Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اسلامی ممالک کے خلاف ایران کا تیار کردہ پچاس سالہ منصوبہ

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

اسلامی ممالک کے خلاف

 ایران کا تیار کردہ پچاس سالہ منصوبہ

وطنِ عزیز پاکستان اس وقت جب نازک دور سے گزر رہا ہے اور ایک ایٹمی طاقت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے باوجود بدامنی لوٹ مار خونریزی ہنگامہ فسادات کے ساتھ معاشی ابتری اقتصادی بدحالی بے روزگاری اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ عوام سے حکمرانوں تک ہر شخص عدمِ تحفظ کے احساس میں مبتلا ہو کر دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے اور اپنے مال و دولت کو بیرون ممالک میں محفوظ کرنے کا خیال پاکستانی عوام کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے سیاسی ابتری کرپشن انتقام ریاستی جبر جعلی پولیس مقابلوں کی آڑ میں ماورائے عدالتِ قتل سرکاری انتظامیہ و پولیس کے ہاتھوں شرفاء اور بے گناہوں کی عزت و حرمت کا استحصال نا اہلوں کا اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا اور عمر بھر محنت کر کے ڈگریاں حاصل کرنے والوں کا در در کی ٹھوکریں کھا کر مایوسی و قنوطیت کے گڑھوں میں گرتے چلے جانا کوئی حادثاتی بات نہیں ہے کسی معاشرہ پر صرف دس پندرہ سال کے عرصہ میں اتنی مہلک بیماریوں اور تباہ کن وائرس کا نزول یقیناً کسی بڑی سازش اور نادیدہ ہاتھ کی کارستانی کا نتیجہ ہے ورنہ 1947ء سے 1980ء تک اس نومولود مملکت میں جن انتہائی نامساعد و ناموافق حالات میں نہ صرف اپنے وجود کو توانائی سے بہرہ ور کیا بلکہ بھارت کی طرف سے مسلط کردہ تین جنگوں کے زخموں کو بھی برداشت کرلیا آخر وہ دیکھتے ہی دیکھتے اب بغیر کسی جنگی و ہنگامی حالت سے دوچار ہوئے کیونکر اس بھیانک صورتحال کا شکار ہوگئی ہے اور اس کا وجود اندر ہی اندر سے کرم خوردہ لکڑی کی مانند کیوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے سوچنے کی بات یہ ہے 1980ء سے 1990ء تک کے دس سالوں میں آخر وہ کون سے حالات پیش آئے ہیں کہ جنہوں نے ایک طرف قومیت صوبائیت اور لسانیت کی بنیاد پر نظریہ پاکستان کو بیان کرنے والے عناصر کو جنم دیا اور دوسری طرف مذہب و مسلک کی بنیاد پر ملک میں قتل و غارت گری کا راستہ ہموار کر کے دینی و مذہبی جماعتوں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا اور پھر اس ملک کی اکثریتی سُنی آبادی سے تعلق رکھنے والے علماء کرام اور نوجوانوں سے جیلیں بھرنے پر حکمرانوں کو آمادہ کیا اور مخصوص اقلیتی مذہب کے دہشت گرد و تخریب کاروں کو قانون و انصاف سے بالاتر قرار دے کر حکمرانوں کی آغوش میں بٹھا دیا۔

ایک طرف مسلسل سُنی قیادت گولیوں اور بم دھماکوں کا شکار ہوتی چلی گئی تو دوسری طرف اس قیادت کے کارکنوں کو سرکاری دہشت گردی اور ریاستی جبر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ کراچی جیسے منی پاکستان کی روشنی کو گل کر کے ایک آسیب زدہ شہر میں تبدیل کر کے جیتے جاگتے انسانوں کی قتل گاہ بنا کر ایک طرف لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے فیکٹریوں، ملوں، کارخانوں کو بند کرا کے بندر گاہوں کو ویران بنا کر ملک کی معاشی حالت کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے تو دوسری طرف تیزی کے ساتھ غیر ملکی قوتیں کراچی میں زمینیں خریدنے میں مصروف ہیں اور پڑوسی ممالک کے لوگ فوج در فوج اس میں داخل ہو رہے ہیں تیسری طرف پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کر کے تنہا کرنے اور وسطی ایشیائی ریاستوں سے رابطہ کی کوششوں سبوتاژ کرنے (افغانستان میں پاکستان کی حامی طالبان حکومت) کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانے ہندوستان کے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر پاکستان کو کمزور کرنے اور اس کے گرد شکنجہ کسنے کا جو سلسلہ جاری ہے آخر اس سازش کے تانے بانے کون بن رہا ہے۔

قارئین محترم! درج بالا سطور میں جس سازش اور ناپاک منصوبہ کی طرف اشارہ کیا ہے اسے لفظ بلفظ صحیح ثابت کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں ایک ایسی دستاویز پیش کی جارہی ہے جسے معاصر مجلّہ "البیان" نے مارچ 1998ء کی اشاعت میں اور ہندوستان کے معروف ماہنامہ الفرقان لکھنؤ نے اکتوبر 1998ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے یہ دستاویز رابطہ اہلِ سنت ایران نے اپنے لندن کے دفتر سے نشر کی ہے یہ دستاویز کیا ہے؟ ایران کی موجودہ سپریم انقلابی کونسل جو ایران میں (اعلیٰ دستوری اختیار کی حامل ہے) کی تین فکری نشستوں کا نچوڑ ہے جسے مرتب کر کے ایران کے صوبائی گورنروں اور اسلامی ممالک میں موجود ایران کے سفارت خانوں کو خفیہ طور پر پہنچایا گیا ہے اس دستاویز کا مطالعہ ہی ہر صاحبِ انصاف کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہوگا اگر اس دستاویز کے مطالعہ کی روشنی میں آپ بحرین امارات عرب افغانستان پاکستان ترکی اور عراق میں پیدا ہونے والے پندرہ سال کے حالات کا جائزہ لیں گے تو اس کی سچائی کے درجنوں شواہد آپ کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گے۔

رابطہ اہلِ سنت ایران (دفتر لندن) نے دستاویز نشر کی ہے جس کو معاصر مجلّہ "البیان" نے اپنی مارچ 1998ء کی اشاعت میں شائع کیا ہے جس کا ترجمہ مجلّہ مذکور کے شکریہ کے شائع کیا جا رہا ہے ہم نے کچھ توضیحی نوٹس بھی بڑھا دیے ہیں اور معمولی سا اختصار بھی کیا ہے ملاحظہ ہو۔

اگر ہم اپنے انقلاب کا دائرہ پڑوسی ممالک تک وسیع نہیں کر سکے (یہاں پر اصل میں جو معنیٰ خیز تعبیر ہے اس کے لفظی معنیٰ انقلاب ایکسپورٹ کرنے کے ہیں جس کا ہم نے انقلاب کی توسیع ترجمہ کیا ہے آگے بھی جہاں یہ تعبیر آئی ہے ہم اس کا یہی ترجمہ کیا ہے) تو یقینی طور پر ان ملکوں کی مغرب زدہ تہذیب و ثقافت ہم پر حملہ آور ہوگی اور غالب ہوکر رہے گی۔

اب جبکہ امام علیہ السلام کی جانباز امت کی زبردست قربانیوں کے سبب ایران میں صدیوں بعد اثناء عشریوں کی حکومت قائم ہوچکی ہے ہم پر قابلِ احترام شیعہ قائدین کی ہدایات کے بموجب انقلاب کی توسیع کی انتہائی اہم نازک اور بھاری ذمہ داری ہے۔

ہمیں یہ حقیقت ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ ہماری حکومت کی اولین ذمہ داری (ملک کی آزادی و حریت اور عوامی حقوق کے سلسلہ کی دیگر ذمہ داریوں کے علاوہ) انقلاب کے دائرہ کی توسیع ہے اس لئے کہ یہ ایک خاص مسلک کی حکومت ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ہم انقلاب کی توسیع کو اپنی ترجیحات میں اولین پوزیشن دیں۔

لیکن موجودہ عالمی حالات اور رائج و معروف نام نہاد عالمی قوانین کے پیش نظر ہمارے لئے انقلاب کی توسیع ممکن نہیں ہے بلکہ (اگر ایسی کوشش کی گئی تو) اس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے (لیکن ان بھیانک نتائج کے اندیشہ کے پیشِ نظر ایرانی حکومت کے اس بنیادی مقصد اور اولین ذمہ داری سے دستبردار ہونے کو نہیں سوچتی بلکہ زیادہ سے زیادہ صرف طریقہ کار (Lion of Action) ہی تبدیل کرتی ہے آگے ملاحظہ فرمائیں۔

لہٰذا کونسل نے تین نشستوں کے غور فکر کے بعد اور شریک ممبروں اور ذیلی کمپنیوں کے تقریباً اتفاق رائے سے ایک 50 نکاتی پروٹوکول (لائحہ عمل) ترتیب دیا ہے جو 5 مراحل پر منقسم ہے ہر مرحلہ کی مدت 10 دس سال ہوگی۔

ہمارا مقصد انقلاب کے دائرہ کی توسیع اور ایک ہی قسم کے اسلام کی ترویج و اشاعت ہے (مراد واضح ہے یعنی پڑوسی علاقوں اور آبادیوں میں شیعہ مذہب کی اشاعت و ترویج اس حد تک کہ صرف وہی باقی رہے اور دیگر کچھ نہیں) اس لئے کہ ہمارے لئے مشرق و مغرب کے ہر خطرے سے کہیں بڑا خطرہ وہابی یا سُنی حکومتیں ہیں اس لئے کہ یہ (وہابی و اہلِ سنت) ہمارے مشن کی مخالفت کرتے ہیں اور یہی اصل دشمن ہیں ائمہ (اہلِ بیتؓ) اور (ان کے نائبین) فقہاء کی حکومت کے اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایران کے اندر سُنی آبادیوں خصوصاً سرحدی علاقوں میں اپنا نفوذ بڑھائیں اپنی مسجدوں کی ماتم گاہوں کی تعداد میں اضافہ کریں اور زیادہ سے زیادہ مؤثر و فعال طور پر مذہبی تقریروں اور مجالس کا انعقاد کریں جن علاقوں میں 90 تا 100 فیصد سُنی آبادی ہے وہاں (اس تبدیلی کے لئے) فضاء سازی کے لئے اندرون ایران سے شیعہ آبادی کو لے جا کر بسایا جائے وہ وہاں مستقل طور پر آباد ہوں اپنی تجارت کریں اور کاروباری زندگی میں مشغول ہوں حکومتی اداروں پر ان کے تئیں یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ براہِ راست ان کی حفاظت اور ان کے مفادات کی نگرانی کریں نیز بیورو کریسی انتظامیہ تعلیمی ادارے اور سماجی مراکز کو مقامی سُنی آبادی سے بتدریج پاک کیا جائے اور ان شعبوں کو شیعوں کے حوالے کیا جائے۔

ہم نے جو (تفصیلی) پروٹوکول اور لائحہ عمل (انقلاب کی توسیع) کے لئے مرتب کیا ہے وہ بغیر کسی شور و شغب یا خونریزی کے کامیاب اور مفید مقصد ہوگا یہاں تک کہ بڑی عالمی طاقتوں کی طرف سے بھی اس پر کسی رد عمل کا اندیشہ نہیں ہے نیز اس لائحہ عمل کی تنفیذ پر جو مالی وسائل خرچ ہوں گے یقیناً ان سے بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔

 پڑوسی ریاستوں کو داخلی طور پر کیسے کمزور کیا جائے

کسی ریاست اور قوم کی طاقت تین عناصر سے ملکر تشکیل پاتی ہے۔ 

  1.  حکومت کا استحکام اور اس کی طاقت۔ 
  2.  علماء اور سکالرز کا علمی و تحقیقی معیار۔
  3. اقتصاد و معیشت جس کی باگیں سرمایہ دار طبقہ کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔

اگر ہم ان حکومتوں کے وجود کو گھلانا چاہتے ہیں تو اس کا یہی طریقہ ہے کہ ہم حکومت اور علماء و اہلِ دانش طبقہ میں اختلاف ڈال دیں اور سرمایہ دار طبقہ کے درمیان انتشار پیدا کر کے ان کو یا تو اپنے ملک آنے کی پیشکش کریں یا پھر ان کو آمادہ کریں کہ وہ اس علاقہ سے اپنا سرمایہ لے کر کہیں اور منتقل ہوجائیں۔

اگر ہم ایسا کر سکے تو ہم نے ان حکومتوں کی مذکورہ تینوں بنیادیں کھوکھلی کردیں اور یقیناً ایک بڑا ہدف پالیا۔

باقی مانده 70۔80 فیصد عوام کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ طاقت کے غلام ہوتے ہیں اور ان کو قابو میں کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا اس لئے کہ ان بیچاروں کو اپنی روٹی کپڑے اور مکان کے مسائل سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کچھ سمجھ سکیں ہاں چھت پر جانے کے لئے پہلا قدم جو ہوتا ہے وہ ایک سیڑھی کے بقدر ہی ہوتا ہے (لہٰذا تدریجی طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے جو قدم اٹھائے جائیں ان کو چھوٹا نہ سمجھا جائے)۔

ہمارے وہابی یا سُنی پڑوسی ممالک ترکی عراق افغانستان پاکستان اور جنوبی سرحدوں کے پاس خلیج فارس کے سرے پر واقع کچھ عرب اسٹیٹس اگرچہ باہم متحد نظر آتے ہیں لیکن در حقیقت ان میں باہم اختلافات ہیں اور خاص طور پر یہ علاقہ (خلیج) ماضی و حال دونوں میں بڑی اہمیت رکھتا ہے پٹرول نے اس کو دنیا کا قلب بنا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے نازک اور حساس علاقہ ہے پٹرولیم کی تجارت نے اس علاقے کے حکمرانوں کو بہترین اسباب عیش بھی فراہم کردیے ہیں۔

ان ممالک کے عوام تین قسم کے ہیں۔ 

  1. صحرائی بدو جو سینکڑوں سال سے یہاں آباد ہیں۔
  2. وہ لوگ جو ان جزیروں اور ساحلی بندرگاہوں سے وہاں جا کر آباد ہوگئے ہیں جو آج ہماری قلمرو میں داخل ہیں ان لوگوں کی ہجرت کا سلسلہ اسماعیل شاہ صفوی کے زمانہ سے شروع ہوتا ہے اور مختلف زمانوں سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ اسلامی انقلاب کے ابتدائی زمانہ تک جاری رہا۔ 
  3. تیسرا طبقہ وہ ہے جو مختلف عرب علاقوں اور ایران کے داخلی علاقوں سے وہاں گیا ہے تعمیراتی ادارے ان لوگوں کی ملکیت ہیں جو یہاں کے اصل باشندے نہیں ہیں اصل باشندوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ عمارتوں کے کرائے یا بڑی تجارتیں ایکسپورٹ امپورٹ کمپنیاں اور بڑی جائیداد کی خرید و فروخت ہے حکام کے اقرباء اور بارسوخ طبقہ سروس پیش ہے اور ان لمبی چوڑی تنخواہوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جن کا اصل ذریعہ تیل ہے

ان ملکوں کا تہذیبی و سماجی بگاڑ بالکل عیاں ہے مخالف اسلام اعمال علی الاعلان کئے جاتے ہیں ان ملکوں کے اکثر باشندے دنیوی لذتوں میں ڈوبے ہوئے اور فسق فجور میں غرق ہیں۔

 ان ملکوں پر ہمارے قبضہ کا مطلب آدہی دنیا پر قبضہ ہے

اس 50 نکاتی منصوبہ پر عمل درآمد کرانے کے لئے ضروری ہے کہ پڑوسی کے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوں اور طرفین میں احترام دوستی اور اعتماد کی فضاء قائم ثقافتی سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی استواری کے بعد یقیناً ایرانیوں کی ایک تعداد ضرور ان ملکوں کو ہجرت کرے گی اور ہمارے لئے ممکن ہوگا کہ ان کے بیچ کچھ اپنے ایجنٹ بھی بھیج دیں جو بظاہر مہاجر ہوں گے اور اندر سے وہاں کے نظام و حکومت میں ہمارے کارندے ان کو بھیجتے وقت یا ان کی خدمات حاصل کرتے وقت ان کے معاوضے بھی معین کئے جائیں گے۔

آپ حضرات پچاس سال کی مدت کو طویل اور اکتا دینے والا خیال نہ کریں ہمارے انقلاب کی کامیابی کے پیچھے 20 سال کی منصوبہ بند محنت تھی ہم اور ہمارے مذہب کو بہت سے ان ممالک میں جو رسوخ اور نفوذ حاصل ہے یہ ایک یا دو دن میں حاصل نہیں ہوگیا ماضی میں کسی حکومت میں ہمارے ملازمین تک نہیں تھے چہ جائیکہ وزیر گورنر یا سیکرٹری وہابی شافعی حنفی مالکی حنبلی فرقے ہم کو مرتد اور خارج اسلام قرار دیتے آئے ہیں یہ سچ ہے کہ (اس مظلومی کے زمانے میں) ہم نہیں تھے مگر ہمارے آباؤ اجداد تھے اور آج ہماری زندگی ان کے افکار معتقدات اور مساعی کا ہی ثمرہ ہے ہو سکتا ہے کہ اس پروٹوکول کے پورے ہونے تک ہم نہ بھی رہیں لیکن ہمارا انقلاب اور ہمارا مذہب باقی رہے گا۔

اسی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لئے جان و مال کی قربانی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ اور منصوبہ بند پروگرام کے تحت ہو پروٹوکولس (منصوبے) بنائے ہوں گے چاہے وہ کتنے ہی طویل المیعاد ہوں چاہے 50 سال کے بجائے 500 سالہ ہی کیوں نہ ہوں ہم کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم لاکھوں شہداء کے وارث ہیں جو رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد سے آج تک ان شیطانوی بربریت کا نشانہ بنتے رہے جو اپنے اوپر اسلام کا لیبل لگائے رہتے ہیں ہماری تاریخ کے دل کے یہ زخم اس وقت تک مندمل نہ ہوں گے جب تک اپنے آپ کو مسلمان کہنے والا ہر شخص سیدنا علیؓ و اہلِ بیتؓ رسولﷺ پر عقیدت نہ رکھنے لگے اور اپنی آباؤ اجداد کی غلطیوں کا اعتراف نہ کرلے اور شیعت کو اسلام کا حقیقی اور سچا وارث نہ جان لے۔

 پروگرام کے پانچ مراحل

افغانستان پاکستان ترکی عراق اور بحرین میں اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی اسلیئے ہم یہاں دوسرے دس سالہ مرحلہ سے ہی ابتدا کرسکتے ہیں۔

(1) باقی ممالک میں ہمارے مہاجرین پر تین باتوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

  • (جائیداد عمارتیں اور گھر خریدیں اپنے ہم مذہبوں کیلئے روزگار اور رہائش کی فراہمی کریں تاکہ وہ وہاں رہیں اور عددی طاقت میں اضافہ کا سبب بنیں۔
  • معاشرے کے بارسوخ اور سر آوردہ افراد مثلاً سرمایہ دار بیور کریٹس شہرت یافتہ اشخاص اور سیاسی حلقوں میں اثر رکھنے والے افراد سے گہرے تعلقات قائم کریں۔
  • ان ممالک میں سے بعض ابھی ترقی و آباد کاری کے مراحل سے گزر رہے ہیں نئے نئے شہر بس رہے ہیں ہمارے مہاجروں (ایجنٹوں) کو چاہیئے کہ وہ یہاں جائیدادیں خریدیں مکانات بنائیں اور پھر انکو بہت مناسب اور کم قیمت پر ان لوگوں کو بیچیں جو ان ملکوں کے اہم مرکزی شہروں اور مقامات میں رہتے ہیں اس طرح ان ملکوں کے اہم مرکزی مقامات انکے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

(2) اپنے لوگوں (شیعوں) کو اسکی ترغیب دینی چاہیئے کہ وہ قانون انتظامیہ اور حکومت کی اطاعت کریں اور مذہبی تقریروں ماتم گاہوں اور مساجد کیلئے باقاعدہ لائسنس لیں اپنے آزاد کاموں کی بنا ڈالنے کیلئے مناسب ہے کہ گھنی آبادی والے علاقوں کا انتخاب کیا جائے تا کہ ہمارے کام حساس جگہوں پر ہونے کی وجہ سے بحث و مناقشہ کا موضوع بن سکیں ان دونوں مرحلوں میں ہمارے لوگوں کو ان ممالک کی شہریت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اس مقصد کیلئے دوستوں اور اہلِ تعلق کے تعاون کے علاوہ قیمتی ہدیوں کی پیش کش سے کام لینا چاہیئے نیز اپنے نوجوانوں کو حکومتی ملازمتوں اور فوجی خدمات کیلئے آمادہ کیا جانا چاہیئے۔

اس دس سالہ مرحلہ کے دوسرے پانچ سال میں ان ملکوں میں پھیلے ہوئے سماجی بگاڑ اور مخالف اسلام اعمال کے خلاف دوسرے ملکوں کی مذہبی شخصیتوں و اداروں کے نام سے مذمتی تحریریں و بیانات تقسیم کیے جائیں اور اسکے ذریعہ سُنی و وہابی علماء کو اپنی حکومتوں کے خلاف برانگیختہ کیا جائے لیکن یہ سب کچھ براہِ راست نہ ہو بلکہ خفیہ طور پر اور پس پردہ رہ کر کیا جائے اس سے ان ملکوں کے عوام کی بڑی تعداد اپنی حکومتوں کے خلاف بھڑک اٹھے گی آخر کار یا تو حکومتیں ان مذہبی قیادتوں کو گرفتار کریں گی یا یہ حضرات اپنے نام سے نشر ہونے والے مذہبی بیانات کی تردید کریں گے (دونوں ہی صورتوں میں جو غیر یقینی اور انتشار کی فضاء قائم ہوگی وہ شیعہ کاز اور اس منصوبہ کو تقویت پہنچائے گی) اور اہلِ دین طبقہ ان مذہبی تحریروں کا زبردست دفاع اور پر جوش حمایت کرے گا اس وقت کچھ شبہ میں ڈالنے والے حادثات ہونگے (بظاہر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی ایجنٹ کچھ مشتبہ وارداتیں کریں گے) جس کے نتیجہ میں بہت سے ذمہ دار معطل کیئے جائیں گے یا ان کا ٹرانسفر ہوگا۔

اس صورتِ حال کا یہ نتیجہ برآمد ہو گا کہ حکام اپنے ملکوں کے سارے ہی دین دار طبقہ سے بدظن ہوجائیں گے اور پھر کسی بھی دینی سرگرمی دعوتی کام مساجد کی تعمیر اور دینی مراکز کی تعمیر وغیرہ کی سرپرستی نہیں کریں گے بلکہ ہر دینی تقریر و جلسہ اور تقریب کو اپنی حکومت کے خلاف بالواسطہ یا بلا واسطہ ایک سازش سمجھیں گے حکومتوں اور علماء کے درمیان نفرت و عداوت کی خلیج بڑھتی جائے گی اور خود اہلِ سنت اور وہابیوں کو اپنے ہی مرکزوں کی حمایت و تائید حاصل نہیں رہے گی اور نہ ہی باہر سے کوئی ان کی حفاظت کیلئے آئے گا۔

(3) اس مرحلہ میں سرمایہ داروں اور بڑے افسران سے ہمارے ایجنٹوں کے گہرے دوستانہ مراسم قائم ہو چکے ہونگے خود انکی ایک تعداد فوج میں اور انتظامیہ میں پوری سنجیدگی اور مستقل مزاجی کے ساتھ بغیر کسی دینی سرگرمی میں حصہ لئے کام کر رہی ہوگی نتیجہ حکمران ان سے پہلے سے زیادہ مطمئن ہوں گے اور دوسری جانب حکام میں اور دین دار طبقہ میں اختلافات و دوریاں اور نفرتیں پیدا ہو چکی ہوں گی لہٰذا ان ملکوں کے ہمارے علماء ان حکومتوں کے ساتھ اپنی وفاداری اور مکمل تائید کا خاص طور پر مذہبی تقریبات میں ضرور اظہار کریں اور شیعت کو ایسے انداز کے طور پر پیش کریں کہ جس سے انکو اور انکی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا اور اگر ان کیلئے ممکن ہو کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اپنی وفاداری کا اظہار کرسکیں تو اس سے بھی کوئی دریغ نہ کریں۔ تاکہ انکو حکمران طبقہ کی توجیہات حاصل ہوسکیں انکو حکومتی مناصب دیتے وقت کوئی خطرہ محسوس نہ کریں۔

اسی مرحلہ میں ہماری بندرگاہوں اور جزیروں کی صورتِ حال میں کچھ تبدیلی آئے گی ساتھ ہی وہاں کے مرکزی بینکوں میں ہماری سرمایہ کاری ہوگی جس کے ذریعے ہم ان پڑوسی ممالک کے اقتصاد و معیشت کو چوٹ پہنچانے کیلئے منصوبہ بندی کریں گے جب ہم دوسروں (کیلئے اپنی منڈی کو کھول کر ان) کو اپنے ملک کی تجارتی سرگرمیوں اور بینک کے نظام میں حصہ لینے کی آزادی دیں گے تو یقیناً ہمارے تاجروں کا ان ملکوں میں بھی استقبال کیا جائے گا اور انکو کاروباری مراعات دی جائیں گی۔

(4) اس مرحلہ کے آتے آتے ان ممالک کے حالات ہمارے کام کیلئے بالکل تیار ہوں گے علماء اور حکام کے درمیان نفرتیں اور دشمنیاں ہوں گی تجارت و معیشت دیوالیہ ہوا چاہتی ہوگی عوام شدید انارکی و بے چینی کے عالم میں اونے ہونے اپنی جائیدادیں بیچ کر کسی پُر امن اور مستحکم جگہ منتقل ہونا چاہیں گے اسی ہنگامے میں ہمارے مہاجرین و علماء ہی حکومت کے حامی و مددگار ہونگے اور اگر ہمارے ایجنٹوں نے ہوشیاری و بیداری سے کام لیا تو ان کیلئے اعلیٰ ترین شہری و فوجی عہدوں تک پہنچنا کچھ مشکل نہ ہوگا اسی طرح انکے اور اعلیٰ اقتدار اداروں اور حکام کے درمیان کی دوری اور گھٹ کر رہ جائے گی ان اعلیٰ پوسٹوں پر پہنچنے کے بعد ہمارے لیئے یہ بھی ممکن ہوجائے گا کہ حکام کو یہ باور کرایا جائے کہ ان کے خاص معتمدین حقیقت غدار ہیں جس کے نتیجہ میں ان کے بدلے ہمارے عناصر کو رکھا جائے گا اور اس کے ہمارے لئے دو مثبت نتائج بر آمد ہوں گے۔

  1. حکومتی اداروں اور اقتدارِ اعلیٰ کے مراکز میں شیعوں کے بڑھتے اثر سے اہلِ سنت کی ناراضگی و برانگیختی میں مزید اضافہ ہوگا اور ان کی حکومت مخالف سرگرمیوں میں بھی زیادتی ہوگی اس صورت میں پھر ہمارے عناصر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ حکام کا ساتھ دیں اور عوام سے صلح پسندی اور پُرامن رہنے کی اپیل کریں۔
  2.  اسی دوران جو لوگ ملک چھوڑ چھوڑ کر بھاگیں ان کی جائیدادیں خریدنے کی کوشش کی جائے۔

(5) پانچویں اور آخری دس سال میں ماحول مکمل انقلاب کے لئے تیار ہوچکا ہوگا اس لئے کہ حکمران طبقہ خوف و ہراس کے عالم میں طوفان میں پھنسی کشتی کی طرح ہر مفید و مضر تجویز کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوگا۔

اس مرحلہ میں ہم مشہور و قابلِ اعتماد شخصیتوں کے ذریعہ حالات معمول پر لانے کے لئے ایک عوامی نمائندہ کمیٹی کی تشکیل کی تجویز رکھوائیں اور اداروں کی نگرانی اور ملک کے انتظام میں حکمرانوں کی مدد کریں یقینی بات ہے کہ وہ اس تجویز کو قبول کرلیں گے اور ہمارے نامزد افراد اس کمیٹی کی اکثر سیٹوں پر آئیں گے اس کے نتیجہ میں بھی تاجر علماء حتٰی کہ حکومت کے مخلصین تک فرار اختیار کرنے لگیں گے اور اس طرح بغیر کسی خونریزی یا جنگ کے ہمارے لئے انقلاب کے دائرہ کی توسیع، ممکن ہوگی۔ اگر بالفرض ہمارا یہ منصوبہ اپنے آخری مرحلہ میں کامیاب نہیں ہوتا تو ہم ایسا کر سکیں گے کہ عوامی انقلاب کے ذریعہ حاکموں سے اقتدار چھین لیں اگرچہ اس صورت میں ہمارے شیعہ عناصر اس ملک کے مالک اور اس کے شہری ہوں گے لیکن ہم اپنے مذہب دین اور اللہ کے سامنے کی مسئولیت سے بری ہو سکیں گے۔

ہمارا مقصد کسی معین شخص کو کرسی اقتدار تک پہنچانا نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد صرف اور صرف شیعہ انقلاب کو دوسرے ملکوں میں نافذ کرنا ہے۔