شیعہ کے بیان کردہ جھوٹے اوصاف
امام ابنِ تیمیہؒشیعہ کے بیان کردہ جھوٹے اشیعہ کے بیان کردہ جھوٹے اوصافوصاف
رہا شیعہ کا ان کے یہ اوصاف بیان کرنا کہ یہ لوگ دنیاوی زیب و زینت سے منہ موڑ چکے تھے ؛ اور انہیں اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروانہیں ہوتی تھی ۔یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ زہدوقتال میں شیعہ سے پیچھے کوئی فرقہ نہیں دیکھا گیا۔ خوارج جوکہ دین اسلام سے خارج ہیں ‘ وہ زہد و جہاد میں شیعہ سے کئی گناہ آگے بڑھے ہوئے لوگ ہیں ۔ یہاں تک کہ عراق؛ الجزیرہ؛ خراسان اور مغرب میں بنو امیہ اور بنو عباس کیساتھ جنگوں میں خارجی حملوں کے لیے ضرب المثل بیان کی جاتی رہی ہے۔ ان لوگوں کے اپنے شہر پناہ ہوا کرتے تھے جہاں پر کسی دوسرے کو داخل ہونے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔
جب کہ ان مقابلہ میں شیعہ ہمیشہ مغلوب و مقہور اور شکست خوردہ رہے ہیں ۔ان پر دنیاوی محبت و حرص کی نشانیاں ظاہر رہی ہیں ۔ اسی بنا پر انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کیساتھ خط و کتابت کی۔ آپ نے پہلے اپنے چچا زاد بھائی کو [حالات معلوم کرنے کے لیے] بھیجا ؛ او ر پھر خود بھی تشریف لے آئے۔ ان لوگوں نے [خاندان اہل بیت کے ساتھ ] غدر کیا ؛ دنیا کے بدلے آخرت کو بیچ ڈالاا ور آپ کودشمن کے حوالے کردیا۔ اور دشمنوں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف جنگ لڑی۔[تو پھر خود ہی فیصلہ کریں ] ان میں کون سا زہد تھا؟ اور کونسا جہاد کررہے تھے؟ ان لوگوں کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اتنی تکالیف برداشت کرنی پڑیں جن کی حقیقت کو صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ نے شیعہ پر بد دعا کی :
’’ اے اللہ ! میں ان سے ملول ہوگیا ہوں ‘ تو انہیں مجھ سے ملول کردے ۔ اے اللہ ! مجھے ان کے بدلے میں بہتر ساتھی عطا فرما؛ اور میرے بدلے ان کو برا حکمران عطا فرما۔‘‘ [الاستعیاب ۳؍۶۱]
شیعہ حضرت کے ساتھ خیانت و غدر کے مرتکب رہتے تھے۔ آپ کو دھوکہ دیتے ؛ او ران لوگوں سے خط و کتابت کرتے جن سے حضرت برسر پیکار ہوتے ۔ آپ کے ساتھ ولایت اور اموال میں خیانت کے مرتکب ہوتے ۔ اسی لیے تو یہ لوگ رافضی کہلاتے ہیں ۔
جب کہ حقیقی شیعان علی وہ تھے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا ؛ تو اس وقت ایک گروہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حمایتی بن گیا جو شیعان عثمان کہلائے ۔ اور دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حمایتی بن گیا ؛ جو شیعان علی کہلائے۔ پہلے گروہ کے لوگ سب سے بہترین شیعہ تھے۔ جب کہ دوسرا گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں ؛ جوکہ اس دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خوشبودار پھول تھے ؛کے ساتھ سلوک و معاملات میں سب سے برے لوگ ثابت ہوئے۔ حقیقت میں اس گروہ کے لوگ[ ساری کائنات میں ] سب سے بڑھ کر ملامت کے مستحق ہیں ۔ [یہ لوگ ] فتنہ پھیلانے میں سب سے جلد باز‘ [مقابلہ کی صلاحیت میں ] سب سے عاجز ‘او راہل بیت سے محبت کااظہار کرنے والوں کو سب سے بڑھ کر دھوکہ دینے والے ہیں ۔یہاں تک کہ جب ان پر قدرت حاصل ہوگئی ؛ اورملامت کرنے والوں نے انہیں ملامت کیا تو انہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مال کو ترجیح دیتے ہوئے [حضرت مسلم بن عقیل کو ] دشمن کے سپرد کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ اہل خرد و دانش بڑے بڑے مسلمانوں ؛جیسے حضرت عبد اللہ بن عباس؛ حضرت عبد اللہ بن عمر ؛ ابو بکر بن عبد الرحمن بن الحارث؛ رضی اللہ عنہم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوچ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس لیے یہ اکابرین امت [اپنے تجربات کی روشنی میں ] جانتے تھے کہ شیعہ آپ کو ذلیل کریں گے ‘ اور آپ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے‘ اور آپ کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کریں گے۔
پھر ویسے ہی ہوا جیسے ان اکابرین کا خیال تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں حضرت عمر بن خطاب اور حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہماکی دعا قبول فرمائی ؛ اوران پر حجاج بن یوسف کو مسلط کیا۔ جو نہ ہی کسی نیک و کار کی نیکی کا خیال کرتا تھا اور نہ ہی کسی بدکار کی بدی کو معاف کرتا تھا۔ پھر اس شر کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آگئے جو حقیقت میں ان شیعہ میں سے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ شر و فتنہ عام ہوگیا۔
مسلمانوں کی وہ بڑی بڑی کتابیں عام ہیں ؛ جن میں زھاد [و عباد] کا تذکرہ ہے ۔ ان میں ایک بھی رافضی نہیں ہے ۔ اور یہ مصنفین پوری امت میں حق بات کہنے میں مشہور و معروف ہیں ۔ اور انہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی۔ان میں ایک بھی رافضی نہیں ۔ رافضی ان میں کیسے ہوسکتا ہے جب کہ روافض حقیقت میں منافقین کی جنس میں سے ہیں ۔ان کا مذہب تقیہ ہے ۔کیا جن لوگوں کو کسی ملامت گر کی پرواہ نہیں ہوتی ان کا یہ حال ہوتا ہے ؟ یہ حال تو ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے :
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ [المائدۃ ۵۴]
’’اے ایمان والو!اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) عنقریب اللہ ایسے لوگ لے آئے گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہو اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں ، مومنوں کے حق میں نرم دل اور کافروں کے حق میں سخت ہوں ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے دے۔ وہ بہت فراخی والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘