قرآنی آیات سے مدح صحابہؓ
امام ابنِ تیمیہؒقرآنی آیات سے مدح صحابہ
[ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ آیت قرآنی میں کفار کی دوستی سے منع کر کے مومنین سے دوستانہ مراسم استوار کرنے کا حکم دیا گیا ہے]۔ بخلاف ازیں روافض اہل ایمان سے بغض و عداوت رکھتے اور مشرکین تا تار سے دوستی لگاتے ہیں ، جیسا کہ ہمارا مشاہدہ ہے، اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ (الانفال: ۶۴)
’’اے نبی! آپ کے لیے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو آپ کی پیروی کر رہے ہیں ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ آپ کے لیے بھی کافی ہے اور آپ کے پیروکار مؤمنین کے لیے بھی۔ اور ان پیروکاروں میں صف اول کے اور سب سے افضل لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِذَا جَآئَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ oوَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًاoفَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا ﴾ [نصر]
’’جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچے۔اور آپ لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں ۔ تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے بخشش مانگئے، یقیناً وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
جن لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہورہے ہیں ‘وہ آپ کے زمانہ کے لوگ تھے۔ [جن کے بارے میں ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ہُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَOوَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ﴾
’’وہی ہے جس نے تجھے اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت فرمائی تھی۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ 0لَہُمْ مَا یَشَاؤُ وْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذٰلِکَ جَزَآئُ الْمُحْسِنِیْنَ oلِیُکَفِّرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ عَمِلُوْا وَیَجْزِیَہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾[الزمر۳۳۔۳۵]
’’اور جو شخص سچی بات لایا اور جس نے اس کی تصدیق کی۔ یہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں موجود ہے۔ نیکی کرنے والوں کا یہی بدلہ ہے۔ تاکہ اللہ ان سے وہ برائیاں دور کردے جو انہوں نے کی تھیں اور جو اچھے کام وہ کرتے رہے انہی کے لحاظ سے انہیں ان کا اجر عطا کرے۔‘‘
یہی وہ لوگ ہیں جو سچی بات کہتے اور سچائی کی تصدیق کرتے ہیں ۔ بخلاف رافضی مصنف کے ؛ جوکہ جھوٹ بولتا ہے ‘ اور جب اس کے پاس حق بات آتی ہے ؛ تو اسے جھٹلاتا ہے ۔اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہی سچے لوگ تھے جو لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی دیتے تھے؛ اور ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن کتاب برحق ہے۔اورانبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سچائی پیش کرنے والوں اور سچائی کی تصدیق کرنے والوں میں سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ اہل قبلہ میں سے شیعہ سے بڑھ کر کوئی بھی فرقہ ایسا نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اس قدر جھوٹ بولنے والا اور حق بات کو جھٹلانے والا ہو۔ اس لیے اس فرقہ سے بڑھ کر کسی بھی فرقہ میں غلو نہیں پایا جاتا۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جو بشر کے الہ ہونے کے دعویدار ہیں ۔ اور بعض شیعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نبی تسلیم کرتے ہیں ۔ بعض اپنے ائمہ کے معصوم ہونے کے دعویدار ہیں ۔یہ باقی تمام فرقوں سے بڑھ کر جھوٹ کی آخری حدہے۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ اہل قبلہ کی طرف منسوب فرقوں میں سب سے زیادہ جھوٹ اسی فرقہ میں پایا جاتا ہے ۔
٭ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قُلِ الْحَمْدُ ِللّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہٖ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ﴾ [النمل ۵۹]
’’فرما دیجیے: سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔‘‘
سلف کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس امت میں سے اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگوں میں سب سے افضل ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ وَ مِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ وَ مِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ٭جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا وَ لِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ٭وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُنِ٭الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ لَا یَمَسُّنَا فِیْہَا نَصَبٌ وَّ لَا یَمَسُّنَا فِیْہَا لُغُوْبٌ﴾[فاطر۳۲۔۳۵]
’’پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث بنایا جنہیں ہم نے (اس وراثت کیلئے)اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ پھر ان میں سے کوئی تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے۔ کوئی میانہ رو ہے اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والاہے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔وہ ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا اور وہاں ان کا لباس ریشم کا ہوگا۔اور وہ کہیں گے اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ یقیناً ہمارا پروردگار بخشنے والا، قدردان ہے۔جس نے اپنے فضل سے ہمیں ابدی قیام گاہ میں اتارا جہاں ہمیں مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور نہ تھکان لاحق ہوتی ہے۔‘‘
امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہی لوگ ہیں جو یہود و نصاری کے بعد کتاب اللہ کے وارث بنے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبردی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے۔ تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا :
’’ بہترین زمانہ وہ ہے جس میں میں مبعوث کیا گیا ہوں ۔پھر اس کے بعد آنے والے ‘ پھر ان کے بعد آنے والے ۔‘‘[متفق علیہ ؛ البخاری ۳؍۱۷۱؛ مسلم ۴؍۱۹۶۲۔ یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد سے روایت کی گئی ہے؛ ان میں سے حضرت ابو ہریرہ؛حضرت عبد اللہِ بن مسعود ؛ حضرت عمران بن حصین ؛ حضرت عائشہ ؛ حضرت النعمان بن بشِیر ؛ حضرت بریدۃ اسلمی رضِی اللہ عنہم شامل ہیں . انظرِ: البخارِی: 3؍171 ؛ ِکتاب الشہاداتِ، باب لا یشہد علی شہادۃِ جور ِإذا شہِد ؛ مسلِم 4؍1962 ؛ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضلِ الصحابۃِ ثم الذِین یلونہم؛ سننِ النسائِیِ [بِشرحِ السیوطِی]7؍17 کتاب الإیمانِ والنذورِ، باب الوفائِ بِالنذرِ؛ سننِ التِرمِذِیِ [بِتحقِیقِ عبدِ الرحمنِ محمد عثمان] 3؍339 ؛ کِتاب الفِتنِ، باب ما جاء فِی القرنِ الثالِث، سننِ أبِی داود 4؍297 ؛ ِکتاب السنۃِ، باب فِی فضلِ أصحابِ رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ سنن ابن ماجہ 2؍791؛ کتاب الحکامِ، باب کراہِیِ الشہادۃِ لِمن لم یستشہِد؛ ترتِیب مسندِ أبِی داود الطیالِسِیِ، تحقِیق الشیخِ أحمد عبد الرحمن البنا؛ ط. المنِیرِیۃِ بِالزاہریہِ، 1353؍1934 2؍198 199 ؛ کتاب الفضائِلِ، باب ما جاء فِی فضلِ القرونِ الأول؛ . المعارِف5؍209،]
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی وہ چنے ہوئے لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے منتخب کرلیا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِِنْجِیلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَوَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا ﴾[الفتح ۲۹]۔
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؛ اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں ، آپس میں نہایت رحم دل ہیں ، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں ، سجدے کرنے والے ہیں ، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں ، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَّعْبُدُوْنَنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِی شَیْئًا وَّمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ ﴾ [النور ۵۵]
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا اوران کے خوف کو وہ امن امان سے بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں ۔‘‘
مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیکوکار اہل ایمان سے زمین میں خلافت عطا کیے جانے کا وعدہ فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا ۔ پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ایسے ہی خلافت عطا فرمائی جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا فرمائی تھی۔ اور ان کے لیے دین اسلام کومضبوط و محکم کردیا؛ یہی وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے چن لیا تھا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ﴾ [المائدہ ۳]
’’ اور میں نے تمہارے لیے دین اسلام کو پسندکر لیاہے ۔‘‘
[مذکورہ بالا آیت میں دیگر جن امور پر روشنی ڈالی گئی ہے‘وہ یہ ہیں ]:
۱۔ان کے لیے خوف کو امن سے بدل دیا ۔ ۲۔ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔
اس میں دیگر دو استدلال بھی ہیں : ۱۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خلافت عطا کی ؛ وہ اہل ایمان اورنیک عمل کرنے والے تھے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ان ہی لوگوں سے ہے کسی دوسرے سے نہیں ۔
۲۔ نیز یہ کہ ان تمام لوگوں کے گناہوں کی مغفرت کردی گئی ہے۔ اور ان کے لیے بہت بڑا اجر عظیم تیار کررکھا ہے ‘ اس لیے کہ یہ لوگ صحیح معنوں میں ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کیے ہیں ۔ یہ دونوں آیات صحابہ کرام کو شامل ہیں ۔
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ یہ صفات حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ادوار کے صحابہ پر منطبق ہوتی ہیں ۔ جنہوں نے آپ کی بیعت کی؛ وہ ان صفات سے بہرہ ور تھے۔ وہ امارت وخلافت سے بہرہ ور ہوئے، قوت و شوکت نے ان کے قدم چومے؛ خطرات کا ازالہ کر کے ملک میں امن و امان قائم کیا۔ فارس و روم کو زیر نگیں کیا، ان کی فتوحات کا سلسلہ شام و عراق مصر و مغرب و خراسان و آذر بائیجان اور افریقہ تک پہنچ گیا۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تواس کے بعد فتنہ پر دازی کا آغاز ہوا۔بلاد کفار میں فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور رومی اور دوسرے لوگ اسلامی بلا دو امصار کو حریصانہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔حالانکہ اس سے قبل یہ لوگ ڈر کر رہتے تھے۔
پس قرآن کریم حضرات صحابہ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ایمان اور ان کے پر امن دور خلافت وتمکنت میں جو لوگ ان کے ساتھ تھے ؛ ان کے ایمان پر دلالت کرتا ہے۔اور وہ لوگ جو اس خلافت و تمکین کے پر امن دور میں موجود تھے ‘ اور پھر انہوں نے فتنہ کے زمانہ کو پایا؛ جیسے :حضرت علی رضی اللہ عنہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ اورعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی اس آیت میں داخل ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے زمانہ خلافت پایا ‘ قدرت و شوکت سے بہرہ ور ہوئے ‘ اور امن و امان قائم کیا۔
دوسری جانب اس تفریق اور فتنہ کے دور میں بدعات کا آغاز ہوا اور مختلف فرقے سر اٹھانے لگے؛مثلاً : روافض جنہوں نے اسلام میں نئی نئی چیزیں ایجاد کیں ۔ نیز خوارج جو کہ اسلام سے نکل گئے ۔انہیں یہ نص شامل نہیں ہے۔پس ان کا شمار ان لوگوں میں نہیں ہوتا جنہیں اس آیت میں ایمان اور عمل صالح سے موصوف کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ اولاً : ان لوگوں کاشمار ان صحابہ میں نہیں ہوتا جو اس آیت میں مخاطب ہیں ۔ نیز ان کے لیے استخلاف و تمکین اور امن حاصل نہیں ہوسکا جیسا کہ صحابہ کرام کے مبارک دور میں ہوا تھا۔ بلکہ یہ ہمیشہ خوف و دہشت کا شکار اور افراتفری اور بے چینی میں رہے ۔
اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا :
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ ﴾ [الفتح۲۹]
’’ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اورنیک اعمال کیے ....‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمام اہل ایمان سے اس نے وعدہ کیا ہے ‘ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے :
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ [النور ۵۵]
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ وعدہ فرما چکا ہے ۔‘‘
[گزشتہ آیت میں ]ایسے نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تم سب سے وعدہ کرتا ہے؛ جو لفظ’’مِنْ‘‘ بیان جنس کے لیے ہوتا ہے ‘اس کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ اسی لفظ کے ساتھ مجرور ہونے والا کلمہ اس سے باہر ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ﴾ [الحج ۳۰]
’’ پس بچو گندگی سے جو کہ بتوں کی ہے ۔‘‘
تو اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ بتوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جوگندے اور پلید نہیں ہیں ۔ جب آپ کہیں :
’’ ثوب من حریر‘‘’’ ریشم میں سے لباس ۔‘‘ تو یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کہہ رہے ہوں : ’’ ثوب حریر‘‘ ’’ریشم کا لباس‘‘اس سے مقصود یہ نہیں کوئی ریشم ایسا بھی ہے جو مضاف الیہ نہ ہو۔
جب لفظ’’مِنْ‘‘بیان جنس کے لیے آتا ہے ؛ تو پھر جملہ مقدر یوں ہوگا کہ : ’’ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکا ہے ؛ جو اس جنس میں سے ہیں ۔‘‘یہ جنس تمام نیکو کار مؤمنین کی ہے ۔
اور ایسے ہی جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’’ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالی وعدہ فرما چکا ہے ۔‘‘یعنی اس جنس اور صنف کے جتنے بھی لوگ ہیں ان کے لیے مغفرت اور بہت بڑے اجر کاوعدہ ہے ۔ جب کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم سے یہ فرمایا گیا :
﴿وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا﴾ [الأحزاب ۳۱]
’’اور تم میں سے جوکوئی اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا اجر دوبار دیں گے اور ہم نے اس کے لیے با عزت رزق تیار کر رکھا ہے۔‘‘
تواس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرتی ہو‘ او ر نیک اعمال بجا لاتی ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
﴿وَ اِذَا جَآئَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئً بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ [الأنعام۵۴]
’’اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں توفرمادیجیے سلام ہے تم پر، تمھارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پر لازم کر لیا ہے ۔بے شک حقیقت یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کرے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
تواس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک اس صفت سے موصوف ہو۔ اور یہ کہنا جائز نہیں کہ اگر یہ جہالت سے کوئی برائی کاکام کردیں ‘ اور پھر اس کے بعد توبہ کریں او رنیک اعمال بجالائیں ‘ تو ان میں سے صرف چند ایک کی مغفرت ہوگی سب کی نہیں ۔ اسی لیے یہ لفظ ’’ من ‘‘جب نفی پر آتا ہے تو اس سے مراد جنس کی نفی ہوتیہے ۔ جیساکہ اس فرمان الٰہی ہے :
﴿ وَمَا اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ ﴾ [الطور۲۱]
’’ اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ [آل عمران ۶۲]
’’ اور کوئی بھی معبود برحق نہیں سوائے ایک اللہ کے ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ﴾ [الحاقۃ ۴۷]
’’پھر تم میں سے کوئی بھی( ہمیں ) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘
اسی لیے جب یہ لفظ کسی جملہ پرتحقیقی یا تقدیری نفی کے لیے داخل ہوتا ہے ‘ تو اس سے پوری جنس کی نفی مراد ہوتی ہے۔ تحقیق کی مثالیں تو وہ ہیں جو گزر چکی ہیں ۔ اور تقدیر کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
﴿لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ﴾ [الصافات ۳۵]
’’ اور کوئی بھی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے ۔‘‘
اور سورت بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ﴾
’’ اس کتاب کے سچا ہونے میں کوئی شک نہیں ۔‘‘ ان کے علاوہ بھی دیگر کئی مثالیں ہیں ۔
بخلاف لفظ ’’مَا‘‘کے کہ جب لفظ ’’ من ‘‘ موجود نہ ہو۔ جیسا کہ یہ قول ہے : ’’ مارأیت رجلاً۔‘‘’’ میں نے کسی مرد کو نہیں دیکھا۔ ظاہری طور پر یہاں بھی لفظ ’’ ما ‘‘ نفی جنس کے لیے آرہا ہے ؛ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مقصود نفی جنس نہ ہو بلکہ نفی عدد کی ہو۔ یعنی میں نے ایک آدمی نہیں دیکھا ۔ جیسا کہ سیبویہ کا قول ہے کہ یوں کہنا جائز ہے : : ’’ مارأیت رجلاً بل رجلین۔‘‘’’ میں نے ایک آدمی کو نہیں دیکھا ؛ بلکہ دو آدمی دیکھے ہیں ۔‘‘ اس سے ظاہر ہوا کہ اس سے ایک مراد لینا بھی جائز ہے اگرچہ یہ ظاہر میں جنس کی نفی کے لیے آتا ہے۔
اسی لیے کہتے ہیں : اگر کسی انسان نے اپنے غلاموں سے کہا :’’من أعطاني منکم ألفاً فہو حر ‘‘ تم میں سے جو کوئی مجھے ایک ہزار دیدے تووہ آزاد ہے ۔تو ہر ایک غلام اسے ایک ایک ہزار دیدے ؛ تووہ سب آزاد ہوجائیں گے۔
ایسے ہی اگر انسان اپنی بیویوں سے کہے : ’’من أبرأتني منکن من صداقہا فھي طالق ‘‘ تم میں سے جو کوئی مجھے اپنے مہر سے بری کردے ؛ اسے طلاق ہے۔پھراس کی سب بیویاں اسے مہر سے بری کردیں تو ان سب کو طلاق ہوجائے گی۔ اس لیے کہ لفظ ’’ من ‘‘ لگاکر حکم بیان کرنے کا مقصد جنس کا بیان ہے۔ نہ کہ یہ حکم بعض کے لیے ثابت کیا جائے اور بعض غلاموں یا بیویوں کے حق میں اس حکم کا انکار کیا جائے ۔
اگر کوئی انسان یہ کہے کہ : جیسے یہ بات ممتنع نہیں ہے کہ تمام لوگ اس صفت سے موصوف ہوں ‘ ایسے ہی یہ بھی واجب نہیں ہے کہ تمام لوگ ان صفات کے حامل ہوں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ﴾ [النور۵۵]
’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ وعدہ فرما چکا ہے ۔‘‘
اس آیت کا تقاضا یہ بھی نہیں ہے کہ تمام لوگ مذکورہ بالا صفات سے متصف ہوں ۔
[جواب] ان سے کہا جائے گا: ہاں ؛ ایسے ہی ہے ۔فقط ان الفاظ کی وجہ سے ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ تمام لوگ ایمان اور عمل صالح سے متصف ہیں ۔مگر یہاں پر ہمارے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ:لفظ ’’من ‘‘ اس کے منافی نہیں ہے کہ یہ وصف ان لوگوں کو بھی شامل ہو۔ کوئی یہ بات نہیں کہتا کہ :
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ ﴾ (الفتح: ۲۹)
’’محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت آپس میں رحمدل ہیں ۔‘‘
اس آیت میں خطاب ِ تعریف ان تمام لوگوں کے لیے عام اور شامل ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ مدح ان صفات پر ہے جن کاتذکرہ کیا جاچکا۔ یعنی کفار پر سختی؛ آپس میں رحمت و شفقت ؛ رکوع اور سجدہ کرنا ؛ اللہ تعالیٰ کے فضل و رضامندی کی تلاش ؛ خصوصاً ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرات ؛ او ریہ کہ انہوں نے کمزوری سے ابتداء کی اور بتدریج قوت و کمال حاصل کرتے گئے ۔جیسے کہ کاشتکاری میں ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت اوراجر عظیم کا وعدہ صرف ان صفات کی بنا پر نہیں ہے ‘ بلکہ ان کے ایمان اور عمل صالح کی وجہ سے ہے ۔ جس سے وہ وعدے کے مستحق ہوں اللہ تعالیٰ نے وہ ذکر کیا ہے اگرچہ وہ سب کے سب ان صفات سے متصف ہوں ۔ اگر ان چیزوں کا ذکر نہ کیا جاتا توخیال کیا جاسکتا تھا کہ فقط اس ذکر کی وجہ سے یہ لوگ مغفرت اور اجر عظیم کے مستحق ٹھہرے ہیں ۔ اور اس میں اس جزاء کا کوئی سبب بیان نہ ہوتا۔بخلاف اس کے کہ جب ایمان او رعمل صالح کا ذکر کیا جائے ۔ اس لیے کہ جب حکم کو کسی مناسب اسم مشتق کے ساتھ معلق بیان کیا جائے تو اس حکم میں اشتقاق کا سبب بھی پایا جاتا ہے ۔
٭[اشکال]: باقی رہا یہ سوال کہ منافق بھی اس دور میں بظاہر مسلم ہونے کے دعویٰ دار تھے؟
[جواب ]:اس کاجواب یہ ہے کہ منافقین میں کوئی اچھا وصف نہ تھا، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین صحابہ میں کسی کی صحبت و رفاقت کا شرف حاصل نہ تھا،اورنہ ہی ان میں سے تھے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل آیات قابل ملاحظہ ہیں :
﴿ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ ٭وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ﴾ [المائدۃ ۵۲۔۵۳]
’’بہت ممکن ہے کہ عنقریب اللہ تعالی فتح دیدے یا اپنے پاس سے کوئی اور چیز لائے پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر( بے طرح)نادم ہونے لگیں گے۔اور ایماندار کہیں گے، کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ ان کے اعمال غارت ہوئے اور یہ ناکام ہوگئے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ وَ لَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ اَوَ لَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ(۱۰) وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ﴾
’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہے جو کہتا ہے ہم اللہ پر ایمان لائے، پھر جب اسے اللہ (کے معاملہ) میں تکلیف دی جائے تو لوگوں کے ستانے کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتا ہے اور یقیناً اگر تیرے رب کی طرف سے کوئی مدد آجائے تو یقیناً ضرور کہیں گے ہم تو تمھارے ساتھ تھے، اور کیا اللہ اسے زیادہ جاننے والا نہیں جو سارے جہانوں کے سینوں میں ہے۔اور یقیناً اللہ ان لوگوں کو ضرور جان لے گاجو ایمان لائے اور یقیناً انھیں بھی ضرور جان لے گا جو منافق ہیں ۔‘‘[عنکبوت۱۰۔ ۱۱]
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعَا٭ نِ الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَ اِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا﴾[النساء۱۴۰۔۱۴۱]
’’بے شک اللہ منافقوں اور کافروں ، سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔وہ جو تمھارے بارے میں انتظار کرتے ہیں ، پھر اگر تمھارے لیے اللہ کی طرف سے کوئی فتح ہو جائے تو کہتے ہیں کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے اور اگر کافروں کو کوئی حصہ مل جائے تو کہتے ہیں کیا ہم تم پر غالب نہیں ہوگئے تھے اور ہم نے تمھیں ایمان والوں سے نہیں بچایا تھا۔ پس اللہ تمھارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اللہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہر گز کوئی راستہ نہیں بنائے گا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الْمُتٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًاO اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ اعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَ اَخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾[نساء ۱۴۵۔۱۴۶]
’’بیشک منافقین آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہونگے اور تو ہرگز ان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ مگر وہ لوگ جنھوں نے توبہ کی اور اصلاح کرلی اور اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا اور اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مومنوں کو جلد ہی بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنَّھُمْ لَمِنْکُمْ وَمَا ھُمْ مِّنْکُمْ وَ لٰکِنَّھُمْ قَوْمٌ یَّفْرَقُوْنَ﴾[توبہ]
’’اور وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ بے شک وہ ضرور تم میں سے ہیں ، حالانکہ وہ تم میں سے نہیں اور لیکن وہ ایسے لوگ ہیں جو ڈرتے ہیں ۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَمْ تَرَی اِِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ مِنْکُمْ وَلاَ مِنْہُمْ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾[المجادلۃ ۱۴]
’’کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے ان لوگوں کو دوست بنا لیا جن پر اللہ غصے ہو گیا، وہ نہ تم سے ہیں اور نہ ان سے اور وہ جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں ، حالانکہ وہ جانتے ہیں ۔‘‘
پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ خبر دے رہے ہیں کہ منافقین کا شمار اہل ایمان یا اہل کتاب میں نہیں ہوتا۔ اور یہ لوگ اسلام کااظہار کرنے والے گروہوں میں سے کسی بھی گروہ میں روافض سے بڑھ کر نہیں پائے جاتے۔ رافضیت میں نفاق رچا بسا ہوا ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ یَوْمَ لاَ یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ بِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اِِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ﴾ [تحریم۸]
’’جس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہا ہو گا، وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَائَکُمْ فَالْتَمِسُوا نُوْرًا﴾[الحدید ۱۳]
’’جس دن منافق مرد اور عورتیں ایمان وا لوں سے کہیں گے: ہمارا انتظار کرو کہ ہم تمھاری روشنی سے کچھ روشنی حاصل کر لیں ۔ کہا جائے گا اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پس کچھ روشنی تلاش کرو۔‘‘
پس یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ منافقین اہل ایمان میں داخل نہیں ہیں ۔ اور جو لوگ منافق تھے؛ ان میں سے کچھ نے توبہ کرلی ؛ اور نفاق سے باز آگیا؛ اوراکثر یہی ہوا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَآ اِلَّا قَلِیْلًا٭مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْاتَقْتِیْلًا﴾[الاحزاب ۶۰۔۶۱]
’’یقیناً اگر یہ منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں جھوٹی خبریں اڑانے والے لوگ باز نہ آئے تو ہم تجھے ضرور ہی ان پر مسلط کر دیں گے، پھر وہ اس میں تیرے پڑوس میں نہیں رہیں گے مگر کم۔اس حال میں کہ لعنت کیے ہوئے ہوں گے، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے ،بری طرح ٹکڑے کیا جانا۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر مسلط نہیں ؛اور نہ ہی انہیں بالکل قتل کیا گیا؛ بلکہ یہ لوگ مدینہ کے گرد و نواح میں آباد رہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نفاق سے باز آگئے تھے۔
جو لوگ آپ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے؛ ان سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرلی تھی؛ سوائے جد بن قیس کے۔ وہ سرخ اونٹ کے پیچھے چھپ گیاتھا۔ اس کے بارے میں حدیث میں آتاہے:
(( کلہم یدخل الجنۃ ِإلا صاحِب الجملِ الأحمرِ ۔))[یہ حدیث دوسرے الفاظ میں ملی ہے۔ رواہ مسلِم عن جابِرِ بنِ عبدِ اللہِ رضی اللّٰہ عنہ ؛ 4؍2144 ؛ کتاب صِفاتِ المنافِقِین وأحکامِہِم، الباب الأولِ؛ النووِی فِی شرحِہِ 17؍126 ۔ اس جد بن قیس کے بارے میں اکثر مؤرخین اور مفسرین نے ایسے ہی لکھاہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں اس کے حالات زندگی لکھے ہیں ۔ اس کا نام جد بن قیس بن صخر بن خنساء بن سنان بن عبید بن غنم بن کعب بن سلمہ ؛ الانصاری ؛ ابو عبداللہ ۔ یہ بنو سلمہ قبیلے کا سردار تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ماموں تھا۔ اور وہ چھوٹا ہی تھا کہ اسے اٹھا کر بیعت حقبہ میں لایا گیا تھا۔ ابن حجر نے اس حدیث کی اسناد کو قوی لکھاہے۔ اوراس کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ایام میں اس نے توبہ کرلی تھی؛ اور اچھا مسلمان بن گیاتھا۔]
’’سرخ اونٹ والے کے علاوہ سبھی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘
خلاصہ کلام ! اس میں کوئی شک نہیں کہ منافقین چھپے ہوئے ؛ پست اور ذلیل لوگ تھے۔ بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں ۔ اورغزوہ تبوک میں ۔ فرمان الٰہی ہے:
﴿یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰـکِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ ﴾[المنافقون ۸ ]
’’وہ کہتے ہیں یقیناً اگر ہم مدینہ واپس گئے تو جو زیادہ عزت والا ہے وہ اس میں سے ذلیل تر کو ضرور ہی نکال باہر کرے گا، حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اورایمان والوں کے لیے ہے اور لیکن منافق نہیں جانتے۔‘‘
یہ آیت اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ عزت اہل ایمان کے لیے ہے منافقین کے لیے نہیں ۔اور اصحاب محمد عزت و قوت سے بہرہ ور تھے، اور منافق ان کے درمیان ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ پس یہ بات ممتنع ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کہ تمام مسلمانوں میں سب سے بڑھ کر عزت والے تھے ؛ ان کا شمار بھی منافقین میں سے ہو۔ بلکہ اس آیت کا تقاضا ہے کہ جو جتنی زیادہ عزت اور غلبہ والا ہو ‘ وہ اتنا ہی بڑا ایمان دار بھی ہو۔
[[مذکورۃ الصدرآیات میں ذکر کردہ صفات ایک ذلیل اور مقہور و مجبور قوم کی صفات ہی ہو سکتی ہیں ، اس کے عین برخلاف سابقین اولین مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور بعد از وفات ہمیشہ باعزت زندگی بسر کرتے رہے، یہ آیات اس امر کی شاہد عدل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باعزت صحابہ رضی اللہ عنہم کسی طرح بھی منافق اور ذلیل و رسوا نہ تھے ]]۔ اوریہ بات سبھی جانتے ہیں کہ سابقین اولین ‘ مہاجرین و انصار خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لوگوں میں سب سے زیادہ عزت والے تھے۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ منافقین اہل ایمان کے درمیان ذلیل و رسوا تھے۔ پس یہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہوسکتا کہ عزت و غلبہ رکھنے والے صحابہ کرام کا شمار منافقین میں ہو۔ اگر یہ وصف کسی پر صادق آتا ہے تو وہ رافضی اور ان کے ہمنوادوسرے لوگ ہیں جو صحابہ کرام پر معترض رہتے ہیں ۔