Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

فصل:....کعب قرظی کی روایت اور شیعہ کا شبہ

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....کعب قرظی کی روایت اور شیعہ کا شبہ

[شبہ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ محمد بن کعب القرظی روایت کرتے ہیں کہ طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس و علی رضی اللہ عنہم باہم فخر کرنے لگے۔طلحہ نے کہا: میں کعبہ کا کنجی بردار ہوں ، اگر چاہوں تو کعبہ ہی میں رات بسر کرلوں ۔عباسؓ نے فرمایا: میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں اگر چاہوں تو مسجد ہی میں رات بسر کرلوں ۔حضرت علیؓ  نے فرمایا: مجھے پتہ نہیں تم لوگ کیا کہتے ہو؛ میں نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ رو ہو کر نماز ادا کی ہے اور میں صاحب جہاد بھی ہوں ۔اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (التوبۃ:۱۹)’’ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں ہوسکتے؛ بیشک اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی][جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ روایت حدیث کی قابل اعتماد کتب میں موجود نہیں ، بلکہ بوجوہ اس کا کاذب ہونا ظاہر ہوتا ہے: ¹۔ اس کے جھوٹ ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ طلحہ بن شیبہ نامی کوئی شخص نہیں ۔ خادم کعبہ کا نام شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ[یہ عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کے چچا زاد بھائی تھے جو مکہ سے سیدنا خالد بن ولید کی معیت میں عازم مدینہ ہوئے مقام’’ الہدء ۃ‘‘ میں مکہ و عسفان کے درمیان سیدنا عمرو بن العاصؓ سے ملاقات ہوئی۔یہ تینوں حضرات بیک وقت دولتِ اسلام سے مالا مال ہوئے۔(سیرۃ ابن ہشام:484)، مستدرک حاکم:3؍297۔298) شیبہ غزوۂ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ حنین میں دھوکہ دے کر سرور کائناتﷺ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے دستِ مبارک شیبہ کے سینے پر رکھا اور فرمایا :’’ شیطان دفع ہو‘‘ نتیجہ کے طور پر شیبہ مسلمان ہو گئے۔(سیرۃ ابن ہشام:565) اور آپ سے مل کر کفار سے لڑے اور حوادث و آلام میں صبر و تحمل کا ثبوت دیا، جب مکہ فتح ہوا تو آپ نے کعبہ کی کنجی عثمان بن طلحہ اور ان کے چچا زاد بھائی شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ کو دے کر فرمایا:’’ ابوطلحہ کے بیٹو! ہمیشہ کے لیے یہ کنجی لے لو، کوئی ظالم شخص ہی تم سے یہ کنجی واپس لے گا ۔‘‘ سیرۃ ابن ہشام (صفحہ: 549) اسد الغابہ:(3؍599۔600)کعبہ کی کنجی آج تک قبیلہ بن عبد الدار کے اسی کنبہ کے قبضہ میں چلی آتی ہے۔ ان کو ’’الشیبیین‘‘ کہا جاتا ہے۔] ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔

²۔ دوسری دلیل حضرت عباسؓ  کا یہ قول ہے کہ ’’اگر میں چاہوں تو مسجد میں رات بسر کروں ‘‘ مسجد میں رات بسر کرنا کون سی بڑی بات ہے کہ اس پر خوشی کا اظہار کیا جائے۔³۔ تیسری دلیل حضرت علیؓ  کا یہ قول ہے کہ ’’میں نے لوگوں سے چھ ماہ پیشتر کعبہ رو ہو کر نمازیں پڑھیں ۔‘‘ اس قول کا باطل ہونا ضرورت کے تحت معلوم ہے۔ وجہ بطلان یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے اور حضرت ابوبکر و خدیجہ و زید رضی اللہ عنہم کے اسلام میں صرف ایک دن یا اس کے لگ بھگ کا فرق پایا جاتا ہے۔ پھر یہ بات کیونکر درست ہو ئی کہ آپ نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے نمازیں ادا کی تھیں ۔⁴۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے آپ کو ’’صاحب الجہاد‘‘ کہا ہے، حالانکہ اس خصوصیت میں کثیر تعداد میں دوسرے صحابہؓ بھی آپ کے ساتھ برابر کے سہیم و شریک تھے۔ان دلائل کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ یہ حدیث موضوع [من گھڑت]ہے۔ جب کہ صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے جو حدیث مروی ہے وہ اس کی تردید کرتی ہے۔ حضرت نعمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ میں منبر نبوی کے پاس بیٹھا تھا۔ اسی دوران ایک شخص نے کہا:’’ میں اسلام لانے کے بعد کوئی کام نہ بھی کروں تب بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے ۔‘‘دوسرے نے کہا: میں مسجد حرام کو آباد کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔‘‘تیسرے نے جہاد کا ذکر کیا اور کہا کہ :یہ ان دونوں سے افضل ہے۔حضرت عمر فاروقؓ نے یہ سن کر انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ جمعہ کے دن منبر نبوی کے نزدیک یہ شوروغل موزوں نہیں ۔ البتہ میں جمعہ سے فارغ ہو کرمیں نبی کریمﷺ سے تمہارے اختلافی مسائل کا حل دریافت کروں گا۔ تب مندرجہ ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی:﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ:۱۹)’’ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟‘‘ [صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ(حدیث:1879)]

﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ﴾ [التوبۃ ۲۰]’’ جو لوگ ایمان لائے، ہجرت سے مشرف ہوئے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا، تو یہ لوگ بلاشبہ اللہ کے نزدیک عالی مرتبت ہیں ۔‘‘اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ کا مال و جان سے جہاد حضرت علیؓ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بڑھ کر تھا۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے۔نبی کریمﷺ  نے فرمایا:’’ مجھ پر حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ کے احسانات باقی سب لوگوں سے زیادہ ہیں ۔‘‘[صحیح بخاری ۔ کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ  ، باب قول النبیﷺ ’’ سدوا الابواب ....‘‘ (ح:3654) صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق، (حدیث:2382)]

آپ نے یہ بھی فرمایا:’’ کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا حضرت ابوبکرؓ کے مال سے پہنچا ہے ۔‘‘[سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب (15؍34)،(حدیث:۳۶۶۱)۔: سنن ابنِ ماجہ:۱؍۳۶، المقدمِۃ، باب فِی فضائِلِ أصحابِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم، باب فضلِ أبِی بکرِ الصِدِیقِ رضِی اللّٰہ عنہ، ونصہ: ما نفعنِی مال قط ما نفعنِی مال أبِی بکر۔ قال: فبکی أبو بکر، وقال: یا رسول اللّٰہِ، ہل أنا ومالِی ِإلا لک یا رسول اللّٰہِ؟ فِی المسندِ ط۔ المعارِفِ: 13؍ 183، وصحح الشیخ أحمد شاکِر رحِمہ اللہ الحدِیث وخالف تضعِیف البوصیرِیِ لہ فِی زوائِدِہِ، وصححہ الألبانِی أیضا فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ:5؍190]

حضرت ابوبکرؓ  سیف و سنان و زوربیان دونوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا کرتے تھے۔آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔ ابوبکرؓ اوّلین شخص تھے، جن کو اللہ کی راہ میں نبی کریمﷺ  کے بعد لا تعداد حوادث وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ پہلے شخص تھے جو نبی کریمﷺ کی حفاظت کے سلسلہ میں اعداء دین کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔ ہجرت و جہاد میں نبی کریمﷺ  کے رفیق رہے، اس کی حد یہ ہے کہ غزوۂ بدر میں سائبان کے نیچے آپ کے سوا اور کوئی نہ تھا۔[3سیرۃ ابن ہشام(صفحہ:300)]

ابوسفیان نے غزوہ ٔ احد کے دن صرف نبی کریمﷺ اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں دریافت کیا تھا ۔ ابوسفیان نے جب پوچھا کہ کیا محمد موجود ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: اسے جواب نہ دو۔پھر اس نے پوچھا کیا ابوبکرؓ  ہیں ؟آپ نے جواب دینے سے منع کیا۔ابوسفیان پھر بولا:کیا عمرؓ ہیں ؟ آپ نے پھر بھی جواب دینے کی اجازت نہ دی۔ابوسفیان کہنے لگا۔ ان سب کا خاتمہ ہو چکا ہے۔تو حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا تو بولے اللہ کے دشمن ! تو جھوٹ کہتا ہے یہ سب زندہ ہیں [صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوۃ احد،(حدیث:4043۔3039)۔]اور اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے ایسے لوگ باقی رکھے ہیں جو تجھے رسوا کریں گے۔ یہ واقعہ امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے ۔