تیسری فصل اداء صدقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انفرادیت
امام ابنِ تیمیہؒتیسری فصل
اداء صدقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انفرادیت
[شبہ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ حضرت علیؓ نے آیت کریمہ:﴿اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْابَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً﴾ (المجادلہ:۱۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم پیغمبر سے سرگوشی (کرنے کا ارادہ)کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دو۔‘‘کے بارے میں فرمایا کہ ’’ اس آیت پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔اور اس آیت میں وارد حکم سے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے اس امت پر تخفیف کردی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: عرض ہے کہ صدقہ مسلمانوں پر واجب نہ تھا، جس کو ترک کرنے سے وہ گنہگار کہلاتے۔ البتہ جو شخص نبی کریمﷺ سے کوئی راز کی بات بیان کرنا چاہتا ہو اسے صدقہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت صرف علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرنا چاہا اور حکم الٰہی کی تعمیل میں صدقہ ادا کیا۔[مستدرک حاکم(4822)۔تفسیر ابن کثیر میں ہے: حضرت علیؓ سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کرسکا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھنا کر میں نے دس درہم لے لیے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دیدیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت علی سے پوچھا کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہئے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:’’ یہ تو بہت ہوئی۔‘‘ فرمایا:’’ پھر آدھا دینار کہا ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر؟ فرمایا:’’ ایک جو برابر سونا آپ نے فرمایا واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو، حضرت علیؓ فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کردی، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے، حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں مسلمان برابر رسول اللہﷺ سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوٰۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا، آپ فرماتے ہیں صحابہ نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کر دیئے جو رسول اللہﷺ پر گراں گزرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کردی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کردی اور اس حکم کو منسوخ کردیا، عکرمہ اور حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، حضرت قتادہ اور حضرت مقاتل بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت قتادہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا حضرت علیؓ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کرسکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہوگیا۔] صدقہ کی یہ ادائیگی بعینہٖ یوں ہے جیسے حج تمتع کرنے والے پر یا جس شخص کو اداء حج سے روک دیا جائے اس پر قربانی واجب ہے۔ اسی طرح جو شخص کسی تکلیف کی بنا پر حالت احرام میں سر منڈوانے پر مجبور ہو جائے اس پر فدیہ ؛ یا روزہ ؛یا صدقہ کرنا واجب ہے۔ یہ آیت حضرت کعب بن عجرہؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی کریمﷺ کا گزر آپ کے پاس سے ہوا ‘ تو آپ اپنی ہانڈی کے نیچے آگ جلانے کے لیے پھونکیں مار رہے تھے ؛ اور آپ کے سر میں جؤوں کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہو رہی تھی[تو آپ کو حکم دیاگیا کہ سر کے بال منڈوا دیں اور اس کی جگہ صدقہ کردیں ]۔ جیسے مریض یا مسافر کو بعد کے ایام میں روزے رکھنے کا حکم ہے ؛ اور جس طرح قسم توڑنے والے پر کفارہ واجب ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے ‘ یا انہیں کپڑا پہنائے یا پھر ایک غلام کو آزاد کرے۔اور جس طرح یہ حکم ہے کہ جو کوئی نماز کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے ؛ اور جس طرح یہ حکم ہے کہ جو کوئی قرآن پڑھنا چاہتا ہو‘ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لے۔ اس طرح کی مثال بہت زیادہ ہیں ۔
٭ ان آیات میں حکم شرط کے ساتھ معلق ہے ۔جب یہ شرط صرف ایک ہی آدمی میں پائی جائے تو اس کے علاوہ کسی اور انسان پر اس حکم کو بجالانا واجب نہیں ہوگا۔یہی عالم اس آیت کا بھی ہے ۔ اس لیے کہ اس کے منسوخ ہونے سے قبل کسی ایک نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی راز دارانہ بات نہیں کی سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛اس لیے اس آیت پر عمل نہ کرنے پر کسی مؤمن پر کوئی حرج باقی نہ رہا۔ پس اس طرح کی چیزیں ائمہ کی خصوصیات میں سے نہیں ہوسکتیں ۔اور نہ ہی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خاصیت ہے۔اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت علیؓ کے علاوہ باقی لوگوں نے بخل کی وجہ سے راز داری کی بات نہ کی ؛ اس لیے کہ ایسا کرنا صحابہ کرامؓ کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا۔ اس پر مزید یہ کہ مشورہ سے پہلے صدقہ دینے کا حکم تادیر باقی نہ رہا۔اور اس مدت میں کسی کو سرگوشی کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔[اور اتفاقاً حضرت علیؓ ہی نے وہ درہم یا اس سے کم و بیش خرچ کرکے اس پر عمل کیا]۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ یہ حکم بعض لوگوں کے لیے خاص تھا ‘ تو اس سے لازم نہیں آتا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں سے ہوں ۔ اور یہ ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے جب کہ حضرت صدیقؓ کے جذبہ جودو سخا کا یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [غزوہ تبوک کے موقع پر] انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو آپ نے سارا مال اللہ کی راہِ میں دیدیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے گھر کا آدھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا؛ انہیں کسی سرگوشی کی کوئی ضرورت ہی نہ پڑی تو پھر ان میں سے کسی ایک سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی سر گوشی کرنے سے پہلے دو یا تین درہم صدقہ کرنے سے بخل کرتا؟
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں : میں نے سنا حضرت عمرؓ فرما رہے تھے :
’’ہمیں رسول اللہﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا۔پس اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی مال تھا؛میں نے کہا: اگر کوئی موقع جناب ابو بکرؓ پر سبقت لے جانے کا ہے تو وہ آج کا دن ہے۔ تو میں اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آ گیا ۔
رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا: ’’ اے عمر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟‘‘
میں نے عرض کیا : ’’اتنا ہی مال اپنے گھر والوں کے لیے بھی چھوڑ آیا ہوں ۔‘
حضرت ابو بکرؓ رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لے کر آ گئے ۔
تو رسول اللہﷺ نے آپ سے دریافت کیا کہ اے ابو بکر ! گھر میں کیا چھوڑا؟
تو حضرت صدیق اکبرؓ نے جواباً فرمایا: ’’ اللہ اور اس کے رسول کو گھر والوں کے لیے باقی چھوڑ دیا ہے ۔‘‘
تو میں نے کہا : میں کبھی بھی ابو بکرؓ پر بازی نہیں لے سکتا ۔‘‘[البخاری 12،2۔سنن ابی داؤد۔ کتاب الزکاۃ، باب الرخصۃ فی ذلک (ح:1678)، سنن الترمذی۔ کتاب المناقب (ح:3675)۔]
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے اللہ کا رسول بس