثلاً فاسق امام کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز دوہرائی جائے گی یا نہیں ؟ اس باب میں حق اور درست بات یہ ہے کہ جو کوئی عادلانہ حکم اور عادلانہ تقسیم کرے؛ تو اس کا حکم اور تقسیم نافذ ہوں گے۔اور جو کوئی بھلائی کا حکم دے؛ اور برائی سے منع کرے؛ اس معاملہ میں اس کی مدد کی جائے گی۔ جب تک کہ اس میں کوئی خرابی راجح نہ ہو۔ اوریہ کہ بیشک جمعہ اورجماعت کا قیام بہت ضروری ہے۔اگر اس کے لیے کسی نیک انسان کو امام مقرر کرنا ممکن ہو تو پھر کسی ایسے بدعتی کو امام بنانا جائز نہیں جو اپنی بدعات کااظہار کرتا ہو۔ کیونکہ ایسے لوگوں پر حسب استطاعت انکار واجب ہوتا ہے؛ تو پھر ان کو ولایت تفویض کرنا جائز نہیں رہتا۔ اور اگر صرف یہی ممکن ہو کہ دو اہل بدعت و فجور میں سے کسی ایک کو ولایت تفویض کرنا ہو؛ تو پھر ان میں سے ایسے آدمی کو والی بنایا جائے جو اس واجب کی ادائیگی کے لیے زیادہ مناسب ہو۔ ایسے ہی جب غزوات میں دو آدمیوں میں سے کسی ایک کو امیر بنایا جانا ہو؛ ان میں سے ایک دیندار ہو مگر جہادی اعتبار سے کمزور ہو؛ اور دوسرے کے گناہوں کے باوجود وہ جہاد کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو؛ تو اسے ولایت تفویض کی جائے جس کی امارت و ولایت مسلمانوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ وہ اس آدمی سے زیادہ بہتر ہے جس کی ولایت سے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔اور جب نماز جمعہ کی ادائیگی اور باجماعت نماز کا قیام صرف فاجر اور بدعتی کے پیچھے ہی ممکن ہو؛ تو اس کے پیچھے نماز پڑھی جائے گا؛ اور اس کااعادہ نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے پیچھے نماز پڑھنا ممکن ہو تو پھر اس کے پیچھے نماز ترک کرنے میں اس سے قطع تعلقی ہے؛تاکہ یہ اور اس کے امثال و ہمنوا اپنی بدعات اور فجور سے باز آجائیں ؛ تو پھر ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ اور اگران کے پیچھے نماز ترک کرنے میں کوئی دینی مصلحت نہ ہو تو پھر ان کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے گی۔ اور کسی پر بھی ایک نماز کا دو بار پڑھنا فرض نہیں ہوتا۔

خلاصہ کلام ! جہاں تک ممکن ہوسکے اہل سنت و الجماعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کی کوشش کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے:

﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ [تغابن ۱۶]

’’تم سے جتنا ہوسکے اللہ سے ڈرو۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:

’’جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دو ں تو جتنا ہوسکے اسے پورا کرو۔‘‘[سبق تخریجہ ]

وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بندوں کی معاش اور معاد کی اصلاح کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ اور بیشک آپ نے اصلاح کا حکم دیا ہے ؛ اورفساد سے منع کیا ہے۔پس جس کسی فعل میں صلاح اور فساد دونوں پہلو موجود ہوں تو وہ اس میں سے راجح کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پس جب اس میں صلاح کا پہلو فساد پر غالب ہو تو وہ اس کے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اور اگر فساد کا پہلو صلاح پر غالب ہو تو اس کے ترک کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مصلحتوں کی تکمیل ان کے حصول اورمفاسد کے خاتمہ اور ان کے انسداد کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔پس جب کوئی خلیفہ خلافت پر فائز ہوتا ہے ؛ جیسے یزید اور عبدالملک اور منصور ؛ اور ان کے علاوہ دیگر؛ توپھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ: یاو اسے ولایت پر فائز ہونے سے روکا جائے اور اس سے جنگ کی جائے حتی کہ کوئی دوسرا مسند خلیفہ پر فائز ہو جائے؛ جیسا کہ ان لوگوں کا خیال ہے جو حکمرانوں کے خلاف تلوار چلانا جائز سمجھتے ہیں ۔ یہ ایک فاسد رائے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رائے کی خرابیاں اس کی مصلحتوں سے بڑھ کر ہیں ۔ اور بہت ہی کم ایسے ہوتا ہے کہ کسی نے کسی شان و شوکت والے حکمران کے خلاف خروج کیا ہو؛ مگر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا شر اورفساد خیروبھلائی سے بہت زیادہ اور بڑا تھا۔ جیسے ان لوگوں کے ساتھ ہوا جنہوں نے مدینہ میں یزید کے خلاف خروج کیا تھا۔ اور جیسا کہ ابن اشعث جس نے عراق میں عبدالملک کے خلاف بغاوت کی تھی۔اور ابن مہلب ؛ جس نے خراسان میں اپنے بیٹے کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اور داعی ابو مسلم ؛ جس نے خراسان میں خروج کیا تھا۔ اوروہ لوگ جنہوں نے مدینہ اور بصرہ میں منصور کے خلاف خروج کیاتھا۔ اور ان کے امثال و ہمنوا دیگر لوگ ۔

ان کا انتہائی انجام یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو مغلوب ہو جائیں یا پھر غالب آجائیں ؛ لیکن پھر بھی ان کا ملک ختم ہی ہو جاتا ہے؛ اورانجام کار ان کے حق میں نہیں رہتا۔ عبداللہ بن علی اور ابو مسلم وہ دو اشخاص تھے جنہوں نے ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا۔ مگر آخر کار منصور نے ان دونوں کو قتل کردیا۔ اور اہل حرہ اور ابن اشعث اور ابن مہلب وغیرہ اوران کے ساتھی شکست کھا کر بھاگ گئے۔ نہ ہی وہ دین قائم کر سکے؛ اور نہ ہی دنیا کو باقی رکھ سکے۔ اگرچہ ایسا کرنے والے بہت بڑے متقی اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہو۔ وہ ہرگزحضرت علی اور حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم سے افضل نہیں ہوسکتا۔ مگر اس کے باوجود ان کے مابین جو جنگ ہوئی اس میں ان کا کوئی قابل تعریف کام نہیں تھا۔ حالانکہ ان کا مقام اللہ کے ہاں بہت بلند ہے؛ اور ان کی نیت بھی دوسرے لوگوں سے بڑھ صالح اور اچھی تھی۔

ایسے ہی اہل حرہ میں بہت سارے اہل علم اور دیندار لوگ موجود تھے۔ایسے ہی اشعث کے ساتھیوں میں بھی ایک بڑی تعداد اہل علم و دین لوگوں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے ؛ [آمین]۔

حضرت اما م شعبی رحمہ اللہ سے ابن اشعث کے فتنہ کی بابت پوچھا گیا: اس وقت آپ کہا ں تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ نہ ہی نیک اور متقی تھے؛ اور بدکردار اور طاقتور۔‘‘

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’ حجاج اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب ہے؛ اور تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے ہاتھوں سے ختم نہ کرو ؛ لیکن اس حالات میں تم پر گریہ و زاری اور انکساری واجب ہوتی ہے؛ بیشک اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:

﴿وَلَقَدْ اَخَذْنَاہُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّہِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ ﴾ (المؤمنون ۷۶]

’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انھیں عذاب میں پکڑا، پھر بھی وہ نہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے تھے۔‘‘

حضرت طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’ تقوی اختیار کرکے فتنہ سے بچو۔‘‘تو آپ سے پوچھا گیا : کہ تقوی کی اجمالی تعریف بیان کریں ؛ تو آپ نے فرمایا:’’ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کے کام اس کے عطا کردہ نور کی روشنی میں کرو؛ اور اس کی رحمت کی امید رکھو؛ اور اللہ تعالیٰ کی معصیت اس کے نور کی روشنی میں ترک کردو؛ اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہو۔‘‘[رواہ احمد و ابن ابی الدنیا]

افاضل مسلمین فتنہ کے دور میں خروج اور قتال سے منع کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر؛ اور سعید بن مسیب اور حضرت علی بن حسین رحمہم اللہ ؛ اور ان کے علاوہ دیگر حضرات حرہ والے سال یزید کے خلاف خروج سے منع کرتے رہے۔ اور جیسا کہ حضرت حسن بصری اور مجاہد اور دیگر حضرات ابن اشعث کے فتنہ کے دور میں خروج سے منع کرتے تھے۔ اسی لیے اہل سنت کے معاملہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کی روشنی میں فتنہ کے دور میں قتال ترک کرنے پر استقرار حاصل رہا۔ اوروہ اس مسئلہ کو اپنے ہاں عقائد میں ذکر کرتے رہے۔ اورحکمرانوں اس ظلم پر لوگوں کو صبر کرنے اور قتال ترک کرنے کی تلقین کرتے رہے۔اگرچہ فتنہ کی لڑائیوں میں بہت سارے اہل علم اور اہل دین حضرات شامل بھی ہوگئے تھے۔

اہل بغاوت سے قتال اور اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے قتال کا باب فتنہ کے بارے میں کفار سے قتال کے باب سے مشابہت رکھتا ہے۔اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ اور جو کوئی اس باب میں وارد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث میں غور و فکر کرتا ہے؛ تو یقیناً وہ اہل بصیرت لوگوں کی سی عبرت حاصل کرتا ہے۔ اور وہ جان لیتا ہے کہ جو کچھ احادیث نبویہ میں وارد ہوا ہے ؛ وہ بہترین امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا؛ کیونکہ اہل عراق نے آپ کو بہت زیادہ خطوط لکھ کر بلایا تھا؛ تواہل علم اور اعلی فاضل دین دار لوگوں نے آپ کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا؛ جیسے عبداللہ بن عمر؛ ابن عباس؛ اور ابوبکر بن عبدالرحمن بن الحارث۔ ان کا غالب گمان یہی تھا کہ آپ کو قتل کردیا جائے گا۔ حتی کہ بعض نے تو الوداع کرتے ہوئے یہاں تک کہا تھا: ’’ اے قتل ہونے والے ! ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں ۔‘‘

بعض نے کہا تھا: ’’اگر شفاعت کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں آپ کو پکڑ لیتا ؛ اور اس خروج سے منع کرتا۔‘‘

ان لوگوں کا مقصد آپ کی نصیحت اور خیرخواہی تھا؛ اوروہ آپ کی اور مسلمانوں کی مصلحت چاہتے تھے۔ اللہ اور اس کا رسول اصلاح کرنے کا حکم دیتے ہیں ؛ فساد کا نہیں ۔ لیکن رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط۔

پس بعد میں واضح ہوگیا کہ معاملہ ویسے ہی ہوا جیسے یہ حضرات فرما رہے تھے؛ اس خروج میں نہ ہی کوئی دین کی مصلحت تھی اور نہ ہی دنیا کی مصلحت ۔ بلکہ ان ظالم اور سر کش لوگوں کو نواسہء رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم و ستم ڈھانے کا موقع مل گیا۔ حتی کہ آپ کو انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا گیا۔ اوریہی فساد آپ کے خروج اور قتل میں تھا جو کہ اگر آپ اپنے علاقہ میں بیٹھے رہتے ؛ تو کبھی بھی پیدا نہ ہوتا۔ اس لیے کہ آپ نے جس خیر و بھلائی کے حصول اور شر اوربرائی کے خاتمہ کاارادہ کیا تھا؛ وہ تو نہ ہوسکا۔ بلکہ آپ کے خروج اور قتل سے شر مزید بڑھ گیا۔اس کی وجہ سے خیر کم ہوگئی۔ اور بہت بڑا شر پیدا ہوگیا۔ بلا شک و شبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ سے بڑے فتنے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ سے فتنے پیدا ہوئے تھے۔ ان تمام امور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے ظلم پر صبر کرنے ؛ اور ان سے جنگ ترک کرنے کا جو حکم دیا ہے؛ وہ بندوں کے لیے معاش اور معاد ہر لحاظ سے بہتر تھا۔ اور جس نے بھی اس کی مخالفت کی ؛ خواہ جان بوجھ کر ہو یا غلطی سے ؛ تو اسے کوئی بھلائی نہیں ملی؛ بلکہ خرابی اور فساد ہی پیدا ہوا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا:

’’میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘

اس حدیث میں آپ نے صلح کرانے کی بنا پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش فرمائی۔

آپ نے کسی ایک کی بھی تعریف لڑائی ؛ فتنہ؛ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان کی اطاعت سے روگردانی اور جماعت سے مفارقت کی بنا پر نہیں کی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تمام صحیح أحادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے؛ فرماتے ہیں : میں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا؛ وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؛ آپ منبر پر تھے؛ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے؛ آپ کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرما رہے تھے:

’’بیشک میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا۔‘‘

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سردار ہونے کی خبردی ہے؛ اور یہ خبر بھی دی ہے کہ اللہ آپ کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔

اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ دونوں گروہوں کے مابین صلح کرانا محبوب اور ممدوح امر تھا؛ایسا کام جس کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے تھے۔ اور جو کچھ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کیا ؛ وہ آپ کے بڑے فضائل اور ان مناقب میں سے تھا جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تعریف کی ہے۔ اگر قتال واجب یا مستحب ہوتا؛ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ترک کرنے پر کسی کی تعریف نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ جمل اور صفین میں پیش آیا؛ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی کوئی تعریف نہیں کی؛ کجا کہ واقعہ حرہ کا کوئی ذکر ہو؛ یا جو کچھ مکہ مکرمہ میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کے وقت پیش آیا؛ یا پھر جو کچھ ابن اشہب اور ابن مہلب وغیرہ کے فتنوں میں پیش آیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ خوارج سے قتال کا حکم منقول ہے؛ جن سے پھر امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہروان کے مقام پر قتال کیا تھا؛ اس سے پہلے وہ حروراء میں بھی بغاوت کرچکے تھے۔اس بارے میں سنت مشہور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ لڑی تو آپ اس جنگ پر بہت خوش تھے۔ اور ان کے بارے میں احادیث روایت کی گئی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان سے جنگ کے مسئلہ پر اتفاق و اجماع تھا۔ ایسے ہی ان کے بعد ائمہ اہل علم کے نزدیک یہ قتال جنگ جمل اور صفین کی طرح نہیں تھا جس کے بارے میں کوئی نص اور اجماع منقول نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس میں شریک افاضل حضرات نے اس کی کوئی تعریف کی ہے؛ بلکہ انہوں نے ندامت کے ساتھ اس سے رجوع کر لیا تھا۔

یہ حدیث ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات نبوت میں سے ایک ہے۔اس لیے کہ اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس کردار کا ذکر کیا گیا؛ اور اس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔پس جو کچھ آپ نے بیان فرمایا؛ اور جس پر تعریف کی ؛ وہ تیس سال بعد ویسے ہی حق اور سچ ثابت ہوا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے مابین صلح کراناسن ۳۱ھ میں پیش آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت رمضان ۳۰ ھ میں ہوئی۔ اور جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً سات سال تھی۔ آپ کی پیدائش سن ۳ہجری کو ہوئی تھی اورحضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فتح طائف والے سال مسلمان ہوئے۔ غزوہ طائف فتح مکہ کے بعد پیش آیا تھا۔ یہ حدیث جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کچھ فرمایا ہے؛ یہ سن آٹھ ہجری کے بعد کا واقعہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیس سال بعد تک خلافت نبوت تھی۔ تو اس فرمان کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ اس لیے کہ آپ نے موت سے قبل یہ جملے ارشاد فرمائے تھے۔ اسی مناسبت سے ایک وہ صحیح روایت بھی ہے جو سلیمان تیمی نے ابو عثمان نہدی سے روایت کی ہے؛ وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھا لیتے اور فرمایا کرتے : ’’ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ؛ تو بھی ان سے محبت کر۔‘‘ [سبق تخریجہ ]

اس حدیث میں حضرت حسن اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما کے مابین جمع ہے۔اوریہ خبر دی گئی ہے کہ آپ ان دونوں سے محبت کرتے ہیں ؛ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی گئی ہے کہ وہ بھی ان دونوں سے محبت کرے۔ ان دونوں حضرات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صحیح احادیث کی روشنی میں مشہور و معروف ہے۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؛فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی بابت فرمایا:

’’ اے اللہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں ‘پس تو بھی اس سے محبت کر ۔‘‘[البخاری ۵؍۲۶؛ کتاب فضائل أصحاب النبي ؛ باب مناقب الحسن و الحسین ؛ مسلم ۴؍ ۱۸۸۴ ؛ کتاب فضائل الصحابۃ ؛ باب فضائل الحسن و الحسین ۔ سنن الترمذي ۵؍۳۲۷ ۔ ]

صحیحین میں زہری سے روایت ہے؛ وہ حضرت عروہ سے وہ حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں ؛ فرمایا:

’’ مخزومیہ خاتون[فاطمہ بنت اسود] جس نے[غزوہ فتح کے موقع پر]چوری کر لی تھی ، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا ۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کون کرے ؟آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہیں ۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا ....‘‘ [صحیح البخاری ۵؍۲۳ ؛ کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ باب ذکر اسامۃ بن زید رضی اللہ عنہما ؛ مسلم ۳؍۱۳۱۵ ؛ کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف ؛ وغیرہ۔ سنن أبي داؤد ۴؍ ۱۸۸؛ کتاب الحدود ؛ باب في الحد یشفع فیہ۔والحدیث یوجد في سنن الترمذي و ابن ماجۃ و النسائی۔] 

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ سے روایت ہے؛ فرمایا :

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن ایک صاحب کو مسجد میں دیکھا کہ اپنا کپڑا ایک کونے میں پھیلا رہے تھے ۔ انہوں نے کہا دیکھو یہ کون صاحب ہیں ؟ کاش ! یہ میرے قریب ہوتے ۔ ایک شخص نے کہا اے ابوعبدالرحمن !کیا آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟ یہ محمد بن اسامہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ابن دینار نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے ہاتھوں سے زمین کریدنے لگے پھر بولے:’’ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھتے تو یقیناً آپ ان سے محبت فرماتے ۔‘‘[البخاری ۵؍۲۴؛ کتاب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب ذکر أسامۃ بن زید رضی اللّٰہ عنہما ۔]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی محبت میں جمع کیاہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ ان دونوں حضرات سے محبت کرے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں سے انفرادی محبت بھی بڑی معروف تھی۔ یہ دونوں حضرات ان جنگوں میں قتال کی رائے نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ صفین کے موقع پر قتال سے الگ تھلگ رہے۔ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی مل کر جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

[شہادت حسین رضی اللہ عنہ اور اہل سنت کا مؤقف ]

حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے والد اور بھائی کو ہمیشہ جنگ ترک کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے۔پس جب معاملہ آپ کے ہاتھ میں آیا تو آپ نے قتال ترک کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے دو بڑے لڑنے والے گروہوں کے مابین آپ کے ذریعہ سے صلح کرادی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ واضح ہوا کہ جنگ ترک کرنے میں جو مصلحت تھی؛ وہ جنگ کرنے سے زیادہ بڑی اوراہم تھی۔

ایسے ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی صرف اورصرف مظلومیت کی حالت میں شہید کیا گیا۔آپ نے امارت کا مطالبہ ترک کردیا تھا؛ اور آپ واپس جانا چاہتے تھے؛ یا تو اپنے شہر کی طرف چلے جائیں ؛ یا محاذ جہاد کی طرف ؛ یا پھر لوگوں پر والی یعنی یزید کی طرف۔

جب کوئی کہنے والا کہتا ہے کہ : بیشک حضرت علی اورحضرت حسین رضی اللہ عنہما نے آخری مرحلہ میں عاجز آجانے کی وجہ سے قتال ترک کردیا تھا؛ اس لیے کہ آپ کے اعوان و انصار باقی نہیں رہے تھے۔تو اب جنگ لڑنے میں بلاوجہ اور بغیر کسی مصلحت کے حصول کے نفوس کو قتل کروانا تھا۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بعینہ وہ حکمت ہے جس کی رعایت شارع علیہ السلام نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کرنے میں مد نظر رکھی ہے۔اور آپ نے فتنہ کے دور میں قتال ترک کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اگرچہ ایسا کرنے والوں کی رائے میں ان کا مقصود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہوتا ہے۔ جیسا کہ وہ لوگ جنہوں نے حرہ میں یزید کے خلاف اور دیرہ جماجم میں حجاج بن یوسف کے خلاف خروج کیا تھا۔ لیکن برائی ایسے ہی باقی رہی ؛ بلکہ پہلے سے زیادہ سخت ہوگئی۔ پس اس طرح برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرنا خود ایک برائی بن کر سامنے آیا۔ اس لیے کہ اس معروف کو پانے کے لیے ایسی خرابی کا ارتکاب کرنا پڑا جس کی برائی اس بھلائی سے زیادہ تھی۔تو اس طرح سے اس معروف کا حاصل کرنا خود ایک منکر اور برائی بن کر رہ گیا۔

اسی طریقہ کار پر چلتے ہوئے خوارج نے اہل قبلہ پر تلوار چلانے کو حلال سمجھا۔حتی کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں سے جنگ کی۔ اور ایسے ہی معتزلہ ؛ زیدیہ اور فقہاء میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کو جائز سمجھتے ہیں ۔ جیسے وہ لوگ جنہوں نے محمد بن عبداللہ بن حسن بن حسین اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن حسین اور دیگر کے ساتھ مل کر خروج کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے دین دار لوگوں کا مقصود اس چیز کا حصول تھا جسے وہ دین سمجھتے تھے۔لیکن ان کی خطاء دو وجہ سے تھی :

اوّل یہ کہ جس چیز کو وہ دین سمجھتے تھے؛ وہ حقیقت میں دین نہیں تھی۔ جیسا کہ خوارج اوردیگر اہل أہواء فرقوں کی رائے تھی۔ بلاشک وہ ایسا عقیدہ رکھتے تھے جو کہ خطأ پر مبنی بدعت تھی۔ اورپھر اسے بنیاد بناکر لوگوں سے جنگ کرتے تھے۔ بلکہ اس بنیاد پر وہ اپنے مخالفین کو کافر کہتے تھے۔ پس وہ اپنی رائے میں ؛ اور مخالفین سے قتال اور ان کی تکفیر اور ان پر لعنت کرنے میں خطا کا ارتکاب کرتے تھے۔

عمومی طور پر خواہشات نفس کے پجاری فرقوں جیسے جہمیہ وغیرہ کا یہی حال ہوتا ہے؛ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کے انکار کی دعوت دیتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں : کہ اللہ تعالیٰ کا کلام صرف وہی ہے جو اس نے دوسروں میں پیدا کیا ہے۔ اوریہ کہ اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا جاسکتا۔اور ایسے ہی دیگر عقائد۔ اور جب کچھ حکمرانوں نے ان کی طرف میلان ظاہر کیا تو انہوں نے اس مسئلہ میں اپنے مخالف لوگوں کا امتحان لینا شروع کردیا۔بھلے اس میں انہیں قتل کردیا جائے؛ یا پھر قید میں ڈال دیا جائے۔یا پھر معزول کرکے ذرائع آمدن پر پابندی لگادی جائے۔ایسے ہی جہمیہ نے کئی ایک بار کیا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے اہل ایمان بندوں کے ناصر و مدد گار رہے۔

رافضہ کا حال ان سب سے زیادہ برا ہے۔جب ان کو قوت مل جاتی ہے تو یہ کفار کے ساتھ دوستی اور ان کی مدد کرتے ہیں ۔ اور مسلمانوں اور اپنے تمام مخالفین سے دشمنی مول لیتے ہیں ۔اور ایسے ہی ان میں رنگ برنگی بدعات بھی پائی جاتی ہیں ؛ خواہ یہ بدعات حلول کی ہوں ؛ یعنی یہ لوگ ذات وصفات میں حلول کا عقیدہ رکھتے ہیں ؛ یا پھر خواہ نفی اور اثبات میں غلو کی بدعت ہو۔ یا تو یہ ارجاء کی بدعت ہو گی؛ یا پھر قدر کی؛ یا ان کے علاوہ کوئی دوسری بدعت ۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ انتہائی برے اعتقادات رکھتے ہیں ۔اور اپنے مخالفین کی تکفیر اور ان پر لعنت کرتے ہیں ۔ اوراہل سنت و الجماعت کی تکفیر اور ان سے قتال میں ان کے ائمہ خوارج ہیں جو حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ۔

دوسری وجہ:....جو کوئی اپنے رائے اور اعتقاد کی طرف دعوت دیتے ہوئے قتال کرتا ہے وہ سنت و الجماعت کا مخالف ہے۔جیسے وہ حضرات جنہوں نے جمل؛ صفین ؛ حرہ اور جماجم اوردیگر معرکوں میں حصہ لیا۔لیکن کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کا گمان یہ ہو کہ جنگ کرنے سے مطلوب مصلحت حاصل ہوسکتی ہے؛ مگر وہ جنگ قتال سے حاصل نہ ہو۔ بلکہ فساد پہلے سے زیادہ بڑھ جائے۔ تو پھر آخر میں اس پر یہ واضح ہوکہ بہتری اسی میں تھی جس کا حکم شارع علیہ السلام نے شروع میں حکم دیا تھا۔

ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن تک نصوص شریعت نہیں پہنچیں ؛یا ان کے ہاں یہ نصوص ثابت نہیں ہو سکیں ۔اور بعض کی نظر میں یہ نصوص منسوخ تھیں ؛ جیسے ابن حزم۔اور بعض لوگ ان کی تأویل کا شکار تھے۔ جیسا کہ بہت سارے مجتہدین سے بہت ساری نصوص کے بارے میں پیش آیا ہے۔

پس ان تین وجوہات کی بنا پر بعض اہل استدلال نے ان بعض نصوص پر عمل کو ترک کردیا تھا۔ یا تووہ ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے۔یہ پھر وہ ان کے مورد استدلال پر دال نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے تھے۔یا پھر ان کا عقیدہ تھا کہ یہ نصوص منسوخ ہیں ۔

[اقتدار کا فتنہ اور اسلامی تعلیمات]

یہ جاننا ضروری ہے کہ ان فتنوں کے اسباب مشترکہ ہوتے ہیں ۔ پس دلوں پر ایسے خیالات وارد ہوتے ہیں جو انہیں حق کی معرفت اور اس کے ارادہ سے روک دیتے ہیں ۔ اسی لیے ایسے لوگ اہل جاہلیت کی منزلت پر شمار ہوتے ہیں ۔ جاہلیت میں نہ ہی حق کی معرفت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا قصدو ارادہ۔ جبکہ اسلام علم ِ نافع اور عمل صالح لیکر آیا ہے۔ جس میں حق کی معرفت اور اس کا قصد شامل ہیں ۔ پس اسلام اس بات پر متفق ہے کہ بعض حکمران اپنی ترجیحات کی خاطرایسا ظلم کرتے ہیں کہ نفوس اس پر صبر نہیں کرسکتے۔اور نہ ہی ان کے ظلم سے دفاع اس سے بڑے فساد اورخرابی کے بغیر ممکن ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو اپنے حق کا حصول اور ظلم سے دفاع پسندیدہ ہوتا ہے ؛اس لیے وہ اس عمومی خرابی پر نظر نہیں ڈالتا جو اس کے فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوگی۔اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:

’’ میرے بعد تم دیکھو گے کہ تم پر دوسروں کو فوقیت دی جائے گی ، پس تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو اور میری تم سے ملاقات حوض پر ہو گی ۔‘‘[متفق علیہ ؛ سبق تخریجہ ]

اور صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛سنا ،انہوں نے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ایک انصاری صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں شخص کی طرح مجھے بھی آپ حاکم بنا دیں ؟ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ میرے بعد [دنیاوی معاملات میں ] تم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے گی اس لیے صبر سے کام لینا ، یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آ ملو ۔‘‘[البخاري ۵؍۳۳ ؛کتاب مناقب الأنصار؛ باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم للأنصار اصبروا....؛ مسلم ۳؍۱۴۷۴ ؛ کتاب الإمارۃ باب الأمر بالصبر عند ظلم الولاۃ و استئثارہم ....‘‘] 

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے؛ یحیی بن سعید نے سنا جب وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے یہاں جانے کے لیے نکلے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار رضی اللہ عنہم کو بلایا تاکہ بحرین کا ملک بطور جاگیر انہیں عطا فرما دیں ۔ انصار نے کہا جب تک آپ ہمارے بھائی مہاجرین کو بھی اسی جیسی جاگیر نہ عطا فرمائیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ دیکھو جب آج تم قبول نہیں کرتے ہو تو پھر میرے بعد بھی صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے آ ملو ، کیونکہ میرے بعد قریب ہی تمہاری حق تلفی ہونے والی ہے۔‘‘[البخاری ؛ سبق تخریجہ ]

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’مسلمان مرد پر حاکم کی بات سننا اور اطاعت کرنا لازم ہے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند ہو ؛تنگی ہو یا آسانی ہو؛ اس کی بات سننا لازم ہے۔‘‘[مسلم؛ امارت اور خلافت کا بیان : ح:۲۷۱ غیر معصیت میں حاکموں کی اطاعت کے وجوب....کے بیان میں ۔]

صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنگی اور آسانی میں پسند و ناپسند میں اور اس بات پر کہ ہم پر کسی کو ترجیح دی جائے؛اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم حکام سے حکومت کے معاملات میں جھگڑا نہ کریں گے۔ اور اس بات پر بیعت کی کہ ہم جہاں بھی ہوں گے حق بات ہی کہیں گے اللہ کے معاملہ میں ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ رکھیں گے۔‘‘[ایضًا]

یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان پر ترجیح دیے جانے کے وقت صبر کریں ؛ اور اگر حکمران ان پر دوسروں کو ترجیح بھی دیں ؛ تب بھی وہ اس پر صبر کریں ؛ اور حکومت کے معاملہ میں ان سے جھگڑا نہ کریں ۔اور بہت سارے وہ لوگ جو حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ؛ یا ان کی اکثریت؛ جو اس لیے بغاوت کرتے ہیں کہ ان پر دوسروں کو ترجیح دی جارہی ہے؛ وہ اس پر صبر نہیں کرسکتے۔ پھر بیشک حکمران کے اس کے علاوہ دوسرے گناہ بھی ہوتے ہیں ؛ اور یہ انسان اپنے اس معاملہ میں دوسرے کو ترجیح دینے کی وجہ سے دوسرے گناہوں کو بھی بہت بڑا سمجھتا ہے۔ اور اس سے جنگ کرنے والا یہی گمان کرتا ہے کہ وہ اس لیے لڑ رہاہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند ہو؛ اور کوئی فتنہ باقی نہ رہے۔ اور اس کا سب سے بڑا محرک اور اس کی اپنی غرض کی طلب تھی؛ بھلے یہ غرض مال کا حصول ہو یا ولایت کا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:

﴿ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ ﴾ (التوبۃ ۵۸]

’’ پھر اگر انھیں ان میں سے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت وہ ناراض ہو جاتے ہیں ۔‘‘

اور صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے نہ بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا ، نہ ہی انہیں پاک کرے گا ، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے : ایک وہ آدمی جس کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور مسافر کو پانی لینے سے منع کرے۔اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس سے کہیں گے؛ آج کے دن تجھے میں اپنے فضل سے ایسے ہی محروم رکھوں گا؛ جیسے تو نے لوگوں کو محروم رکھا؛ حالانکہ تم نے اپنے ہاتھ سے اس میں کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اور دوسرا وہ آدمی جس نے کسی امام کے ہاتھ پر بیعت کی ، اور مقصد محض دنیاوی فائدہ تھا ، چنانچہ اگر اس نے اسے کچھ دیا توراضی رہا، اور اگر نہیں دیا تو ناراض ہو گیا۔اورتیسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد کسی کے ہاتھ سامان بیچا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اس نے یہ چیز اس سے زیادہ میں لی ہے؛ جو اسے دیا جارہا ہے ۔‘‘[سبق تخریجہ]

پس جب اس کے ساتھ شبہ اور شہوت بھی مل جائیں ؛ اور دوسری طرف سے بھی شبہ اور شہوات ہوں تو فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور شارع علیہ السلام نے ہر انسان کو اس چیز کا حکم دیا ہے جس میں اس کی اور مسلمانوں کی مصلحت ہو ۔پس حکمرانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف اور ان کی خیرخواہی کریں ۔ آپ نے فرمایا :

’’کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی رعایا پر نگہبان بناتے ہیں ؛ اور پھر جب وہ مرے تو اس حال میں مرے کہ وہ اپنی رعایا سے دھوکہ کرنے والا ہو ؛ تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام کردیں گے ۔‘‘[البخاری ۹؍۶۴ ؛ کتاب الأحکام ؛ باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح ۔ مسلم ۱؍۱۲ ؛ کتاب الإیمان باب استحقاق الوالي الغاش لرعیتہ ۔ سنن الدارمي ۲؍۳۲۴۔]

رعایا کو حکم دیا ہے کہ وہ حاکم کی اطاعت گزاری کریں اور خیرخواہی چاہیں ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا:

’’ دین خیر خواہی کا نام ہے ۔‘‘صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کے لیے ؟

تو آپ نے فرمایا: ’’ اللہ کے لیے ؛ اس کی کتاب کے لیے ؛ اس کے رسول کے لیے ؛ مسلمان حکمران کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ ‘‘[مسلم ۱؍۷۴ ؛ کتاب الایمان باب بیان أن الدین النصیحۃ ؛ و سنن الترمذي ۳؍ ۲۱۷ ؛ کتاب البر و الصلۃ ؛ باب في النصیحۃ ؛ وقال الترمذي : ہذا حدیث حسن۔]

ان کے اپنے خواص کو ترجیح دینے کے وقت صبر کرنے کا حکم دیا؛ اور ان سے اختلاف اور جھگڑا کرنے سے منع کیا؛ حالانکہ وہ ظلم کررہے ہوں گے۔ اس لیے کہ اس جھگڑا اور لڑائی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی خرابی بہت بڑے فتنہ کی شکل اختیار کر لے گی جو حکمرانوں کے ظلم سے بہت بڑھ کر ہوگی۔ پس دو بڑی خرابیوں میں ایک ہلکی خرابی ہمیشہ سے بہتر سمجھی جاتی رہی ہے۔

جو کوئی کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سنتوں پر غور کرے گا؛ اوراپنے نفس میں اورگردو نواح میں غوروفکر کرکے درس عبرت حاصل کرے گاتو اس پر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی صداقت کی حقیقت عیاں ہو گی:

﴿سَنُرِیہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہٗ الْحَقُّ ﴾ (فصلت ۵۳)

’’ عنقریب ہم انھیں اپنی نشانیاں دنیا کے کناروں میں اور ان کے نفسوں میں دکھلائیں گے، یہاں تک کہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ یقیناً یہی حق ہے۔‘‘

بیشک اللہ تعالیٰ بندوں کو کائنات میں پھیلی ہوئی اور خود ان کی ذات میں موجود اپنی نشانیاں دیکھاتے ہیں ؛ حتی کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یہ قرآن حق ہے؛ اور اس کی خبریں سچی ہیں ؛ اور اس کا احکام عادلانہ ہیں ۔ فرمایا:

﴿وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (الانعام ۱۱۵]

’’ اور تیرے رب کی بات سچ اور انصاف کے اعتبار سے پوری ہوگئی، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

اس باب سے متعلق یہ علم میں سے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کوئی بہت بڑا اہل علم اور دین دار انسان ؛ خواہ وہ صحابہ و تابعین میں سے ہو ؛ یا ا ن کے بعد قیامت تک آنے والوں میں سے ہو؛ یااہل بیت میں سے؛یا کوئی دیگر؛ کبھی اس سے اس کے گمان کی بنا پر کوئی اجتہاد ہو سکتا ہے؛ جس میں کوئی ہلکی پھلکی اپنی خواہش نفس بھی شامل ہو؛ تو اس کا نتیجہ ایسا ہوتا ہے جس میں اس کی اتباع نہیں کی جاسکتی ؛ بھلے وہ اللہ تعالیٰ کا بڑا متقی ولی ہو۔

ایسا واقع جب پیش آجائے تو دو گروہوں کے مابین فتنہ پیدا ہو جاتا ہے؛ایک گروہ اس کی تعظیم و عظمت کا قائل ہوتا ہے؛ وہ اسکے اس فعل کو درست سمجھتے اور اس کی اتباع چاہتے ہیں ۔ جب کہ دوسرا گروہ اس پر تنقید اور اس کی ولایت اور تقوی پر قدح کررہا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس کے نیک و کار اور جنتی ہونے پر بھی قدح کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کے ایمان پر بھی کلام کرتے ہیں ؛ اور اسے ایمان سے خارج قرار دیتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک گروہ کی رائے فاسد ہے۔

خوارج اور روافض اور اہل أھواء فرقوں پر اسی عنصر کا دخل ہے۔ جو کوئی اعتدال کی راہ پر چلتاہے وہ صرف ان کی تعظیم کرتا ہے جو اس کے لائق ہو؛ پھر ان سے محبت اور دوستی کرتا ہے۔اہل حق کو ان کا حق دیتا ہے۔ وہ حق کی بنا پر تعظیم کرتا ہے؛ اور حق کی بنا پر رحم کرتا ہے۔اور وہ جانتا ہے کسی ایک انسان کی نیکیاں بھی ہوتی ہیں اور بدیاں بھی۔ پس وہ لائق ستائش بھی ہے اور لائق مذمت بھی؛اسے ثواب بھی مل سکتا ہے اور سزا بھی۔ اورایک بنا پر اس سے محبت کی جاسکتی ہے؛ اور دوسری کی بنا پر بغض۔یہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے؛ جو کہ خوارج معتزلہ اور ان کے ہمنواؤں کے برعکس ہے؛ اور اپنی جگہ پر اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے۔

[اطاعت اور ولاء و براء کا معیار]

جب یہ بات واضح ہوگئی ؛ تو سمجھ لینا چاہیے کہ یزید کے متعلق وہی قول ہونا چاہیے جو اس کے مشابہ دیگر خلفاء اور ملوک سے متعلق ہے۔جو کوئی اطاعت الٰہی کے کاموں میں موافقت رکھتا ہو؛ جیسے نماز؛ حج؛ اور جہاد؛ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اقامت حدود ؛ وغیرہ ؛ تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے کاموں پر ماجور ہوگا۔نیکوکار اہل ایمان ایسے ہی کرتے رہے ہیں ؛ جیسے حضرت عبداللہ بن عمر ؛ اور ان کے امثال۔ اور جو کوئی ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے ؛ اور ان کے ظلم پر ان کی مدد کرے؛ تووہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ان کا مدد گار ہو گا۔ اور عذاب اورمذمت کا مستحق ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یزید کے اور اس جیسے دیگر کے ساتھ جہاد کرتے رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یزید نے اپنے والد محترم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں غزوہ لڑا تھا۔ اس کے ساتھ اس لشکر میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔یہ پہلا لشکر تھا جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا؛ وہ بخشا ہوا ہے ۔‘‘[تخریج آگے آئے گی]

عمومی طور پر خلفاء اور ملوک کے دور میں فتنے واقع ہوئے ہیں ۔جیسا کہ یزید بن معاویہ کے دور میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ قتل ہوئے۔ حرہ کا واقعہ پیش آیا۔ مکہ میں ابن زبیر کا محاصرہ کیا گیا۔ اور مروان بن حکم کے زمانہ میں مرج راھط کا فتنہ اس کے اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے مابین پیش آیا۔ اور عبدالملک کے زمانہ میں حضرت مصعب بن زبیر اور ان کے بھائی عبداللہ بن زبیر کے واقعات پیش آئے۔ انہیں مکہ میں محصور کیا گیا تھا۔اورہشام کے زمانہ میں حضرت زید بن علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا۔ اور مروان بھی محمد کے زمانہ میں ابو مسلم کے قتل کا فتنہ پیش آیا ۔ حتی کہ ان کے ہاتھوں سے زمام حکومت نکل کر بنو عباس کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ پھر منصور کے زمانہ میں محمد بن عبد اللہ بن حسن بن الحسین کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا۔ اور بصرہ میں ان کے بھائی ابراہیم کا واقعہ ۔ یہ اتنے زیادہ فتنے ہیں جن کی تفصیل طوالت اختیار کر جائے گی۔

فتنے ہر زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے حساب سے پیش آتے رہے ہیں ۔ پہلا فتنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا فتنہ تھا؛ جو کہ بہت ہی بڑا فتنہ تھا۔ یہی وجہ ہے امام احمد رحمہ اللہ نے مسند میں ایک مرفوع حدیث روایت کی ہے؛ فرمایا: ’’ تین فتنے ایسے ہوں گے جو ان سے بچ گیا؛ تو وہ نجات پا گیا۔ میری موت؛ مظلوم خلیفہ کا قتل ناحق ؛ اور دجال کا فتنہ ۔‘‘[مسند أحمد: ۳؍۱۰۵]

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے فتنہ کے بارے میں پوچھا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: ’’بیشک اس کے اور آپ کے مابین ایک بند دروازہ ہے ۔تو آپ نے پھر پوچھا: کیا اس دروازہ کو کھولا جائے گایا توڑا جائے گا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ؛ توڑا جائے گا۔‘‘

تو آپ نے فرمایا: ’’ اگر اسے کھولا جاتا تو دوبارہ بند کیا جاسکتا تھا۔‘‘ یہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے۔ تو آپ کی خلافت کے آخری عہد میں فتنوں کے اسباب پیدا ہوئے۔ حتی کہ آپ کو قتل کردیا گاے؛ اور قیامت تک کے لیے فتنہ کا یہ دروازہ کھل گیا۔ اسی سبب کی بنا پر جنگ جمل اور جنگ صفین کا واقعہ پیش آیا۔ان کے رجال کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ بیشک یہ لوگ اپنے بعد آنے والے تمام لوگوں سے افضل تھے۔

ایسے ہی حرہ کا فتنہ اور ابن اشعث کا فتنہ بھی ہے۔اس میں بہت بڑے ایسے تابعین بھی شامل تھے؛ جن پر بعد میں آنے والوں کو قیاس کو نہیں کیا جاسکتا ۔ان ادوار میں ان فتنوں کے پیش آنے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس عہد کے لوگوں کودوسروں سے زیادہ برا ہونے کو واجب کرتی ہو۔ بلکہ ہر دور کا فتنہ اس عہد کے لوگوں کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

’’ بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے جس میں مجھے مبعوث کیا گیاہے ؛ پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد آئیں گے ؛ پھر وہ لوگ ہیں جو ان کے بعد آئیں گے ۔‘‘[البخاری ؍ سبق تخریجہ]

اس زمانہ کے بعد کے فتنے بھی اس عہد کے لوگوں کے اعتبار سے ہوں گے۔جیسا کہ روایت میں ہے:

’’جیسے تم ہوگے تم پر ایسے ہی حکمران مسلط کئے جائیں گے ۔‘‘[رواہ السیوطي ؛ ضعیف الجامع الصغیر ۴؍ ۱۶۰ ۔شعب الإیمان للبیہقي ؛ وسلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ ۱؍۴۲۸ ۔ الدرر المنتثرۃ في الأحادیث المشتہرۃ ص ۱۶۲۔]

ایک دوسری روایت میں ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ میں اللہ عزوجل ہوں ؛ بادشاہوں کا بادشاہ؛ اور بادشاہوں کے دل اور پیشانیاں میرے ہاتھ میں ہیں ؛ جس نے میری اطاعت کی ؛ میں اس پر رحمت کرتا ہوں ؛ اور جس نے میری نافرمانی کی ؛ میں اس پر اپنی ناراضگی مسلط کرتا ہوں ۔ پس بادشاہوں کے سبب سے مشغول نہ ہو جاؤ ؛ میری اطاعت کرو؛ میں ان کے دلوں کو تمہارے لیے نرم کردوں گا ۔‘‘[سبق تخریجہ]

جب احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں شکست ہوئی ؛ تو اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا :

﴿اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ھٰذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ﴾ (آل عمران ۱۶۵)

’’اور کیا جب تمھیں ایک مصیبت پہنچی کہ یقیناً اس سے دگنی تم پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا یہ کیسے ہوا؟ کہہ دے یہ تمھاری اپنی طرف سے ہے۔‘‘

گناہوں کی سزا ختم ہوسکتی ہے؛ توبہ اور استغفار کی وجہ سے ؛ اور گناہ مٹانے والی نیکیوں اور کفارہ بننے والی مصیبتوں کی وجہ سے۔ اور جو جنگ و قتل امت میں پیش آیا؛ اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ سے ان کے گناہ معاف کر دیے ہیں ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں بھی آتاہے۔ اور فتنہ جاہلیت کی جنس سے ہوتاہے؛ جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ: ’’جب یہ فتنہ پیش آیا تو اس وقت اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثیر تعداد میں موجود تھے؛ان کا اس بات پر اجماع ہو گیا کہ : ’’ ہر وہ خون؛ اور مال اور شر مگاہ جو تأویل قرآن کی بنیاد پر حلال سمجھے گئے ہوں ؛ وہ ہدر ہیں ۔ اور ان کے ساتھ جاہلیت والا معاملہ کیا جائے ۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق اور ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا۔ پس ہدایت کی بناپر حق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اور دین حق سے خیر کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے ۔ پس حق کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔پھر اس کا ارادہ بھی ہو اور اس پر عمل کرنے کی طاقت بھی۔ جب کہ فتنہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ فتنہ معرفت حق ؛ اس کے قصد و ارادہ اور اس پر قدرت میں مانع ہوتا ہے۔اس میں ایسے شبہات ہوتے ہیں جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتے ہیں ۔ حتی کہ بہت سارے یا اکثر لوگ اس میں فرق ہی نہیں کرسکتے۔اس میں اتنی خواہشات؛ اور شہوات ہوتی ہیں جوحق کے قصد و ارادہ سے باز رکھتے ہیں ۔اس میں شر میں قوت ظہور اتنی زیادہ ہوتی ہے جو کہ خیر پر قدرت کو کمزور کردیتی ہے۔

اس لیے انسان فتنہ میں اپنے دل میں نکارت پاتا ہے۔ اور دل پر ایسے خیالات اور وساوس آتے ہیں جو حق کی معرفت اور اس کے ارادہ سے باز رکھتے ہیں ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ: فتنہ اندھا اور بہرا ہوتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے: ’’فتنے اندھیری رات کے ٹکڑے کی طرح ہوتے ہیں ۔ اور اس طرح کے دیگر الفاظ میں بھی فتنہ کو بیان کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ فتنہ میں جہالت غالب ہوتی ہے اور علم مخفی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل فتنہ کو اہل جاہلیت کی منزلت پر سمجھا جاتا ہے۔اسی لیے نہ ہی جانوں کی ضمانت دی جاتی ہے اور نہ ہی اموال کی۔ اس لیے کہ ضمانت[؍یا معاوضہ ] تو اس چیز کی ہوتی ہے جس میں یہ پتہ چلے کہ فلاں انسان نے کسی دوسرے کی جان یا مال کا نقصان کیا ہے؛ یا حق مارا ہے۔ جس کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو؛ تووہ کفار مرتدین اور متأول باغیوں میں سے اہل جاہلیت کی طرح ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا ۔ اور نہ ہی کوئی ضمانت؍ یا معاوضہ ہوتا ہے۔ جیساکہ اس انسان پر کوئی تاوان نہیں ہوتا جو یہ سمجھتا ہو کہ اس نے برحق نقصان کیا ہے۔ اگرچہ یہ حق پر ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل جاہلیت یا تو اس جہالت سے توبہ کرلیں ۔ پس ان کی توبہ سے ان کے عہد جاہلیت کے اعمال معاف ہوسکتے ہیں ۔ یا پھر وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جو اپنی اس جاہلیت کی بنا پر عذاب کے مستحق ہیں ؛ جیسے کفار۔ان لوگوں کے لیے آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کافی ہوگا۔ یا پھر یہ لوگ مجتہد متأول اور خطا کار ہوں ہوں گے۔ تو اس صورت میں جب ان کی خطائیں معاف ہوں گی تو ان کے خطاؤں کے موجبات بھی معاف کردیے جائیں گے۔