Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل بیت مقہور و مجبور نہ تھے

  امام ابنِ تیمیہؒ

اہل بیت مقہور و مجبور نہ تھے

مگر اہل بیت کا معاملہ مختلف نوعیت کا ہے ان کو کسی شخص نے کسی بات پر مجبور نہیں کیا تھا۔ اس کی حدیہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اہل بیت کو اپنی بیعت پر مجبور نہیں کیا تھا،اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنی بیعت کے لیے مجبور کیا۔ بلکہ انہوں نے اپنی مرضی سے بخوشی بیعت کی تھی۔اور نہ ہی حضرت نے کسی کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کی مدح سرائی کریں اور تعریف و توصیف کے پل باندھیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کسی جبرو اکراہ کے ماتحت صحابہ کے فضائل و مناقب نہیں بیان کرتے تھے ۔ان میں سے کسی ایک کو بھی کسی بات پر مجبورنہیں کیا جاتا تھا ؛ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔

بنوامیہ و بنو عباس کے عہد خلافت میں بہت سے لوگ ایمان و تقویٰ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فروتر تھے۔ وہ خلفاء میں گوناگوں عیوب و نقائص ملاحظہ کرتے، مگر ان کی مدح و ثناء میں رطب اللسان ہوتے نہ ان کی تعریفوں کے پل باندھتے اور نہ ہی خلفاء جبراً ان سے یہ کام لیتے۔ خلفائے راشدین تو باقی سلاطین کی نسبت جبر و اکراہ سے مبرا اور بالا تر تھے۔

ان [بنو امیہ اور بنو عباس]کے دور میں جب لوگوں کو کسی ایسی بات پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی زبانوں سے ایسی بات کہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ۔ تو پھر خلفاء راشدین کے دور کے متعلق یہ کیسے تصور کیا جاسکتاہے ؟ بلکہ [پھر یہ کہا جائے کہ ] انہیں جھوٹ بولنے ‘ جھوٹی گواہی دینے اور کفر کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جاتاتھا ؛ جیسا کہ رافضی کہتے ہیں ‘ حالانکہ انہیں کسی نے ایسا کہنے پر مجبور نہیں کیا ۔ تو معلوم ہوا کہ رافضی جس چیز کا اظہار کرتے ہیں وہ جھوٹ اور منافقت کے باب سے ہے۔ وہ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں ۔ یہ اس باب سے نہیں کہ مؤمن کو کوئی کلمہ ء کفر کہنے پر مجبور کیا جائے اوروہ کلمہ کفر کہہ دے۔ بلاد کفار میں جتنے بھی مسلمان قیدی ہیں ؛ ان میں سے اکثر اپنے دین کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایسے ہی خوارج باوجودیکہ جمہور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ‘ اورحضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہمااور ان کے چاہنے والوں کی تکفیر کرتے ہیں ‘ مگر اس کے باوجود وہ اپنے دین کا اظہار کرتے ہیں ۔ جب وہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ سکونت پذیر ہوتے ہیں تو وہ [اپنے مسلک کے مطابق] موافقت و مخالفت پر رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔

[جب کہ اہل سنت میں سے ]جو کوئی رافضیوں کے شہروں میں سکونت پذیر ہوتا ہے ؛ وہ کبھی بھی رافضیت کااظہار نہیں کرتا ۔ اس کی حد درجہ انتہاء یہ ہوسکتی ہے کہ جب وہ اپنے مذہب کے اظہار سے عاجز آجائے تو خاموش رہے ۔ اسے صحابہ کرام پر سب وشتم کے اظہار کی نوبت سے پالانہیں پڑتا۔ہاں اگر کبھی کہیں پر بہت کم ہی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو۔[تو یہ دیگر بات ہے]۔

توپھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے عیال و اطفال کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ بھلا اپنے مذہب کے اظہار میں بلاد کفر میں موجود ان قیدیوں سے بڑھ کر؛ یا عام عوام اہل سنت یا نواصب سے بھی ضعیف تر ہو سکتے ہیں ۔ اخبار متواترہ کی بنا پر ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو کسی نے بھی خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی مدح و ستائش پر مجبور نہیں کیا تھا، مگر بایں ہمہ وہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کرتے، ان کے لیے دعائے رحم فرماتے اور اس پر طرہّ یہ کہ اپنے احباب و خواص کے رو برو یہ سب کچھ بیان کرتے تھے۔نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :

﴿وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ

’’تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ وعدہ فرما چکا ہے ۔‘‘

کہ یہ ان جملہ کا وصف ہے جو کہ ان کی اجتماعیت کی صورت کو متضمن ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِِنْجِیلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارُ﴾ [الفتح۲۹]

’’ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ انکی وجہ سے کافروں کو چڑائے ۔‘‘

[تو ان سے کہا جائے گا ] مغفرت اور اجر عظیم ان میں سے ہر ایک کے لیے حاصل ہوگی ۔ اس سے لازم آتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک ان صفات سے موصوف ہوجو اس کا سبب ہیں اور وہ ایمان اور نیک عمل ۔ اس لیے کہ جملہ لوگوں میں تو کوئی منافق بھی ہوسکتا ہے ۔

جملہ طور پر قرآن میں جو کچھ بھی ہے وہ مؤمنین ؛ متقین اور محسنین سے خطاب ہے۔ نیز ان لوگوں کی تعریف اور مدح سرائی ہے۔ وہ [صحابہ ] لوگوں میں سب سے پہلی صف کے افراد ہیں جو ان آیات کے خطاب میں شامل ہیں ۔اور اس امت میں سے جو لوگ بھی ان آیات کے خطاب میں شامل ہیں ‘ ان میں سے افضل ترین لوگ ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی اسناد کے ساتھ منقول ہے ‘ آپ نے فرمایا: ’’ بہترین زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔ پھر اس کے بعد آنے والے پھر اس کے بعد آنے والے ۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے ]