مسجد و امام باڑہ کو دوسرے کے نام وقف کرنے کا حکم
مسجد و امام باڑہ کو دوسرے کے نام وقف کرنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے یہاں کافی پہلے قطعہ آراضی پر مسجد اور اس کے کچھ حصہ پر امام باڑہ موجود تھا لیکن حوادث زمانہ کی وجہ سے اس جگہ مسجد اور امام باڑہ دونوں کا وجود ختم ہو گیا، جو شخص اصلاً اس زمین کا مالک تھا وہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے انتقال سے قبل زبانی طور پر مسجد اور امام باڑہ دونوں کی زمین کو مدرسہ کے نام پر وقف کر دیا تھا اور وہ خالی جگہ واقف کی وصیت کے مطابق مدرسہ کے نام پر گاؤں کی کمیٹی کے تحویل میں تھی، ابھی چند سال قبل ناظم کمیٹی نے بغیر کسی سے صلاح و مشورہ کئے از خود اس زمین کو ایک مسلمان کے ہاتھ سستے دام میں فروخت کر دی، جسے اب وہ جانور وغیرہ باندھنے کے کام میں لا رہا ہے، واضح رہے کہ جس نے اس زمین کو خریدا ہے وہ کمیٹی کے سابق صدر تھے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مسجد اور امام باڑہ کی زمین کے سلسلے میں دوسرے کیلئے مالک زمین کی وصیت درست ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ناظم کمیٹی دوسرے ممبران کے مشورہ کئے بغیر زمین کی فروختگی کر سکتا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر وصیت درست نہیں اور زمین کا موجودہ مصرف بھی غلط ہے تو پھر اس زمین کو کس مصرف میں لایا جائے؟ واضح رہے کہ مذکورہ مقام سے چند قدم کے فاصلہ پر گاؤں کی جامع مسجد واقع ہے۔
جواب: جس قطہ آراضی پر مسجد بنائی گئی تھی گو عمارت منہدم ہو گئی لیکن اس قطعہ اراضی کا تعلق مع اللّٰه: منہدم نہیں ہوا ہے، چاہے بغل میں جامع مسجد ہی کیوں نہ بن جائے۔ لہٰذا اس جگہ پر مسجد بنائی جائے اور اس کی آبادی کی فکر کی جائے، اس قطعہ آراضی کی وصیت کسی اور کام کیلئے جائز نہیں، اور نہ اس کا فروخت کرنا جائز ہے، ہاں البتہ امام باڑہ کی جب ضرورت ختم ہو چکی ہے تو اس جگہ پر مدرسہ ضرور بنا لیا جائے اور اس کے بارے میں وصیت بالکل درست ہے۔ جس نے یہ زمین خریدی ہو وہ اپنا پیسہ واپس لے کر زمین کو واپس کر دے ممبران یا کسی ممبر کو اس طرح کے تصرف سے قبل شرعی حکم معلوم کر لینا چاہیے تھا۔
(حبیب الفتاویٰ جلد 5، صفحہ180)