Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا اثبات

  امام ابنِ تیمیہؒ

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان کا اثبات :

[حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیش رو بھی طلب امارت و ریاست سے پاک تھے]۔ واقعہ تحکیم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ ہر دو کو معزول کرنے اور شوریٰ سے خلیفہ منتخب کرنے میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ہم نوا تھے۔ [قضیہ تحکیم سے متعلق صحیح بات یہی ہے،حضرت ابو موسیٰ اور عمر و بن العاص رضی اللہ عنہم اس امر میں متحد الخیال تھے کہ کبار صحابہ کے مشورہ سے خلیفہ منتخب کیا جائے، (العواصم من القواصم: ۱۷۲۔۱۸۱) کے حواشی میں اس کے دلائل پیش کیے ہیں ، کتاب ہذا میں اپنے موقع پر ان عظیم حقائق کی نشاندہی کی جائے گی۔]

بتائیے: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے شبہات کو عبداللہ بن سبا اور اس کے نظائر و امثال کے شکوک سے کیا نسبت جن کا دعویٰ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ الہٰ تھے یا معصوم تھے یا نبی تھے۔

بلکہ اس شبہ کا اس شبہ سے کیا تعلق ہے جو لوگ کہتے تھے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنادیا جائے؛ اور ان لوگوں کا شبہ جو کہتے تھے کہ آپ إلہ یا نبی تھے ۔ یقیناً ایسا کہنے والے باتفاق مسلمین کافر ہیں ۔

یہ دلائل و شواہد اس حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ ایک رافضی اپنے مذہب کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عدل و ایمان ثابت نہیں کرسکتا،سوائے اس صورت کے کہ وہ اہل سنت وا لجماعت پر چلتے ہوئے ثابت کرے۔خوارج جو کہ آپ کو کافر یا فاسق کہتے ہیں ؛ اگر وہ رافضی سے کہیں : ’’ ہم یہ نہیں مانتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ مؤمن تھے۔ بلکہ آپ کافر یا ظالم تھے [معاذ اللہ ] ؛ جیسا کہ رافضی حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے متعلق کہتے ہیں ؛ تو رافضیوں کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان وعدل پر دلیل نہیں ہوگی۔ اگر کوئی دلیل پیش کرے گا تو وہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے ایمان پر زیادہ وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہوگی۔

اگر رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسلام اور ہجرت وجہاد کے اثبات میں احادیث متواترہ سے استناد کرے گا توایسی متواتر روایات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی موجود ہیں ۔بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ ؛یزید ؛ خلفاء بنی امیہ و بنو عباس کا اسلام ؛ ان کے روزے ؛ نمازیں ؛ کفار کے ساتھ جہاد بھی ایسے ہی تواتر کیساتھ ثابت ہے۔

اگر شیعہ کہے کہ صحابہ اندرونی طور پر منافق اور دین اسلام کے معاندو مخالف تھے تو ایک خارجی بڑی آسانی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نفاق کا دعوی کرسکتا ہے۔

جب کبھی کسی شبہ کا ذکر کیا جائے تو اس کے جواب میں اس سے زیادہ طاقت ور شبہ پیش کیا جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ ان جھوٹے رافضیوں نے جو باتیں گھڑلی ہیں ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ وہ کہتے ہیں :

’’ بیشک ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمااندرونی طور پر منافق تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھتے تھے؛ان سے جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے دین کو خراب کیا ۔‘‘ تو اس کے جواب میں ایک خارجی بڑے آرام سے کہہ سکتا ہے کہ : آپ اپنے چچا زاد بھائی پر حسد کرتے تھے؛[ اور اس طرح اپنے کنبہ و قبیلہ میں عداوت کے مرتکب ہوتے تھے ]علاوہ ازیں آپ دین میں فساد بپا کرنے کے خواہاں تھے۔خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں آپ ایسا نہ کرسکے ؛ یہاں تک کہ آپ نے کوشش کرکے تیسرے خلیفہ کو شہید کروادیا۔ اور جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو خون ریزی کا بازار گرم کیا ؛ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور آپ کی امت کو بغض و عداوت کی وجہ سے قتل کرنے میں حد سے تجاوز کر گئے ۔ آپ باطن میں منافقین کی محبت رکھتے تھے جو آپ کے نبی یا الہ ہونے کے دعویدار تھے۔آپ اپنے باطن کے خلاف چیز کااظہار کیا کرتے تھے۔ تقیہ و نفاق کی راہ پر گامزن ہوئے۔ جب ان لوگوں کو آگ میں جلایا تو اس پر انکار بھی کیا ۔ اس لیے کہ آپ باطن میں ان کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اسی لیے باطنیہ آپ کے پیروکاروں میں سے تھے ۔ اور آپ کے اسرار انہی کے پاس ہیں ؛ اوروہ آپ سے وہ اسرار نقل کرتے چلے آرہے ہیں جسے وہ دین سمجھتے ہیں ۔

[[ باطنیہ فرقہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے والے آپ کی جانب وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی طرح پاک ہے]]۔

اس کے جواب میں ایک خارجی بھی ایسا کلام پیش کرسکتا ہے جو لوگوں کے درمیان مشہور کردیا گیا ہو؛ بلکہ وہ اس کلام سے بڑھ کر ہوگا جو روافض نے خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے متعلق مشہور کررکھا ہے۔ اس لیے کہ خارجی شبہ کی بہ نسبت رافضی شبہ کا فاسد و بیکار ہونا زیادہ ظاہر اور واضح ہے۔جب کہ خود خوارج روافض کی بہ نسبت زیادہ صحیح[سچے] اور بامقصد لوگ ہیں ؛ اور رافضی سب سے جھوٹے اور دینی لحاظ سے فاسد لوگ ہیں ۔

اگر رافضی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایمان و عدل قرآنی نصوص سے ثابت کرنا چاہیں تو ان سے کہا جائے گا کہ قرآنی نصوص عام ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان کا شمول کسی دوسرے صحابی کے شمول سے بڑھ کر نہیں ہے۔

علی ہذا القیاس شیعہ جس آیت کو بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مختص تصور کرتے ہوں بڑی آسانی سے اس آیت کو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مخصوص قرار دیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف بغیر دلیل کے دعوی کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ، فریقین کے لیے اس کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔[دلیل کی روشنی میں ]حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کا دعوی دوسرے کسی بھی دعوی کی بہ نسبت زیادہ ممکن ہے۔

اگر شیعہ اقوال و آثار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب ثابت کریں تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں وارد شدہ آثار اکثر و اصح ہیں ۔ اور اگر شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل پر تواتر اور صحت روایات کا دعوی کریں ؛ تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں واردتواتر زیادہ صحیح تر ہے۔اوراگر شیعہ نقل صحابہ کا دعوی کریں تو حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی شان میں منقول آثار بہت زیادہ ہیں ۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ شیعہ دعوی کرتے ہیں سوائے چند افراد کے باقی تمام صحابہ مرتد ہوچکے تھے[کلینی روایت کرتا ہے کہ ابو جعفر نے فرمایا:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تین اشخاص کے سوا تمام لوگ مرتد ہو گئے تھے۔ میں نے عرض کی وہ تین کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا مقدادبن اسود، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی۔‘‘[ الروضۃ من الکافی: ۸؍ ۲۰۹۴، حدیث نمبر: ۳۴۱۔ رجال الکشی: ۱؍ ۱۸، حدیث نمبر ۱۔] شیعہ عالم تستری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہتا ہے:’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے بے شمار لوگوں کو ہدایت دی لیکن وہ آپ کی وفات کے بعد ایڑیوں کے بل پلٹ گئے۔‘‘ [احقاق الحق وازھاق الباطل: ۳۱۶۔] الجزائری نے کہا ہے کہ ابو جعفر علیہ السلام نے فرمایا: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چار افراد کے سوا تمام لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ وہ چار یہ ہیں : سلمان فارسی، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود اور عمار۔اس بات میں ذرہ برابر اشکال نہیں ہے۔‘‘[الأنوار النعمانیۃ: ۱؍ ۸۱۔] فضیل بن یسار، ابو جعفر سے بیان کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’ بے شک جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو چار افراد کے سوا تمام لوگ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے۔ وہ چار یہ ہیں : علی، مقداد، سلمان اور ابوذر۔ ‘‘ میں نے پوچھا حضرت عمار کو شمار نہیں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو بالکل تبدیل نہ ہوئے تو وہ یہی تین ہیں ۔‘‘[تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۲۳۔ حدیث نمبر: ۱۴۹ سورۃ آل عمران۔ تفسیر الصافی: ۱؍ ۳۸۹ تفسیر البرہان: ۱؍ ۳۱۹۔ بحار الأنوار: ۲۲؍ ۳۳۳۔ حدیث نمبر: ۴۶۔ باب فضائل سلمان وأبی ذر ....‘]]۔تو پھر ان کے اس قول کے مطابق ان میں سے کسی ایک کی روایت کسی صحابی کے فضائل ومناقب میں کیونکر قابل اعتماد ہوسکتی ہے۔ اور رافضیوں میں کوئی زیادہ صحابی نہیں تھے جن سے تواتر کیساتھ نقل کریں [بلکہ رافضیوں میں کوئی صحابی نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کریں ]۔

ان کے ہاں نقل روایت کے تمام طرق منقطع ہیں ۔ اگر یہ لوگ اہل سنت کی راہ پر نہ چلیں تو کوئی روایت پیش ہی نہ کرسکیں ۔ جیسے نصاری اگر مسلمانوں کی روش اختیار نہ کریں تو ان کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کو ثابت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فقیہ تھے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھے۔ یا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فقہیات کے عالم تھے اور عمر رضی اللہ عنہ فقہ سے نابلد تھے۔یا حضرت علقمہ و اسود رضی اللہ عنہماتوفقیہ تھے ؛ مگر عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ نہیں جانتے تھے۔یا اس طرح کسی چیز کے لیے وہ حکم ثابت کرنا جو اگرکم تر درجہ چیز میں ثابت کیا جائے تو اس سے بڑے درجہ میں خود بخود ثابت ہوجائے۔ یہ تناقض کا مسلک اہل علم وعدل کے ہاں ممتنع ہے ۔ [یہ ظلم و جہل کی راہ ہے اور شیعہ اسی راہ کے سالک ہیں ]۔رافضی لوگوں میں سب سے بڑے گمراہ اور جاہل ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ عیسائی لوگوں میں سب سے بڑے جاہل ہیں ۔ اور رافضی سب سے زیادہ خبیث النفس لوگ ہیں جیسے یہودی لوگوں میں سب سے بڑھ کر خبیث النفس ہوتے ہیں ۔ ان میں عیسائیوں کی گمراہی اور یہودیوں کی خباثت پائی جاتی ہے۔

[رافضی کا بیان کردہ عمر بن سعد کا قصہ ایک بد ترین قیاس ]

پانچویں وجہ : جہاں تک عمر بن سعد کی پیش کردہ مثال کا تعلق ہے جوکہ حرام مال ومرتبہ کا طلبگار تھا؛[ عبیداللہ بن زیاد نے اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے لڑنے یا اپنے منصب سے الگ ہو جانے کا اختیار دیا تھا] یہ قیاس کی بد ترین قسم ہے۔[ اس لیے کہ عمر بن سعد جاہ طلبی اور محرمات کا مرتکب ہونے میں مشہور و معروف تھا]یہ مثال پیش کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ (نعوذ باللہ من ذالک) سابقین الاولین صحابہ رضی اللہ عنہم بھی اسی کی مانند تھے۔

عمر بن سعد کے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بہت بڑے فاتح تھے تاہم امارت و ریاست سے آپ کو کوئی دلچسپی نہ تھی، جب مسلمانوں میں فتنہ پردازی کا آغاز ہوا تو آپ اپنے محل میں گوشہ نشین ہوگئے جو عقیق نامی جگہ میں واقع تھا۔آپ کا بیٹا عمر بن سعد خدمت میں حاضر ہو؛ آپ کو ملامت کرنے لگا ‘ اور کہنے لگا: ’’ لوگ سلطنت و حکومت کے بارے میں لڑ جھگڑ رہے ہیں اور آپ یہاں بیٹھے ہیں ۔‘‘

آپ بولے: ’’ اپنی راہ لیجئے! میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:

(( اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْعَبْدَ التَّقِیَّ الْخَفِیَّ الْغَنِیَّ )) [صحیح مسلم۔ کتاب الزہد۔ باب الدنیا سجن للمؤمن۔ (حدیث:۲۹۶۵)۔ ایک روایت میں جسے ان کے بھائی عامر بن سعد نے روایت کیا ہے؛ فرماتے ہیں : ان کا بھائی یعنی عمر بن سعد ؛حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا؛آپ اس وقت مدینہ سے باہر تھے۔ جب اسے دور سے آتے دیکھا تو حضرت سعد نے فرمایا:’’ میں اس سوار کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ پھر جب وہ آپ کی خدمت میں پہنچا تو عرض کی: ابا جی ! کیا آپ کو یہ بات پسند ہے کہ آپ اعرابی بن کر اپنی بکریوں میں یہاں بیٹھے رہیں ۔ اور لوگ مدینہ میں حکومت کی خاطر لڑتے رہیں ؟ تو آپ اس کے سینے میں مکا مارا؛ اورفرمایا: خاموش ہو جاؤ ؛ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:’’اﷲ تعالیٰ متقی گمنام اور بے نیاز آدمی کو پسند کرتے ہیں ۔‘‘]

’’اللہ تعالیٰ متقی گمنام اور بے نیاز آدمی کو پسند کرتے ہیں ۔‘‘

اہل شوری میں سے صرف حضرت علی اور سعد رضی اللہ عنہما باقی رہ گئے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے سر زمین عراق کو زیر نگیں کر کے کسریٰ کے لشکر کو نیچا دکھایا تھا۔ آپ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے، اور سب سے آخر میں فوت ہوئے۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے عمر بن سعد کا مشابہ قرار نہیں دے سکتے توحضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اس کی مثل کیوں کر ہوئے؟

مقام حیرت ہے کہ شیعہ کے نزدیک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کے ہم پلہ نہ تھے۔

بلکہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ ان سے بلند تر تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ محمد بن ابی بکرنے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ایذاء پہنچائی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تربیت یافتہ ہونے کی بنا پر وہ آپ کے خاص اعوان و انصار میں شمار ہوتا تھا۔[سیدنا علی نے صدیق اعظم کی وفات کے بعد ان کی بیوی کے ساتھ نکاح کر لیا تھا، محمد بن ابی بکر اسی بیوی کے بطن سے آپ کا لے پالک تھا۔ ] مگر شیعہ محمد کے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے اور لعنت تک بھیجنے سے نہیں شرماتے۔ [ہم قبل ازیں شیعہ کی معتبر کتب کے حوالہ سے تحریر کر چکے ہیں کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’الجبت‘‘ (جادوگر، شیطان) اورحضرت فاروق رضی اللہ عنہ کو ’’ الطاغوت ‘‘ (باغی، سرکش) کے القاب سے نوازتے ہیں ، جب تاریخ انسانیت میں عدل و انصاف کے ایک مثالی کردار فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو.... جن کی بدولت اسلام کا نام روشن ہوا تھا.... طاغوت کہا جاتا ہے تو باقی لوگوں کی کیا حالت ہوگی، دراصل یہ لوگ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی توہین کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ اس اسلام کی مذمت بیان کرتے ہیں ، جوان دونوں حضرات کے طفیل اکناف ارضی میں پھیلا، یہی وجہ ہے کہ شیعہ نے ایک ایسا دین گھڑ لیا ہے جس سے ابوبکر و عمر عثمان و علی ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم اور ان کے خلاف آشنا ہی نہ تھے۔ دیکھئے کتاب ’’مختصر التحفۃ الاثنا عشریۃ ۔‘‘]

اگر نواصب عمر بن سعد کے ساتھ یہی سلوک کریں یعنی قتل حسین رضی اللہ عنہ کی بنا پر اس کی مدح و ستائش کریں اس لیے کہ وہ حامیان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے تھا اور ان کا قصاص لینا چاہتا تھا۔ اس کی دوش بدوش وہ عمر بن سعد کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اس لیے برا بھلا کہیں کہ وہ عملی طور پر قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنے والوں یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے ساتھ شریک جنگ نہ ہو ئے، تو ان کے اس فعل اور شیعہ کے فعل میں کچھ فرق نہ ہوگا؛ بلکہ شیعہ کا فعل نواصب کے فعل سے شنیع تر ہوگا۔اور رافضی ان سب سے بڑھ کر برے ہونگے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتبہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بلند تر تھا۔ اس کے پہلو بہ پہلو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی قتل کیے جانے کا کم استحقاق رکھتے تھے۔ تاہم دونوں کے مظلوم اور شہید ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی بنا پر امت اسلامیہ جس فتنہ سے دوچار ہوئی وہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت عظیم تر تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سابقین اولین صحابہ میں سے تھے، آپ خلیفہ مظلوم تھے، بلا وجہ آپ سے معزول ہونے کے لیے کہا گیا تھا، جس کے لئے آپ تیار نہ تھے، آپ نے مدافعت کے لیے جنگ بھی نہ کی اور شہادت سے مشرف ہوئے۔[التعلیقات: ۵۲ تا ۱۴۷) ]

حضرت حسین رضی اللہ عنہ امیر و خلیفہ نہ تھے، البتہ خلافت کے طلب گار تھے۔ جب یہ بات مشکل نظر آئی اور آپ سے کہا گیا کہ آپ ایک قیدی کی حیثیت میں یزید کے روبرو پیش ہوں گے تو آپ نے یہ گوارا نہ کیا اور دشمن کے خلاف صف آرا ہوئے، یہاں تک کہ بحالت مظلومی شہادت سے بہرہ ور ہوئے۔[ہادت حسین کے لیے دیکھئے مقالہ محب الدین الخطیب جس کا عنوان ہے: ’’ مَنْ ہُمْ قَتَلَۃُ الْحُسَیْنِ ‘‘ (سیدنا حسین کے قاتل کون تھے؟ ) مجلہ الفتح شمارہ: ۸۵۱، محرم ۱۳۶۷ھ]

یہ واقعات اس حقیقت کی آئینہ داری کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت مظلوم تر تھے اور آپ کا صبر و حلم بھی مقابلۃً اتم و اکمل تھا۔ تاہم دونوں کا مظلوم اور شہید ہونا کسی شبہ سے بالا تر ہے، اگر کوئی شخص یوں کہے کہ حضرت علی و حسین رضی اللہ عنہما حکومت و امارت کے اسی طرح ناحق کے طلب گار تھے جیسے اسماعیلیہ میں سے الحاکم وغیرہ اور دیگر سلاطین بنی عبید۔[بنی عبید کے مذہب اور ان کی تاریخ نشو و ارتقاء کے لیے دیکھئے ہمارا مقالہ مجلہ الازہر (م ۲۵ ؍ ۵ جمادی الاول ۳۷۳اھ : ۶۱۲، ۶۳۱) مقالہ کا عنوان ہے: ’’ مَنْ ہُمُ الْعُبَیْدِیُّوْنَ‘‘] تو ایسا شخص بلا شک و شبہ دروغ گو اور مفتری ہوگا، اس لئے کہ حضرت علی و حسین رضی اللہ عنہماہمارے نزدیک اعلیٰ درجہ کے مومن تھے۔ان کی دینداری اور فضیلت مسلمہ ہے۔

جب کہ اسماعیلیہ ان کے مقابلہ میں منافق اور ملحد تھے۔ اسماعیلیہ وغیرہ کافر اورملحد ہیں ۔

علی ہذا القیاس جو لوگ حضرت علی و حسین رضی اللہ عنہما کو ان جھوٹے طلب گاران خلافت کی مثل قرار دیتے ہیں جو بنی طالب میں پیدا ہوئے یا وقتاً فوقتاً سر زمین حجاز اور دیگر بلاد و امصار میں سر اٹھا کرنا حق لوگوں کی جانیں تلف کرتے اور مال چھینتے رہے، تو کیا ایسے لوگ ظالم و کاذب نہ ہوں گے؟ یقیناً وہ جھوٹے ہوں گے۔

نظر بریں جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو عمر بن سعد کا مماثل قرار دیتا ہے، اس کا ظلم و کذب سابق الذکر سے بڑھ چڑھ کر ہے۔پھر عمر بن سعد اگر چہ نیکی کے تصور سے کوسوں دور تھا، تاہم اس کے جرم کی انتہاء یہ تھی کہ وہ گناہ کے ساتھ دنیا کا طلب گار تھا؛اور اسے اپنے اس عظیم گناہ کا اعتراف تھا۔اس طرح کے بہت سے گناہ مسلمانوں میں واقعہ ہوتے رہتے ہیں۔