کیا رسول اللہﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قلم چھین کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا تھا؟ (تحقیق)
خادم الحدیث سید محمد عاقب حسینکیا رسول اللہﷺ نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے قلم چھین کر حضرت امیرِ معاویہؓ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا تھا؟
یہ روایت ان روایات میں سے ایک ہے جو فضائل سیدنا امیرِ معاویہؓ میں گھڑی گئیں ہیں شرم نہیں آتی لوگوں کو اس روایت کو پیش کرتے ہوئے جب کہ یہ روایت سنداً متناً بالکل موضوع من گھڑت ہے اور ائمہ محدثین نے بھی اس کو موضوع قرار دیا ہے۔
روایت کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ سیدنا علیؓ نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے اتنے میں سیدنا امیرِ معاویہؓ آئے تو رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ کے ہاتھ سے قلم لے کر سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حوالے کردیا سیدنا علیؓ کہتے ہیں میں جانتا ہوں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو ایسا کرنے کا حکم دیا۔
جلال الدین سیوطیؒ نے امام ابنِ نجار کی کتاب سے اسکو باسند نقل کیا ہے:
ابن النجار: أخبرنا محمود بن أحمد بن محمد القطان وعبد الأعلى بن محمد بن محمد الأديب بأصبهان قالا: أخبرنا أبو بكر محمد بن أحمد السكری أنّ أبا مسعود سليمان بن إبراهيم الحافظ أخبره حدّثنا الشريف أبو طاهر إسماعيل بن غانم بن سليمان بن عبد القادر بن علی بن إبراهيم العثمانی المكی قدم علينا حدّثنا أبو حفص عمر بن محمد بن مهدی قراءة عليه مِن أصل كتابه حدّثنا الشريف أبو الحسن محمد بن الحسين البصري العثمانی حدّثنا أبو القاسم يوسف بن عبد الله بن يوسف حدّثنا أبو الحسن القزوينی حدّثنا أبو بكر محمد بن علی الصَّائغ بالأنبار حدّثنا نصر بن علی بن نصر الحربی حدّثنا مسرّة بن عبد الله مولى المتوكل حدّثنا كردوس بن محمد القافلانی حدّثنا يزيد بن محمد المروزی عن أبيه عن جده قال: سمعتُ علی بن أبی طالب يقول: لأُخرِجنَّ ما لمِعاويةؓ مِن رقبتج بينا أنا جالس بين يدی رسول الله ﷺ أكتبُ إذ جاء معاويةؓ بن أبج سفيان، فأخذ رسولُ اللهﷺ القلمَ مِن يدی فدفعه إلى معاوية، فما وجدتُ فی نفسی مِن ذلك، إذ علمتُ أنّ الله تعالىٰ أمره بذلك قال ابن النجار: هذا حديث منكر وأكثر رواته مجاهيل لا يُعرفون، ومسرّة مولىٰ المتوكل ذاهب الحديث، فلا يُقبل منه مثل هذا، انتهى۔
(كتاب الزيادات على الموضوعات: جلد، 1 صفحہ، 288)
امام جلال الدین سیوطیؒ نقل کرنے کے بعد خود ابن نجار کی اس پر جرح نقل کرتے ہیں ابن نجار کہتے ہیں یہ روایت منکر بمعنیٰ باطل ہے اس کی سند میں اکثر راوی مجھول ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے اور مسرۃ متوکل کا غلام گئی گزری حدیث والا ہے ہم اس سے اس قسم کی روایات قبول نہیں کرتے۔
نوٹ: یہ روایت امام جلال الدین سیوطیؒ کے نزدیک موضوع من گھڑت ہے کیونکہ آپ اس کو زیادات علی الموضوعات میں لے کر آئے ہیں جس کے مقدمہ میں آپ نے شرط لگائی ہے کہ میں اس میں وہ موضوع روایات لاؤں گا جو حافظ ابن الجوزیؒ اپنی الموضوعات میں نہیں لائے۔
أردفته بهذا الذيل موردا فيه جملة من الموضوعات التی لم يلم بذكرها۔
(كتاب الزيادات على الموضوعات: جلد، 1 صفحہ، 31)
سند کے رواۃ کی تحقیق:
اس بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس کی سند میں کئی مجاہیل ہیں جیسا کہ ابنِ نجار نے بھی صراحت کی لہٰذا بغیر ان کا ذکر کیئے اس سند میں آفت کو ذکر کرتے ہیں:
مسرة بن عبد الله مولى المتوكل یہ احادیث گھڑنے والا راوی ہے۔ اس لئے شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ اس کے ترجمہ میں بطورِ دلیل اس کی اس من گھڑت روایت کو نقل کرتے ہیں:
قلت ومن موضوعاته قال حدثنا كردوس بن محمد الباقلانی ثنا يزيد بن محمد المروزی عن أبيه عن جده قال سمعت أمير المؤمنين علياؓ يقول فذكر خبرا فيه بيننا أنا جالس بين يدی رسول اللهﷺ إذ جاء معاويةؓ فأخذ رسول اللهﷺ القلم من يدی فدفعه إلى معاويةؓ فما وجدت فی نفسی إذ علمت إن الله أمره بذلك وهذا متن باطل وإسناد مختلق۔
شیخ الاسلامؒ فرماتے ہیں میں کہتا ہوں اور اس کی موضوع روایات میں سے ایک آگے روایت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس کا متن جھوٹا ہے اور اس کی سند بناوٹی من گھڑت ہے۔
(كتاب لسان الميزان: جلد، 6 صفحہ، 20)
اسی طرح خطیب بغدادیؒ سے اس کی ایک من گھڑت روایت کو نقل کرتے ہیں:
قلت من موضعاته على أبی زرعة حدثنا سليم أن ابن حرب ثنا حماد ثنا عبد العزيز بن صهيب عن أنسؓ فی كل جمعة مائة ألف عتيق من النار إلا رجلين مبغض أبی بكرؓ و عمرؓ الحديث رواه أبو بكر بن شاذان انتهى ولفظ الخطيب هذا الحديث كذب والرجال المذكورون فی إسناده كلهم ثقات سوى مسرة والحمل فيه عليه على أنه قد ذكر أنه سمعه من أبی زرعة بعد موته بأربع سنين۔
ترجمہ: میں کہتا ہوں یہ روایت جو اس نے ابو زرعہ رازیؒ پر گڑھی ہے سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ہر جمعہ کو جہنم سے ایک لاکھ لوگ آزاد ہوتے ہیں سوائے دو آدمیوں کے جو ابوبکرؓ و عمرؓ سے بغض رکھتے ہیں۔
پھر امام خطیب بغدادیؒ کا اس کے تحت کلام نقل کرتے ہیں کہ امام خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جھوٹ ہے سارے راوی جو اس سند میں مذکور ہیں ثقہ ہیں سوائے مسرۃ کے اور اس پر بوجھ یہ ہے کہ اس نے ابو زرعہ رازیؒ سے ان کی وفات کے چار سال بعد سننے کا دعوی کیا ہے یعنی اس نے اس سند کو گھڑا ہے کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ایک بندے کے مرنے کے چار سال بعد آپ اس سے روایت سنو۔
( كتاب لسان الميزان: جلد، 6 صفحہ، 20)
امام ابن عراق الکنانیؒ نے اس کو احادیث گھڑنے والا قرار دیا:
مسرة بن عبد الله خادم المتوكل كان يضع الحديث۔
(كتاب تنزيه الشريعة المرفوعة: 324)
اسی روایت کو کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ دوسری سند سے حافظ ابنِ عساکرؒ لائیں ہیں:
أخبرنا أبو محمد طاهر بن سهل أنا أبو الحسين بن صصرى إجازة أنا أبو منصور طاهر بن العباس نا عبيد الله بن محمد السقطی نا إسحاق بن محمد بن إسحاق نا أبوبكر ابن صديق الأصبهانی نا يوسف بن يعقوب بن هارون العسكری بعسكر مكرم نا أحمد ابن إسحاق بن صالح الوزان نا يزيد بن عبد الله الطبری عن أبيه عن جده قال رأيت علیؓ بن أبی طالب يخطب على منبر الكوفة وهو يقول والله لأخرجنها من عنقی ولأضعنها فی رقابكم ألا إن خير الناس بعد رسول اللهﷺ أبو بكر الصديقؓ ثم عمرؓ ثم عثمانؓ ثم أنا ما قلت ذلك من قبل نفسي ولأخرجن ما فی عنقی لمعاويةؓ بن أبی سفيانؓ لقد استكتبه رسول اللهﷺ وأنا جالس بين يديه فأخذ القلم فجعله فی يده فلم أجد من ذلك فی قلبی إذ علمت أن ذلك لم يكن من رسول اللهﷺ وكان من الله عزوجل۔
(كتاب تاريخِ دمشق لابنِ عساكر: صفحہ، 59، 70)
اس سند کے ساتھ بھی یہ روایت موضوع ہے۔
اس کی سند میں موجود راوی إسحاق بن محمد السوسی یہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی فضیلت میں روایات گھڑنے والا ہے اس کے بارے میں امام الائمہ و المسلمین حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ لسان المیزان میں فرماتے ہیں:
(إسحاق بن محمد بن إسحاق السوسی: 1064)
ذاك الجاهل الذی أتى بالموضوعات السمجة فی فضائل معاويةؓ رواها عُبَيد الله السقطی عنه فهو المتهم بها أو شيوخه المجهولون۔
ترجمہ: یہ جاہل ہے جو سیدنا امیرِ معاویہؓ کے فضائل میں بدنما موضوعات لے کر آتا ہے اور اس سے روایت کرتا ہے عبیداللہ السقطی جو کہ خود متہم ہے یا اس کے مجھول شیوخ۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ یہ سند موضوع ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ روایت موضوع من گھڑت ہے اس کو بیان کرنا اس کی نسبت نبیﷺ کی طرف کرنا حرام ہے إلا یہ کے اس کے من گھڑت ہونے کو ظاہر کرنے کے لئے بیان کیا جائے۔
فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب:
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی۔
مورخہ 6 شعبان المعظم 1443ھ۔