شیعہ وراثت سے محروم ہو گا، نکاح کے بعد مرد شیعہ بن گیا تو نکاح کا حکم؟
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ علمائے دیوبند اور ان کے پیشوا حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ رافضیوں کو کافر نہیں کہتے۔ مگر یہ وہم سراسر غلط ہے۔ حضرت مولا رشید احمد گنگوہیؒ علمائے کرام کے اُس گروہ میں شامل ہیں جو روافض کو کافر قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک استفتاء اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
سوال: جو عورت سنیہ رافضی کے تحت میں بعد ظہور رفض کے بخوشی خاطر رہ چکی ہو پھر رفض یا دوسری شئے کو حیلہ قرار دے کر بلا طلاقِ علیحدہ ہو جائے اور سُنی سے نکاح کرلیوے تو یہ نکاح بلا طلاقِ شیعہ کے کیا حکم رکھتا ہے؟ اور اولاد سُنی کی اگر رافضی ہو جائے تو پدر سُنی کے ترکہ سے محروم الارث ہوگی یا نہیں؟
جواب: جس کے نزدیک رافضی کافر ہے وہ فتویٰ اول ہی سے بطلانِ نکاح کا دیتا ہے اس میں اختیار زوجہ کا کیا اعتبار ہے؟ پس جب چاہے علیحدہ ہو کر عدت کر کے نکاح دوسرے سے کر سکتی ہے۔ اور جو فاسق کہتے ہیں اُن کے نزدیک یہ امر ہرگز درست نہیں کہ نکاح اول صحیح ہو چکا ہے۔ اور بندہ اول مذہب رکھتا ہے۔ علی هذ رافضی اولادِ سُنی کو ترکہ سُنی سے نہ ملے گا۔ فقط واللّٰہ اعلم
اس فتویٰ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اپنا مذہب یہ بتایا ہے کہ وہ رافض کو کافر قرار دیتے ہیں اور کسی سُنی عورت کا نکاح ابتداء ہی سے رافضی سے ناجائز کہتے ہیں اور سُنی باپ کی رافضی اولاد کو باپ کے ترکہ سے بالکل محروم گردانتے ہیں۔ حضرت گنگوہیؒ کا یہ فتویٰ بالکل واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
(ارشاد الشيعہ: صفحہ، 210)