فصل:....یزید کے بارے میں لوگوں کی آراء
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....یزید کے بارے میں لوگوں کی آراء
جب یہ معاملہ واضح ہوگیا تو اب ہم کہتے ہیں : یزید کے بارے میں لوگ تین طرح کی رائے رکھتے ہیں :
۱۔ افراط ۲۔ تفریط ۳۔وسط
پہلا گروہ:....ان کا خیال ہے کہ یزیدصحابہ کرام میں سے تھا؛ یااس کا شمار خلفاء راشدین میں ہوتا ہے ؛ یا پھر انبیاء میں سے تھا۔ یہ تمام باتیں باطل ہیں ۔ دوسرا گروہ : ان کا خیال ہے : یزید باطن میں کافر اور منافق تھا ۔اس نے اپنے کافر رشتہ داروں کا اہل مدینہ اور بنی ہاشم سے بدلہ لیا۔ یہ دونوں قول باطل ہیں ؛ ان کا باطل ہونا کسی بھی عقلمند پر مخفی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ یزید بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا۔ اور بادشاہ کا خلیفہ تھا۔ رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مسئلہ ؛ تو اس میں کسی کو بھی ذرا بھر بھی شک نہیں ہے کہ آپ کو مظلومیت کی حالت میں شہید کیا گیا۔ جس طرح کہ آپ جیسے دوسرے بہت سارے لوگ مظلومیت میں شہید کیے گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا یا اس قتل پر راضی رہنا یا قتل پرمدد کرنا ان کے قاتلین کی طرف سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی تھی۔ قتل حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے لیے ایک بہت ہی دردناک مصیبت تھی جو کہ اپنوں اور پرائیوں کی وجہ سے پہنچی۔جب کہ یہ شہادت آپ کے حق میں شہادت ؛ درجات کی بلندی اور شرف و منزلت کا سبب تھی۔
آپ کے لیے اور آپ کے بھائی کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سعادت اور خوش نصیبی مقدر ہوچکی تھی۔ جو کہ کسی مصیبت اورپریشانی کے آئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔اہل بیت کے گھرانے میں ان بھائیوں جیسی مثالیں نہیں ملتی۔ انہوں نے اسلامی ماحول میں تربیت پائی ؛ عزت وشرف کے ساتھ امن و امان میں رہے ۔ پھر ان میں سے ایک کو زہر دیکر شہید کیا گیا ؛ او ردوسرے کو قتل کرکے خلعت شہادت سے سرفراز کیا گیا۔ تاکہ یہ دونوں حضرات جنت میں شہداء کی منزلتیں پاسکیں ۔
مگر یہ بھی یاد رہے جو کچھ اس واقعہ میں پیش آیا ؛ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کے قتل سے بڑھ کر نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبر دی ہے کہ بنی اسرائیل اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔ کسی نبی کا قتل ہونا بہت بڑی مصیبت اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ایسے ہی خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل سے بڑا گناہ اور مصیبت ہے۔ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل بہت بڑی مصیبت اور بڑا گناہ تھا۔جب یہ سارے امور مصائب و ابتلاء ہیں تو مصیبت اور پریشانی کے وقت مسلمان پر صبر و استقامت کے دامن کو تھامنے رکھنا‘ اوراللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا واجب ہوجاتا ہے ؛اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَoالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ﴾
[البقرہ]
’’ اوران صبر کرنے والوں کو بشارت سنا دیجیے ‘ جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘
مسند أمام أحمد اور سنن ابن ماجہ میں حضرت فاطمہ بنت حسین، حضرت حسین سے روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس پر کوئی پریشانی آئی پھر وہ اس کو یاد کر کے ازسر نو (إِنا لِلّٰہِ وِإنا إِلیہِ راجِعون) کہے ؛خواہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اتنا ہی اجر لکھیں گے جتنا پریشانی کے دن لکھا تھا۔‘‘ [سنن ابن ماجہ:حدیث نمبر۱۶۰۰۔کتاب الجنائز ؛ باب ماجاء في الصبر علی المصیبۃ ۔ ]
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کی دختر محترمہ کی روایت اس قتل گاہ پر ایک گواہی اور شہادت ہے۔ بیشک قتل حسین رضی اللہ عنہ ایسی مصیبت ہے جسے یاد کرتے رہنا چاہیے بھلے جتنا لمبا زمانہ بھی گزر جائے۔ تو مسلمان کے لیے مشروع یہ ہے کہ اس موقع پر ازسر نو (إِنا لِلّٰہِ وِإنا إِلیہِ راجِعون) کہے ۔باقی جو کچھ دیکھنے میں آتا ہے اپنے چہرے پیٹنا؛ گریبان پھاڑنا ؛ اور جاہلیت کی طرح آہ و بکا کرنا ؛یہ ایسے امور ہیں جن کو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نا پسند کرتے ہیں ۔ شریعت اسلامیہ میں ایسی حرکات حرام ہیں ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرکات کے کرنے والوں سے برأت کا اظہار کیا ہے۔
جیسا کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جو شخص(غمی و ماتم میں )اپنے رخساروں کو پیٹے اور گریبان پھاڑے اور جاہلیت کے لوگوں کی طرح گفتگو کرے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘[سبق تخریجہ ]
ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے اظہار برأت فرمایا:
’’مصیبت کے وقت آواز بلند کرنے والی سے ؛ پریشانی میں اپنا سر منڈوانے والی سے ؛ اور ماتم میں اپنا گریبان پھاڑنے والی سے۔ ‘‘[صحیح بخاری:ح۷۴۸۔۲؍۸۱ ؛ کتاب الجنائز ؛ باب لیس منا من شق الجیوب ؛ مسلم ۱؍ ۱۰۰؛ کتاب الإیمان ؛ باب تحریم ضرب الخدود ۔]
اور مسلم شریف کی صحیح روایت میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر گندھک کا کرتا اور زنگ کی چادر ہو گی۔‘‘[مسلم ۲؍۶۴۴۔ کتاب الجنائز ؛ باب التشدید في النیاحۃ ؛ سنن ابن ماجۃ۱؍۵۰۳ ؛ کتاب الجنائز باب في النہی عن النیاحۃ۔ مسند أحمد ۵؍ ۳۴۲۔]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوحہ کرنے والی عورت کو پیش کیا گیا تو آپ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم دیا۔آپ سے کہا گیا: اے امیر المؤمنین ! اس نے شعر پڑھ کر نوحہ شروع کیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا : ’’اس نے صبر نہیں کیا ؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے اور اپنی طرف رجوع کرنے کا حکم دیاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس[ماتم اور آہ و بکا ]سے منع کیا ہے ۔ آہ وبکا کرنا زندہ کو فتنہ میں ڈالتا ہے ۔ اور میت کو تکلیف دیتا ہے ۔ ....بیشک یہ میت پر نہیں رورہی بلکہ تمہارے دراہم کے لیے رو رہی ہے ۔‘‘