وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے احوال اور رافضی کا جھوٹ
امام ابنِ تیمیہؒوفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے احوال اور رافضی کا جھوٹ
دوسری وجہ : ....شیعہ مصنف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال بیان کرنے میں جھوٹ اور تحریف سے کام لینا ہے ۔ [جیسا کہ وہ کہتا ہے ]:
[اعتراض:].... شیعہ مصنف کا یہ دعویٰ کہ ’’ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بلا استحقاق خلافت کے طالب تھے، اور اکثر لوگوں نے دنیا طلبی کے نقطۂ خیال سے ان کی بیعت کر لی تھی۔‘‘
[جواب]: ....شیعہ مصنف کا یہ اشارہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جانب ہے۔اس لیے کہ اکثر لوگوں نے آپ کی بیعت کرلی تھی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ یا ناحق کسی طرح بھی امارت و خلافت کے طلب گار نہ تھے، آپ نے برملا فرمایا تھا:’’ میں تمہارے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ یاابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ان دو میں سے کسی ایک کو پسند کرتا ہوں ۔‘‘ تو اس کے جواب میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم!اگر میں آگے بڑھوں اور آپ میری گردن کاٹ ڈالیں اس سے بہتر ہے کہ میں اس قوم کا سردار بنوں جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں۔‘‘[یہ الفاظ متفق علیہ ہیں ۔ البخاری 8؍70 ؛ کتاب المحارِبِین مِن أہلِ الکفرِ والرِدۃِ، باب رجمِ الحبلی مِن الزِنا؛ سِیرِۃ ابنِ ہِشام 4؍310، المسندِ ط. المعارِفِ؍326 ؛ رقم 391؛ تارِیخِ الطبرِیِ ط. المعارِف؛ البِدایۃِ والنِہایۃِ۔]
اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: ’’اے لوگو! مجھے معاف رکھو؛ مجھے معاف رکھو۔‘‘
جب کہ مسلمانوں نے آپ کو ہی اختیار کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے کہ آپ ان سب میں سے افضل و بہتر ہیں ۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پر مہاجرین و انصار کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا : ’’ آپ ہمارے سردار ہیں ‘ اور ہم سب سے بہتر ہیں ‘اور ہم سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہیں ۔‘‘
مسلمانوں نے آپ کو خلافت کے لیے بالکل ایسے چن لیا تھا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا تھا ۔ صحیح حدیث میں ہے آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اپنے باپ اور بھائی کو بلاؤ تاکہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک عہد نامہ لکھ دوں تاکہ میرے بعد لوگ اس کے بارے میں اختلاف نہ کریں ۔‘‘ پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ اور مسلمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو خلیفہ تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے]۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی تقدیر کونی اور تقدیر شرعی ہر لحاظ سے آپ کو خلیفہ بنایا تھا۔ اور مؤمنین کو آپ کی ولایت اختیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ آپ کے طلب کیے بغیر انہوں نے آپ کو خلیفہ چن لیا ۔