فصل:....یزید پر لعنت کا مسئلہ
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....یزید پر لعنت کا مسئلہ
[اشکالات ]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’ اہل سنت کی ایک جماعت یزید کو خلیفہ نہ ماننے کے باوجود اس پر لعنت نہیں بھیجتی ؛ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یزید ظالم تھا؛ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا؛ اور آپ کے اہل خانہ کو گرفتار کیا۔حالانکہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ اَ لَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ھود:۱۸)
’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے ۔‘‘
حنابلہ کے شیوخ میں سے ابو الفرج ابن جوزی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے ‘آپ فرماتے ہیں : ’’ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی : میں نے یحی بن زکریا رحمہم اللہ کے بدلہ میں ستر ہزار کو قتل کیا ۔ اور میں آپ کے نواسے کے بدلے میں انچاس کروڑ لوگوں کو قتل کروں گا۔ اور اہل سنت کے فضلاء میں سے سدّی رحمہ اللہ نے حکایت نقل کی ہے کہ : جب میں کربلا میں اترا تو میرے پاس تجارت کے لیے غلہ وغیرہ تھا۔ ہم نے ایک آدمی کے پاس پڑاؤ ڈالا اور اس کے ہاں شام کا کھانا کھایا ۔ہم قتل حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو یاد کرنے لگے ۔ ہم نے کہا: قتل حسین رضی اللہ عنہ میں جو کوئی بھی شریک ہوا تھاوہ انتہائی بری موت مرا ہے۔تو وہ آدمی کہنے لگا : تم سے بڑھ کر جھوٹا کوئی نہیں ۔ میں آپ کے قتل میں شریک تھا۔اور ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے آپ کو قتل کیا ؛ مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ آپ کہتے ہیں : جب رات کا آخری حصہ تھا تو ایک چیخنے والے نے چیخ لگائی ۔ ہم نے پوچھا : کیا ہوا؟ کہنے لگے : گھر والا آدمی چراغ کو ٹھیک کرنے کے لیے اٹھا تھا تو اس کی انگلی جل گئی ؛ پھر آگ اس کے جسم پر پھیل گئی اور وہ جل گیا۔سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں :اللہ کی قسم ! میں نے اسے دیکھا کہ وہ جل کر کوئلہ بن گیا تھا۔
مُہَنَّا بن یحی نامی ایک شخص نے حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب یزید کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’ یزید نے جو کرنا تھا کیا۔‘‘میں نے کہا : اس نے کیا کیا ؟ آپ نے فرمایا: اس نے مدینہ کو پامال کیا۔ امام موصوف کے بیٹے صالح نے آپ سے دریافت کیا کہ بعض لوگ ہمیں یزید کی دوستی سے متہم کرتے ہیں ۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ نے جواباً فرمایا:’’ بیٹا جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ یزید کا دوست کب ہو سکتا ہے؟‘‘صالح نے کہا: ’’ تو پھر آپ یزید پر لعنت کیوں نہیں کرتے۔‘‘
امام احمد نے فرمایا:’’ جس پر اللہ نے لعنت کی ہے میں اس پر لعنت کیوں نہ بھیجوں ؟‘‘اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ٭اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمَی اَبْصَارَہُمْ ﴾ (محمد:۲۲۔۲۳)
’’بہت ممکن ہے اگر تم برسر اقتدار ہوئے تو زمین میں فساد برپا کرو گے اور باہمی تعلقات توڑ دو گے یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت بھیجی اور انھیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے۔‘‘
٭ اس سے بڑا فساد اور کیا ہو گا کہ یزید نے تین دن تک مدینہ کے شہر کو لوٹا۔ وہاں کے رہنے والوں کو قید کیا۔ سات سو قریش و انصاراور مہاجرین کے بڑے بڑے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اورعام خواتین اور مردوں میں سے دس ہزار ایسے آدمیوں کو قتل کیاجن کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ آزاد تھے یا غلام ۔حتی کہ لوگ خون میں ڈوب گئے۔ یہاں تک کہ روضۂ رسول اور مسجد خون سے بھر گئے۔ پھر کعبہ پر منجنیق سے پتھر پھینک کر اسے منہدم کیا اور آگ لگا دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے ایک صندوق میں ہوگا اور اسے تمام اہل جہنم سے آدھا عذاب ہو رہا ہوگا۔اس کے ہاتھ اور پاؤں آگ کی زنجیروں سے باندھ دیے گئے ہوں گے۔ یہاں تک کہ اسے جہنم کے ایسے انتہائی گہرے گڑھے میں ڈال دیا جائے گاکہ اس کے عذاب اور بدبو سے جہنمی بھی اپنے رب سے پناہ مانگ رہے ہوں گے۔وہ ہمیشہ ہمیشہ اس دردناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔جب بھی اس کی چمڑی جل کر ختم ہوجائے گی اللہ تعالیٰ اسے ایک دوسری چمڑی سے بدل دیں گے۔ تاکہ اسے خوب عذاب دیاجائے۔ اس عذاب سے اسے ایک پل کے لیے بھی نجات نہیں ملے گی۔ اور اسے جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ اور اس کے لیے ہلاکت ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دردناک عذاب کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا:’’ میرا اور اللہ تعالیٰ کا شدید غضب اس شخص پر ہو گا جس نے میرے اہل کا خون بہایا اور میرے اہل بیت میں مجھے ستایا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جوابات]: اس کا جواب یہ ہے کہ: یزید پر لعنت بھیجنے کے بارے میں شرعی حکم وہی ہے جو اس کے نظائر و امثال خلفاء و ملوک کے بارے میں ہے۔ بلکہ یزید مقابلتاً ان سے بہتر ہے۔ مثلاً یزید مختاربن ابو عبیدثقفی امیر عراق سے افضل ہے۔ جس نے قاتلین حسین رضی اللہ عنہ سے انتقام لیاتھا۔ مختار کا دعویٰ تھا کہ اس پر جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتا ہے۔ اسی طرح یزید حجاج کے مقابلہ میں بھی بہتر ہے۔حجاج کے یزید سے بڑے ظالم اور فاسق ہونے پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔
تاہم یزید اور اس کے امثال کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ فاسق تھے۔ اور کسی مخصوص فاسق پر لعنت کرنا شرعاً مامور نہیں ہے۔ البتہ سنت نبوی میں مختلف گروہوں پر لعنت کرنے کی اجازت ملتی ہے، مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے ؛ وہ ایک انڈہ چراتا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتاہے ۔
‘‘[البخاری ۸؍۱۵۹ ؛ کتاب الحدود باب لعن السارق إذا لم یسم ؛ ومسلم ۳؍۱۳۱۴ ؛ کتاب الحدود ؛ باب حد السرقۃ و نصابہا۔ سنن النسائی ۸؍ ۵۸ ؛ کتاب قطع السارق ؛ باب تعظیم السرقۃ۔]
ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا :
’’ جو انسان [دین میں] کوئی نئی چیز ایجاد کرے ؛ یا کسی بدعتی کو پناہ دے ‘اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘ [مسلم۳؍۱۳۱۴؛ کتاب الأضاحي ؛ باب تحریم الذبح لغیر اللہ تعالیٰ و لعن فاعلہ ؛ سنن النسائی ۷؍ ۲۰۴ ؛ کتاب الضحایا باب من ذبح لغیر اللّٰہ عزوجل۔]
٭ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سود کھانے والے پر ؛ کھلانے والے پر ؛ اس کی تحریر لکھنے والے پر اور اس کے لیے گواہ بننے والے پر لعنت کرے ۔‘‘[البخاری ۷؍ ۱۶۹ ؛ کتاب اللباس ؛ من لعن المصور؛ مسلم۳؍۱۲۱۹؛ کتاب المساقاۃ ؛ باب لعن آکل الرباء و موکلہ ؛ سنن أبي داؤد ۲؍۳۰۷؛ کتاب البیوع ؛ باب لعن آکل الربا و موکلہ؛ سنن الترمذي ۲؍۲۹۴ ؛ کتاب البیوع باب ماجاء في آکل الربا۔ سنن ابن ماجۃ ۲؍۷۶۴۔]
٭ نیزفرمایا:’’ حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے ان پر اللہ کی لعنت ہو۔‘‘[سنن أبي داؤد ۳؍۴۴۵؛ کتاب النکاح ؛ باب في التحلیل ؛ سنن الترمذي ۲؍ ۲۹۴ ؛ کتاب النکاح ؛ باب جاء في المحلل و المحلل لہ ۔ سنن ابن ماجۃ ۱؍ ۶۲۲ ؛ کتاب النکاح ؛ باب المحلل....۔ ]
٭ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ’’شراب پر ؛شراب بنانے والے پر ؛جس کے لیے بنائی جائے اس پر ؛ جو اٹھا کر لے جائے ؛ جس کیلئے اٹھا کر لے جائے؛ شراب پینے اور پلانے والے پر اور اسکی قیمت کھانے والے پر اللہ لعنت کی ہو ۔‘‘[سنن أبي داؤد۳؍۴۴۵؛ کتاب الأشربۃ باب العنب یعصر للخمر۔ صحیح؍ الألباني۔]
[متعین فاسق پر لعنت کا مسئلہ :]
متعین فاسق پر لعنت کے بارے میں لوگوں کے مابین اختلاف ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ایسا کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ ا ہل علم میں سے امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ساتھیوں کی ایک جماعت کا کہنا ہے۔ جیسے ابو الفرج بن الجوزی وغیرہ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ایسا کرنا جائز نہیں ۔ جیسا کہ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کے ساتھیوں کی دوسری جماعت ابو بکر بن عبدالعزیز وغیرہ کا خیال ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا معروف قول متعین شخص پر لعنت کرنے سے احتراز ہے؛ جیسے حجاج بن یوسف اور اس کے امثال ۔ یہ کہ انسان کو اس فرمان الٰہی کے مطابق کہنا چاہیے:
﴿ اَ لَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ھود:۱۸)
’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
یہ بھی صحیح بخاری کی حدیث میں ثابت ہے کہ عبد اللہ بن الحمار نامی ایک شخص مے نوش تھا؛ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا جاتا ؛ اور اس پر کئی بار شراب کی حد قائم کی۔ایک بار آپ کے پاس لایا گیا؛ تو ایک آدمی نے کہا : اس پر لعنت ہو؛ کتنی بار اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیاہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اس پر لعنت نہ کرو؛بیشک یہ اللہ و رسول سے محبت رکھتا ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الحدود، ح: ۶۷۸۰]
تو یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعین شخص پر لعنت کرنے سے منع فرمایا؛ جو کہ کثرت کے ساتھ شراب پیتا تھا ؛ اور آپ نے اس کی علت یہ بتائی کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر شراب پینے والے پر لعنت کی ہے۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مطلق پر تو لعنت کرنا جائز ہے؛ مگر اس متعین پر لعنت کرنا جائز نہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہو۔
یہ بات تو معلوم شدہ ہے کہ ہر مؤمن لازمی طور پر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اسلام کا اظہار کرنے والوں میں منافق بھی تھے ۔ وہ لعنتی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کرتے تھے۔اور جب ان میں سے کسی ایک کے حال کا علم ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے؛ فرمان الٰہی ہے :
﴿ وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍمِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ﴾ (التوبۃ ۸۳)
’’ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس کا کبھی جنازہ نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔‘‘
اہل سنت و الجماعت میں سے جن لوگوں نے متعین فاسق پر لعنت کو جائز کہا ہے؛ ان کا کہنا ہے کہ یہ جائز ہے کہ ہم اس پر نماز جنازہ بھی پڑھیں ؛اور اس پر لعنت بھی کریں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ثواب کا بھی مستحق ہے؛ اور سزا کا بھی مستحق بھی ۔ اس پر نماز جنازہ اس کے ثواب کے مستحق ہونے کی وجہ سے پڑھی جائے گی؛ اور اس پر لعنت اس کے عقاب کے مستحق ہونے کی وجہ سے ہوگی۔ لعنت کا مطلب ہوتا ہے رحمت سے دوری؛ اس پر نماز جنازہ پڑھنا رحمت کا سبب ہے؛ پس ایک وجہ سے اس پر رحمت ہوگی؛ اور دوسری وجہ سے اسے رحمت سے دوری حاصل ہوگی۔
یہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اور تمام اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔اور ان کے ساتھ کچھ کرامیہ ؛ مرجئہ اور شیعہ بھی شامل ہیں ۔ اور بہت سارے شیعہ امامیہ اور دیگر کا بھی مذہب ہے؛ جو کہتے ہیں : فاسق ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ: وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا؛ جیسے خوارج اور معتزلہ اور بعض شیعہ ؛ تو ان کے نزدیک ایک ہی شخص کے حق میں ثواب اور عقاب جمع نہیں ہوسکتے۔
اس بابت سنن نبویہ مشہور ہیں کہ کچھ لوگوں کو شفاعت کی بنا پر جہنم کی آگ سے نکالا جائے گا۔ اور وہ آدمی بھی نکالا جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا۔ پس اس اصول کی بنیاد پرجو لوگ یزید اور اس کے امثال پر لعنت کو جائز کہتے ہیں ؛انہیں دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: اول: یہ کہ وہ آدمی ان فاسق اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے؛ اور وہ اسی پرمصر مرا ہے۔ دوم : یہ ان میں سے کسی ایک متعین پر لعنت کرنا جائز ہے۔ ان کے ساتھ اختلاف رکھنے والا ان دونوں مقدمات پر طعن کرتے ہیں ۔خصوصاً پہلے مقدمہ پر۔
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے اس فرمان گرامی کا تعلق ہے :
﴿ اَ لَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ (ھود:۱۸)
’’آگاہ ہو جاؤ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔‘‘
یہ وعید کی طرح ایک عام آیت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْبَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًاo﴾ [النساء۱۰]
’’ بے شک جو لوگ یتیموں کے اموال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے سوا کچھ نہیں کھاتے اور وہ عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گے۔‘‘
اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ یہ گناہ لعنت اور عذاب کا سبب ہے۔لیکن کبھی یہ سبب اس سے ٹکرانے والے راجح سبب کی وجہ سے ختم ہوسکتا ہے؛ جیسے توبہ ؛ گناہ مٹانے والی نیکیاں ؛ کفارہ بننے والی مصیبتیں وغیرہ۔ تو کسی انسان کو یہ علم کیسے حاصل ہوگا کہ یزید یا کسی دوسرے ظالم نے اس گناہ سے توبہ نہیں کی؟ یا پھر اس کی کوئی ایسی نیکیاں نہیں تھیں جو اس ظلم کے گناہ کو مٹا دیں ؟ یا اس پر ایسے مصائب نہیں آئے جو اس کے گناہوں کا کفارہ بن سکیں ۔ یا پھر اللہ تعالیٰ اس کا یہ گناہ معاف نہیں کریں گے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ﴾ (النساء۳۸)
’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا ۔‘‘
صحیح بخاری میں ثابت ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو پہلا لشکر قسطنطنیہ پر حملہ کرے گا؛ وہ بخشا ہوا ہے ۔‘‘[في البخاري ۴؍۴۲ ؛ کتاب الجہاد والسیر ؛ باب ما قیل في قتال الروم ؛ونص الحدیث : أول جیش من أمتي یغزون البحر۔]
وہ پہلا لشکر جس نے یہ غزوہ کیا؛ اس کا امیر یزید تھا۔ لشکر کا لفظ ایک متعین عدد پر بولا جاتا ہے؛ مطلق نہیں ہوتا۔ اور اس لشکر میں موجود کسی ایک فرد کو مغفرت کا شامل ہونا اس میں موجود ہر ایک ظالم کولعنت کے شامل ہونے سے زیادہ قوی ہے۔ کیونکہ یہ ایک خاص معاملہ ہے۔ جبکہ جیش یعنی لشکر کے لوگ متعین ہیں ۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یزید نے غزوہ قسطنطنیہ اسی حدیث کی وجہ سے کیا تھا۔ اور ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح ظالم ہوتے ہی ہیں ۔ اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو اکثر مسلمان مردوں پر لعنت کرنے کی راہیں وا ہو جائیں گی ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مردوں کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا ہے؛ ان پر لعنت کرنے کا حکم نہیں دیا ۔‘‘
پھر مردوں پر لعنت کرنے کا مسئلہ ؛ زندوں پر لعنت کی نسبت بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت ثابت ہے؛ آپ نے ارشاد فرمایا:’’ مردوں کو برا بھلا نہ کہو؛ بیشک وہ اپنے اعمال تک پہنچ چکے ہیں ۔‘‘[البخاری ۲؍۱۰۴؛ کتاب الجنائز ؛ باب ما ینہی عن سب الأموات ؛ سنن النسائی ۴؍ ۴۳ ؛ کتاب الجنائز ؛ باب نہی عن سب الأموات ؛ سنن الدارمي ۲؍۲۳۹ ؛ کتاب السیر؛ باب النہی عن سب الأموات ۔]
دوسرے پر یزید کے ظلم سے بڑے ظلم کئے ہیں ۔
اگریہ کہا جائے کہ :اس کے موجب بنی ہاشم میں سے علوی اور عباسی اور دیگر ان اہل ایمان لوگوں پر لعنت کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مراد ہیں [تو یہ ایک علیحدہ معاملہ ہے] ۔
جہاں تک ابو الفرج ابن جوزی کا تعلق ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں یزید پر لعنت کو مباح کہا ہے؛ تو اس پر شیخ عبد المغیث الحربی نے رد کیا ہے؛ اور کہا کہ: بلاشبہ آپ ایسا کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ جب خلیفہ ناصر کو اطلاع ملی کہ شیخ عبدالمغیث ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں ؛ وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا؛ اور اس بارے میں سوال کیا؛ تو شیخ کو پتہ چل گیا کہ یہ سوال کرنے والا خلیفہ ہے؛ لیکن اس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ انہیں اس کے خلیفہ ہونے کا علم ہوگیا ہے۔ تو انہوں نے کہا: ’’اے انسان ! میرا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی زبانوں کو مسلمان خلفاء اور حکمرانوں پر لعنت کرنے سے روکا جائے۔ اگرایسا نہ کریں ؛ اور یہ دروازہ کھول دیں تو ہمارے وقت کا خلیفہ لعنت کا زیادہ حق دار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسے ایسے برے کام کرتا ہے جو یزید کی برائی سے زیادہ قبیح ہیں ۔ حتی کہ خلیفہ نے کہا: شیخ محترم ! میرے لیے دعا کرنا؛ اور خود چلا گیا۔[یہ واقعہ ابن رجب حنبلی نے ’’الذیل فی طبقات الحنابلہ ۱؍۳۵۶ میں عبدالمغیث الحربی کے سوانح میں ذکر کیا ہے ۔ اور جس کتاب کی طرف ابن تیمیہ نے اشارہ کیا ہے ؛جو ابن جوزی نے عبدالمغیث کے رد میں لکھی ہے؛ اس کا نام ہے:’’ الرد علی المتعصب العنید المانع من ذم یزید۔‘‘مزید دیکھیں : شذرات الذہب ۴؍۲۷۵ ؛ البدایہ و النہایہ ۱۲؍ ۳۲۸۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’اس کی ایک کتاب یزید کے فضائل کے بارے میں ہے؛ جس میں اس نے بڑی عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں ۔ ]
یزید اور اہل حرہ کا واقعہ :
یزید نے جو کچھ اہل حرّہ[یزید بن معاویہ کے ایام خلافت ۶۳ ہجری میں حرہ واقم میں یہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا] کے ساتھ کیا اس کا اصل واقعہ یہ ہے کہ جب اہل مدینہ نے اس کی بیعت توڑ دی اور اس کے نائبین کو مدینہ سے نکال کر ان کے اہل خانہ کو گھیر لیا۔ تو یزید نے اہل مدینہ کو پیہم پیغامات بھیج کر اطاعت کا مطالبہ کیا۔ مگر انھوں نے کچھ پروا نہ کی۔[قاری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے متعدد داعی مدینہ میں موجود تھے، ان کے سرخیل عبداﷲ بن مطیع العدوی تھے۔ یہ داعی یزید پر طرح طرح کے بہتان لگا کر لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ابن مطیع کو راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی اور اسے سمجھایا کہ یزید کی بیعت توڑنا کوئی اچھا کام نہیں ہے بلکہ یہ عظیم غدر اور بے وفائی ہے۔ (البخاری کتاب الفتن۔ باب اذا قال عند قوم شیئاً ثم و خرج(ح:۷۱۱۱)، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین (ح:۱۸۵۱) شہادت حق اور بندوں کی خیر خواہی کے اعتبار سے امام ابن الحنفیہ کا موقف بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نقطۂ نظر سے کم نہیں ہے، جنھوں نے شیعی اکاذیب کی تردید کرتے ہوئے یہ سچی شہادت دی کہ آپ یزید کے ہاں اقامت گزیں رہ کر اچھی طرح اس کی سیرت و اخلاق کا بچشم خود ملاحظہ کر چکے ہیں ۔ آپ اس بات کے چشم دید گواہ ہیں کہ یزید پابند نماز، اعمال خیر کا حریص، متبع سنت (]چنانچہ یزید نے مسلم بن عقبہ مری کو مدینہ بھیجا اور اسے اہل مدینہ کو ڈرانے دھمکانے کا حکم دیا یہ بھی کہاکہ اگر وہ باز نہ آئیں تو ان سے جنگ آزما ہو؛ اورتین دن تک مدینہ کو پامال کرے۔ یہی وہ بات ہے جس پر لوگوں نے یزیدکے اس فعل کا انکار کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیاکہ : کیا یزید سے حدیث روایت کی جاسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ‘ اس کی کوئی کرامت نہیں ‘ یا یہ فرمایا : کیا یزید وہی نہیں ہے جس نے اہل مدینہ کے ساتھ کیا نہیں کیا ؟‘‘
[اور فقیہ تھا۔(البدایہ والنہایۃ:۸؍۲۳۳) مگر عبد اﷲ بن عمر اور امام ابن الحنفیہ کی شہادت حق فتنہ پردازی کے شور وشغب میں دب کر رہ گئی۔ مدینہ کی فضا اشاعت و دعایت کے شوروغل سے مسموم ہو گئی اور وہاں کے حکماء و علماء اور صلحاء جاہل اور شر پسند عوام کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اہل ہوی کا مقصد وحید فتنہ پردازی اور شرپسندی تھا۔ اندریں حالات یزید نے سخت غلطی یہ کی کہ امراء مدینہ کو یکے بعد دیگرے معزول کرتا چلا گیا ۔ چنانچہ عمر بن سعید بن العاص کو معزول کرکے اس کی جگہ ولید بن عتبہ کو مقرر کیا۔ پھر عبد اﷲ بن زبیر کی تدبیر سے متاثر ہو کر ولید کو معزول کرکے عثمان بن محمد بن ابی سفیان کو والی مدینہ مقرر کیا حالانکہ وہ اس منصب کے لیے موزوں نہ تھا۔ اسی دوران نعمان بن بشیر انصاری جو خود صحابی اور صحابی زادہ تھے ملک شام سے مدینہ پہنچے یہ اوّلین نومودلود تھے جو اسلام کے بعد انصار کے ہاں پیدا ہوئے، یہ دمشق کے قاضی اور بہترین خطیب تھے۔ مدینہ پہنچ کر انھوں نے انصار کو اطاعت امیر اور لزوم جماعت کی تلقین کی اور فتنہ بازی سے یہ کہہ کر ڈرایا کہ تم اہل شام کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یزید نے ان کو فتنہ کے فرو کرنے کے لیے شام سے روانہ کیا تھا۔ عبد اﷲ بن مطیع نے نعمان بن بشیر کو مخاطب کرکے کہا :’’ نعمان! تم کس لیے ہماری شیرازہ بندی کو منتشر کرکے ہم میں فساد پیدا کر رہے ہو؟‘‘ یہ عجیب بات ہے کہ فتنہ پردازوں نے فتنہ کا نام اصلاح اور اس سے روکنے کا نام فساد مقرر کر رکھا تھا۔ یہ سن کر نعمان نے ابن مطیع کو جواباً کہا:’’ جس بات کی طرف آپ دعوت دے رہے ہیں اگر وہ پوری ہو گئی تو آپ دیکھیں گے کہ مدینہ میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہونگی اور لوگ شمشیر بکف بے دریغ ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتا ررہے ہونگے؛ آپ خچر پر سوار ہو کر عازم مکہ ہوں گے اور یہ انصار غریب شہر کی گلیوں ، مسجدوں اور اپنے گھروں کے دروازہ پر مقتول پڑے ہوں گے۔(تاریخ طبری:۷؍۴،۵، مطبع حسینیہ)۔شیعہ کا مشہور راوی اور مؤرخ ابو مخنف لوط بن یحییٰ کہتا ہے :’’ لوگوں نے نعمان کی بات نہ مانی ؛تو پھر جس طرح انھوں نے کہا تھا اسی طرح ہوا۔‘‘ نعمان بن بشیر کے نصائح کو ٹھکرانے کے بعد اہل مدینہ نے والی مدینہ عثمان بن محمد بن ابو سفیان کو نکال دیا۔ا علانیہ یزید کی بیعت توڑ ڈالی اور مدینہ میں جس قدر بنو امیہ اور ان کے ہم خیال قریش موجود تھے سب کا محاصرہ کرلیا۔ ان کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی اور یہ سب مروان کے گھر میں جمع ہو گئے تھے، بنو امیہ نے یزید کے نام ایک خط لکھا۔ عبد الملک بن مروان یہ خط لے کر نکلا۔ حبیب بن کرہ بھی اس کے ہمراہ تھا۔ حبیب کا بیان ہے کہ عبد الملک نے یہ خط دے کر اسے کہا: میں تجھے چوبیس دن کی مہلت دیتا ہوں ، بارہ دن جانے کیلئے اور بارہ دن واپسی کے لیے چوبیس رات میں اسی جگہ بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘ حبیب کا بیان ہے کہ وہ یزید کے یہاں آیا۔ یزید ایک بیماری کی وجہ سے اپنے پاؤں پانی سے لبریز ایک طشتری میں رکھے ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ یزید نقرس کے مرض میں مبتلا تھا۔ میں نے خط پیش کیا یزید نے خط پڑھ کر استشہاد کے طور پر یہ شعر پڑھا: لَقَدْ بَدَّلُوا الْحِلْمَ الَّذِیْ مِنْ سَجِیَّتِیْ فَبَدَّلْتُ قَوْمِیْ غِلْظَۃً بِلَیَانٖ ’’ علم و تحمل جو میری فطرت میں داخل تھا۔ لوگوں نے اسے بدل دیا اور میں نے اپنی قوم کے لیے اپنی نرمی کو سختی میں تبدیل کردیا۔‘‘ یزید نے اپنے ایک فوجی سپہ سالار مسلم بن عقبہ المری کو بلایا۔ مسلم بن عقبہ بڑا معمر، کمزور اور بیمار تھا، یزید نے اسے مدینہ جانے کا حکم دیا اور کہا تین شب و روز اہل مدینہ کو صلح کی دعوت دو،اگر وہ قبول کرلیں تو بہتر ورنہ ان سے جنگ کیجیے۔ جب اہل مدینہ پر غلبہ حاصل (]
یہ بات غلط ہے کہ یزید نے تمام اشراف مدینہ کو قتل کروا دیا تھا۔ مقتولوں کی جو تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے یہ بھی درست نہیں ۔ اس بات میں بھی صداقت کا کوئی عنصر شامل نہیں کہ خون مسجد نبوی[روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ] تک پہنچ گیا تھا۔ خون ریزی شہر سے باہر ہوئی تھی، مسجد میں نہیں مگر اس کا کیا علاج کہ شیعہ دروغ گوئی کے خوگر ہیں اور اگر کوئی بات سچی بھی ہو تو وہ اس میں جھوٹ کی آمیزش کر لیتے ہیں ۔کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے شرف و عظمت بخشی ہے ۔اور اسے حرم قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسلام سے پہلے یا اسلام کے بعد کسی ایک کو بھی کعبہ کی بے حرمتی کرنے کی توفیق و قدرت نہیں دی۔ بلکہ جب ہاتھی والوں نے برائی کے ساتھ کعبہ کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ سزا دی جو کہ مشہور و معروف ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَٰبِ الْفِیْلِ oاَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍo وَّ اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ oتَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ oفَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُولٍ ﴾ [ الفیل]
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ ۔کیا ان کے مکر کو بیکار نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ پر جھنڈ بھیج دیئے۔ جو ان کو مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآئَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِوَ مَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [الحج ۲۵]
’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے مساوی کر دیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں دین حق سے پھر جانے کا ارادہ کرے ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے ۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ اگر عدن کے آخری کونے پر کوئی انسان حرم میں الحاد کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘[ہو جائے تو تین شب و روز تک مدینہ کو اپنے لیے مباح سمجھو۔ اس میں جو مال ، اسلحہ یا خوراک ہو اس کا مالک لشکر ہوگا، تین شب و روز گزرنے کے بعد اس سے رک جاؤ، علی بن حسین زین العابدین کا ہرطرح خیال رکھو اور انھیں کوئی تکلیف نہ دو۔ انھوں نے بغاوت میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا خط میرے پاس آچکا ہے۔‘‘ مسلم بن عقبہ بارہ ہزار جنگجو اشخاص کی معیت میں مدینہ پہنچا۔ یہ واقعہ حَرّہ واقم میں پیش آیا۔ مسلم نے ظلم و تعدی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اسی لیے اہل مدینہ اسے مُسرِف بن عقبہ کہا کرتے تھے۔ یہ ہے واقعہ حرہ کا پس منظر! جس کی تفصیل ہم نے دانستہ ایک شیعہ مورخ کی زبانی بیان کی ہے، یہ راوی و مورخ ابو مخنف ہے جو عبد الملک بن نوفل سے روایت کرتا ہے اور وہ بنو امیہ کے قاصد حبیب بن کرّہ سے نقل کرتا ہے۔(تاریخ طبری:۷؍۵۔۷) رواہ احمد في مسندہ مرفوعاً وموقوفاً]مسند أحمد طبع المعارف ۶؍۶۵ ؛ رقم۴۰۷۱ ؛ وقال الشیخ أحمد شاکر : إسنادہ صحیح ؛ والحدیث في مجمع الزوائد ۷؍۷۰ ؛ وقال : رواہ أحمد و أبو یعلی والبزار ۔ ورجال أحمد رجال الصحیح۔ ونقلہ ابن کثیر في التفسیر ۵؍۷۱۔]
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ لوگوں میں سب سے بڑے کافر قرامطی باطنی ہیں ۔ جنہوں نے حجاج کرام کو قتل کیا۔اور انہیں قتل کرکے بئر زمزم میں پھینک دیا ۔اور حجر اسود نکال کر لے گئے ۔ جو ایک عرصہ تک ان کے پاس رہا ۔ پھر واپس کردیا گیا۔[یہ واقعہ تین سو سولہ ہجری میں پیش آیا ۔عین حج کے دنوں میں قرامطی شیعہ نے بیت اللہ پر اس وقت حملہ کردیا جب لوگ حج کا طواف کرر ہے تھے ۔ تاریخ میں ہے کہ انہوں نے بیت اللہ میں دس ہزار حجاج کرام کو قتل کیا ؛ اور حجر اسود نکال کر لے گئے ۔ جو کہ بائیس سال تک ان کے پاس رہا ۔ آخرکار تین سو اڑتیس ہجری میں ایک معاہدہ کے تحت حجرہ اسود واپس کیا ‘ مگر اسے توڑ دیا گیا تھا۔موجود حجر اسودمیں اس کوجوڑنے کے نشانات کا بغور دیکھنے سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔ شیعہ کی جانب سے قتل حجاج اور پامالی حرمت کعبہ و حرم کا یہ پہلا واقعہ نہیں ؛ بلکہ اس قسم کے بیسوویں واقعات پیش آچکے ہیں ۔ اس کی تفصیل کتاب ’’ الحاد الخمینی في بلاد الحرمین ‘‘کے ترجمہ میں آرہی ہے۔ [دراوی جی ]]
اس طرح کے کچھ عبرت انگیز واقعات پیش آئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے حجرہ اسود کو واپس کیا؛ حالانکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بڑے کافر تھے۔ مگر اس کے باوجود ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ پر مسلط نہیں کیا ؛ بلکہ کعبہ ہمیشہ ہی قابل عزت اور عظمت والا رہا ہے ۔
جبکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے مسلمان بادشاہ اور ان کے نوابین میں سے کسی ایک نے بھی کبھی بھی کعبہ کی اہانت کا ارادہ نہیں کیا۔ اور نہ ہی یزید کے نائب نے ایسا کیا ہے۔اور نہ ہی عبد الملک کے نائب حجاج بن یوسف نے ایسا کیااور نہ ہی کسی اور نے ۔ بلکہ تمام مسلمان کعبہ کا احترام و تعظیم بجالاتے تھے۔ ان لوگوں کا مقصود حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنا تھا۔ اور منجنیق سے پتھر ان پر برسائے گئے تھے بیت اللہ پر نہیں ۔یزید نے کعبہ منہدم نہیں کیا؛اور اسے جلانے کا قصد بھی نہیں کیا تھا۔اورنہ ہی یزید کایہ کام تھا اور نہ ہی اس کے کسی نواب کا۔اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کو منہدم کرکے اسے از سر نو پہلے سے بہتر تعمیر کیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا۔[صحیح بخاری،کتاب الحج۔ باب فضل مکۃ و بنیانھا(حدیث:۱۵۸۶)، صحیح مسلم، کتاب الحج۔ باب نقض الکعبۃ و بنیانھا (حدیث:۴۰۲؍۱۳۳۳)۔]
اس سے پہلے بات یہ ہوئی کہ ایک عورت کے ہاتھ سے ایک چنگاڑی اڑ کر کعبہ کے پردوں پر جا گری جس سے کعبہ کا غلاف جل گیااور کچھ پتھر بھی پھٹ گئے۔پھر اس کے بعد عبد الملک نے حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ کعبہ کو دوبارہ اسی طرح تعمیر کیا جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔ سوائے اس کی بلندی کے ؛ اس کی بلندی کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت سے لیکر آج تک کعبۃ اللہ ویسے ہی ہے ۔
یہ مسئلہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ابن زبیر اور ان کے موافقین سلف صالحین کی رائے تھی کہ خانہ کعبہ کو دوبارہ اس طرح سے تعمیر کیا جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اظہار کیا تھا؛ آپ نے فرمایا:
’’اگر تمہاری قوم سے جاہلیت کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں خانہ کعبہ کو منہدم کردیتا اور اسے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر کرتا۔بیشک جب تعمیر کعبہ کے وقت قریش کے پاس خرچہ کم پڑ گیا تو انہوں نے اسے کم کردیا اور اس کی پچھلی جانب بھی ایک دروازہ بنا دیتا۔‘‘[ صحیح بخاری:ج۱:ح:۱۵۲۲]
اور ایک دوسری روایت میں آپ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر تیری قوم کے لوگوں نے کفر نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا تو میں کعبہ کے خزانے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا؛ اور اس کا دروازہ زمین سے ملا دیتا ؛ اور حطیم کو اس میں شامل کردیتا ۔‘‘[البخاری ۲؍۱۴۶ ؛ کتاب الحج چباب فضل مکۃ و بنیانہا ؛ و مسلم ۲؍۹۶۸؛ کتاب الحج باب نقض الکعبۃ و بنائہا۔ و سنن النسائی ۵؍۱۶۹ ؛ کتاب مناسک الحج باب بناء الکعبۃ ۔]
اور امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں حضرت عطا سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ :
’’ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جس وقت کہ شام والوں نے مکہ والوں سے جنگ کی اور بیت اللہ جل گیا اور اس کے نتیجے میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا؛ تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیت اللہ کو اسی حال میں چھوڑ دیا تاکہ حج کے موسم میں لوگ آئیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو شام والوں کے خلاف ابھاریں اور انہیں برانگیختہ کریں ۔ جب وہ لوگ واپس ہونے لگے تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :اے لوگو! مجھے کعبۃ اللہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے توڑ کر دوبارہ بناؤں یا اس کی مرمت وغیرہ کروا دوں ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ میری یہ رائے ہے کہ اس کا جو حصہ خراب ہوگیا اس کو درست کروا لیا جائے باقی بیت اللہ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جس طرح کہ لوگوں کے زمانہ میں تھا۔ اور انہی پتھروں کو باقی رہنے دو کہ جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ: ’’ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ خوش نہیں ہوگا جب تک کہ اسے نیا نہ بنالے تو اپنے رب کے گھر کو کیوں نہ بنایا جائے؟ میں تین مرتبہ استخارہ کروں گا۔ پھر اس کام پر پختہ عزم کروں گا جب انہوں نے تین مرتبہ استخارہ کرلیا ۔تو انہوں نے اسے توڑنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جو آدمی سب سے پہلے بیت اللہ کو توڑنے کے لئے اس پر چڑھے گا تو اس پر آسمان سے کوئی چیز بلا نازل نہ ہوجائے تو ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس نے اس میں سے ایک پتھر گرایا تو جب لوگوں نے اس پر دیکھا کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو سب لوگوں نے اسے مل کو توڑ ڈالا؛ یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کردیا۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے چند ستون کھڑے کر کے اس پر پر دے ڈال دئیے یہاں تک کہ اس کی دیواریں بلند ہوگئیں ۔
اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ اگر لوگوں نے کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا اور میرے پاس اس کی تعمیر کا خرچہ بھی نہیں ہے اگر میں دوبارہ بناتا تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس میں ایک دروازہ ایسا بناتا کہ جس سے لوگ باہر نکلیں ۔‘‘
حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آج میرے پاس اس کا خرچہ بھی موجود ہے اور مجھے لوگوں کا ڈر بھی نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں زیادہ کر دی یہاں تک کہ اس جگہ سے اس کی بنیاد ظاہر ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام والی بنیاد؛ جسے لوگوں نے دیکھا۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس بنیاد پر دیوار کی تعمیر شروع کرادی اس طرح بیت اللہ لمبائی میں اٹھارہ ہاتھ ہوگیا۔ جب اس میں زیادتی کی تو اس کا طول کم معلوم ہونے لگا پھر اس کے طول میں دس ہاتھ زیادتی کی اور اس کے دو دروازے بنائے کہ ایک دروازہ سے داخل ہوں اور دوسرے دروازے سے باہر نکلا جائے۔ تو جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے تو حجاج نے جواباً عبدالملک بن مروان کو اس کی خبر دی اور لکھا کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ کی جو تعمیر کی ہے وہ ان بنیادوں کے مطابق ہے جنہیں مکہ کے باعتماد لوگوں نے دیکھا ہے۔ تو عبدالملک نے جواباً حجاج کو لکھا کہ ہمیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے رد وبدل سے کوئی غرض نہیں انہوں نے طول میں جو اضافہ کیا ہے اسے رہنے دو؛ اور حطیم سے جو زائد جگہ بیت اللہ میں داخل کی ہے اسے واپس نکال دو اور اسے پہلی طرح دوبارہ بنا دو اور جو دروازہ انہوں نے کھولا ہے اسے بھی بند کر دو پھر حجاج نے بیت اللہ کو گرا کر دوبارہ پہلے کی طرح اسے بنا دیا۔‘‘[ صحیح مسلم: ج ۲:ح۷۵۲]
عبداللہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :’’حارث بن عبداللہ عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ان کے پاس وفد لے کر گئے تو عبدالملک کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ابوخبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنے بغیر روایت کرتے ہیں حارث کہنے لگے کہ نہیں بلکہ میں نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی ہے عبدالملک کہنے لگا کہ تم نے جو سنا ہے اسے بیان کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ تیری قوم کے لوگوں نے بیت اللہ کی بنیادوں کو کم کو دیا ہے اور اگر تیری قوم کے لوگوں نے شرک کو نیا نیا نہ چھوڑا ہوتا تو جتنا انہوں نے اس میں سے چھوڑ دیا ہے میں اسے دوبارہ بنا دیتا ۔تو اگر میرے بعد تیری قوم اسے دوبارہ بنانے کا ارادہ کرے تو آؤ میں تمہیں دکھاؤں کہ انہوں نے اس کی تعمیر میں سے کیا چھوڑا ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہ جگہ دکھائی جو کہ تقربیا سات ہاتھ تھی۔‘‘
یہ عبداللہ بن عبید کی حدیث ہے۔[صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر ۷۵۳]
اور اس پر ولید بن عطا نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ میں بیت اللہ میں دو دروازے زمین کے ساتھ بنا دیتا ایک مشرق کی طرف اور ایک مغرب کی طرف۔ اور کیا تم جانتی ہو کہ تمہاری قوم کے لوگوں نے اس کے دروازے کو بلند کیوں کردیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ تکبر اور غرور کی وجہ سے کہ بیت اللہ میں کوئی داخل نہ ہو سوائے ان لوگوں کے کہ جن کے لئے یہ چاہیں ۔ تو جب کوئی آدمی بیت اللہ میں داخل ہونے کو ارادہ کرتا تو وہ اسے بلاتے اور جب وہ داخل ہونے کے قرین ہوتا تو وہ اسے دھکا دیتے اور وہ گر پڑتا۔ عبدالملک نے حارث سے کہا :’’کیا تم نے یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ راوی کہتے ہیں کہ:’’ عبدالملک کچھ دیر اپنی لاٹھی سے زمین کریدتا رہا اور کہنے لگا کہ کاش کہ میں نے اس کی تعمیر کو اسی حال پر چھوڑ دیا ہوتا۔‘‘[صحیح مسلم:ج۲ : ح ۷۵۳]
بخاری کی روایت میں ہے؛ یزید بن رومان کہتے ہیں :
’’ میں ابن زبیر کے پاس موجود تھا، جس وقت انہوں نے اس کو گرا کر بنایا اور حجر اسود کو اس میں داخل کیا۔ اور میں نے بنیاد ابراہیمی کے پتھر دیکھے، جو اونٹوں کی کوہان کی طرح تھے۔اور بیان کیا ہے کہ میں نے اندازہ کیا حجر اسود سے چھ گز یا اس کے قریب قریب تھا۔‘‘
میں کہتا ہوں : ابن عباس اور دوسری ایک کی رائے یہی تھی کہ اسے اسی طرح باقی رہنے دیا جائے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسے ہی باقی چھوڑا تھا۔ پھر جب حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے ؛ تو عبدالملک کی رائے یہ ہوئی کہ اسے دوبارہ اپنی پرانی ہئیت پر تعمیر کیا جائے۔ کیونکہ اس کا اعتقاد یہ تھا کہ جو کچھ ابن زبیر نے کیا ہے؛ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لیکن جب اسے یہ حدیث پہنچی تو اس نے تمنا کی تہی کہ کاش اگروہ اسے اسی حالت پر چھوڑ دیتا۔ پھر جب رشید کی خلافت کا زمانہ تھا تو اس نے حضرت مالک بن انس رحمہما اللہ سے مشورہ لیا کہ ایسے ہی کیا جائے جیسے ابن زبیر نے کیا تھا؟ تو آپ نے مشورہ دیا کہ : ایسے نہ کیا جائے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے فعل کو ترجیح دیتے تھے۔
وہ تمام علماء اور حکمران جن کی جو بھی رائے تھی؛ وہ سبھی کعبہ مشرفہ کی تعظیم کرتے تھے۔ ان سب کا مقصد وہ کام تھا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک محبوب اور افضل ہو۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی مقصد خانہ کعبہ کی اہانت کرنا نہیں تھا۔ اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ: اللہ کی مخلوق میں سے کسی ایک نے خانہ کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا ؛ یا وہاں پر گند پھینکی تو اس نے یقیناً جھوٹ بولا۔ ایسا تو نہ ہی عہد جاہلیت میں ہوا ہے؛ اور نہ ہی اسلام میں ۔ اور جو لوگ کفار تھے خانہ کعبہ کا احترام نہیں کرتے تھے؛ جیسے اصحاب الفیل اور قرامطہ [شیعہ] ؛وہ بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرسکے۔ تو پھر مسلمان کیسے کرسکتے ہیں جو کعبہ کی تعظیم اور احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔
مزید برآں اگریہ تصور کر لیا جائے کہ۔ العیاذ باللہ ۔ کوئی خانہ کعبہ کی اہانت کا قصد رکھتا تھا؛ اوروہ ایسا کرنے پر قادر بھی تھا؛ تو پھر بھی اسے منجنیق سے پتھر برسانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ اس کے بغیر بھی تخریب کاری کرنا اس کے لیے ممکن تھا۔ جیساکہ آخری زمانہ میں جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ قیامت قائم کرنے کا ہوگا تو اس کے گھر کو تباہ کر دیا جائے گا۔
اورزمین سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو اٹھالیا جائے گا۔ پس مصاحف اور دلوں میں قرآن باقی نہیں رہے گا۔اور ایک پاکیزہ ہوا چلے گی؛ جو ہر ایمان والے مرد اور عورت کی روح قبض کرلے گی؛ اس کے بعد زمین پر کوئی خیر اوربھلائی باقی نہیں رہے گی۔ جیسے صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ حبشہ سے ذو السویقین خانہ کعبہ کو تباہ کردے گا۔‘‘[البخاری ۲؍۱۴۸ ؛ کتاب الحج ؛ باب قول اللّٰہ تعالیٰ جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس ؛ باب ہدم الکعبۃ ؛ مسلم ۴؍ ۲۲۳۲ ؛ کتاب الفتن و أشراط الساعۃ ؛ باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل....‘‘۔ ]
بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ؛ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’ گویا میں اس سیاہ آدمی کو دیکھ رہا ہوں جو کعبہ کے ایک ایک پتھر کو اکھاڑ پھینکے گا۔‘‘[البخاری ۲؍۱۴۹ ؛ کتاب الحج ؛ باب ھدم الکعبۃ ؛ المسند ۳؍ ۳۱۵ ۔]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَ الْہَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ ﴾
(المائدۃ ۹۷)
’’اللہ نے کعبہ کو، جو حرمت والا گھر ہے، لوگوں کے قیام کا باعث بنایا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور قربانی کے جانوروں کو اور پٹوں (والے جانوروں ) کو۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اگر لوگ ایک سال بھی بیت اللہ کا حج ترک کردیں تو انہیں کبھی کوئی مہلت نہ دی جائے ۔‘‘اور فرمایا: ’’اگر تمام لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ بیت اللہ کا حج نہ کیا جائے تو آسمان زمین پر گر پڑے۔‘‘اور امام احمد رحمہ اللہ نے ’’المناسک ‘‘ میں بھی یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔ اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد کے اصحاب میں سے بہت سارے فقہاء نے کہا ہے: ’’ہر سال حج کرنا فرض کفایہ ہے ۔‘‘
منجنیق تو وہاں پر استعمال کی جاتی ہے؛ جہاں اس کے بغیر کام نہ ہوسکتا ہو۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف پر منجنیق سے سنگ باری کی تھی۔ یہ اس وقت ہوا جب وہ لوگ قلعہ میں داخل ہوکر قلعہ بند ہوگئے تھے۔ اور جن لوگوں نے ابن زبیر کا محاصرہ کیا تھا؛اور آپ نے اپنے ساتھیوں سمیت مسجد الحرام میں پناہ لے لی تھی؛ تو انہوں نے ان حضرات پر منجنیق استعمال کی تھی؛ کیونکہ وہ اس کے بغیر ان حضرات پر قابو نہیں پاسکتے تھے۔ پھر جب حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو یہ لوگ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ بیت اللہ کا طواف کیا ۔ اس سال حجاج بن یوسف نے لوگوں کے ساتھ [بطور امیر حج] حج کیا ۔ اسے عبد الملک نے حکم دیا تھا کہ حج کے معاملات میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی مخالفت نہ کرے۔
اگر ان لوگوں کاارادہ کعبۃ اللہ کے ساتھ برائی کا ہوتا تو جب انہیں قدرت حاصل ہوگئی تھی تو پھر وہ ایسا کر گزرتے ۔ جیسے ابن زبیر رضی اللہ عنہما پر قابو پاکر انہیں قتل کردیا گیا ۔
[قاتلین حسین رضی اللہ عنہ اور اہل سنت کا موقف]:
[اشکال ]:شیعہ مصنف کی پیش کردہ حدیث کہ ’’ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے ایک صندوق میں ہوگا اور اسے تمام اہل جہنم سے آدھا عذاب ہو رہا ہوگا۔اور اس کے ہاتھ اور پاؤں آگ کی زنجیروں سے باندھ دیے گئے ہوں گے؛ یہاں تک کہ اسے جہنم کے ایسے انتہائی گہرے گڑھے میں ڈال دیا جائے گا اس کے عذاب اور بدبو سے جہنمی میں بھی اپنے رب سے پناہ مانگ رہے ہوں گے۔وہ ہمیشہ ہمیشہ اس دردناک عذاب میں مبتلا رہے گا....الخ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:یہ ایسے شخص کا بیان کردہ جھوٹ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ گوئی سے شرماتا نہ ہو۔ پھر اس پر یہ اضافہ کہ قاتل حسین رضی اللہ عنہ کو سب اہل جہنم سے آدھا عذاب دیا جائے گا۔کیا جہنم کے عذاب کے آدھا ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ؟ اب سوال یہ ہے کہ پھر آل فرعون؛ آل مائدہ ؛ اور باقی سارے منافقین اور کفار کے لیے کیا باقی رہا؟ اور قاتلین انبیاء علیہم السلام سابقین اولین کے قاتلین کے لیے کیا باقی رہا؟ خصوصاً جب کہ حضرت عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا قاتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل سے بھی بڑے مجرم ہیں ۔[مشہورشیعہ علی بن مظاہر واسطی نے شیخ الشیعہ احمد بن اسحاق بن عبد اﷲ بن سعد القمّی الاحوص سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن عید اکبر کا دن ہے اور شیعہ اس دن کو یوم المفاخرہ و یوم البرکۃ و یوم الزکوٰۃ و یوم التسلیۃ اور یوم مسرت کے ناموں سے یاد کرتے ہیں ۔ احمد بن اسحاق مذکور نے اس عید کا اختراع کیا تھا۔ شیعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل ابو لؤلؤ مجوسی کو ’’ بابا شجاع الدین‘‘ کے لقب سے ملقب کرتے ہیں اور آپ کے یوم شہادت کو ’’ عید بابا شجاع الدین‘‘ سے موسوم کرتے ہیں ۔(تحفہ اثنا عشریہ شاہ عبد العزیز دہلوی،ص:۲۰۸۔۲۰۹) ]
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قاتل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل سے بڑا گہنگار ہے۔ روافض کا یہ غلو نواصب کے اس قول سے بڑی حد تک ملتا جلتا ہے جن کا عقیدہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ خوارج میں سے تھے اور انھوں نے ملت کے شیرازہ کو منتشر کرنا چاہا۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث کی بنا پروہ مباح الدم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’ جو شخص آکر تم میں تفریق پیدا کرنا چاہے؛ اورتمہارا معاملہ ایک انسان کے ہاتھ میں ہو تو اسے قتل کردو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب حکم من فرق امر المسلمین و ھو مجتمع (ح:۱۸۵۲)۔]
اہل سنت والجماعت ان دونوں گروہوں کے غلو کو رد کرتے ہیں ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ: حضرت حسین رضی اللہ عنہ بحالت مظلومی شہید ہوئے اور آپ کے قاتل ستم ران اور ظالم ہیں ۔
وہ احادیث مبارکہ جن میں جماعت سے علیحدہ کرنے والے سے قتال کا حکم ہے؛ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ان احادیث کا مصداق نہیں ہو سکتے اس لیے کہ آپ نے امت میں انتشار پیدا نہیں کیا تھا۔ آپ کو اس وقت شہید کیا گیاتھا، جب آپ واپس مدینہ جانے کے خواہاں تھے یا محاذ جنگ پر جانا چاہتے تھے ؛ یا پھر یزید کے ہاں تشریف لانا چاہتے تھے۔ آپ جماعت میں داخل تھے ۔ اور کسی طرح بھی امت میں تفریق نہیں پیدا کرناچاہتے تھے ۔ ایسا مطالبہ اگر کسی ادنی انسان کا بھی ہو تو اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے؛ تو پھر حسین رضی اللہ عنہ جیسے انسان کی بات کیوں نہ مانی جاتی ؟ اور اگر حکومت کا طلب گار کوئی ادنی انسان بھی ہو تو پھر بھی اسے محبوس کرنا یا قید کرنا جائز نہ تھا؛ چہ جائے کہ آپ کو گرفتار کیا جاتا اورپھر قتل کردیا گیا۔
[اہل بیت کے خون سے متعلق روایت کی حقیقت ]
[اشکال ]: رافضی مصنف کا قول ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:’’ میرا اور اللہتعالیٰ کا شدید غضب اس شخص پر ہو گا جس نے میرے اہل کا خون بہایا اور میرے اہل بیت میں مجھے ستایا۔‘‘
[جواب]: ذکر کردہ حدیث صحیح نہیں ۔ایک جاہل انسان ہی ایسی روایت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے خون کی ایمان و تقویٰ کی بنا پر حفاظت وعصمت؛ صرف قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بل بوتے سے بہت بڑھ کر ہے ۔اس لیے کہ اگربالفرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے اسے قتل کرنا یا اس کا ہاتھ کاٹنا جائز ہو تو باتفاق مسلمین ایسا کرنا جائز ہوگا۔ جیسے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ اے لوگو! تم سے پہلے کئی قومیں ہلاک ہوئیں ، جب کوئی شریف چوری کرتا تو وہ لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو وہ لوگ اس پر حد جاری کرتے اور قسم ہے اللہ کی! اگر فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری کرتی تومیں ان کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالتا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الحدود ، باب اقامۃ الحدود علی الشریف والوضیع (حدیث: ۶۷۸۷، ۶۷۸۸)، صحیح مسلم، کتاب الحدود۔ باب قطع السارق الشریف وغیرہ، (حدیث:۱۶۸۸)۔ ]
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کے عزیز ترین فرد(سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ) کے بارے میں بیان فرمایاکہ اگر وہ بھی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے حد واجب ہو جائے تو اس پر حد نافذ کی جائے گی۔[اسلام میں مسئلہ حدود میں ادنیٰ و اعلیٰ کے مابین کوئی امتیاز سرے سے موجود ہی نہیں ]۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ اگر ایک شادی شدہ ہاشمی زنا کا مرتکب ہو گا تو اسے سنگسار کیا جائے گایہاں تک کہ وہ مرجائے ۔ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ اور اگر کسی کوظلم اور سرکشی کرتے ہوئے قتل کرے گا تو قصاص میں اسے بھی قتل کیا جائے گا؛ بھلے مقتول کا تعلق حبشہ سے ہو یا روم سے یا ترک سے یا دیلم سے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ سب مسلمانوں کا خون مساوی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘[سنن ابی داؤد۔ کتاب الجہاد، باب فی السریۃ ترد علی اھل العسکر (حدیث: ۲۷۵۱)۔]
پس ہاشمی اور غیر ہاشمی کا خون اس وقت برابر ہے جب وہ دونوں آزاد ہوں اور دونوں مسلمان ہوں ۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔ حق بجانب ہوتے ہوئے کسی ہاشمی یا غیر ہاشمی کے خون کے درمیان کو ئی فرق نہیں ۔تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اپنے اہل خانہ کو خاص کرسکتے ہیں کہ جو ان کا خون بہائے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا بہت سخت غضب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کا ناحق خون بہانے سے منع کیا ہے؛ جب کسی کو حق کے ساتھ قتل کیا گیا ہو تو پھر اس کے قتل کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب کیونکر سخت ہوسکتا ہے؟ خواہ قتل ہونے والا ہاشمی ہو یا غیر ہاشمی ۔ اگر کسی کو ناحق قتل کیا جائے ؛ تو پھر جو کوئی بھی کسی مؤمن کو جان بوجھ قتل کردے ؛ تو بدلے میں اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا؛ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا؛ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا اور لعنت ہوئی ؛ اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کررکھا ہے۔خون کی حفاظت کرنے والا اسے مباح سمجھنے والا اس میں ہاشمی اور غیر ہاشمی برابر ہیں ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسا کلام منسوب کرنے والا یا تو منافق ہوسکتا ہے جو آپ کی ذات پر قدح کرنا چاہتا ہو یا پھر کوئی جاہل ہوسکتا ہے جو اس عدل کو نہ جانتا ہو جو عدل دیکر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا تھا۔
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے اہل بیت میں تکلیف دینا]
ایسے ہی رافضی کا قول : ’’ جس نے مجھے میرے اہل بیت میں تکلیف دی ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے اہل بیت یا حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم یا آپ کی سنت میں سے کسی کی توہین کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینا کبیرہ گناہ ہے۔