صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جہادفی سبیل اللہ
امام ابنِ تیمیہؒصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور جہادفی سبیل اللہ
یہ ان لوگوں کا حال ہے جنہوں نے مرتدین سے قتال کیا۔ان میں سب سے پہلے فرد جناب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اور پھر وہ لوگ ہیں جو قیامت تک آپ کی اس راہ پر گامزن رہیں گے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے مرتدین سے جہاد کیا؛ جیسے مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں سے ؛ اور زکوٰۃ روکنے والوں سے برسر پیکار ہوئے ۔ فارس و روم پر غلبہ حاصل کیا ۔ یہ لوگوں میں سب سے بڑے زاہد تھے۔ جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ تم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نماز و روزہ والے ہو۔وہ لوگ تم سے بہتر تھے۔ پوچھا گیا :اے ابو عبد الرحمن ! اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا: ’’اس لیے کہ وہ دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت تھے؛ اور آخرت کی طرف سب سے زیادہ رغبت رکھتے تھے۔انہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔‘‘
اس کے برعکس اگر ہم دیکھیں تو رافضی اپنے دشمن کی طرف سے ملامت گری سے سب سے زیادہ خوف کھانے والے ہوتے ہیں ۔ان کا حال تو بالکل اس آیت قرآنی کے مطابق ہے :
﴿یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ قَاتَلَہُمْ اللّٰہُ اَنَّی یُؤْفَکُوْنَ ﴾
[المنافقون ۴]
’’ہر سخت آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہی اصلی دشمن ہیں ان سے بچو‘ اللہ انہیں غارت کرے
کہاں بھٹک رہے ہیں ۔‘‘
اہل قبلہ کے ساتھ ان کی بود و باش بالکل ایسے ہی ہے جیسے یہودی باقی اہل ملت کے ساتھ رہتے ہیں ۔
پھر ان سے یہ پوچھا جائے گا: دنیا سے بے رغبتی رکھنے والے کون لوگ تھے؟ جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی؟ کیا ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے حضرات ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت نہ کی او رحضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی؟ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے دور میں کوئی ایک بھی ایسا انسان نہیں تھاجس نے ان کی بیعت سے سرکش ہوکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلی ہو۔ بلکہ تمام لوگوں نے ان تینوں خلفاء کی بیعت کرلی تھی۔بس زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : ’’ [کچھ لوگ ایسے تھے ] جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا نظریہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ [اگر واقعی ایسا ہی تھا ؛ حالانکہ یہ سوچ باطل ہے ] تو پھر ان لوگوں کا یہ حال نہیں ہوتا جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔‘‘
جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت و خلافت کے دنوں میں لوگ آپ کے اصحاب کو جہاد کے رک جانے [یا کم ہو جانے ]پر؛ اور قتال سے پیچھے رہ جانے پر بہت زیادہ ملامت کرتے تھے۔توپھر شیعہ میں وہ لوگ کہاں تھے جنہیں اللہ کے دین کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی؟‘‘
اگر یہ لوگ حضرات صحابہ ابو ذر ‘ سلمان اور عمار رضی اللہ عنہم پر کوئی جھوٹ گھڑیں تو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ یہ تینوں حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکی سب سے زیادہ تعظیم کرنے والے ان کے سچے تابع فرماں تھے۔ ہاں ان میں سے بعض سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کچھ بے اعتنائی منقول ہوئی ہے ؛ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے خلاف نہیں ۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے تو مسلمان متفرق ہوگئے۔ ایک جماعت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف رغبت رکھتی تھی؛ اور دوسری جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف۔ ان دونوں گروہوں کا باہم تصادم بھی ہوا۔اس وقت دونوں جماعتوں کے لوگ قتل ہوئے۔
صحیح مسلم میں ہے : حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں ۔ جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے سے منع کیا۔ اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی چھ آدمیوں نے اسی طرح کا ارادہ کیا تھا ؛تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟‘‘
جب مدینہ والوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنالیا۔ پھر وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا۔ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
’’ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وتر کے بارے میں جانتا ہے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا وہ کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
تم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ؛ اور ان سے پوچھو۔ پھر اس کے بعد میرے پاس آنا ؛اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلا۔حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے کر چلو۔‘‘ وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے کر نہیں جا سکتا ؛کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما) کے درمیان کچھ نہ کہیں ۔ تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’ میں نے انہیں قسم دی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف جانے کے لئے چل پڑے....الخ۔[صحیح مسلم ِکتاب صلاِۃ المسافِرِین وقصرِہا، باب جامِعِ صلاِۃ اللیلِ ومن نام عنہ أو مرِض۔]
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے کہا: ’’آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملت پر ہیں ؟ آپ نے فرمایا:’’میں نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملت پر ہوں اور نہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ملت پر ۔بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوں ۔‘‘
[شیعہ کی تقسیم ]
پہلے دور کے شیعہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے۔اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تقدیم کا تھا۔اس وقت نہ ہی کوئی امامیہ تھااورنہ ہی رافضی ۔ ان کا نام رافضی بہت بعد میں اس وقت سے پڑا جب یہ لوگ رافضی ہوئے؛ جب حضرت زید بن علی بن الحسین رضی اللہ عنہ نے ہشام کے دور میں کوفہ میں خروج کیا۔ اس وقت کچھ شیعہ نے آپ سے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے بارے میں سوال کیا ؟ تو آپ نے ان کے لیے رحم و مغفرت کی دعا کی۔اس پر یہ شیعہ بگڑ گئے ۔ آپ نے ان سے پوچھا : کیا تم مجھے چھوڑ رہے ہو ؟ میری بات نہیں مان رہے ؟ اس وقت سے ان کا نام رافضی [چھوڑنے والے ] پڑ گیا۔اور ان میں سے شیعہ کا ایک گروہ زید بن علی رحمہ اللہ کے ساتھ ہی رہا۔اس نسبت کے لحاظ سے انہیں زیدیہ کہاجانے لگا۔ اس وقت سے شیعہ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے : رافضہ امامیہ او رزیدیہ ۔
پھر جیسے جیسے یہ لوگ کوئی نئی بدعت ایجاد کرتے ہیں تو ان کے شر میں اضافہ ہی ہوتا جاتاہے۔زیدیہ رافضہ سے بہتر ہیں ۔ زیدیہ ان سے بڑے عالم ؛ زاہد؛ سچے اور بہادر ہیں ۔ ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہماباتفاق مسلمین لوگوں میں سب سے بڑے زاہد تھے ۔ انہیں اللہ کے دین میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوا کرتی تھی۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے : ’’ اللہ تعالیٰ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے ؛ انہوں نے حق کو اس حال میں چھوڑا کہ اس کا کوئی سچادوست نہیں ۔‘‘