کیا غزوہ احد میں کوئی بھی صحابی بالخصوص سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ فرار ہوئے تھے؟ سیدنا علیؓ کا احد کے دن کیا کردار رہا؟
علیانکیا غزوہ احد میں کوئی بھی صحابی بالخصوص سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ فرار ہوئے تھے؟ سیدنا علیؓ کا احد کے دن کیا کردار رہا؟
جہاں ایک طرف مودوی لعنتی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کے بارے میں بکواس بکتا ہے کہ:
سود خوری جس معاشرے میں ہوتی ہے وہاں سے غلطیاں ہوتی ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں غرور تھا نفرت والے تھے کنجوس اور بخیل تھے اور سیدنا عثمانؓ ڈرپوک تھے ان سب پیٹوں میں شراب تھی اور اسی وجہ سے مسلمانوں کو غزوہ احد میں شکست ہوئی۔
(تفہیم القرآن جلد 1 صفحہ 288)۔
سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے حوالے سے جو بات پیش کی جاتی ہے کہ وہ جنگِ احد سے فرار ہوئے اسکی حقیقت ملاحظہ فرمائیں:
پہلی روایت:
حدثنا أبو بكر بن أبی دارم الحافظ بالكوفة حدثنا محمد بن عثمان بن أبی شيبة ثنا منجاب بن الحارث حدثنی علی بن أبی بكر الرازی ثنا محمد بن إسحاق بن يحيىٰ بن طلحة عن موسىٰ بن طلحة عن عائشة رضی الله عنها قالت: قال أبوبكر الصديق رضي الله عنه: لما جال الناس على رسول اللهﷺ يوم أحد كنت أول من فاء إلى رسول اللهﷺ الخ۔
ترجمہ: سیدہ اماں عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا کہ جب لوگ رسول اللہﷺ کے پاس احد کے دن آئے تو سب سے پہلے میں آپﷺ کے پاس آیا۔
(مستدرک للحاکم جلد 3 روایت 4374)۔
سب پہلی بات تو روایت سے ہی واضح ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی ملاقات کا ذکر کیا اسکے علاوہ احد کے دن جنگ سے بھاگ جانے یا فرار ہونے کا ہرگز ذکر نہیں کیا جبکہ اس روایت کو لیکر پیش ہی یوں کیا جاتا ہے کہ بھاگنے کے بعد یا فرار ہونے کے بعد سب سے پہلے سیدنا ابوبکرؓ حضورﷺ سے ملے جبکہ اس روایت سمیت جتنی روایات اس مضمون سے متعلق ہیں جتنی کتب میں آئی ہیں کسی روایت میں جنگ سے بھاگنے کے الفاظ ہی موجود نہیں وہ بقیہ تمام روایاتِ مع سند کے درج ذیل پیش کی جا رہی ہیں لیکن اس روایت کو لیکر شیعہ تو نام نہاد اہلِ سنت کے شیعت سے متاثر حضرات بھی بڑے زور و شور سے ان روایات کی بنیاد پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بھاگ جانے کا ذکر کرتے ہیں
اسکے باوجود اگر یہی مطلب لیا جاتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ جنگ سے بھاگ چکے تھے اسکے بعد ملنے والوں میں سب سے پہلے تھے تو ہم اس مطلب کو فرض کرتے ہیں تو بھی ہمیں یہ مطلب قبول نہیں کیونکہ یہ روایت اور اسی مضمون کی تمام روایات ضعیف ہیں۔
مذکورہ روایت کی سند کو دیکھا جائے:
سند کا پہلا راوی ابوبکر بن ابی دارم ہے جس کا اصل نام محمد بن احمد بن ابی دارم ہے۔
یہ راوی رافضی ہے خود حاکم نے اسے رافضی لکھا ہے حاشیہ اسی روایت کا دیکھا جا سکتا ہے۔
یہی بات میزان میں امام ذہبی نے بیان کی ہے کہ یہ رافضی ہے جس کی توثیق ثابت نہیں۔
(میزان الاعتدال جلد 1 صفحہ 297)۔
اس روایت کا دوسرا راوی محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ہے جسے امام احمد بن حنبل نے کذاب کہا۔
ابنِ خراش نے کہا حدیثیں گھڑتا تھا۔
(میزان الاعتدال جلد 6 صفحہ 254)۔
اگلا راوی محمد بن اسحاق ہے جسے مذکورہ سند میں یوں بیان کیا گیا ہے:
محمد بن اسحاق بن یحییٰ جبکہ محمد بن اسحاق بن یسار ہے اور روایت کر رہا ہے یحییٰ سے اسکی وضاحت مذکورہ روایت کے حاشیئے میں مذکور ہے۔
محمد بن اسحاق کے احوال ملاحظہ فرمائیں:
امام نسائی فرماتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہے امام ابو حاتم فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ یہ قابلِ احتجاج نہیں محدث سلیمان تمیی فرماتے ہیں کہ یہ کذاب تھا۔امام ہشام بن عروہ کہتے ہیں کہ یہ کذاب تھا
امام یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا یہ کہ وہ کذاب ہے امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ یہ دجالوں میں سے ایک دجال تھا امام مالکؒ نے اس کو کذاب بھی فرمایا ہے اس پر شیعہ اور قدری ہونے کا الزام بھی ہے۔
امام خطیب بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ ابنِ اسحاق کے بارے میں امام مالکؒ کا کلام مشہور ہے اور حدیث کا علم رکھنے والوں میں سے کسی پر مخفی نہیں ہے علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے۔
(تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 569 تا 575)۔
اگلا راوی یحییٰ بن طلحہ ہے جو کہ کذاب ہے اور خطاء کرتا ہے۔
(تہذیب التہذیب جلد 7 صفحہ 60)۔
ان راویوں کی وجہ سے یہ روایت ضعیف من گھڑت قرار پاتی ہے گویا مذکورہ روایت مردود ہے۔
دوسری روایت:
أخبرنا أبوبكر محمد بن الحسن بن فورك رحمه الله قال: أخبرنا عبد الله بن جعفر بن أحمد قال: حدثنا يونس بن حبيب قال: حدثنا أبو داؤد الطيالسی قال: حدثنا ابن المبارك عن اسحاق بن يحيىٰ بن طلحة بن عبيد الله قال: أخبرنی عيسىٰ بن طلحة عن أم المؤمنين عائشةؓ قالت: كان أبوبكر إذا ذكر يوم أحد بكى ثم قال: كان ذاك يوماً كان كله يوم طلحة ثم أنشأ يُحدث قالت: قال كنت أول من فاء يوم أحد (إلى رسول اللهﷺ) رجلاً يقاتل مع رسول اللهﷺ دونه۔
(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد 3 صفحہ 263)۔
مذکورہ روایت کی سند میں بھی پہلی روایت کے راوی موجود ہیں محمد بن اسحاق یحییٰ بن طلحہ یہ روایت بھی ان راویان کی وجہ سے مردود قرار پاتی ہے۔
تیسری روایت:
حدثنا محمد بن سعد حدثنا سعيد بن سليمان سعدويه حدثنا إسحاق بن يحيىٰ حدثنا عيسىٰ بن طلحة عن عائشةؓ أم المؤمنين عن أبی بكر رضی الله تعالى عنهما قال: كنت أول من فاء إلى رسول اللهﷺ يوم أحد۔
(جمل من انساب الاشراف للبلاذری جلد 11 صفحہ 4645)۔
مذکورہ روایت میں بھی محمد بن اسحاق اور یحییٰ موجود ہیں اس وجہ سے یہ روایت بھی مردود ہو جاتی ہے۔
چوتھی روایت:
حدثنا ابو داؤد قال حدثنا ابن المبارك عن اسحاق بن يحيىٰ بن طلحة بن عبيد الله قال اخبر فی عيسى بن طلحة عن ام المؤمنين عائشةؓ قالت كان ابو بكر رضی الله عنه إذا ذكر يوم احد بكی ثم قال ذلك كله يوم طلحة ثم انشأ يحدث قال كنت اول من فاء يوم احد۔
(مسند ابی داؤد طیالسی جلد 1 صفحہ 3)۔
یہ روایت بھی محمد بن اسحاق اور یحییٰ کی وجہ سے باطل ٹہرتی ہے۔
پانچویں روایت:
حدثنا الفضل بن سهل قال: نا شبابة بن سوار قال: نا إسحاق بن يحيىٰ بن طلحة قال: حدثنی عيسىٰ بن طلحة عن عائشة رحمة الله عليها قالت: حدث أبی قال: لما انصرف الناس عن النبیﷺ يوم أحد كنت أول من فاء إلى رسول اللهﷺ۔
(مسند البزار جلد 1 روایت 63)۔
مذکورہ روایت میں بھی محمد بن اسحاق اور یحییٰ موجود ہیں لیکن محمد بن اسحاق سے شبابہ بن سوار روایت بیان کر رہا ہے جو کی مرجئہ میں سے تھا اور عجائب بیان کرتا تھا امام احمد بن حنبلؒ نے اسے ترک کیا ہوا تھا مرجئہ ہونے کی وجہ سے ابو حاتم کہتے ہیں یہ قابلِ احتجاج نہیں۔
(تہذیب التہذیب جلد 3 صفحہ 129 تا 132)۔
مذکورہ روایت بھی مردود ٹہرتی ہے۔
ان مذکورہ اسناد کے ساتھ ہی دیگر کتب میں یہ روایت موجود ہے جو کہ ہر صورت اپنی اسناد کی وجہ سے مردود ہے۔
جبکہ اوپر تفصیل بتادی گئی کہ اس روایت کو لیکر جو دجل کیا جاتا ہے وہ بات اس مضمون میں پائی ہی نہیں جاتی سرے سے کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ سمیت دیگر اصحابِ جنگ سے بھاگے ہوں۔
اسی طرح سیدنا عمر بن خطابؓ پر یہی الزام عائد کیا جاتا ہے جن روایات کی بنیاد پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے وہ روایت ملاحظہ فرمائیں:
پہلی روایت:
حدثنا أبو هشام الرفاعی قال: ثنا أبو بكر بن عياشی قال: ثنا عاصم بن كليب عن أبيه قال: خطب عمر يوم الجمعة فقرأ ( آلِ عمران ) وكان يُعجبه إذا خطب أن يقرأها فلما انتهى إلى قوله: (إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الجمعان له قال: لما كان يوم أحد هزمناهم ففررْتُ حتىٰ صعدت/ الجبل فلقد رأيتنی أنزو كأننی أروى) والناس يقولون: قبل محمد فقلت: لا أجد أحدًا يقول: قبل محمد إلا قتلته حتىٰ اجتمعنا على الجبل فنزلت: (إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ الآية كلها)۔
اس روایت میں سیدنا عمرؓ کا اپنا بیان روایوں کی طرف سے بیان کیا جا رہا ہے کہ ہم نے احد کے دن انہیں (دشمنوں) کو شکست دی تو میں بھاگ کھڑا ہوا پہاڑی کی طرف۔
(تفسیر طبری جلد 6 صفحہ 172)۔
یہی روایت اسی سند سے کنز العمال میں موجود ہے
(کنز العمال جلد 1 روایت 4288)۔
دیگر تفاسیر میں یہی روایت مذکور ہے۔
مذکورہ روایت بھی باطل ہے۔
مذکورہ روایت کی سند میں دو راوی ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت مردود قرار پاتی ہے۔
پہلا راوی ابو ھشام الرفاعی جس کا نام محمد بن یزید ہے یہ بالاتفاق ضعیف ہے کثرت سے خطاء کرتا ہے اور مخالفت کرتا ہے۔
(تہذیب التہذیب جلد 6 صفحہ 120۔121)۔
دوسرا راوی ابو بکر بن عیاش یہ غریب روایات بیان کرتا ہے۔
(تہذیب تہذیب جلد 7 صفحہ 311)۔
اور یہ شیعہ راوی ہے جس کے احوال تشیع اسماء الرجال میں پائے جاتے ہیں اور یہ اصحابِ صادق میں سے تھا۔
(معجم الرجال للخوئی جلد 22 صفحہ 71)۔
ان راویان کی وجہ سے یہ روایت بھی مردود قرار پاتی ہے۔
دوسری روایت:
حدثنی عباس بن عبد الله الباكسائی ثنا الفيض بن اسحاق عن الفضيل بن عياض أنه قال: أتدرون من الذی يتكلم بفمه كله عمر بن الخطاب كان يكسوهم اللين ويلبس الخشن ويطعمهم الطيب ويأكل خبزاً مغلوثاً وأعطى رجلاً عطاء وزاده ألفاً فقيل له: لو زدت عبدالله بن عمر فإنه ابنك وهو لذلك مستحق فقال: هذا ثبت أبوه يوم أحد ولم يثبت أبو هذا۔
سیدنا عمرؓ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند سیدنا عبداللہؓ ہیں سیدنا عمرؓ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا اور سیدنا عبداللہؓ کا باپ (یعنی سیدنا عمرؓ) نہیں رہا تھا۔
(جمل من انساب الاشراف جلد 10 صفحہ 304)۔
یہ روایت بھی کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے
کیونکہ اس روایت کی سند میں دو راوی مجہول الحال ہیں پہلا راوی عبداللہ الباکسائی دوسرا راوی فیض بن اسحاق یہ دونوں راوی مجہول ہیں اس وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
جبکہ اسکے برعکس سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی احد کے دن موجودگی ثابت ہے ہر طرح سے جو بھاگنے والی روایات کے خلاف ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
حدثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل عن ابی إسحاق عن البراء رضی الله عنه قال: لقينا المشركين يومئذ واجلس النبیﷺ جيشا من الرماة وامر عليهم عبد الله وقال: لا تبرحوا إن رايتمونا ظهرنا عليهم فلا تبرحوا وإن رايتموهم ظهروا علينا فلا تعينونا فلما لقينا هربوا حتٰى رايت النساء يشتددن فی الجبل رفعن عن سوقهن قد بدت خلاخلهن فاخذوا يقولون: الغنيمة الغنيمة فقال عبد الله: عهد إلي النبیﷺ ان لا تبرحوا فابوا فلما ابوا صرف وجوههم فاصيب سبعون قتيلا واشرف ابو سفيان فقال: افی القوم محمد؟ فقال لا تجيبوه فقال: افی القوم ابن ابی قحافة؟ قال: لا تجيبوه فقال: افی القوم ابن الخطاب؟ فقال: إن هؤلاء قتلوا فلو كانوا احياء لاجابوا فلم يملك عمر نفسه فقال: كذبت يا عدو الله ابقى الله عليك ما يخزيك قال ابو سفيان: اعل هبل فقال النبیﷺ: "اجيبوه" قالوا ما نقول؟ قال:"قولوا الله اعلى واجل" قال ابو سفيان: لنا العزى ولا عزى لكم فقال النبیﷺ : "اجيبوه" قالوا: ما نقول؟ قال: "قولوا الله مولانا ولا مولى لكم" قال ابو سفيان: يوم بيوم بدر والحرب سجال وتجدون مثلة لم آمر بها ولم تسؤنی۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ان سے اسرائیل نے بیان کیا ان سے ابنِ اسحاق (عمرو بن عبیداللہ سبیعی) نے اور ان سے سیدنا براء بن عازبؓ نے بیان کیا کہ جنگِ احد کے موقع پر جب مشرکین سے مقابلہ کے لیے ہم پہنچے تو نبی کریمﷺ نے تیر اندازوں کا ایک دستہ سیدنا عبداللہ بن جبیرؓ کی ماتحتی میں (پہاڑی پر) مقرر فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اس وقت بھی جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آ گئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی جب دیکھ لو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے تم لوگ ہماری مدد کے لیے نہ آنا پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے سیدنا عبداللہ بن جبیرؓ کے (تیرانداز) ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت اس پر سیدنا عبداللہؓ نے ان سے کہا کہ مجھے نبی کریمﷺ نے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا (اس لیے تم لوگ مالِ غنیمت لوٹنے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہو گئے اس کے بعد ابوسفیان نے پہاڑی پر سے آواز دی کیا تمہارے ساتھ محمدﷺ موجود ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے پھر انہوں نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ ابنِ ابی قحافہ موجود ہیں؟ آپﷺ نے اس کے جواب کی بھی ممانعت فرما دی انہوں نے پوچھا کیا تمہارے ساتھ ابنِ خطاب موجود ہیں؟ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہ سب قتل کر دیئے گئے اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے اس پر سیدنا عمرؓ بے قابو ہو گئے اور فرمایا: اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے اللہ نے ابھی انہیں تمہیں ذلیل کرنے لیے باقی رکھا ہے ابوسفیان نے کہا، ہبل (ایک بت) بلند رہے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس کا جواب دو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کہو اللہ سب سے بلند اور بزرگ و برتر ہے ابوسفیان نے کہا ہمارے پاس عزیٰ (بت) ہے اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا جواب دو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کیا جواب دیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ کہو اللہ ہمارا حامی اور مددگار ہے اور تمہارا کوئی حامی نہیں ابوسفیان نے کہا آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی ہوتی ہے (کبھی ہمارے ہاتھ میں اور کبھی تمہارے ہاتھ میں) تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کا مثلہ کیا ہوا پاؤ گے میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے برا نہیں معلوم ہوا۔
(بخاری جلد 8 روایت نمبر 4043)۔
یہی مضمون دیگر کُتب میں موجود ہے بسند صحیح
مزید ملاحظہ فرمائیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس کون کون ثابت قدم رہا۔
البدایہ:
فلما عرف المسلمون رسول اللهﷺ نهضوا به ونهض معهم نحو الشعب معه أبو بكر الصديقؓ وعمر بن الخطابؓ وعلیؓ بن أبی طالب وطلحة بن عبيد اللهؓ والزبير بن العوامؓ والحارث بن الصمةؓ ورهط من المسلمين۔
حضورﷺ کے پاس سیدنا ابو بکر صدیقؓ سیدنا عمر بن خطابؓ سیدنا علیؓ بن ابی طالب سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ سیدنا زبیر بن عوامؓ سیدنا حارث بن صمۃؓ
(البدایہ والنہایہ جلد 4 صفحہ 35)۔
اس مضمون جیسی روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابو بکرؓ و سیدنا عمرؓ ہرگز ہرگز احد کے دن جنگ سے نہیں بھاگے تھے بلکہ حضورﷺ کے پاس ہی موجود تھے۔
اسی طرح کا الزام سیدنا عثمانؓ پر لگایا جاتا ہے کہ وہ احد کے دن جنگ سے بھاگ گئے تھے۔
سب سے پہلے بخاری کی وہ روایت جسے پڑھ کر اکثر لوگوں کو دھوکہ لگتا ہے اسکی حقیقت ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُؓ هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ؟ فَقَالَ: هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ قَالَ: فَمَنِ الشَّيْخُ فِيهِمْ؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَؓ قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَؓ إِنِّی سَائِلُكَ عَنْ شَیءٍ فَحَدِّثْنِی هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَؓ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ وَلَمْ يَشْهَدْ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا قَالَ: نَعَمْ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ ابْنُ عُمَرَؓ: تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِﷺ وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِﷺ: إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَؓ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُفَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِﷺ عُثْمَانَؓ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُؓ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: بِيَدِهِ الْيُمْنَى هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَؓ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ فَقَالَ: هَذِهِ لِعُثْمَانَؓ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَؓ: اذْهَبْ بِهَا الْآنَ مَعَكَ۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے ابوعوانہ نے کہا ہم سے سیدنا عثمانؓ بن موہب نے بیان کیا کہ مصر والوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ ہیں اس نے پوچھا اے سیدنا ابنِ عمرؓ! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپؓ مجھے بتائیں گے کیا آپؓ کو معلوم ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے احد کی لڑائی سے راہِ فرار اختیار کی تھی؟ سیدنا ابنِ عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا پھر انہوں نے پوچھا: کیا آپؓ کو معلوم ہے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوا تھا اس نے پوچھا کیا آپؓ کو معلوم ہے کہ وہ بیعتِ رضوان میں بھی شریک نہیں تھے جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو سیدنا ابنِ عمرؓ نے کہا کہ قریب آ جاؤ اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہیں (مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا) اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مالِ غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعتِ رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص (مسلمانوں میں سے) سیدنا عثمانؓ سے زیادہ عزت والا اور با اثر ہوتا تو نبی کریمﷺ اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے یہی وجہ ہوئی تھی کہ آپﷺ نے انہیں (قریش سے باتیں کرنے کے لیے) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعتِ رضوان ہو رہی تھی تو سیدنا عثمانؓ مکہ جا چکے تھے اس موقع پر نبی کریمﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ سیدنا عثمانؓ کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت سیدنا عثمانؓ کی طرف سے ہے اس کے بعد سیدنا ابنِ عمرؓ نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔
(بخاری جلد 5 روایت نمبر 3688)۔
سیدنا ابنِ عمرؓ نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس آیت کی طرف اشارہ کیا:
اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّ يْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ۔
(سورۃ آلِ عمران آیت نمبر 155)۔
ترجمہ: یقینا تم میں جن لوگوں نے پشت پھیر دی تھی جس روز کہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئیں اس کے سوا اور کوئی اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ ان کو شیطان نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے سبب سے اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا واقعی اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں بڑے حلم والے ہیں ۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ جنگِ احد کے دن آنحضرتﷺ نے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایک دستہ کو جن میں سیدنا عثمانؓ بھی تھے ایک بہت اہم اور نازک مورچہ پر کھڑا کر دیا تھا اور ان کو حکم دیا تھا کہ اس مورچہ کو کسی حالت میں خالی نہ چھوڑا جائے اور ہر شخص اپنی جگہ پر جما رہے مگر جب دشمن کو شکست ہو گئی اور دشمن بھاگنے لگا تو مجاہدین نے ان کا تعاقب شروع کیا دشمن کے فرار اور مجاہدین اسلام کے تعاقب کو دیکھ کر اس مورچہ پر متعین دستہ یہ سمجھا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے اور دشمن پوری طرح بھاگ کھڑا ہوا ہے اور پھر اس دستہ کے اکثر مجاہد بھی مورچہ کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب کرنے اور اس کا مالِ غنیمت اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے بھاگتے ہوئے دشمن کے ہوشیار کمانڈر جو اس مورچہ کی اہمیت کو پہلے ہی نظر میں رکھے ہوئے تھے اب انہوں نے اس کو خالی دیکھا تو اپنے فوجیوں کے ساتھ تقریباً ایک میل کا چکر کاٹ کر پیچھے سے اس مورچہ پر پہنچ گئے اور وہاں مجاہدین اسلام پر گھات لگا کر ٹوٹ پڑے عقب سے دشمن کے اس اچانک حملہ نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اور فتح مسلمانوں کے ہاتھ آ کر بظاہر چھن گئی مورچہ چھوڑ کر ہٹ جانا چونکہ رسول برحقﷺ کے حکم کی بظاہر خلاف ورزی تھی اور ان مجاہدین کی کمزوری اور کوتاہی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ وتہدید فرمائی لیکن اپنے فضل وکرم سے اس کوتاہی کو معاف بھی فرمادیا۔
پس سیدنا عثمانؓ سے عناد رکھنے والوں نے اس واقعہ کو سیدنا عثمانؓ کی تحقیر و تنقیص کا ذریعہ بنایا حالانکہ اول تو جب اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے درگزر فرما دیا تو اب دوسروں کو مواخذہ یا طعن کرنے کا کیا حق رہ گیا۔
دوسرے اس واقعہ میں صرف سیدنا عثمانؓ ہی کی ذات تو ماخوذ تھے نہیں مورچہ چھوڑنے والے سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس میں شامل تھے جب کوتاہی ہوئی تو سب سے ہوئی اور پھر معافی ملی تو سب کو ملی۔
لہٰذا تنہا سیدنا عثمانؓ کو نشانہ بنانا ویسے بھی غیر منصفانہ بات ہے۔
تمہیں بھی وہی ثواب اور حصہ ملے گا:
آنحضرتﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جنگِ بدر میں تمہارا شریک نہ ہونا چونکہ عذر اور میرے حکم کے تحت ہے اس لئے تم دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے ان لوگوں کے حکم میں سمجھے جاؤ گے جو اس جنگ میں شریک ہوں گے پس سیدنا عثمانؓ کا جنگِ بدر میں شریک نہ ہونا ان کے حق میں نقصان کا موجب ہرگز نہ ہوا اور نہ اس بنیاد پر ان کی تنقیص کرنے کا حق کسی کو پہنچتا ہے اس جنگ میں ان کی عدم شرکت ایسی ہی ہے جیسے غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضرتﷺ نے سیدنا علیؓ کو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا اور وہ اسلامی لشکر کے ساتھ تبوک نہیں گئے تھے۔
تاہم یہ بات تحقیقی طور پر معلوم نہیں ہوئی کہ آنحضرتﷺ نے جنگِ بدر کے مالِ غنیمت میں سیدنا عثمانؓ کا حصہ لگا یا تھا یا نہیں؟۔
سیدہ رقیہؓ آنحضرتﷺ کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں جنگِ بدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھیں اور آنحضرتﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ بدر میں شامل نہ ہوں بلکہ سیدہ رقیہؓ کی تیمارداری اور خبر گیری کے لئے مدینہ ہی میں رہیں آنحضرتﷺ کو سیدنا عثمانؓ سے کس قدر تعلق خاطر تھا اور ان سے آپﷺ کس قدر راضی وخوش تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دی اور پھر اس بیماری میں جب سیدہ رقیہؓ کا انتقال ہوگیا تو اپنی دوسری بیٹی سیدہ ام کلثومؓ کا بھی نکاح سیدنا عثمانؓ سے کردیا اسی سبب سیدنا عثمانؓ "ذوالنورین" کے لقب سے مشہور ہوئے اور پھر جب سیدہ ام کلثومؓ کا بھی انتقال ہو گیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی سیدنا عثمانؓ سے کردیتا۔
ایک روایت میں جس کو طبرانی نے نقل کیا ہے آپﷺ نے یہ بھی فرمایا: میں نے سیدنا عثمانؓ سے اپنی دونوں پیاری بیٹیوں کا نکاح وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم آنے پر کیا تھا ۔
سیدنا عثمانؓ کو مکہ روانہ کیا "سیدنا عثمانؓ کو اس مشن پر روانہ کیا گیا تھا کہ وہ آنحضرتﷺ کی طرف سے اہلِ مکہ سے گفتگو کریں اور ان کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ آنحضرتﷺ اور مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے نہ روکیں جن مصالح کو سامنے رکھ کر اس مشن کے لئے سیدنا عثمانؓ کا انتخاب ہوا تھا وہ درست ثابت ہوئے مکہ میں اسلام اور اہلِ اسلام کے معاندین و مخالفین کو سیدنا عثمانؓ کے خلاف کسی ایسے اقدام کی جرأت نہیں ہوئی جس سے بعض صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خطرہ کا اظہار کیا تھا سیدنا عثمانؓ کے اعزاء اور متعلقین نے مکہ میں ان کی آمد کی اطلاع پاکر ان کا پر تپاک استقبال کیا سواری پر بٹھا کر ان کو اپنے آگے کیا اور جلوس کی شکل میں لے کر چلے ان سب لوگوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ سیدنا عثمانؓ ہمارے معزز مہمان اور ہماری پناہ میں ہیں کوئی ان سے تعرض کی جرأت نہ کرے نہ صرف یہ بلکہ ان لوگوں نے سیدنا عثمانؓ سے کہا کہ تم عمرہ کی نیت سے خانہ کعبہ کا طواف بھی کر سکتے ہو تمہیں کوئی نہیں منع کرے گا مگر سیدنا عثمانؓ نے ان کی اس پیش کش کو شکریہ کے ساتھ رد کر دیا اور فرمایا نہیں میں آنحضرتﷺ کے بغیر اور آپﷺ کی عدم موجودگی میں تنہا طواف ہرگز نہیں کروں گا۔
سیدنا عثمانؓ کے مکہ جانے کے بعد:
یعنی بیعتِ رضوان کا واقعہ سیدنا عثمانؓ کی موجودگی میں پیش ہی نہیں آیا تھا کہ ان میں ان کی شرکت یا عدمِ شرکت کی بحث کھڑی ہوئی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب سیدنا عثمانؓ مکہ پہنچ گئے اور وہاں مصالحتی گفتگو شروع ہوئی تو اس نے طول کھینچا اور سیدنا عثمانؓ کی واپسی میں تاخیر ہو گئی اس سے مسلمانوں میں بے چینی تو پیدا ہو ہی گئی تھی مستزاد یہ کہ کہیں سے یہ خبر آکر مشہور ہو گئی کہ نہ صرف سیدنا عثمانؓ کا مصالحتی مشن ناکام ہو گیا ہے بلکہ اہلِ مکہ اس حد تک آمادہ شر ہیں کہ وہ اپنا لشکر جمع کر کے مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے حدیبیہ کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ایک یہ خبر بھی آئی کہ سیدنا عثمانؓ کو اہلِ مکہ نے قتل کر دیا ہے اس پر آنحضرتﷺ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دشمنانِ دین کے مقابلہ کی تیاری شروع کردی آپﷺ نے ایک درخت کے نیچے ایک ایک مسلمانوں سے یہ بیعت لی کہ کوئی یہاں سے بھاگے گا نہیں بلکہ اپنی جان گنوا کر بھی دشمن کا مقابلہ کرے گا اور اگر سیدنا عثمانؓ واقعۃً قتل کردئیے ہیں تو ان کے خون کا بدلہ لے گا اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ یعنی سیدنا عثمانؓ کے بارے میں اگر تم مجھ سے کچھ معلومات جمع کر کے لے جانا جاہتے ہو تو میری ان باتوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ تمہارے سوالات اور میرے جواب اگر کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تو تمہیں ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ کہ ہمیں یاان الفاظ سے سیدنا ابنِ عمرؓ کی مراد یہ تھی کہ: اگر تم حق کے متلاشی اور سچائی جاننے کے خواہش مند ہو تو میں نے تفصیلی طور اب جو حقائق تمہارے سامنے بیان کئے ہیں ان کو پلے باندھ لو اور دل و دماغ میں رکھ کر لے جاؤ اور سیدنا عثمانؓ کے حق میں جو برے خیالات اور بدگمانیاں رکھتے ہو ان سے اپنا ذہن پاک وصاف کرلو۔
اس روایت معلوم ہوجاتا ہے کہ سیدنا عثمانؓ پر لگائے جانا والا الزام بھی بے بنیاد ہے۔
آئیے سبائیت کے گھر سے گواہی ملاحظہ فرمائیں:
سبائیت کے مصادر و ماخذ کیا کہتے ہیں اس حوالے سے طبرسی لکھتا ہے کہ:
اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اپنی معافی کا دوبارہ ذکر اس لیئے فرمایا کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی معافی کی شدید خواہش تھی اور اس لیئے بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نا امیدی سے نجات مل جائے او اس کے علاوہ مومنوں کے ظن کی تحسین کے لئے ایسا کیا بے شک اللہ بخشنے والا بردبار ہے اس اور کا معنیٰ گزر چکا ہے ابو القاسم البلخی نے ذکر کیا ہے کہ میدانِ احد میں حضورﷺ کے ساتھ صرف تیرہ افراد رہ گئے تھے۔
پانچ مہاجر اور آٹھ انصار مہاجر پانچ یہ تھے سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ۔
(مجمع البیان جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 338)۔
ابو الفتح اربلی لکھتا ہے کہ:
آپ حضورﷺ کے ساتھ چودہ (14) حضرات ثابت قدم رہے سات مہاجرین میں سے اور سات انصار میں سے تھے
مہاجرین سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ سیدنا علیؓ بن ابی طالب سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سیدنا طلحہؓ سیدنا عبیدہ بن الجراحؓ اور سیدنا زبیر بن العوامؓ تھے۔
اور انصار میں سے سیدنا حبابؓ بن مندر سیدنا ابو دجانہؓ سیدنا عاصم بن ثابتؓ سیدنا حارثؓ بن صمد سیدنا سہیلؓ بن حنیف سیدنا اسیدؓ بن حضیر اور سیدنا سعد بن معاذؓ تھے۔
(کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ جلد 1 صفحہ 358)۔
تفسیر عیاشی اور تفسیر صافی میں بھاگنے والوں کو اصحابہ عقبہ کہا گیا ہے نہ کسی صحابی کو شمار کیا گیا ہے۔
(تفسیر عیاشی جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 225)۔
(تفسیر صافی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 174)۔
سبائیت کے مصادر و ماخذ بھی اصحابِ رس کا نام بتانے سے قاصر ہے جبکہ اسکے باوجود سبائیت سمیت مودودیت اور نام نہاد اہلِ سنت کے ویڈیو میں موجود جیسے خطیب ایسی بکواسیات بک جاتے ہیں جبکہ سبائیت کے مصادر سیدنا علیؓ کی شان میں کیا بکواس بکتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا علیؓ سے جب حضورﷺ نے پوچھا کہ آپ کہاں تھے تو سیدنا علیؓ نے کہا کہ میں اس وقت زمین سے چت ہو کر لیٹ گیا تھا۔
(تفسیر عیاشی جلد 1 صفحہ 183)۔
ملاحظہ فرمائیں کہ ایک طرف سبائیت خلفائے ثلاثہؓ کے خلاف کیا ڈھنڈورا پٹتی پھرتی ہے تو خود انکے مصادر سیدنا علیؓ کے حوالے سے کیا بکواس بکتے ہیں۔
اوپر مذکور تمام تر تفصیلات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ جنگ سے راہِ فرار کسی صحابی نے نہیں کی البتہ جو جتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام پیش کیئے جاتے ہی وہ صرف و صرف اپنے متعین مقام سے ہٹ گئے تھے وہ بھی دشمن کو بھاگتا دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ مسلمانوں کو اب فتح حاصل ہو چکی یہ ہٹنا جنگ سے راہِ فراری ہرگزہرگز نہ تھی اسی ہٹنے کو فرار ہونے سے جوڑنا انتہائی درجے کی احمقانہ سوچ و نظریہ ہے۔