Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل علماءاحناف کی نظر میں

  محمد ابراھیم ربانی

امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل علمائے احناف کی نظر میں

امام ترمذیؒ کا مقام و مرتبہ کسی بھی ذی علم سے اوجہل نہیں، امام صاحبؒ کا شمار ان بابرکت شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی حدیثِ رسول کی خدمت میں گزاری، دیگر ائمہ حدیث امام بخاریؒ، امام علی بن مدینیؒ، امام احمدؒ، امام مسلمؒ وغیرہم کی بنسبت امام ترمذیؒ روات پر حکم لگانے میں متساہل نرم سمجھے جاتے ہیں، محدثین نے ان کی منفرد توثیق کا اعتبار نہیں کیا۔

جیساکہ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:

فلهذا لا يعتمد العلماء على تصحيح الترمذی۔

اسی کثیر بن عبداللہ المزنی وامثالہ کی توثیق کرنے کی وجہ سے علماء امام ترمذیؒ کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔

(میزان الاعتدال: جلد، 3 صفحہ، 407 ت 6943 طبع دار المعرفة)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

فلا يغتر بتحسين الترمذیؒ، فعند المحاققة غالبها ضعاف۔

ترجمہ: امام ترمذیؒ کی تحسین یعنی ان کا کسی حدیث کو حسن کہنا سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے محققین کے نزدیک ایسی اکثر روایات ضعیف ہوتی ہیں۔

(میزان الاعتدال: جلد، 4 صفحہ، 416 ت، 9661 طبع دار المعرفة)

علاوہ ازیں درج ذیل کتب میں بھی امام صاحبؒ کو متساہل تصور کیا گیا ہے۔

(ذکرمن یعتمدقولہ فی الجرح والتعدیل للذہبی: صفحہ، 159، فتح الباری لابنِ حجر: جلد، 9 صفحہ، 78 سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ الالبانی: جلد، 1 صفحہ، 76 المتکلمون فی الرجال للسخاوی: صفحہ، 137، مقدمہ تحفۃ الاحوذی صفحہ، 350)

دورِ حاضر کے بعض مخالفین کتاب و سنت اپنی بے سروپا روایات ِ کی تصحیح و تحسین یا اپنی مرضی کے راویوں کی ایسی توثیق امام صاحبؒ سے پیش کرتے رہتے ہیں جس میں امام صاحبؒ منفرد ہوتےہیں،جب اہلِ حق کی طرف سے انہیں کہا جاتا ہے کہ امام صاحبؒ کا شمار متساہلین میں ہوتا ہے ان کی منفرد توثیق قبول نہیں کی جاتی تو وہ امام صاحبؒ کے تساہل کاہی انکار کردیتے ہیں اسی مناسبت سے ذیل میں ہم انہیں کے علماء کی 12 باحوالہ عبارات پیش کرتے ہیں جنہوں نے امام ترمذی کو متساہل سمجھتے ہوئے ان کی منفرد توثیق کوقبول نہیں کیا۔

1: علامہ زیلعی حنفیؒ (المتوفی: 762ھ) ایک روایت جسے امام ترمذیؒ نے حسن کہا ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتےہیں:

و انكر عليه، لان مداره على الحجاج بن أرطاة، وهو مدلس، ولم يذكر سماعا۔

یعنی امام صاحبؒ کی اس تحسین کا محدثین کی طرف سے انکار کیا گیا ہے، کیونکہ اس روایت کا دار و مدار حجاج بن ارطاۃ پر ہے اور وہ مدلس ہے اس روایت میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی۔

(نصب الرایۃ: جلد، 2 صفحہ، 300 مؤسسة الريان للطباعة و النشر)

2: ملاعلی قاری حنفیؒ نے بھی امام صاحبؒ کو متساہل کہا ہے۔

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح: جلد، 1 صفحہ، 25 طبع دارالفکر)

3: محمد زکریا کاندھلوی صاحبؒ لکھتے ہیں:

امام ترمذیؒ کے اوپر متساہل فی تصحیح الاحادیث و تحسینھا کا اعتراض ہے اور یہ اعتراض بڑا مضبوط ہے۔اور امام ترمذیؒ کے متساہل ہونے کی بہت سی مثالیں جامع ترمذی میں ملتی ہیں۔

(مقدمہ الکوکب الدری: صفحہ، 47 طبع مکتبہ الشیخ کراچی)

4: سرفراز صفدر صاحب لکھتے ہیں:

باوجود یکہ حضراتِ محدثین کرام کے نزدیک امام ترمذیؒ حدیث کی تصحیح و تحسین میں بڑے متساہل ہیں۔

(الکلام المفید فی اثبات التقلید: صفحہ، 329 طبع مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)

5: مفتی تقی عثمانی مدظلہ صاحب لکھتے ہیں:

اگر کسی حدیث کی تصحیح کے بارے میں امام ترمذیؒ متفرد ہوں اور دوسرے تمام ائمہ سے اسی کی تضعیف منقول ہو تو اس صورت میں جمہور کے قول کا اعتبار کرنا چاہیئے۔

(درس ترمذی: جلد، 1 صفحہ، 137 طبع مکتبہ دار العلوم کراچی)

اور اسی طرح جرابوں پر مسح کرنے والی روایت کے متعلق کہتے ہیں: اس حدیث کی تصحیح میں امام ترمذیؒ سے تسامح ہوا ہے۔

(درس ترمذی: جلد، 1 صفحہ، 176طبع مکتبہ دار العلوم)

6: ڈاکٹر عبد الستار مروت دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:

الغرض امام ترمذی کو اپنی جامع میں بعض ضعیف روایات کو صحیح اور بعض مجہول روایات کو حسن قرار دینے کی وجہ سے امام حاکمؒ کی طرح متساہل قرار دیا گیا ہے اور اسی تساہل کی بناء پر ان کی تصحیح اور تحسین کو غیر معتبر بتایا گیا ہے اور ان کے تساہل کی یہی وجہ علامہ ذہبیؒ نے بھی بیان فرمائی ہے۔

(دقائق السنن: جلد، 1 صفحہ، 41 طبع مکتبہ صفدریہ پشاور)

7: بریلوی مکتب فکر کے معروف عالم غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:

احادیث پر کوئی حکم لگانے اور ان کی قسم متعین کرنے میں بعض اوقات امام ترمذیؒ سے تساہل بھی واقع ہوا ہے۔

(مقدمہ جامع ترمذی مترجم: جلد، 1 صفحہ، 41 مترجم صدیق سعیدی بریلوی طبع فرید بک اسٹال لاہور)

ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور امام ترمذیؒ کا اس کو غیر محفوظ کہنا محض تساہل ہے۔(صفحہ، 42)

8: دیوبندی مکتب فکر کے مناظر ماسٹر امین اوکاڑوی نے لکھا: امام ترمذیؒ اس بارے میں متساہل ہیں۔

(تجلیات صفدر: جلد، 2 صفحہ، 176 طبع مکتبہ امدادیہ ملتان)

9: عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی نےجرابوں پر مسح کرنے والی روایت کے بارے میں لکھا: اس کی تصحیح میں ترمذی سے تسامح ہوگیا ہے۔

(انوارالسنن: صفحہ، 191 طبع زم زم پبلشرز کراچی)

10: دیوبندی مولوی عبدالحق بانی دارالعلوم اکوڑہ کھٹک کہتے ہیں: امام ترمذیؒ کی تصحیح یا تحسین پر اس وقت مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا جب وہ اپنے اس قول میں منفردہوں۔

(حقائق السنن: جلد، 1 صفحہ، 81 طبع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ کھٹک)

11: دیوبندی مکتب فکر کے مفتی نظام الدین شامزئی صاحب امام ترمذیؒ کے نزدیک ایک صحیح روایت پر بحث کرتے ہوئے امام نوویؒ کے حوالے سے کہتے ہیں: ان عبد الرحمٰن بن مہدیؒ، یحییٰ بن معینؒ، احمدؒ، سفیان ثوریؒ اور امام مسلمؒ میں سے ہر ایک امام ترمذیؒ سے مقدم ہے یعنی امام ترمذیؒ کسی حدیث کو صحیح کہیں اور ان میں سے کوئی ایک ضعیف کہے تو اسی کی بات مانی جائے گی نہ کہ امام ترمذیؒ کی۔

(مجمع البحرین: جلد، 1 صفحہ، 104، 105 طبع مکتبہ الحبیب کراچی)

12: علامہ یوسف بنوری دیوبندی صاحب امام ترمذیؒ کے نزدیک صحیح روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

لایقبل قول الترمذی انہ حسن صحیح۔

 یعنی امام ترمذیؒ کا اس کو حسن صحیح کہنا ناقابلِ قبول ہے۔

(معارف السنن: جلد، 1 صفحہ، 349 طبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

ان کے علاوہ بھی کافی حوالے موجود ہیں اختصار کے پیشِ نظر انہیں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

تنبیہ: امام صاحبؒ کی توثیق کو ہر صورت میں ناقابلِ اعتبار قرار دینا قطعاً درست نہیں ہے جیسا کہ دورِ حاضر کے بعض لوگوں کا طرز ہے، حق بات یہ ہے کہ اگر امام صاحبؒ کسی راوی کی توثیق یا کسی حدیث تصحیح یا تحسین کر دیں اور کوئی دوسرا محدث بھی ان کی موافقت کر دے چہ جائیکہ کہ وہ امام صاحبؒ کی طرح متساہل ہی ہو تو امام صاحبؒ کا وہ حکم قبول کیا جائے گا، بشرطیکہ ان کی توثیق جمہور کے مخالف نہ ہو اور وہ روایت اصول محدثین کے مطابق ضعیف نہ ٹھہرتی ہو، اوراسی طرح امام صاحبؒ کسی مجہول راوی جس کی توثیق نہ مل رہی ہو کی توثیق کر دیں اور ان کی کوئی دوسرا محدث موافقت کر دے چاہے وہ امام صاحبؒ کی طرح متساہل ہو یا معتدل تو اس راوی کی جہالت مرتفع ہو جائے گی۔

بشکریہ جمیعت اہلِ حدیث سندھ۔