چھٹی فصل بیت اللہ سے بت توڑنے کی روایت
امام ابنِ تیمیہؒچھٹی فصل
بیت اللہ سے بت توڑنے کی روایت
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’یزید بن ابی مریم حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور نبی کریمﷺ کعبہ میں آئے پھرآپﷺ میرے کندھے پر سوار ہوئے۔ میں نے اٹھنا چاہا مگر نہ اٹھ سکا۔ آپ میری کمزوری دیکھ کر اتر آئے پھر آپ بیٹھے اور میں آپ کے کندھے پر سوار ہو گیا۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں خانہ کعبہ پر چڑھ گیا۔ کعبہ پر تانبہ کی ایک مورتی تھی۔ میں نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئی۔ پھر ہم بھاگنے لگے: یہاں تک کہ ہم گھروں میں نظروں سے اوجھل ہو گئے؛ ہمیں خوف تھاکہ کہیں لوگ ہمیں پکڑنہ لیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ بشرط صحت[مسند احمد(1؍84)۔ مستدرک حاکم(2؍366۔367، 3؍5) من طریق ابی مریم عن علی ۔ و ابو مریم الثقفی ھو مجہول۔ وقال الذہبی۔ اسنادہ نظیف والمتن منکر۔‘‘ اس واقعہ میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی جو ائمہ و خلفاء کے خصائص میں شمار ہونے کے قابل ہو۔ احادیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ حالت نماز میں امامہ بنت ابی العاص کو اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ [صحیح بخاری ۔ کتاب الصلاۃ باب اذاحمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ‘‘ (حدیث: 516)، صحیح مسلم ، کتاب المساجد۔ باب جواز حمل الصبیان فی الصلوۃ(حدیث: 543)۔] جب آپ سجدہ کرتے تو اسے نیچے چھوڑ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔
٭ ایک دفعہ حالت سجدہ میں حضرت حسنؓ آ کر آپ پر سوار ہو گئے[سنن نسائی، کتاب التطبیق ۔ باب ھل یجوز ان تکون سجدۃ أطول من سجدۃ (ح:1142)]تو آپ نے سجدہ لمبا کردیا۔پھر بعد میں آپ نے فر مایا: ’’ میرے بیٹے کی وجہ سے مجھے سجدہ لمبا کرنا پڑا۔[رواہ النسائي 2؍182؛ أحمد 3؍493]
جب آپ ایک لڑکے اور لڑکی کو اٹھا سکتے ہیں ۔ تو حضرت علیؓ کو اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آپ کی کوئی خصوصیت ہے۔بلکہ اس معاملہ میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک ہیں ۔ جبکہ آپ نے حضرت علیؓ کو اس لیے اٹھایا کہ حضرت علیؓ نبی کریمﷺ کو اٹھانے سے قاصر تھے۔
٭ بنا بریں اس واقعہ کو مناقب رسولﷺ میں شمار کرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس پر مزید یہ کہ جو شخص نبی کو اٹھاتا ہے وہ اس سے افضل ہے جو نبی پر سوار ہو۔ جیسے طلحہ بن عبید اللہ نے غزوۂ احد میں نبی کریمﷺ کو اٹھایا تھا ۔[سنن ترمذی۔ کتاب المناقب ، باب مناقب ابی محمد طلحہ بن عبید اللّٰہ، (حدیث:3738) قال التِرمِذِی: ہذا حدِیث حسن صحِیح غرِیب،والحدِیث فِی المسندِ ط۔المعارِفِ:3؍21 وصححہ أحمد شاِکر رحِمہ اللّٰہ، سیرۃ ابن ہشام:3؍91۔ ]ظاہر ہے کہ جس شخص نے نبیﷺ کو اٹھایا اس نے نبی کو فائدہ پہنچایا اور جو نبی پر سوار ہوا اس نے نبیﷺ سے فائدہ حاصل کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ نبی کو فائدہ پہنچانے والا نفع حاصل کرنے والے کی نسبت بہت زیادہ افضل ہے۔