فصل:....رافضی کا اہل سنت پر الزام
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....رافضی کا اہل سنت پر الزام
[امامیہ اور اللہ تعالیٰ ؛ ملائکہ ؛ انبیائے کرام علیہم السلام اور ائمہ کی تنزیہ ]
[خوش فہمی اور دھوکا] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’صاحب عقل و خرد کو غور کرنا چاہئے کہ فریقین (شیعہ و اہل سنت) میں سے کون امن کا زیادہ حق دار ہے؟ وہ فریق جو اللہ تعالیٰ،ملائکہ،انبیاء اور ائمہ کو منزّہ قرار دیتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت کو مسائل ردیہ سے پاک سمجھتا ہے یا وہ فریق جو اس کے برعکس ہے ؟ علاوہ ازیں اہل سنت ائمہ اثنا عشرہ پر درود و سلام نہ بھیج کر اپنی نمازوں کو برباد کرتے ہیں ‘ حالانکہ وہ دوسرے ائمہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔یا جو ان کے بر خلاف ذکر کرتے اور عقیدہ رکھتے ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب] :ہم کہتے ہیں کہ: شیعہ مصنف جس کو تنزیہ تصور کرتا ہے وہ ہمارے نزدیک اللہ و رسول کی توہین و تنقیص اورتعطیل ہے۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ جہمیہ کاعقیدہ ہے جو صفات کی نفی کرتے ہیں جس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہتعالیٰ جملہ صفات کمال سے عاری اور جمادات و معدومات کی مانند ہو۔ جب شیعہ کہتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ میں حیات و علم و قدرت نیز کلام و مشیت اور حب وبغض و رضا و ناراضگی میں سے کوئی صفت بھی پائی نہیں جاتی وہ نہ بذات خود کوئی فعل انجام نہیں دیتا اور نہ کسی تصرف پر قادر ہے؛ تو گویا وہ اسے جمادات اور ناقصات کے مشابہ قرار دیتے ہیں جو اس کی تنقیص و تعطیل ہے۔ باری تعالیٰ کی تنزیہ کا مطلب یہ ہے کہ اسے ان نقائص سے منزہ قرار دیا جائے جو کمال کے منافی ہیں ۔ مثلاً اسے موت، نیند، غفلت عجز و جہل اور حاجت مندی سے پاک سمجھاجائے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں اس نے اپنی ذات کو عیوب سے منزہ قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اس کا کوئی نظیر و مثیل نہیں ۔پس ان دونوں چیزوں کے مابین جمع کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات ِکمال کو ثابت مانا جائے گا اور جو اوصاف صفات کمال کے منافی ہیں ‘ان کی نفی کی جائے گی۔ اور اس کی صفات میں سے کسی بھی چیز میں اسے کسی بھی مخلوق کے ساتھ مماثلت اور تشبیہ سے منزہ قرار دیا جائے گا۔اور نقائص سے مطلق طور پر پاک مانا جائے گا۔اور صفات کمال میں اسے کسی بھی مثال سے منزہ مانا جائے گا۔
انبیاء علیہم السلام کے متعلق شیعہ کا زاویہ نگاہ:
انبیائے کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے جو صفات کمال اور بلند درجات عطا کیے تھے ‘ شیعہ انہیں سلب کرتے ہیں ۔توبہ و استغفار نیز ایک کمال سے بڑے کمال کی طرف منتقل ہو کر جو درجات عالیہ حاصل کرتے ہیں شیعہ اس کی نفی کرتے ہیں ؛ اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو خبریں دی ہیں ‘ انہیں جھٹلاتے ہیں ‘ اوراس ضمن میں قرآن میں وارد شدہ آیات کی تحریف کرتے ہیں ۔ شیعہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ کسی شخص کا جہالت سے علم اور ضلالت سے ہدایت؛ سرکشی اوربغاوت سے کامیابی اور رشد و ہدایت کی طرف منتقل ہونا نقص و عیب ہے۔اوریہ بات نہیں جانتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے اور اس کی قدرت کی عظیم تر نشانیوں میں سے ہے کہ بندوں کو نقص سے کمال کی طرف منتقل کیا جاتاہے۔ حالانکہ جو شخص خیر و شر دونوں کا ذوق آشنا ہوتا ہے اسے اس شخص کی نسبت خیر سے زیادہ محبت اور شر سے زیادہ نفرت ہوتی ہے جو صرف خیر ہی جانتا ہو اورشر سے نا آشنا ہو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ جب اسلام میں جاہلیت سے ناآشنا لوگ پیدا ہوں گے تو اسلام کا شیرازہ ایک ایک کڑی کرکے بکھر جائے گا۔‘‘[حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے جو اس عظیم حقیقت سے آگاہ ہوئے، آپ نے فرمایا:’’ جو شخص شر سے ناآشنا ہے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ وہ اس کا شکار ہو جائے۔‘‘جو لوگ فقر و فاقہ میں مبتلا رہنے کی وجہ سے زہد کی زندگی اختیار کرتے ہیں ان کا حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے زہد سے کیا مقابلہ؟ غور فرمائیے کہ کرۂ ارض کی عظیم ترین حکومت کا مال آپ کے زیر تصرف تھا اور اﷲ کے سوا آپ سے کوئی حساب لینے والا بھی نہ تھا اس کے باوصف آپ فقر و زہد کی زندگی بسر کرتے تھے۔]
باقی رہی یہ بات کہ شیعہ اپنے ائمہ کو عیوب ونقائص سے منزہ قرار دیتے ہیں تو یہ بڑی شرمناک بات ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی انہیں حیاء آنا چاہیے تھی ۔ خصوصاً اس امام کا پاک و صاف ہونا جو دین و دنیا میں کسی کام کا نہیں بلکہ وہ ایک معدوم چیز ہے جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں (شیعہ کا امام غائب جس کے وہ منتظر ہیں )۔
جہاں تک شریعت کو گھٹیا درجہ کے مسائل سے منزہ قرار دینے کا تعلق ہے، ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ اہل سنت نے یک زبان ہو کر اس قسم کا ایک مسئلہ بھی بیان نہیں کیا۔ جبکہ روافض کے ہاں ایسے مسائل کی اتنی بھر مار ہے کہ اس قدر گھٹیا مسائل کسی بھی دوسرے فرقہ میں نہیں پائے جاتے۔(روافض کے ان شرمناک مسائل کیلئے دیکھئے تحفہ اثنا عشریہ باب السابع ص:۲۰۸تا ۲۳۷ ط:سلفیہ)
[آئمہ پر صلاۃ و سلام کا مسئلہ ]
٭ شیعہ مصنف کا قول کہ: ’’اہل سنت ائمہ اثنا عشر پر درود و سلام نہ بھیج کر اپنی نمازوں کو برباد کرتے ہیں حالانکہ وہ دوسرے آئمہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔‘‘
٭ جواب : اس سے شیعہ مصنف کی مراد یاتو یہ ہے کہ بارہ ائمہ پر درود بھیجنا واجب ہے۔ یاپھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ان میں سے کسی ایک پر یا کسی دوسرے امام پر درود بھیجنا واجب ہے۔ یا پھر اس سے مراد یہ ہوگی کہ آل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا واجب ہے ۔ اگر اس کی مراد پہلی بات ہے ۔ تو یہ ان کی سب سے بڑی گمراہی اور شریعت محمد ی سے خروج اور تجاوز ہے۔ اس لیے کہ ہم اور شیعہ سبھی جانتے ہیں اوریہ ایک بدیہی بات ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں یا خارج از نمازبارہ ائمہ میں سے کسی امام پر درود و سلام بھیجنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی آپ کے مبارک دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایسے کرتا تھا۔ [نہ تابعین نے کبھی اس پر عمل کیا]اور نہ ہی کسی ایک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح یا ضعیف سند سے کوئی ایسی رویت نقل کی ہے۔او ر نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی ایک ان بارہ ائمہ میں سے کسی ایک کو اپنا امام مانتا تھا۔ چہ جائے کہ نماز میں ان پر درود بھیجنا واجب ہوتا ۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم [اور صحابہ کرام ]کے عہد میں ادا کی جانے والی نمازیں بالکل درست تھیں ، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔توپھر اس کے بعد کس نے نماز میں ان لوگوں پر درود بھیجنا واجب کردیا۔اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کی نمازوں کو باطل قراردے دیا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو شخص نماز میں بارہ ائمہ پردرود و سلام بھیجنے کو ضروری سمجھتا ہے اور اس کے خیال میں بجز اس کے نماز باطل ہوتی ہے تو وہ تحریف فی الدین کا ارتکاب کرتا ہے۔اور وہ دین محمدی کو ایسے بدل رہا ہے جیسے یہود و نصاری نے انبیاء کرام علیہم السلام کا دین بدل دیا تھا۔
٭ اگر کہا جائے کہ:’’ آل محمد میں آئمہ اثنا عشر بھی داخل ہیں ۔‘‘
٭ تواس کا جواب یہ ہے کہ آل محمد میں بنو ہاشم[بنی ہاشم سے مراد بنو عباس و بنو لہب ہیں ۔] اور امہات المومنین بھی شامل ہیں ۔[اس لیے کہ امہات المومنین کو اس آیت میں مخاطب کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿یَا نِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ﴾ (الأحزاب)]اور ایک قول کے مطابق بنو مطلب بھی اس میں داخل ہیں ۔جب کہ امامیہ ان میں سے اکثر کی؛بطور خاص بنو عباس کی مذمت کرتے ہیں ؛خصوصاً ان میں سے جو خلفاء ہو گزرے ہیں ۔ حالانکہ ان کا شمار بھی آل محمد میں ہوتا ہے ۔نیز شیعہ امامیہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی مذمت کرتے ہیں ۔جب کہ جمہور بنی ہاشم ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے اور ان سے دوستی رکھتے ہیں ۔ اور کوئی بھی صحیح النسب ہاشمی اس کا انکار نہیں کرتا ؛ سوائے چند ایک محدود بنی ہاشم کے [جن پر جہالت کا غلبہ ہے یا جو شیعہ سے متاثر ہوگئے ہیں ]۔ ورنہ اکثر بنی ہاشم جو اہل علم اور دین دار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے ہیں ۔
یہ بات ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ شیعہ تعظیم آل محمد کے مدعی ہیں حالانکہ انھوں نے خودبھر پور کوششیں کرکے تاتاریوں کواسلامی دار الخلافہ بغداد پر حملہ کرنے کے لیے بلایا؛ حتی کہ ان کافروں نے اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا جن کی صحیح گنتی تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ان میں ہاشمی اور غیر ہاشمی سبھی شامل تھے۔ انہوں نے بغداد اور اس کے گردو نواح میں اٹھارہ لاکھ ستر ہزار سے زیادہ مسلمانوں کوقتل کیا۔ اولاد علی و عباس میں سے ہزاروں کو قتل کیا۔ ہاشمیوں کے بیوی بچوں کو قیدی بنایا۔[علاوہ ازیں لا تعداد نادر کتب کے مسوّدات جن میں سے بعض کے نام بھی ہم کو معلوم نہیں دریائے دجلہ میں بہاد یے۔ ]
حقیقت میں بلا شک و شبہ یہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض کی نشانی ہے۔ اس لیے کہ کافروں نے یہ کام رافضیوں کی مدد سے کیا تھا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے ہاشمی عورتوں کو قیدی بنانے کے لیے اپنی کوششیں صرف کیں ۔اس کے علاوہ بھی ان کے ایسے شرمناک کارنامے ہیں جن کی تفصیل کایہ موقع نہیں ۔الغرض شیعہ جو بھی عیب دوسرے لوگوں پر لگائیں گے وہ خود ان کے اندر بڑھ چڑھ کر بدرجہ اتم موجود ہوگا۔ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ آپ نے فرمایا یوں کہو:
’’ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کما صلیت علی إِبراہِیم وعلی آلِ ِإبراہِیم إِنک حمِید مجِید۔ اللہم بارِک علی محمد وعلی آلِ محمد کما بارکت علی إِبراہِیم وعلی آلِ إِبراہِیم إِنک حمِید مجِید۔‘‘ وفي روایۃ :وَعلی اَزْوَاجِہٖ و ذُرِّیّٰتِہٖ۔‘‘[البخاری، کتاب احادیث الانبیاء باب(۱۰)، (ح:۳۳۶۹)، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد التشھد (ح:۴۰۷)۔سنن ابی داؤد۔ کتاب الصلاۃ۔ باب الصلاۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد التشھد (ح :۹۸۲)؛ یہاں پر ان الفاظ میں درود نقل کیا گیا ہے: ’’اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ وَ اَزْوَاجِہٖ اُمَّہَاتِ الْمُؤمِنِینَ وَ ذُرِیّٰـتِہٖ و اَہْلِ بَیْتِہٖ کَمَا صَلَّیْت عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔‘‘ ( و سندہ ضعیف)۔ علماء زیدیہ میں سے قاضی شوکانی نیل الاوطار میں اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ علماء کی ایک جماعت نے اس حدیث سے اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ ’’ آل ‘‘ سے ازواج و اولاد مرا د ہے۔‘‘]
اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ صدقہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۵۲؛ سنن ابی داؤد۳؍۲۰۳ ]
یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اور عبد المطلب بن ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ ہمیں زکواۃ و صدقات وصول کرنے پر بھیجا جائے ؛ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بیشک صدقہ محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہے؛ یہ لوگوں کا میل کچیل ہے۔‘‘ [مسلم ۲؍۷۵۳ ]
اس سے ثابت ہوا کہ آل عباس اور بنو حارث بن عبد المطلب آل محمد اورذوی القربی میں شامل ہیں اور ان پر زکوٰۃ حرام ہے۔اور حدیث مبارک میں یہ بھی ثابت ہے کہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقربی کے حصہ میں سے بنو مطلب بن عبدمناف کو بھی ایک حصہ دیا تھا ؛ اور فر مایا تھا:
’’ بیشک بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی چیز ہیں ۔ یہ نہ ہی ہم سے جاہلیت میں جدا ہوئے اور نہ ہی اسلام میں ۔‘‘[سنن أبي داؤد ۳؍۲۰۰؛ النسائي ۷؍۱۱۸والمسند۴؍۸۱۔]
یہ لوگ بنو عباس اور بنو حارث بن عبد المطلب کی نسبت دور کے رشتہ دار ہیں ۔لیکن اس کے باوجود ان تمام کا شمار ذو القربی [قریبی رشتہ داروں ] میں ہوتا ہے۔ اس بات پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ آل عباس اور بنو حارث بن عبد المطلب آل محمد اورذوی القربی میں شامل ہیں اور ان پر زکوٰۃ حرام ہے۔اور درود میں بھی یہ لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ اور یہ لوگ خمس کے مستحق ہیں ۔ جب کہ بنو مطلب بن عبد مناف کے بارے میں اختلاف ہے ۔کیا ان پر بھی صدقہ حرام ہے ؟ اور کیا یہ بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایتیں منقول ہیں :
٭ پہلی روایت : ان پر صدقہ حرام ہے ۔ یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔
٭ دوسری روایت: ان پر صدقہ حرام نہیں ہے۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کاقول ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک وہی لوگ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے بارے میں صریح حکم آیا ہے۔ یہی مسلک شریف ابو جعفر بن ابو موسی اور اس کے ساتھیوں کا ہے۔ جن پر صدقہ حرام ہے وہ بنو ہاشم ہیں ۔ بنو مطلب کے بارے میں دو روایتیں ہیں ۔
ایسے ہی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے بارے میں اختلاف ہے ۔ کیا ان کاشمار بھی آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتا ہے جن پر صدقہ حرام ہے ؟ امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں :
ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے عتقاء [آزاد کردہ غلام اور لونڈیاں ]جیسے کہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا [ان] پر صدقہ باجماع مسلمین جائز ہے۔ اگرچہ بنی ہاشم کے موالین پر بھی صدقہ حرام ہے۔ بعض مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک آل محمد سے آپ کی امت مراد ہے۔ صوفیہ کا ایک گروہ اس سے اتقیاء امت مراد لیتاہے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی متعین شخص پر نماز میں درود بھیجنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر انسان نماز میں بعض اہل بیت پر درود بھیجے اور بعض پر نہ بھیجے ؛ جیساکہ آل عباس پر درود بھیجے اور آل علی پر نہ بھیجے ؛ یا اس کے برعکس کرے ؛ تو ایسا انسان شریعت کی مخالفت کرنے والا ہوگا۔تو پھر باقی تمام آل محمد کو چھوڑ کر چند متعین افراد پر کیسے درود بھیجا جاسکتا ہے ؟
جمہور فقہاء کا نقطہ نظریہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر صلوٰۃ بھیجنا نماز میں واجب نہیں ہے۔ جو لوگ درود بھیجنے کو واجب کہتے ہیں وہ صرف آپ پر درود کو کافی سمجھتے ہیں ‘ آل پر درود بھیجنا واجب نہیں ۔ اور اگرآپ کی آل پر صلوٰۃ بھیجنا نماز میں واجب بھی ہوتا تو بعض آل پر یا باقی لوگوں کوچھوڑ کر چندمتعین افراد پر اکتفا درست نہیں ۔بلکہ علماء کرام کا اختلاف یہ ہے کہ کیا کسی معین شخص کے حق میں درود بھیجنے یا دعا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے [یا نہیں ہوتی]؟اس میں دو قول ہیں :
اگرچہ اس کا یہی جواب صحیح ہے کہ اس سے نماز باطل نہیں ہوتی؛ لیکن اسے آئمہ کے ساتھ خاص طور پر واجب بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے پر درود بھیجنے کو واجب نہیں کہتے۔نہ ہی اپنے ائمہ پر نہ ہی دوسروں کے ائمہ پر۔اس لیے کہ اپنی طرف سے کسی ایسی چیز کو واجب کرنا گمراہ کرنے والی بدعت اور شریعت الٰہی کی مخالفت ہے۔جیساکہ شہادتین میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے۔ ایسے ہی آذان ‘نماز اور دوسرے مواقع پر بھی ہے۔اگر کوئی انسان شہادتین کے اقرار میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی امام کا ذکر کرے تو یہ سب سے بڑی گمراہی ہوگی۔
رافضی مصنف کا یہ قول کہ کسی معین خلیفہ پر صلوٰۃ بھیجنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؛ باطل ہے۔ جمہور علماء کی رائے میں کسی معین شخص کے حق میں نماز میں دعا یا بد دعاء کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یوں دعا کیا کرتے تھے:
((اللہم أنجِ الولِید بن الولِیدِ وسلمۃ بن ہِشام [وعیاش بن أبِی ربِیع] والمستضعفِین مِن المؤمِنِین اللہم اشدد وطأتک علی مضر واجعلہا علیہِم سِنِین کسِنِی یوسف۔))
’’اے اللہ ولید بن ولید کو اور سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیع اور کمزور مسلمانوں کو(کفار مکہ کے پنجہ ظلم) سے نجات دے، اے اللہ اپنی پامالی(قبیلہ)مضر پر سخت کر دے، اور اس کو ان پر قحط سالیاں بنا دے، جیسے یوسف (کے زمانے)کی قحط سالیاں تھیں ۔‘‘ [صحیح بخاری:ح۷۷۰]
اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے : اے اللہ رعل و ذکوان اور عصیہ پر لعنت کر ۔‘‘ [مسلم ۳؍۱۹۵۳]
دعائے قنوت میں ایک قوم کے حق میں دعائے خیر کرتے اور دوسری قوم کے افراد اور قبائل کا نام لے کر ان پر لعنت بھیجا کرتے تھے۔[صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب (۱۲۶)، (حدیث:۷۹۷،۸۰۴،۴۵۶۰)، صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات (حدیث: ۶۷۵، ۶۷۶)۔] جو کوئی اسے فاسد کہتا ہو‘ اس کا قول بھی اسی طرح فاسد ہے جس طرح نماز میں چند متعین اشخاص پر درود کو واجب کہنے والے کا قول فاسد ہے۔
اہل سنت والجماعت نہ ہی اس کو حرام کہتے ہیں اور نہ ہی واجب قرار دیتے ہیں ۔ بلکہ وہ اسی چیز کو واجب سمجھتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے واجب قرار دیا ہو‘ اور اسے حرام کہتے ہیں جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام کہا ہو۔
اگر [رافضی مصنف کی] مراد یہ ہے کہ نماز میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا واجب ہے کسی دوسرے پر نہیں ۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: پہلی بات تو یہ ہے کہ : اس مسئلہ میں علماء کرام کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے ۔
اکثر لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی آل پر درودپڑھنا واجب نہیں ۔ یہ امام ابو حنیفہ ؛ مالک اور ایک روایت میں امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ امام طحاوی نے دعوی کیا ہے کہ قدیم میں اس پر اجماع ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ : نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی آل پر درودپڑھنا واجب ہے۔ یہ امام شافعی کا اور دوسری روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مذہب ہے۔ پھر اس روایت کی بنا پر مزید اختلاف ہے ؛ کیا یہ درود رکن ہے یا واجب ہے جو کہ بھول جانے کی صورت میں سجدہ کرنے سے ساقط ہوجاتا ہے؟ امام احمد رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو روایتیں ہیں ۔
پھر جن لوگوں نے نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی آل پر درودپڑھنا واجب قراردیا ہے ؛ وہ کہتے ہیں : یہ درود ان ہی الفاظ میں واجب ہے جو احادیث میں منقول ہیں ۔امام احمد کا ایک قول یہی ہے۔اس صورت میں آل محمد پر درود واجب ہوجاتا ہے ۔اور بعض علماء کرام رحمہم اللہ الفاظ کی قید کو واجب قرار نہیں دیتے۔ جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی معروف ہے۔ اس صورت میں آل پر درود پڑھنا واجب نہ ہوگا۔
جب یہ معلوم ہوگیا کہ اس مسئلہ میں اختلاف بڑا مشہور ہے تو پھر کہا جائے گا کہ اگر نماز میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑہنا واجب بھی مان لیا جائے تو یہ درود تمام آل محمد کو شامل ہوگا؛ صرف ان کے صالحین یا ائمہ معصومین کے لیے خاص نہیں ہوگا [جیسا کہ رافضیوں کا خیال ہے ]۔ بلکہ یہ تمام لوگوں کو شامل ہوگا ۔ جیسا کہ اگر مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے اور اہل ایمان مردوں اور عورتوں کے لیے دعا کی جائے تو اس میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے جو ایمان یا اسلام میں داخل ہوئے ہیں ۔ عام اہل ایمان کے لیے یا عام اہل بیت کے لیے دعا کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں سے ہر ایک نیک اور متقی ہو۔ بلکہ دعا میں اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے فضل و احسان مانگا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہر ایک کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حق زیادہ ہے ‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امت پر کچھ حقوق ہیں جن میں دوسرے لوگ ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں ۔آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ محبت و موالات کے مستحق ہیں ۔جس محبت کے سارے قریشی قبائل مستحق نہیں ۔ ایسے ہی قریش اس محبت کے مستحق ہیں جس کے باقی عرب قبائل مستحق نہیں ‘ اور عرب اس محبت کے مستحق ہیں جس کی مستحق باقی اولاد آدم نہیں ۔ یہ ان لوگوں کا مذہب جو عربوں کو باقی لوگوں پر فضیلت دیتے ہیں ؛ اور قریش کو سارے عربوں پر اور بنی ہاشم کو سارے قریش پر فضیلت دیتے ہیں ۔جیسا کہ امام احمد اور دوسرے ائمہ رحمہم اللہ کا مذہب ہے ۔
نصوص اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی کَنَانَۃَ مِنْ وَلَدِ اسْمٰعِیْلَ، وَاصْطَفَی قُرَیْشاً مِّنْ کَنَانَۃَ ،وَاصْطَفَی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِي ہَاشَمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِيْ ہَاشَمٍ )) [مسلم کتاب الفضائل ؛ باب : فضل نسب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ح: ۴۳۱۸۔ صحیح ابن حبان ؛ کتاب التاریخ ،ذکر اصطفاء اللہ جل و علا صفیہ ؛ ح: ۶۴۲۴۔]
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے اسمعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کو ، اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا تھا، اور قریش سے بنی ہاشم کو ، اور بنی ہاشم میں سے مجھے چن لیا ہے ۔‘‘
دوسری حدیث میں آتاہے : ’’ لوگ ایسے ہی کان کی طرح ہیں جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔ان میں سے جو جاہلیت میں اچھے لوگ تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں ‘اگر وہ دین کی سمجھ حاصل کریں ۔‘‘[البخاری ۴؍۱۵۲؛ مسلم ۴؍۱۹۵۸۔]
ایک طائفہ کا خیال ہے کہ ان اجناس کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دی جائے۔ یہ اہل کلام کی ایک جماعت کا قول ہے؛ جیسے قاضی ابوبکر بن الطیب ؛ اور دیگر حضرات۔اور قاضی ابو یعلی نے یہی قول المعتمد میں نقل کیا ہے۔ اور شعوبیہ کے مذہب میں بھی یہی قول ہے۔ یہ اہل بدعت کے اقوال میں سے ایک ضعیف قول ہے۔ جیسا کہ اپنی جگہ پر یہ مسئلہ تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ اور ہم نے بیان کیا ہے مجمل کی مجمل پر تفضیل کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ فرد کو بھی فرد پر فضیلت حاصل ہو۔ جیسا کہ قرن اول کی قرن ثانی پر فضیلت ؛ اورقرن ثانی کی قرن ثالث پر فضیلت بھی اس کا تقاضا نہیں کرتی۔ بلکہ قرن ثالث میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو کئی امور میں قرن ثانی کے بہت سارے لوگوں سے بہت بہتر ہیں ۔
بیشک علمائے کرام رحمہم اللہ کا اختلاف غیر صحابہ کے بارے میں ہے؛ ان میں سے کون ایک دوسرے سے بہتر ہے؟ اس میں دو قول ہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں حکم شریعت خصوصی طور پر قریش کے حق میں ثابت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حاکم ان میں سے ہوگا؛ دوسرے لوگوں میں سے نہیں ہوگا۔ اور بنی ہاشم کی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ ان پر صدقہ حرام ہے۔ایسے ہی یہ لوگ اکثر علماء کے نزدیک مالِ فئے کے مستحق ہیں ۔ اور اس میں ان کے ساتھ بنو مطلب بھی شمار ہوتے ہیں ۔ پس ان پر درود کا تعلق اسی باب سے ہے۔ ان کے خاص احکام میں ہیں جن میں ان کے حقوق اور ان کے فرائض بیان ہیں ۔ یہ احکام ان میں سے ہر ایک کے لیے ثابت ہیں بھلے وہ نیک نہ بھی ہو؛ گنہگار اور بدکار بھی ہو۔
رہ گیا یہ معاملہ کہ اہل قرابت میں ثواب اور عقاب میں اسی ترتیب کو برقرار رکھنا؛ اور اللہ تعالیٰ کا کسی متعین شخص کی تعریف کرنا؛ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کرامت والا ہوں ؛ اس نسب پر مؤثر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اس میں مؤثر ایمان اور عمل صالح ہوتا ہے؛ جو کہ تقوی سے آتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾ (الحجرات۱۳]۔
’’ بیشک اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ؛ وہ سب سے بڑا متقی ہو۔‘‘
صحیح بخاری میں یہ ثابت شدہ ہے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا :
’’ یا رسول اللہ! سب سے زیادہ شریف کون ہے ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا کہ:’’ ہم آپ سے اس کے متعلق نہیں پوچھتے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پھر اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ [سب سے زیادہ شریف ہیں ]۔‘‘
صحابہ نے کہا کہ:’’ ہم اس کے متعلق بھی نہیں پوچھتے ۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اچھا عرب کے خاندانوں کے متعلق تم پوچھنا چاہتے ہو ۔ سنو جو جاہلیت میں شریف تھے اسلام میں بھی وہ شریف ہیں جبکہ دین کی سمجھ انہیں آ جائے ۔‘‘[البخاری ۴؍۱۴۰؛ کتاب الانبیاء ؛ باب قولہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا۔]
اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ جسے اس کا علم پیچھے چھوڑ دے؛ اسے اس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا ۔‘‘[مسلم ۴؍۲۰۷۴ ؛ کتاب الذکر والدعاء ؛ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن و علی الذکر ؛ سنن الترمذي ۴؍۲۶۵؛ کتاب القرآن ؛ باب منہ ۳۔ و سنن ابن ماجہ ۱؍۸۲۔]
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین کی تعریف کی ہے؛ اور یہ خبر دی ہے کہ وہ ان سے راضی ہوگیاہے؛ جیسا کہ عمومی طور پر اہل ایمان کی تعریف بھی کی ہے۔ پس کسی انسان کا مؤمن ہونا ایسا وصف ہے جس کی بنا پر وہ اللہ کے ہاں مدح اور ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اور ایسے کی کسی انسان کا ان لوگوں میں سے ہونا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے؛ اور آپ کا ساتھ اختیار کیا؛ یہ ایسا وصف ہے جس پر مدح اور ثواب کا استحقاق بنتا ہے ۔ اور وہ اس صحبت میں مختلف ہوتے ہیں ۔ جو کوئی اس صحبت میں سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر قائم رہنے والا ہو؛ وہ دوسروں سے افضل ہے۔ جیسے سابقین اولین اپنے علاوہ دوسرے لوگوں سے افضل ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے فتح مکہ سے قبل اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا؛ اور جہاد کیا۔ ان میں اہل بیعت رضوان بھی شامل ہیں ۔ ان کی تعداد چودہ سو سے زیادہ تھی۔ ان میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔جیسا کہ صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے۔ [سبق تخریجہ ]
جہاں تک صرف قرابت داری کا تعلق ہے؛ تو نہ ہی اس پر کوئی ثواب مرتب ہوتا ہے اور نہ ہی عقاب؛ اور نہ ہی کسی ایک کی صرف اس وجہ سے تعریف کی جاسکتی ہے۔اوریہ اس کے بھی منافی نہیں ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ بعض اجناس اور قبائل بعض دوسروں سے افضل ہوتے ہیں ۔اس تفضیل کا وہی معنی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے؛ فرمایا: ’’ لوگ کانوں کی طرح ہوتے ہیں ؛ جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ؛ جو لوگ ان میں سے جاہلیت میں بہترین تھے؛ وہ اسلام میں بھی بہترین ہیں جب وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں ۔‘‘
پس زمین میں ہی سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔ سونے کی کان بہترین ہوتی ہے۔اس لیے کہ اس میں ان دونوں میں سے افضل ترین چیز پائے جانے کا امکا ن ہوتا ہے۔اگر سونے کی کان ختم ہوجائے ؛ اس سے کچھ بھی نہ نکلے؛ تو اس سے چاندی کی کان افضل ہوتی ہے؛ جس سے کچھ نہ کچھ نکل رہا ہوتا ہے ۔
ایسے ہی عربوں کی بھی اجناس ہیں ۔ اور قریش میں ہاشم بھی ہیں ۔ اور قریش میں یہ امید لگائی جاتی ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر خیر و بھلائی پائی جائے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی ہاشم میں سے تھے۔قریش میں کوئی دوسرا آپ کے ہم پلہ نہیں تھا۔چہ جائے کہ پورے عرب یا غیر عرب میں آپ کی کوئی نظیر پائی جاتی۔ اورسابقین اولین عرب میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے ؛ جن کی نظیر باقی تمام لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھی۔
پس یہ ضروری ہے کہ اس صنف میں وہ افضل پایا جائے جس کی نظیر مفضول میں موجود نہ ہو۔ اور کبھی مفضول میں کوئی ایسا پایا جاتا ہے جو فاضل کے بہت سارے لوگوں سے افضل ہو۔ جیسا کہ وہ انبیائے کرام علیہم السلام جو عرب میں سے نہیں تھے؛ وہ ان عرب سے افضل ہیں جو انبیاء نہیں تھے۔ اور مؤمن اور متقی غیر قریش میں سے ؛ ان قریش سے افضل ہیں جو ایمان و تقوی میں ان کے ہم مثل نہیں ہیں ۔ اور ایسے ہی قریش میں سے متقی اور مومن ان بنی ہاشم سے افضل ہیں جو ایمان و تقوی میں ان جیسے نہیں ہیں ۔
اس باب میں معتبر یہی وہ بنیادی اصول ہے جس نے مطلق طور پر نسب کی وجہ سے فضیلت کے معیار کو کالعدم کردیا تھا۔اور یہ گمان بھی کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کے نسب کی وجہ سے ایمان و تقوی میں اس کے ہم مثل پر فضیلت دیتے ہیں ۔ کجا کہ کوئی انسان ایمان و تقوی میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔یہ دونوں قول خطا پر مبنی اور متقابل ہیں ۔ بلکہ نسبت کی وجہ سے فضیلت ایک اچھی چیز ہے؛ اور اس میں سبب کا گمان پایا جاتا ہے۔ اور ایمان و تقوی کی فضیلت جو اس کے حقائق اور مقاصد کو سچ ثابت کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔پہلی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک سبب اور نشانی ہے۔ اس لیے کہ اجمالی طور پر باعتبار عدد یہ ان سے افضل ہیں ۔ اور دوسری فضیلت اس لیے کہ اس کا مقصود حقیقی اور منتہیٰ ہے۔اور جوکوئی اللہ تعالیٰ سے جتنا زیادہ ڈرنے والا ہو؛ وہ اللہ کے ہاں اتنی زیادہ عزت والا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب اس چیز پر ملتا ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ حقیقت ہے جو پائی گئی ہے۔ تو یہاں پر کسی حکم کو محض گمان کے ساتھ معلق نہیں رکھا گیا۔ اور اس لیے کہ اللہ تعالیٰ چیزوں کی حقیقی ماہیت کو جانتے ہیں ۔ پس اسباب اور علامات سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
اسی لیے سابقین اولین سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی آل محمد پر صلاۃ سے افضل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنی رضامندی کی خبر دیدی ہے۔پس یہ رضا حاصل ہوچکی؛ جب کہ صلاۃ ؛ ایک استدعا اورسوال ہے؛ جو کہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپ پر درود پڑھتے ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ﴾ (الاحزاب۵۶)
’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں ۔‘‘
تو آپ کی فضیلت محض آپ کی امت کے آپ پر درود پڑھنے کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے خصوصی طور پر آپ پر درود پڑھتے ہیں ۔اگرچہ عمومی طور پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے عام اہل ایمان پر بھی درود پڑھتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
﴿ ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النور﴾ (الاحزاب ۳۳]
’’وہی ہے جو تم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے، تاکہ وہ تمھیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے۔‘‘
ایسے ہی لوگوں کو خیر و بھلائی کی بات سکھانے والوں پر بھی درود پڑھتے ہیں ؛ جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’ بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے لوگوں کو خیر و بھلائی کی بات سکھانے والوں پر درود پڑھتے ہیں ۔‘‘[سنن الترمذي ۴؍۱۵۴ ؛ کتاب العلم ؛ باب في فضل الفقہ علی العبادۃ ؛ صححہ الألباني۔]
پس جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور لوگوں کو خیر کی تعلیم اور ان امور کی وجہ سے سب سے اکمل تھے جن کی بنا پر درود پڑھا جاتا ہے؛ تو آپ پر درود پڑھنا خبر اور امر ہر اعتبار سے افضل تھا۔ یہ ایسی خصوصیت ہے کہ اس جیسی خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔
پس بنو ہاشم کے بھی کچھ حقوق ہیں ؛ اور ان کے فرائض بھی ہیں ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو ایسا حکم دیتے ہیں جیسا حکم کسی دوسرے کو نہیں دیا؛ تووہ محض اس وجہ سے دوسروں سے افضل نہیں ٹھہرتا۔ بلکہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرے گا تو وہ اس اطاعت گزاری کی وجہ سے دوسروں سے افضل ہوگا۔ جیسا کہ حکمران ؛ اور دیگر وہ لوگ جن کو وہ حکم دیے گئے ہیں جو کسی دوسرے کو نہیں دیے گئے۔ پس ان میں سے جو کوئی اللہ کی اطاعت گزاری کرے گا وہ افضل ہوگا۔ اس لیے کہ اس کی اطاعت اکمل ہے۔اور جو کوئی ان میں سے اطاعت گزاری نہ کرے؛ تو کوئی دوسرا جو ایمان اور تقوی میں بڑھ کر ہو؛ اس سے افضل ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو باقی تمام لوگوں پر فضیلت حاصل تھی۔ اورامہات المؤمنین میں سے جن کو فضیلت حاصل ہے؛ انہیں باقی تمام خواتین پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو وہ احکام دیے تھے جو دوسرے لوگوں کو نہیں دیے گئے تھے۔ پس انہوں نے اعمال صالحہ اس طرح بجا لائے کہ کسی دوسرے میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ تو اس وجہ سے وہ افضل قرار پائے۔ ایسے ہی ازواج مطہرات ؛ جن سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًاo وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًاo﴾ (الاحزاب۳۰۔۳۱)
’’ اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی (عمل میں ) لائے گی اس کے لیے عذاب دوگنا بڑھایا جائے گا اور یہ بات اللہ پر ہمیشہ سے آسان ہے۔اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا اجر دوبار دیں گے اور ہم نے اس کے لیے با عزت رزق تیار کر رکھا ہے۔‘‘
الحمد للہ کہ یہ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم یقیناً اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزار اورنیک اعمال کرنے والی تھیں ۔پس اسی لیے دوہرے اجر کی مستحق ٹھہریں ۔پس احکام الٰہی کی اطاعت کی وجہ سے ان کو یہ افضلیت حاصل ہوئی؛ صرف حکم کی وجہ سے نہیں ۔ اور العیاذ باللہ ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان میں سے کوئی ایک فحاشی کا ارتکاب کرتی تو اسے عذاب بھی دوگنا کرکے دیا جاتا۔
حضرت علی بن حسین رحمہ اللہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ اس حکم کو تمام اہل بیت کے لیے عام قرار دیتے تھے۔ اور یہ کہ ان میں سے کسی ایک کی سزا بھی دوگنی ہی ہوگی۔اور اس کی نیکیاں بھی دوگنی ہوں گی۔ جیسا کہ مسجد الحرام میں جو کچھ کیا جائے اس پر ثواب یا عقاب دوگنا ہوتا ہے۔اور جو کوئی رمضان میں کوئی کام کرے تو وہ بھی دو چند کردیا جاتا ہے۔ اسی پر باقی چیزوں کو قیاس کیا جائے۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو عزت صرف تقوی کی بنیاد پر ملتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہ ہی کسی عربی کو عجمی پر اورنہ کسی عجمی کو عربی پر؛ اور نہ کسی کالے کو سفید پر اور نہ ہی کسی سفید کو کالے پر کوئی فضلیت حاصل ہے؛ مگر تقوی کی بنیاد پر ۔ تمام لوگ حضرت آدم کی اولاد ہیں ۔ اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔‘‘[مسند ۵؍۳۱۱]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے کبر و غرور اور آباء و اجداد پر فخر کرنے کو تم سے دور کردیا ہے۔ انسان دو ہی قسم کے ہوتے ہیں (۱) مومن متقی(۲) فاسق و فاجر۔[دیکھیں سابقہ تخریج]
پس آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑہنا مسلمانوں پر ان کا حق ہے؛ اور یہ نسب ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب ہے۔ اس لیے اس سے واجب یہ ہوتا ہے کہ بنی ہاشم میں ہر ایک پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اتباع میں درود بھیجنا لازم ہے؛وہ اس سے افضل ہو جس پر درود نہیں پڑھا جاتا۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ﴾
(التوبۃ ۱۰۳)
’’ ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے۔‘‘
اور صحیحین کی حدیث میں ابن ابی اوفی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب لوگ صدقات لیکر آتے تو آپ ان پر درود پڑھتے۔ اور میرے والد صاحب بھی آب کی خدمت میں صدقات لیکر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ((اللہم صل علی آل أبی أوفی)) ....’’اے اللہ آل ابی اوفی پر رحمتیں نازل فرما ۔‘‘
اس حدیث میں ان لوگوں کی فضیلت کا اثبات ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صدقات لیکر آتے تھے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر درود پڑھا کرتے تھے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو کوئی بھی آپ کی خدمت میں اپنے فقر کی وجہ سے صدقات لیکر حاضر نہیں ہوا؛ وہ اس سے کم مرتبہ کا ہو جو صدقہ لیکر آیا؛ اور آپ نے اس پلا صلاۃ ؍ درود پڑھا۔ بلکہ کبھی وہ ان فقراء مہاجرین میں سے بھی ہوسکتا ہے جن کے پاس صدقہ لانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا؛ مگروہ ان لوگوں سے افضل ہو جو صدقہ لیکر آئے ؛ اوران پر درود بھی پڑھا گیا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ صدقہ کا مال لینے والا ان لوگوں سے افضل ہو جو صدقہ دینے والے ہیں ۔ اور کبھی صدقہ دینے والا اس کے وصول کرنے والے بعض لوگوں سے افضل ہوسکتا ہے؛ کیونکہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
پس کسی نوع کی فضیلت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ انسان مطلق طور پر افضل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اغنیاء میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو جمہور فقراء سے افضل تھے۔ اور فقراء میں ایسے لوگ موجود تھے جو جمہور اغنیاء سے افضل تھے۔ پس حضرت ابراہیم ؛ داؤد ؛ اور سلیمان اور یوسف علیہم السلام اور ان کے امثال اکثر فقراء سے افضل ہیں اور حضرت یحی اور حضرت عیسیٰ رحمہم اللہ اغنیاء سے بہت زیادہ افضل تھے۔
عمومی طور پر اعتبار تقوی کا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ﴾[الحجرات۱۳]
’’ بیشک اللہ کے ہاں تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے ؛ جوتم میں سے بڑا متقی ہو۔‘‘
پر ہر وہ انسان جو زیادہ متقی ہو؛ وہ مطلق طور پر افضل ہوگا۔ اور جب دو انسان تقوی میں برابرہوں تو وہ فضیلت میں بھی برابر ہوں گے۔ بھلے وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک غنی ہو یا فقیر۔ یا ایک غنی ہو اور دوسرا فقیر۔ یا ایک عربی ہو اور ایک عجمی ؛ اور یا دونوں عربی یا دونوں عجمی ہوں ؛ یا دونوں قریشی ہوں ؛ یا دونوں ہاشمی ہوں ؛ یا یہ کہ ایک کسی ایک صنف سے تعلق رکھتا ہو؛ اور دوسرا دوسری صنف سے۔اگریہ مان لیا جائے کہ ان میں سے کسی ایک میں فضیلت کا وہ سبب پایا جاتا ہے جس کا دوسرے میں گمان نہیں کیا جاسکتا۔ جب واقعی ایسے ہی ہو؛ تواس میں حقیقی فضیلت پائی جاتی ہے جو کہ دوسرے میں نہیں پائی جاتی۔بھلے وہ اس کے حاصل کرنے پر قادر بھی ہو۔ پس عالم جاہل سے بہتر ہوتا ہے؛ اگرچہ جاہل بھی علم حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے[مگر اس نے علم حاصل تو نہیں کیا]۔ اور نیکوکار فاجر سے افضل ہوتا ہے۔ اگرچہ فاجر انسان بھی نیکی کے کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اور کمزور مؤمن طاقت ور کافر سے بہتر ہوتا ہے؛بھلے وہ بھی ایمان لانے پر کمزور مؤمن سے بڑھ کر قدرت رکھتا ہو۔ اس تفصیل سے وہ شبہ ختم ہو جاتا ہے جو اکثر طور پر اس جیسے امور میں پیش آتا ہے۔