Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ماہ رجب اور رسم کونڈا از: مولوی رئیس احمد عرشی کلیری

  مولوی رئیس احمد عرشی کلیری

ماہ رجب اور رسمِ کونڈا

از: مولوی رئیس احمد عرشی کلیری

رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے مگر بدقسمتی سے بعض لوگوں نے اس کی حرمت و فضیلت کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ کچھ ایسی رسمیں وابستہ کرلی ہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں انییں رسموں میں سے ایک رسم ”رسم کونڈا“ بھی ہے جو اس مہینہ کی 22/تاریخ کو منائی جاتی ہے۔

اس رسم کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی ابتداء کب اور کیوں ہوئی؟ یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس کے پیچھے سیدنا امیرِ معاویہؓ دشمنی کی ایک پر اسرار تاریخ ہے اس کو سمجھنے کے لیے اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔

جاننا چاہیے کہ رسول اللہﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق آپﷺ کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد فتنوں کا آغاز ہوگیا تھا ایک طرف مدعیانِ نبوت کھڑے ہوگئے دوسری جانب مانعین زکوٰة کا فتنہ سامنے آیا تیسری طرف منافقین نے اپنے بال وپر پھیلانے شروع کردئیے اور چوتھی سمت یہود و نصاریٰ نے اپنی اسلام مخالف سرگرمیاں تیز کردیں غرض اسلام چاروں طرف سے فتنوں کے گھیرے میں آگیا اور دشمنانِ اسلام طرح طرح سے اسلام کو مٹانے کے درپے ہو گئے۔

اسی دوران شیعہ فرقہ وجود میں آیا جس کا موجد اور بانی عبداللہ ابنِ سبا یمنی تھا جو یہودی مذہب کا پیروکار اور اسلام کا سخت ترین دشمن تھا اور اسلام کے معماروں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سخت عناد رکھتا تھا اس نے نہایت پرفریب طریقے سے حُبِّ سیدنا علیؓ کے پردے میں بغضِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بنیاد بناکر اس فرقے کی تاسیس اور منصوبہ سازی شروع کی۔

اس فرقے کے ظہور کی خبر رسول اللہﷺ پہلے ہی دے چکے تھے اور امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:

سیاتی قومٌ لیسونہم ویستنقصونہم فلا تجلسوہم ولا تشاربوہم ولا تواکلوہم ولا تناکحوہم۔

(مظاہرحق شرح اُردو مشکوٰة المصابیح)۔

ترجمہ: عنقریب کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہیں گے اور ان میں نقص نکالیں گے پس تم ان لوگوں کے ساتھ میل ملاپ اختیار کرنا نہ ان کے ساتھ کھانا پینا نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ 

(شرح مشکوٰة صفحہ 283 جلد 8 علامہ قطب الدین دہلوی)۔

اور دارِ قطنی میں خود سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے آپؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:

عن علیؓ عن النبیﷺ قال سیاتی من بعدی قوم یقال لہم الرفضة فان ادرکتہم فاقتلہم فانہم مشرکون فقال قلت یا رسول اللہﷺ ما العلامة فیہم قال یفرطونک بما لیس فیک ویطعنونک علی السلف۔

(دارقطنی)

ترجمہ: عنقریب میرے بعد ایک گروہ پیداہوگا جس کو رافضی کہا جائے گا پس اگر تم ان کو پاؤ تو ان کو قتل کرنا کیوں کہ وہ مشرک ہوں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ان کی پہچان کیا ہے آپﷺ نے فرمایا وہ تمہیں ان چیزوں کے ذریعہ نہایت اونچا دکھائیں گے جو تم میں نہیں ہوں گی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن طعن کریں گے۔ 

(مظاہرحق)۔

فرمانِ نبویﷺ کے مطابق یہ لوگ سیدنا عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں ظاہر ہوئے اور منظم سازشوں کے تحت خفیہ طریقے سے ترقی کرتے رہے اور رفتہ رفتہ اپنی جمعیت بڑھاتے رہے حتیٰ کہ بہت جلد ایک تحریک کی شکل اختیار کرکے ملتِ اسلامیہ میں رخنہ اندازیاں شروع کردیں خلیفہ وقت کو ان کی سرگرمیوں کا علم ہوا تو ان کی سرزنش کی اور ان کے سرغنہ ابنِ سبا کو مدینہ سے نکلوا دیا مدینہ سے نا اُمید ہوکر اس نے کوفہ بصرہ، مصر وغیرہ کا رخ کیا اور دارالحکومت سے دور دراز جگہوں پر پہنچ کر اپنی سازشیں تیز کیں اور حکومت و اہل حکومت کے خلاف بغاوت جاری رکھی خلیفہ وقت سیدنا عثمانِ غنیؓ پر طرح طرح کے الزامات لگائے ان کو معاذ اللہ غاصب وخائن بتلایا اور ان کے خلاف انتہائی پرفریب منظم اور وسیع پروپیگنڈہ کرکے آپؓ کو شہید کردیا۔

سیدنا عثمانؓ کے بعد تاجِ خلافت سیدنا علیؓ کے سر پر رکھا گیا مگر ان ہی شیعانِ علی کہلانے والے جھوٹے محبوں نے جنہیں نہ سیدنا علیؓ سے کوئی محبت تھی اور نہ ہی اسلام سے کوئی ہمدردی بلکہ ان کا مقصد خلافتِ اسلامیہ کی بیخ کنی کرنا تھا انہوں نے سیدنا علیؓ کی مخالفت بھی بدستور جاری رکھی اور شکلیں بدل بدل کر سازشوں کے جال بنتے رہے بالآخر سیدنا علیؓ کے ایک فیصلے سے اختلاف کرکے ان کو بھی شہید کردیا۔

پھر چھ مہینے تک وہ سیدنا حسنؓ کے لیے دردِ سر بنے رہے اور ان کے ساتھ بھی یہی ناروا سلوک روا رکھا آپؓ کے پہلو میں خنجر مارا آپؓ کا اسباب لوٹا آپؓ کے خیمہ میں آگ لگائی اور آپؓ کے قتل تک کی مذموم کوششیں کی جس کی شہادت خود شیعہ کتابوں میں بھی موجود ہے احتجاج طبرسی میں زید ابنِ وہب جہنی کی روایت ہے کہ سیدنا حسن بن علیؓ نے قسم کھاکر فرمایا:

فقال اری واللہ معاویةؓ خیرلی من ہولاء یزعمون انہم لی شیعة ابتغوا قتلی وانتہبوا ثقلی واخذوا مالی واللہ لان اخذ من معاویةؓ عہدا احقن بہ دمی وآمن بہ فی اہلی خیر من ان یقتلونی۔

(احتجاج طبرسی مطبوعہ ایران صفحہ 148)۔

ترجمہ: خدا کی قسم میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اپنے لیے ان لوگوں سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں جو اپنے کو میرا شیعہ کہتے ہیں انہوں نے میرے قتل کا ارادہ کیا میرا اسباب لوٹ لیا اور میرا مال چھین لیا اللہ کی قسم میں سیدنا امیرِ معاویہؓ سے کوئی معاہدہ کرلوں جس سے میری جان اور میرے متعلقین کی حفاظت ہوجائے یہ بہتر ہے اس سے کہ شیعہ مجھے قتل کردیں۔

اور ایک شیعہ روایت کے الفاظ ہیں:

واُورا مضطر کردند تا آنکہ با معاویہؓ صلح کرد“

ترجمہ: اور ان کو یہاں تک پریشان اور مجبور کیا کہ انہوں نے سیدنا امیرِ معاویہ سے صلح کرلی۔ 

(جلاءُ العیون علامہ باقر مجلسی)۔

الغرض شیعوں کی زیادتیوں سے پریشان ہو کر آپؓ خلافت سے دل برداشتہ ہوگئے اور باگِ خلافت سیدنا امیرِ معاویہؓ کے سپرد کردی۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ انتہائی دانشمند مدبر معاملہ فہم منتظم رعیت شناس انسان تھے اور زمانہ نبوی سے ہی اپنی انتظامی صلاحیت مدبرانہ لیاقت اور سیاسی بصیرت میں ممتاز تھے ان کی قائدانہ صلاحیت کو دیکھ کر سیدنا عمرؓ نے انھیں کسرائے عرب کا لقب دیا تھا اور زمانہ فاروقی سے ہی شام کے عہدئہ گورنری پر فائز تھے اور بیس سال سے وہاں کی کامیاب قیادت کرتے چلے آرہے تھے۔ 

سیدنا امیرِ معاویہؓ جس وقت مسند نشین ہوئے اس وقت ملک کے سیاسی حالات بے حد ناسازگار تھے طرح طرح کے فتنے جنم لے رہے تھے بفتنہ شیعیت کی جڑیں کافی مضبوط ہوگئی تھیں اور وہ طریقے بدل بدل کر اسلام میں رخنہ اندازیاں کررہے تھے اگرچہ وہ خود داخلی انتشار کا شکار ہو کر کئی حصوں میں تقسیم ہوچکے تھے مگر سب کا مطمح نظر اور نصب العین ایک تھا اور سب کے سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اسلام دشمنی میں سرگرم تھے ایسے حالات میں نئی حکومت کے لیے ضروری تھا کہ وہ سب سے پہلے بغاوت کے خاتمہ کے لیے کوئی مثبت اور ٹھوس قدم اٹھائے اور مفسدوں کی بیخ کنی میں سخت موقف اختیار کرے۔

سیدنا امیرِ معاویہؓ جیسے ہوش مند انسان سے کیسے ممکن تھا کہ وہ اس اقتضاءِ حکومت کو نظر انداز کر دیتے اور فتنہ کے استیصال میں غفلت برتتے چنانچہ برسرِ اقتدار آتے ہی انہوں نے فتنہ و بغاوت کے سدِباب کو ضروری سمجھا اور شر پسند عناصر کی سرکوبی کی ملک گیر مہم چلائی اور باغیوں (شیعوں) کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرنا اور سزائیں دینا شروع کردیا جس سے بہت سے شیعہ قتل ہوکر اپنے کیفرِکردار کو پہنچے اور کچھ لوگوں نے سزا کے خوف یا موت کے ڈر سے روپوشی اختیار کی اور کتمان مذہب (تقیہ) کر کے جان بچانے میں عافیت سمجھی۔

ایک شیعہ مؤرخ اس وقت کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔

”شیعانِ علی کے مال و متاع ضبط کر لیے گئے وہ قتل کیے گئے اور اس قدر ظلم ان پر کیے گئے کہ کوئی اپنے کو شیعہ نہ کہہ سکتا تھا۔“ 

(تاریخ اسلام صفحہ 33 جلد 1 از ذاکر حسین جعفری شیعہ)۔

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ بہت سے شیعہ قتل ہوکر ٹھکانے لگ گئے اور جو کچھ باقی رہے وہ بھی اس قدر دہشت زدہ اور خائف تھے کہ خود شیعہ کہلوانا چھوڑ دیا تھا اور اپنے انجامِ بد کے ڈر سے خانہ نشین ہو گئے۔

یہ لوگ بظاہر خاموش ہوگئے مگر درحقیقت ان کے سینوں میں بغضِ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی آگ بدستور بھڑک رہی تھی اور وہ ان کے خلاف سانپ کی طرح پیچ و بل کھا رہے تھے اور ان کی حکومت سے گلو خلاصی اور چھٹکارے کے شدت سے منتظر تھے۔

چنانچہ بیس سال انتہائی کامیاب حکومت کرنے کے بعد 22/رجب 60 ھ کو ملتِ اسلامیہ کا یہ عظیم مدبر دنیا سے رخصت ہوگیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔

حاسدینِ سیدنا امیرِ معاویہؓ کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی تھی کہ ان کا جانی دشمن دنیا میں نہیں رہا اس لیے انہوں نے وفاتِ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی خبر سن کر خوب خوشیاں منائیں اور اظہارِ مسرت کے طور پر میٹھی ٹکیاں (کونڈوں کی پوریاں) بنائیں اور ایک دوسرے کو کھلا کر اپنے جذبہ عناد کو تسکین دی اور یہ ساری کاروائی سنیوں سے چھپ کر اور پوشیدہ طریقہ سے انجام دی گئی۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کاروائی مخفی کیوں رکھی گئی اور انہوں نے وفاتِ سیدنا امیرِ معاویہؓ پر اپنی خوشی کا اظہار کھلم کھلا کیوں نہیں کیا؟ مولانا عبدالعلیٰ صاحب فاروقی اس کی وجہ لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

”کیوں کہ اس وقت اہلِ سنت والجماعت کا غلبہ تھا اور وہ صحابی رسولﷺ کی توہین اور ان کی وفات پر اظہار مسرت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے رافضیوں نے چھپ چھپا کر اپنے اپنے گھروں میں ہی ٹکیاں بنالیں اور انہیں آپس میں تقسیم کرکے خفیہ طور پر اظہار مسرت کر کے دشمنی اصحاب کا ثبوت فراہم کیا بعد میں جب اس کا چرچا شروع ہوا تو نہایت ہی شاطرانہ انداز میں سیدنا جعفر صادقؒ کی طرف منسوب کردیا۔ 

(تعارف مذہب شیعہ صفحہ 158)۔

یہی وجہ ہے کہ اس رسم میں آج تک اس بات کی پابندی ہے کہ کونڈوں کی ٹکیاں کسی خفیہ جگہ پر پکائی جاتی ہیں پھر بڑے اہتمام سے انھیں ڈھک کر رکھا جاتا ہے اور فاتحہ بھی کسی اندھیری جگہ پر دلائی جاتی ہے اور پھر پردے کے ساتھ ہی انھیں کھایا کھلایا جاتا ہے۔

لیکن آگے چل کر جب اس سازش کی خبر سنیوں کو ہوئی اور اس راز سربستہ سے پردہ اٹھا تو شیعوں نے اپنا جرم چھپانے کے لیے اس کا رخ سیدنا جعفر صادقؒ کی فاتحہ کی جانب موڑ دیا۔

یہ ہے اس رسم کی اصل اور حقیقت جس میں نادانستہ طور پر بعض ناخواندہ اہلِ سنت بھی شریک ہیں اور اس رسم کو امرِ دین اور کارِ ثواب سمجھ کر انجام دیتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ یہ ”حبِ سیدنا علیؓ کے پردے میں بغضِ سیدنا امیرِ معاویہؓ“ کا مصداق ہے۔

ماہنامہ دارالعلوم شماره 07 جلد 93 رجب 1430 ھ مطابق جولائى 2009ء۔