Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کی بیعت کرنے والوں کا زہد

  امام ابنِ تیمیہؒ

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کی بیعت کرنے والوں کا زہد

تیسری وجہ : بفرض محال اگر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ امارت کے طالب تھے اور لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی تھی۔ تو شیعہ کا یہ قول صریح قسم کی دروغ بیانی ہے کہ لوگوں نے طلب دنیا کی بنا پر آپ کی بیعت کی تھی۔ یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں مال دنیا میں سے کچھ بھی نہیں دیا۔آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات اپنا سب مال خرچ کر دیاتھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی تو آپ نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے پوچھا : گھر کیلئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو آپ نے گزارش کی : ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘ [تخریج گزرچکی ہے]۔[اور خلافت کے دوران آپ خالی ہاتھ تھے۔][ذکر البخاری 2؍112؛ کتاب التہجدِ، باب لا صدقۃ إِلا عن ظہرِ غِنی؛ أن أبا بکر تصدق بِمالِہِ کلِہِ. وأورد بو داود2؍173؛ کتاب الزکاۃِ، باب فِی الرخصۃِ فِی ذلک]

مزید برآں آپ کی بیعت کرنے والے دنیا طلبی سے بے نیاز تھے۔یہی وہ لوگ تھے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے بیان کی ہے۔ یہ حقیقت دور و نزدیک سب کو معلوم ہے کہ حضرت عمر، ابو عبیدہ اور ان کے نظائر و امثال رضی اللہ عنہم زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے۔انصار کے انفاق فی سبیل سے بھی کوئی بے خبر نہیں ؛ جیسے حضرت اسید بن حضیر؛ ابو طلحہ ؛ ابو ایوب اور ان کے امثال؛ رضی اللہ عنہم ۔ مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت کوئی بیت المال نہ تھا، جس سے آپ ان کو کچھ سامان بہم پہنچاتے۔ اور نہ ہی اس وقت کوئی دیوان تھا جہاں سے لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا جاتا ۔ انصار اپنی املاک میں موجود تھے۔ایسے ہی مہاجرین میں سے جس کسی کے لیے مال غنیمت وغیرہ میں سے کچھ موجود تھا ‘ وہ اسی کے لیے تھا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی مال غنیمت کی تقسیم میں مساوات کے قائل تھے۔ اگر صحابہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرتے تو وہ بھی انہیں اسی قدر مال دیتے جتنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عطا کیا تھا۔حالانکہ آپ کا قبیلہ بنی تمیم سے افضل تھا۔[مزید برآں آپ کا کنبہ قبیلہ اور چچا زاد بھائی حسب و نسب کے اعتبار سے افضل الصحابہ رضی اللہ عنہم تھے]۔بنو عبدمناف قریش کے اشرف ترین لوگوں میں سے تھے جو کہ دوسرے لوگوں کی نسبت بنو امیہ کے قریب تر تھے ۔جیسے ابو سفیان بن حرب؛اور بنی ہاشم جیسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ جاہلیت کے دستور کے مطابق امارت بنی عبدمناف میں رہے۔آپ نے اس ضمن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بات بھی کی تھی؛ مگر نہ ہی اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مانا نہ ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اورنہ ہی کسی دوسرے نے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے علم و فضل اور دین و مذہب کی بنا پر ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔

غور کیجئے! حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت سے عام لوگوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ خصوصاً جب کہ تنخواہ کے معاملہ میں آپ سابقین اولین اور ایک عامی میں کچھ فرق نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

’’ لوگ اللہ سے اجر و ثواب پانے کی امید میں مشرف باسلام ہوئے ہیں اور وہ انہیں اجر عطا کرے گا، جہاں تک تنخواہ کا تعلق ہے وہ صرف بقائے حیات کا ذریعہ ہے اور بس ‘‘ !

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو عطیات میں درجہ بندی کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا: کیا میں ان سے ان کا ایمان خرید لوں ؟ مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین وہی لوگ ہیں جنہوں نے پہلے آپ کی اتباع کی ۔ جیسے حضرت عمر؛ ابو عبیدہ؛ اسید بن حضیروغیرہم رضی اللہ عنہم ۔ آپ نے ان صحابہ کرام اور ان طلقاء کے مابین بھی مساوات قائم کی جو فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے تھے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام لائے۔تو کیا پھر ان لوگوں کو آپ کی ولایت و خلافت سے کوئی دنیاوی فائدہ حاصل ہوا؟ [جس کی بنا پر شیعہ الزام لگارہا ہے کہ انہوں نے دنیا کی لالچ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی]۔

اہل سنت و شیعہ کا باہمی رابطہ:

[چوتھی وجہ:]....ان سے کہا جائے گا کہ : اہل سنت کا شیعہ سے ربط و تعلق بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے مسلمانوں کا نصاریٰ کے ساتھ۔ اہل اسلام ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ مگر نہ ان کی شان میں نصاری کی طرح غلو کرتے ہیں اور نہ یہود کی طرح ان کی تنقیص شان کرتے ہیں ۔ نصاریٰ غلو سے کام لیتے ہیں اور حضرت مسیح کو معبود سمجھتے، اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم اور حضرت موسی علیہم السلام کے مقابلہ میں افضل قرار دیتے ہیں ۔ مبالغہ آمیزی کی حد یہ ہے کہ نصاریٰ حضرت مسیح کے حواریوں کو رسولوں سے بھی افضل تصور کرتے ہیں ۔

شیعہ کا بھی یہی حال ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تائید و نصرت کے لیے لڑنے والوں مثلاً اشترنخعی اور محمد بن ابی بکر کو حضرت ابوبکر و عمر اور سابقین اولین اور جمہور مہاجرین و انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے مقابلہ میں افضل سمجھتے ہیں ۔

نظر بریں ایک مسلم جب نصرانی سے مناظرہ کرے گا تو وہ صرف حق بات ہی کہے گا۔[ مگر نصرانی کو اس کی ہر گز پروا نہیں ] اگر آپ عیسائی کی جہالت جاننا چاہتے ہوں ؛ اوریہ معلوم کرنا چاہتے ہوں کہ ان کے پاس کو ئی دلیل اور حجت نہیں ہے؛ تو اس کا بہترین مداوایہ ہے کہ مسلم کی بجائے ایک یہودی نصرانی کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر میدان مناظرہ میں آئے۔ نصرانی یقیناً یہودی کو وہی جواب دے گا جو جواب مسلم دے رہا تھا۔اگر وہ دین اسلام میں داخل نہ ہوا تو یقیناً یہودی کے ساتھ ہوگا۔ جب عیسائی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لیے کہا جائے گا اور وہ آپ پر نکتہ چینی کرے گا تو یہودی اس سے کہیں بڑھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کا مرتکب ہوگا۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اثبات کرنے والے دلائل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے دلائل وبراہین سے کہیں بڑھ کر ہیں ، علاوہ ازیں وہ عیسوی دلائل کی نسبت شکوک و شبہات سے بعید تر ہیں ۔

اگر اس پر قدح کرنا جائز ہے جس کی دلیلیں بہت زیادہ [اور صحت میں پختہ ] ہیں ؛ اور اس کے متعلق شبہات بھی بہت کم ہیں ‘ توپھر جو اس سے کم درجہ کا ہو‘ وہ اس قدح کا زیادہ حق دار ہے۔ اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں قدح کرنا ناجائز ہے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قدح کرنا بالکل باطل اور ناجائزہے۔ اس لیے کہ جب مضبوط شبہ زائل ہوجائے تو کمزور شبہ بہت جلدی ختم ہوجاتا ہے۔جب کسی کمزور دلیل سے حجت ثابت ہوجائے تو پھر قوی دلیل سے بطور اولی حجت ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے بہت سارے مناظرے عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین ہوئے ہیں ۔

جس طرح معروف حکایت ہے کہ : جب ابوبکر بن باقلانی رحمہ اللہ سفیر بن کر شاہ روم کے دربار میں قسطنطنیہ پہنچے تو آپ کی عظمت و شان کے پیش نظر رومیوں نے محسوس کیا کہ آپ بادشاہ کو سجدہ نہیں کریں گے۔ چنانچہ آپ کو ایک چھوٹے سے دروازے سے داخل کیا تاکہ جھک کر داخل ہوں ۔ علامہ باقلانی رحمہ اللہ تاڑ گئے اور دربار میں الٹے پاؤں سرین کے بل داخل ہوئے؛ جو کچھ نصاری چاہتے تھے اسکا الٹ کردیا۔جب آپ تشریف فرما ہوئے اور عیسائیوں نے آپ سے بات چیت شروع کی ۔ ایک رومی مسلمانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہنے لگا، تمہارے پیغمبر کی بیوی عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کیا کہا گیا ہے۔‘‘

یہ واقعہ افک کی جانب اشارہ تھا؛ جیسا کہ رافضی بھی ایسی ہی باتیں کہتے ہیں ۔ باقلانی رحمہ اللہ یہ سن کر بولے : ’’بیشک دوپاکدامن عورتوں پر بہتان گھڑا گیا ‘ اور ان پر زنا کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا.... اور وہ ہیں حضرت مریم و عائشہ رضی اللہ عنہما ۔حضرت مریم رضی اللہ عنہا دو شیزہ ہی تھیں کہ ان کے یہاں بچہ تولد ہوا۔ مگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خاوند کے باوجود بے اولاد ہیں ۔ نصرانی ہکا بکا رہ گیا، کچھ جواب بن نہ آیا۔ اور اس پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و براء ت حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے مقابلے میں نمایاں تر ہے۔اور یہ شبہ حضرت عائشہ کی نسبت حضرت مریم پر قریب تر ہے ۔‘‘

اس کے ساتھ ہی جب حضرت مریم پر بہتان لگانے والوں کا جھوٹ ثابت ہوگیا ؛ توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں کا جھوٹا ہونا بدرجہ اولی ثابت ہوتا ہے۔

ایسے ہی اگرفضیلت کے بارے میں دو گروہوں کے مابین مناظرہ ہو۔ ان میں سے ایک گروہ کی بھلائیاں او رخوبیاں زیادہ تھیں ‘ اور برائیاں کم اور چھوٹی تھیں ۔جب ان بھلائیوں میں سے کسی کا تذکرہ کیا جائے تواس پر مقابلہ میں دوسرے کی بڑی برائیاں گنی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ

’’وہ آپ سے حرمت والے مہینے کے متعلق اس میں لڑنے کے بارے میں پوچھتے ہیں ، فرما دیجیے اس میں لڑنا بہت بڑا ہے۔‘‘

پھر فرمایا: ﴿وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ﴾ [البقرۃ ۲۱۷]

’’اور اللہ کے راستے سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘

کفارنے مسلمانوں کے ایک سریہ کو عار دلائی تھی اس لیے کہ انہوں نے حرمت والے مہینے میں ابن الحضرمی کو قتل کر دیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:یہ قتل واقعی بڑا [گناہ ]ہے۔اس کے مقابلہ میں مشرکین جس کفر پر ہیں ‘اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں ؛ اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ؛ مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے رہنے والوں کو اس سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بڑا ہے اور فتنہ قتل سے زیادہ بڑا ہے۔‘‘اس لیے کہ یہ ایسی چیز سے روکنا ہے جس کے بعد نجات اور سعادت حاصل نہیں ہوسکتی ۔ نیز مسجد الحرام کی حرمت پامال کرنا حرمت والے مہینہ کی پامالی سے بڑھ کر ہے ۔ لیکن اس قسم میں دونوں فریقوں کی مذمت کا عنصر شامل ہے۔ جب کہ پہلی قسم: جس میں دونوں فریقین کی مذمت نہیں ۔بلکہ اس میں دو جگہوں پر شبہ ہے؛ او ردونوں کے پاس دلائل ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ کے دلائل زیادہ مضبوط اور ظاہر ہیں ۔ اوران کا شبہ بڑا کمزور اور مخفی ہے۔ تو ان لوگوں کا مسئلہ ثابت ہونے میں ان لوگوں کی نسبت زیادہ حقدار ہے جن کی دلیلیں کمزور ہیں ‘ اور شبہات قوی ہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ یہودو نصاری کایہی حال ہے۔ اور اہل سنت والجماعت کیساتھ اہل بدعت خصوصاً رافضی بھی اسی ڈگر پر چلتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر و علی رضی اللہ عنہماکی نسبت ایک سنی و شیعہ کا معاملہ بعینہ اسی نوعیت کا ہے۔ ایک شیعہ اس وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان و عدالت اور دخول جنت کو ثابت نہیں کر سکتا جب تک حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے لیے ان کا اثبات نہ کیا جائے، اگر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان جملہ امور کا اثبات کرے گا، اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو اس سے مستثنیٰ قرار دے گا تو دلائل و براہین اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اسی طرح ایک عیسائی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز کر کے حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کا اثبات کرے گا تو دلائل اس کی موافقت نہیں کریں گے۔

خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے اور نواصب آپ کو فاسق قرار دیتے ہیں ؛اگر جب خوارج و نواصب شیعہ سے کہیں گے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ظالم اور خلافت کے خواہاں تھے، اسی بنا پر وہ شمشیر بکف اپنے اعداء سے لڑتے تھے۔ آپ نے ہزارہا بے گناہ مسلمانوں کو تلوار کے گھاٹ اتارا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ بے بس ہوگئے۔

رفقاء کار آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے گئے،انہوں نے آپ کے خلاف خروج کیا‘[ اور آپ کو کافر قرار دے کر یوم النہروان میں آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے]۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ کوقتل کردیا۔ اگر یہ گفتگو خلاف تہذیب اور مبنی پر فساد ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں روافض کی گستاخی اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ شیعہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں جو گل افشانی کرتے ہیں اگر وہ درست اور مبنی برحق و صواب ہے تو اس کلام کے غلط ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔

شیخین کے اوصاف خصوصی:

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت بلا جبر و اکراہ لوگوں کی مرضی سے عمل میں آئی اور استحکام پذیر ہوئی تھی۔نہ آپ نے کسی کو[بیعت کی خاطر]مارا ؛ اورنہ ہی کسی پر تلوار چلائی؛نہ ہی کسی نے آپ کی نافرمانی کی ؛ او رنہ ہی کو کوئی مال دیا۔ سب لوگ نے باتفاق آپ کو خلیفہ تسلیم کیا ۔ آپ نے اپنے عزیز و اقارب میں سے کسی کو کوئی عہدہ تفویض نہیں کیا۔نہ ہی مسلمانوں کے بیت المال سے اپنے وارثوں کے لیے کوئی مال باقی چھوڑا۔ بخلاف ازیں اپنا سب اثاثہ اللہ کی راہ میں لٹا دیا؛ اور اس کا کوئی بدلہ آپ نے نہیں لیا۔ اور فوت ہوتے وقت یہ وصیت کر دی کہ گھر میں جو کچھ ہے، سب بیت المال کی نذر کر دیا جائے۔ گھر میں ایک بوسیدہ چادر، ایک لونڈی اور ایک اونٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔[1]یہاں تک حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عمر رضی اللہ عنہماسے کہا: کیا تم یہ بھی آل ابو بکر سے لے لو گے ؟ اللہ کی قسم ! ایسا ہرگز نہیں ہوگا؛ میں ابو بکر کی قسم پوری کروں گا ‘ اور اس کی قیمت میں ادا کروں گا[اور مال آل ابو بکر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جائے]۔ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں یہاں تک کہا کہ:

’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اللہ آپ پر رحم فرمائے؛ آپ نے بعد میں آنے والے امراء کو بڑی مشکل میں مبتلا کر دیا۔‘‘[2]

آپ کے عہد خلافت میں کوئی مسلمان قتل نہیں کیا گیا تھا۔اور نہ ہی کسی مسلمان نے کسی مسلمان سے جنگ کی۔ بلکہ آپ نے مسلمانوں کی معیت میں مرتدین و کفار کے خلاف جنگ لڑی تھی۔آپ کے دور میں بیرونی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب آخری وقت آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ [رفقاء کار آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے گئے،انہوں نے آپ کے خلاف خروج کیا‘[ اور آپ کو کافر قرار دے کر یوم النہروان میں آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے]۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے آپ کوقتل کردیا۔ اگر یہ گفتگو خلاف تہذیب اور مبنی پر فساد ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں روافض کی گستاخی اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ شیعہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں جو گل افشانی کرتے ہیں اگر وہ درست اور مبنی برحق و صواب ہے تو اس کلام کے غلط ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔

شیخین کے اوصاف خصوصی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت بلا جبر و اکراہ لوگوں کی مرضی سے عمل میں آئی اور استحکام پذیر ہوئی تھی۔نہ آپ نے کسی کو[بیعت کی خاطر]مارا ؛ اورنہ ہی کسی پر تلوار چلائی؛نہ ہی کسی نے آپ کی نافرمانی کی ؛ او رنہ ہی کو کوئی مال دیا۔ سب لوگ نے باتفاق آپ کو خلیفہ تسلیم کیا ۔ آپ نے اپنے عزیز و اقارب میں سے کسی کو کوئی عہدہ تفویض نہیں کیا۔نہ ہی مسلمانوں کے بیت المال سے اپنے وارثوں کے لیے کوئی مال باقی چھوڑا۔ بخلاف ازیں اپنا سب اثاثہ اللہ کی راہ میں لٹا دیا؛ اور اس کا کوئی بدلہ آپ نے نہیں لیا۔ اور فوت ہوتے وقت یہ وصیت کر دی کہ گھر میں جو کچھ ہے، سب بیت المال کی نذر کر دیا جائے۔ گھر میں ایک بوسیدہ چادر، ایک لونڈی اور ایک اونٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔[طبقات ابن سعد(۳؍۱۳۶)]یہاں تک حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عمر رضی اللہ عنہماسے کہا: کیا تم یہ بھی آل ابو بکر سے لے لو گے ؟ اللہ کی قسم ! ایسا ہرگز نہیں ہوگا؛ میں ابو بکر کی قسم پوری کروں گا ‘ اور اس کی قیمت میں ادا کروں گا[اور مال آل ابو بکر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جائے]۔ 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے بارے میں یہاں تک کہا کہ:

’’ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اللہ آپ پر رحم فرمائے؛ آپ نے بعد میں آنے والے امراء کو بڑی مشکل میں مبتلا کر دیا۔‘‘[طبقات ابن سعد(۳؍۱۳۶) ]

آپ کے عہد خلافت میں کوئی مسلمان قتل نہیں کیا گیا تھا۔اور نہ ہی کسی مسلمان نے کسی مسلمان سے جنگ کی۔ بلکہ آپ نے مسلمانوں کی معیت میں مرتدین و کفار کے خلاف جنگ لڑی تھی۔آپ کے دور میں بیرونی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب آخری وقت آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے نادرۂ روز گار تندرست و توانا ] جیسے نادرۂ روز گار تندرست و توانا اور صاحب امانت و دیانت کو اپنا قائم مقام مقرر کیا۔[[جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تقرر میں کنبہ پروری، اقربا نوازی اور دنیا طلبی کا کوئی جذبہ کار فرمانہ تھا، بلکہ مسلمانوں کی نفع رسانی کی خاطر آپ نے یہ اہم کام سر انجام دیا۔ چنانچہ آپ کی بصیرت و فراست کو سراہا گیا اور آپ کے اس بے پایاں احسان کا شکریہ ادا کیا گیا]]۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف شہر اور ملک فتح کئے، دفتر بنائے، بیت المال کو زر و مال سے بھر دیا اور لوگوں میں عدل و انصاف کو فروغ دیا۔ [[بایں ہمہ آپ اسی شاہراہ پر گامزن رہے جس پر قبل ازیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چلا کرتے تھے ، عیش پرستی اور نعمت کوشی کی زندگی سے کنارہ کش رہے، اقرباء نوازی سے احتراز کیا تاآنکہ شہادت پاکر اپنے خالق حقیقی سے جاملے]]۔

ان مسلمہ حقائق کے باوجود اگر ایک شیعہ کہے کہ یہ سب کچھ طلب دنیا اور جاہ طلبی کے جذبہ کے پیش نظر تھا اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما طالب دنیا تھے۔ تو ایک ناصبی بڑی آسانی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ [جس طرح اس جاہل نصرانی نے قسطنطنیہ میں امام باقلانی کے روبرو سیدہ عائشہ صدیقہ کی شان میں گستاخی کر کے اپنے اہل مذہب کا منہ چڑایا تھا، اسی طرح شیعہ کا یہ فعل مسلم کامل خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے باعث ننگ ہے۔ نوع انسانی میں سے چیدہ و برگزیدہ اصحاب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شیعہ کا مسلک مقابلہ و موازنہ پر مبنی ہے،حضرت علی اور ان کی اولاد کا مقام اہل سنت کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ ان کو میدان مقابلہ میں کھینچ لائیں ، جس طرح انبیاء و رسل کے متعلق ہمارا موقف حسب ارشاد ربانی: ’’ لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ ‘‘ عدم تفریق پر مبنی ہے، اسی طرح صحابہ کرام کے متعلق ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے استاد محترم (سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: تھا:’’ اَصْحَابِیْ کَالنَّجُوْمِ بِاَیِّہِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِہْتَدَیْتُمْ ‘‘ ’’ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ، تم جس کی پیروی کرو گے راہ راست کو پالو گے۔‘‘ (جامع بیان العلم لابن عبد البر(۲؍۹۱) الاحکام لابن حزم(۶؍۸۲) یہ ضعیف روایت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سلسلۃ الضعیفۃ للشیخ الالبانی،ص:۵۸)۔]کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ آپ ریاست و امارت کے خواہاں تھے اور یہی جذبہ جدال و قتال کا محرک ہوا،یہاں تک کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ آپ کبھی کفار کے خلاف صف آراء نہ ہوئے، اور کبھی ایک شہر بھی فتح نہ کیا۔اور آپ کے عہد میں مسلمانوں کے مابین شر و فتنہ کے علاوہ کسی قسم کا کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ حاصل نہ ہوا۔ 

اگر شیعہ یہ کہے کہ حضرت علی طالب رضی اللہ عنہ رضائے الٰہی کے طلب گار تھے[اور دین کے معاملہ میں مداہنت کرنے والے نہ تھے] مگر دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کوتاہی پر تھے۔یا یہ کہاجائے کہ:’’آپ مجتہد اور حق پر تھے ؛ اوردوسرے لوگ اس حالت میں خطا کارتھے۔ تو بیشک اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : ’’ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی رضائے الٰہی کے طلبگار ؛ مجتہد اور حق پر تھے ؛رافضی بدرجہ اولی ان کے حق معرفت میں کوتاہ اندیش ؛ ان کی مذمت میں خطاکار ہیں ۔ اس لیے کہ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما سے مال و دنیا کی طلب کا شبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت بہت دور کا شبہ ہے۔ خوارج جو کہ حضرت عثمان اورحضرت علی رضی اللہ عنہما کو کافر کہتے ہیں ؛ ان کا شبہ رافضیوں کے شبہ کے قریب تر ہے جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی مذمت کرتے ہیں اور انہیں کافر کہتے ہیں ۔ توپھر ان صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کے متعلق ان کا کیا نظریہ و خیال ہوگا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت سے پیچھے رہے ‘ اور ان سے برسر پیکار رہے۔خوارج کا شبہ ان لوگوں کے شبہ سے زیادہ قوی ہے جو حضرات ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم پر قدح و طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ کہیں : ہم صرف اس کی بیعت کرسکتے ہیں ‘ جو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرے ‘ ظلم سے ہمارا دفاع کرے ؛ اور ظالم سے ہمارا حق ہمیں دلائے ۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے توپھر یا تووہ عاجز ہوگا یا ظالم ؛ او رہم پر واجب نہیں ہے کہ ہم ظالم یا عاجز کی بیعت کریں ۔

یہ کلام اگر باطل ہے؛ تو جو کوئی حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو ظالم اور مال ودنیا کے طلبگار کہتا ہے ؛ اس کا کلام سب سے بڑھ کر باطل ہے۔اس میں ادنی سی معرفت و بصیرت والا انسان ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کرسکتا۔