فصل: شیعہ کے افکار و معتقدات
امام ابنِ تیمیہؒفصل: شیعہ کے افکار و معتقدات
[رافضی کی امامیہ مذہب کے واجب الاتباع ہونے کی بیان کردہ وجوہات؛ وجہ اول تا وجہ چہارم ]
[شبہات]: شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’ہمارا مذہب اس لیے واجب الاتباع ہے کہ یہ جملہ مذاہب کی نسبت احق و اصدق اور باطل کی آمیزش سے خالص تر ہے۔ یہ مذہب اللہ و رسول اور اولیاء کی تنزیہ و تقدیس میں جملہ مذاہب سے آگے ہے۔ ہمارا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مخصوص بالقدامت وازلیت ہے۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے ؛ وہ محدث ہے۔اور وہ اکیلا ہے۔ وہ نہ جسمہے اور نہ ہی جوہر ۔اورنہ ہی وہ مرکب ۔ اس لیے کہ ہر مرکب اجزاء کا محتاج ہوتا ہے؛ اور اجزاء اصل کے غیر ہوتے ہیں ۔اور وہ عرض بھی نہیں اور مکان کے دائرہ میں محدودبھی نہیں ؛کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کا حادث ہونا لازم آتا ہے؛بلکہ ہم اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کی مشابہت سے پاک قرار دیتے ہیں ۔اوریہ کہ اللہ تعالیٰ تمام مقدورات پر قادر ہیں ۔ وہ عادل اورحکیم ہیں ؛ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔اور نہ ہی قبیح فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ؛وگرنہ اس سے جہالت اور ضرورت مندی لازم آئے گی۔اللہ تعالیٰ ان دونوں امور سے منزہ ہے۔ اور وہ اطاعت گزار کو ثواب دیتا ہے تاکہ ظالم نہ بنے؛ اور گنہگار کو معاف کرتا ہے ؛یااس کے جرم کی اسے سزا دیتا ہے؛ یہ اس کا ظلم نہیں ۔ اور بیشک اس کے افعال محکم اور پختہ ہوتے ہیں جو کہ کسی غرض اور مصلحت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ ا گر ایسا نہ ہوتا تو وہ عبث کا مرتکب ہوتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لاَعِبِیْنَ ﴾ (الدخان: ۳۸)
’’اورہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیلتے ہو ئے نہیں بنایا۔‘‘
یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں جا سکتا، اور نہ ہی حواس سے اس کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔فرمان الٰہی ہے:
﴿ لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ [الانعام۱۰۳]
’’اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
٭ بلاشبہ وہ کسی جہت میں محدود نہیں ۔اور بیشک اس کے اوامر و نواہی حادث ہیں اس لیے کہ معدوم سے امر ونہی کا صدور ممکن نہیں ۔ اوریہ کہ انبیاء کرام شروع عمر سے آخر تک صغائرو کبائر سے پاک ہوتے ہیں ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی تبلیغ رسالت پر اعتماد نہ رہتا۔ اور ان کی بعثت کا فائدہ ختم ہوجاتا اور ان سے نفرت لازم ہوجاتی۔ اوریہ کہ ائمہ بھی انبیاء کرام کی طرح تک صغائرو کبائر سے پاک ہوتے ہیں ۔
٭ شیعہ اپنے فروعی احکام ائمہ معصومین سے نقل کرتے ہوئے اپنے جدا مجد سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست اخذ کرتے ہیں ؛ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکام جبریل امین کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کئے۔ اور پھر ثقہ راوی اسے نسل در نسل سلف سے خلف تک روایت کرتے رہے یہاں تک کہ یہ روایات معصومین تک پہنچ گئی۔ اور انہوں اجتہاد اور قول بالرائے کی جانب مطلقاً توجہ نہ کی۔اور قیاس و استحسان اور رائے کو حرام سمجھا ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جوابات] :اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتاہے:
وجہ اول :.... [شیعہ کے]: ذکر کردہ مسائل کا مسئلہ امامت سے اصل میں کوئی تعلق نہیں ۔بلکہ بعض امامیہ ان کو تسلیم بھی نہیں کرتے۔اور بہت سارے ایسے لوگ ان چیزوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کا امامیہ مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اور ان میں سے کسی کوئی ایک مسئلہ بھی دوسرے پر مبنی نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ طریقہ سراسر عقلی ہے، اور امام کا تقرر سمعی دلائل کا محتاج ہے۔پس ان مسائل کو امامت کے مسئلہ میں داخل کرنا ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مورد نزاع مسائل کو لاکر اس میں شامل کردیا جائے۔یہ تو مقصود سے دور بھاگنا ہے۔
وجہ دوم:.... یہ تو عقیدہ توحید اور تقدیر کے بارے میں معتزلہ کا عقیدہ ہے ۔ شیعہ اپنے آپ کو اہل بیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اور ان معتزلہ سے موافقت رکھتے ہیں جوکہ توحید اور تقدیر میں اہل بیت کے مذہب سے سب لوگوں سے زیادہ دور ہیں ۔ اس لیے کہ ائمہ اہل بیت جیسے حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے سبھی ان عقائد پر متفق ہیں جن پر صحابہ کرام اور تابعین کا اتفاق تھا؛وہ صفات اور قدر کو مانتے تھے۔ منقولات پر مشتمل صحیح کتابیں ان مسائل سے بھری پڑی ہیں ۔ ہم ان میں حضرت علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے منقول چند روایات آگے نقل کریں گے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ شیعہ اصول دین میں اہل بیت کے مخالف ہیں ۔
وجہ سوم :.... انہوں نے جو صفات اور قدر ذکر کیے ہیں وہ شیعہ کے خصائص میں سے نہیں ہیں اور نہ وہ اس قول کو اختیار کرنے میں آئمہ ہیں اور نہ یہ ان تمام شیعوں کا قول ہے بلکہ اس بات میں ان کے آئمہ معتزلہ ہیں اور انہی سے متاخرین شیعہ نے اپنا مذہب لیا ہے اور شیعوں کی کتابیں معتزلہ کے طرقِ استدلال پر اعتماد کرنے سے بھری پڑی ہیں اور یہ تیسری صدی کے اواخر کا حال ہے چوتھی صدی ہجری میں اس مسئلہ کو اس وقت مزید استحکام اور پذیرائی ملی جب شیخ مفید اور اس کے شاگردوں نے ؛جیسے موسوی اور طوسی نے شیعہ مذہب کے لیے تصنیف و تألیف کی۔[سبق الکلام علی کل مِن المفِیدِ والموسوِیِ والطوسِیِ فِی ہذا الکِتابِ 1؍58. وانظر ترجمۃ المفِیدِ أیضا فِی: الرِجالِ لِلنجاشِیِ، ص ؛ 316؛ أعیانِ الشِیعۃِ لِلعامِلِیِ ط. بیروت 46؍20 ؛ الفِہرِستِ لِلطوسِیِ الطبعۃِ الثانِیۃِ، النجفِ ص 187؛ رِجالِ الأعلامِ الحِلِیِ لِابنِ المطہرِ الطبعۃِ الثانِیۃِ، النجفِ،ص 147؛ الأعلامِ لِلزِرِکلِیِ 7؍245. ؛ وانظر فِی ترجمۃِ الموسوِیِ؛ الشرِیفِ المرتضی أیضاً: أعیان الشِیعۃِ 41؍188 ؛ الفِہرِست لِلطوسِیِ، ص 125 ؛ رِجال الأعلامِ الحِلِیۃ95؛ وفِیاتِ الأعیان ِ 3؍3 ۔]
رہے قدمائے روافض تو ان پر اس قول کا ضد ہی غالب ہے جیسے کہ ہشامین کا اور ان کے اصحاب کا قول پس اگر یہ قول حق ہوتا تو اس کو اختیار کرنا اور تینوں آئمہ کی خلافت کے اثبات کے ساتھ معتزلہ کی موافقت کرنا بھی ممکن ہوتا اور اگر یہ باطل ہے تو اس کی طرف کوئی حاجت ہی نہیں اور مناسب ہے کہ وہ ایک ایسی بات ذکر کریں جو امامت کے ساتھ خاص ہو جیسے کہ بارہ آئمہ کے اثبات کا مسئلہ اور ان کی عصمت کا مسئلہ ۔
وجہ چہارم : ان سے یہ کہا جائے گا کہ اس کلام میں جس قدر حق بات موجود ہے؛ اہل سنت و الجماعت سارے کے سارے یا پھر ان کی اکثریت یعنی جمہور امت اس کا اقرار کرتی ہے۔ اور جو کچھ اس میں باطل ہے؛ وہ رد ہے۔ اس مسئلہ میں جتنا کچھ بھی حق ہے وہ اہل سنت و الجماعت کے عقیدہ سے خارج نہیں ہے۔ ہم اس مسئلہ کو آگے چل کر تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے ۔
ابن مطہر کے کلام کی پہلی قسم پر تفصیل رد:
ابن مطہر کا قول کہ : ’’ اللہ تعالی مخلوقات کی مشابہت سے بالکل منزہ ہیں ۔‘‘
وجہ پنجم :....مصنف کا یہ کہنا کہ:بلاشک و شبہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعال ازلیت اور قدامت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور اللہ تعال کے سوا جو کچھ بھ ہے؛ وہ مخلوق ہے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے؛ اور اس کا نہ ہ جسم ہے اور نہ ہ وہ کس مکان میں ہے۔اگر ایسے ہوتا تو اللہ تعالیٰ بھی محدث ہوتا۔بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کی تشبیہ سے منزہ مانتے ہیں ۔
جواب:.... مصنف کا اشارہ جہمیہ اور معتزلہ کے مذہب ک طرف ہے۔ اور اس کا مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نہ ہ کوء علم اور نہ ہ قدرت اور حیات اور یہ کہ اللہ تعال کے اسما حسن جیسا کہ العلیم ؛ القدیر؛ السمیع البصیر؛ الرؤوف؛ الرحیم اور دیگر اسما اللہ الحسنیٰ ان صفات پر دلالت نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں ۔ اوریہ کہ اللہ تعال نہ ہ کلام کرتے ہیں اور نہ ہی راضی یا ناراض ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی محبت کرتے ہیں اور نہ ہی بغض کرتے ہیں ۔ اور صرف وہ چیز چاہتے ہیں جو کہ آپ کے ارادہ اور کلام سے جدا پیدا ہوتی ہے۔اور یہ کہ کلام اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہوتا ۔
مصنف کا یہ کہنا کہ’’اللہ تعالیٰ مخلوقات کی مشابہت سے بالکل منزہ ہیں ۔‘‘
تو جواب یہ ہے کہ : اہل سنت والجماعت تو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مشابہت کے باب میں شیعوں کی بہ نسبت تنزیہ کے زیادہ احق ہیں اس لیے کہ تشبیہ اور تجسیم جو کہ عقل اور نقل کے خلاف ہے۔ اور ان کی مثال امت کے تمام گروہوں میں سے کس ایک بھی دوسرے گروہ میں نہیں ملتی۔اور پھر یہ کہ اس باب میں متأخرین اور قدماء امامیہ کے مابین بہت بڑا تناقض پایا جاتا ہے۔ ان کے قدماء تشبیہ اور تجسیم کے مسئلہ میں غلو کا شکار تھے؛ جب کہ متأخرین نفی اور تعطیل میں غلو کا شکار ہیں ۔ پس اس اعتبار سے یہ لوگ باقی ساری امت کو چھوڑ کر خود اس مسئلہ میں جہمیہ اور معتزلہ کے ہم مسلک و ہم مشرب بن گئے۔
جبکہ اہل سنت و الجماعت جو کہ خلفائے ثلاثہ ک خلافت کو صحیح اور ثابت مانتے ہیں ان کے تمام ائمہ اور مشہور فرقے اللہ تعالیٰ سے تمثیل ک نف پر متفق ہیں ۔ اور خلفائے ثلاثہ ک امامت کو ماننے والوں میں سے جن لوگوں نے اللہ تعال پر لفظ جسم کا اطلاق کیا ہے؛ جیسا کہ کرامیہ ؛وہ ان روافض [امامیہ ]ک نسبت صحیح منقول اور صریح معقول کے زیادہ قریب ہیں جنہوں نے اللہ تعال پر لفظ جسم کااطلاق کیا ہے۔[یعترِف المامِقانِی فِی ترجمۃِ ہِشامِ بنِ الحکمِ؛ تنقِیحِ المقالِ 3؍294 ؛ بکِثرۃِ الأخبارِ المروِیۃِ عن ہِشام فِی التجسِیمِ حتی أن الِکلِینِی ذکر خمس مِنہا فِی الکافِی ؛ وینقل المامِقانِی عن ہِشام نص خبر مِن ہذِہِ الأخبارِ الخمسِ ؛ یقول ہِشام:’’إِن اللہ جِسم صمدِی نورِی۔‘‘ کما ینقل عنِ البرقِیِ قولہ إِن ہِشاما کان مِن غِلمانِ أبِی شاکِر الدِیصانِی الزِندِیقِ وإنہ کان جِسمِیا ردِیئا. وفِی أخبارِ الرِجال لِلکشِیِ فِی ترجمۃِ ہِشامِ بنِ سالِم الجوالِیقِیِ9 83؛ أنہ کان یزعم أن اللہ صور وأن آدم خلِق علی مِثلِ الربِ ثم یشِیر ِإلی جنبِہِ وشعرِ رأسِہِ لِیبیِن المماثلۃ. سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے جسم کے عقیدے کا اظہار ان کے علامہ ہشام بن الحکم نے کیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کا جسم ہے، جس کی ایک حد اور انتہا ہے۔ وہ طویل وعریض اور گہرا ہے۔ اس کا طول اس کے عرض جتنا ہے۔ اور بے شک اﷲ کا جسم اس کی بالشت کے حساب سے سات بالشت ہے۔ أصول الکافی: ۱؍ ۷۳( کتاب التوحید، باب النھی عن الصفۃ بغیر .... ‘‘ تفسیر البرہان ۴۱۔ بحار الأنوار:۳؍ ۲۸۸( باب نفی الجسم والصورۃ .... ‘‘ التبنیہ والرد:۲۴۔ حتی کہ ان کے صدوق نے محمد بن الفرج الرخجی سے روایت ہے ‘ وہ کہتا ہے: ’’ میں نے ابو الحسن علیہ السلام کو خط لکھ کر دریافت کیا کہ تجسیم کے متعلق ہشام بن حکم کے عقیدہ کی کیا حقیقت ہے؟ اور صورت کے متعلق ہشام بن سالم کے عقیدہ کی کیا حقیقت ہے ؟ تو انہوں نے جواب میں لکھا: ’’ حیران کی حیرانگی ودرماندگی کو چھوڑ دے ‘ اورشیطان مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ؛ جو کچھ یہ دونوں ہشام کہتے ہیں ؛ یہ کوئی عقیدہ نہیں ہے۔‘‘ [التوحید ‘۹۴۔ باب : أنہ عزو جل لیس بجسم و لا بصورۃ۔ ]
جس طرح کہ ابن نو بختی نے اپنی کتاب ’’الکبیر ‘‘[تکلمت مِن قبل عل النوبختِیِ وِکتابِہِ ’’ الآراء والدِیانات ‘‘ وقد ذکر عنہ النجاشِی فی الرِجال، ص :9 0 ؛ أنہ ِکتاب کبِیر حسن یحتوِی علی علوم کثِیرۃ .]میں اور ابو الحسن اشعری نے اپنی معروف کتاب ’’مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین‘‘[اشعری نے اس بارے میں کلام کیا ہے۔ اشعری اپنی امانت داری اور اپنے مخالفین کا کلام اور عقیدہ بڑی امانت سے نقل کرنے میں بڑا مشہور ہے۔ وہ امامیہ فرقہ کے عقیدہ تجسیم کے بارے میں کہتا ہے: ’’امامیہ روافض کا تجسیم کے بارے میں اختلاف ہے؛ اس سلسلہ میں ان کے چھ فرقے ہیں ‘‘ پھر امام اشعری نے ان کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ دیکھو: المقالاتِ ج۱؍۲۰۳۔ ] میں اوراسی طرح شہر ستانی نے اپنی کتاب ’’الملل و النحل ‘‘میں ذکر کیا ہے۔ اور ان کے علاوہ دیگر علما نے جسم اور تشبیہ کے مسئلہ میں کرامیہ اور ان کے ان اتباع سے بھ بہت کچھ نقل کیا ہے جو خلفائے ثلاثہ ک خلافت کو صحیح مانتے ہیں ۔[علامہ شہرستانی جن کے متعلق ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ وہ شیعیت کی طرف مائل تھے؛ وہ اپنی کتاب ’’الملل و النحل میں ۱؍۱۵۴‘‘ پر کہتے ہیں : یہی وجہ تھے کہ امامیہ اصول میں نظریہ عدل پر چل پڑے؛ اور صفات میں مشبہہ کی راہ اختیار کرلی۔ وہ ہمیشہ حیران اور سرگرداں ہی رہے۔ پھر اس کے بعد شہرستانی نے ان کا کلام مفصل طور پر پیش کیا ہے۔]
اہل سنت اور اہل تشیع کے مختلف گروہ قدما ائمہ امامیہ سے تجسیم اور تشبیہ کے مسئلہ میں ایس منکر باتیں روایت کر رہے ہیں کہ ایس باتیں کرامیہ اور دوسرے لوگوں سے معلوم نہیں ہوسکیں ۔فرقہ امامیہ کے وہ قدیم أئمہ جو تجسیم اور تشبیہ کے منکر ہیں اُن سے اہل سنت اور خود روافض ایسے اقوال نقل کرتے ہیں جو کرامیہ اور ان کے اتباع سے بھی منقول نہیں ۔
رہے وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر ’’جسم ‘‘کے لفظ کا اطلاق نہیں کرتے جیسے کہ محدثین ،مفسرین اور صوفیاء اور فقہاء اور آئمہ اربعہ اور ان کے اتباع اور مسلمانوں کے مشہور علماء و مشائخ ؛اور جو ان سے پہلے گزرے ہیں یعنی صحابہ اور تابعین ،ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس بات کا قائل ہے کہ اللہ کا ’’جسم ‘‘ہے اگرچہ سلف اور آئمہ میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں کہ اللہ تعالیٰ جسم نہیں ہے لیکن جس نے ان میں سے بعض کی طرف تجسیم کی نسبت کی ہے تو وہ اس کے اس عقیدہ کے اعتبا رسے ہے کہ اس نے جسم کا ایک خاص معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے اور اس کو غیر کے لیے لازم سمجھا ہے ۔
پس معتزلہ اور جہمیہ اور ان کے امثال جو کہ صفات کی نفی کرنے والے ہیں انہوں نے ہر اس شخص کو جو اللہ کے لیے صفات ثابت مانے تو اس کو مجسم اور مشبہ کہا اور ان لوگوں میں سے بعض وہ بھی ہیں جو آئمہ مشہورین میں سے بعض کو مجسم اور مشبہ کہتے ہیں جیسے امام مالک شافعی اور اس کے اصحاب ۔
اس طرح کہ ان کو ابو حاتم صاحب ’’کتابِ الزینہ‘‘ نے ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ دیگر نے بھی ذکر کیا ہے جب کہ اس نے مشبہہ کے فرق کو ذکر کیا تو ان کے ذیل میں فرمایا کہ ان میں سے ایک گروہ جن کو مالکیہ کہا جاتا ہے اور وہ ایک آدمی کی طرف منسوب ہے جس کو’’ مالک ابن انس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ ان میں سے ایک گروہ ہے جس کو شافعیہ کہا جاتا ہے کیونکہ منسوب ہے ایک آدمی کی طرف جن کو شافعی کہا جاتا ہے۔
اور ان لوگوں کا شبہ یہ ہے کہ آئمہ مشہور ین سب کے سب اللہ تعالیٰ کے لیے صفات ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں نظر آئیں گے اور یہی صحابہ اور تابعین کا مذہب ہے جو کہ اہل بیت میں سے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر اصحاب میں سے ہیں اور یہ آئمہ متبوعین کا مذہب ہے جیسے کہ امام مالک بن أنس ،سفیان ثوری ،لیث بن سعد، امام اوزاعی ،ابو حنیفہ ،امام شافعی ،امام احمد بن حنبل ،داؤدِ ظاہری، محمد ابن خزیمہ ،ابو بکر بن المنذر اور محمد بن جریر طبری اور ان کے اصحاب ۔
جہمیہ اور معتزلہ تو یہ کہتے ہیں کہ جس نے اللہ کی صفات کو ثابت کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں نظر آئیں گے اور قرآن اللہ کا کلام ہے ،مخلوق نہیں ،پس بے شک وہ مجسم اور مشبہ ہے اور تجسیم باطل ہے اور اس بات میں ان کا شبہ یہ ہے کہ صفات تو اعراض ہیں وہ تو صرف اور صرف جسم ہی کے ساتھ قائم ہوسکتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کلام اور دیگر صفات قائم ہیں تو وہ تو صرف اور صرف جسم ہی ہونگے اور جو نظر آئے گا اور جو چیز بھی نظر آتی ہے وہ تو صرف جسم ہی ہوتی ہے یا کسی جسم کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔
اسی لیے صفات کے جو مثبتین (ماننے والے )ہیں وہ ان کے بارے میں تین طوائف میں تقسیم ہو گئے :
ایک گروہ نے تو مقدمہ اولیٰ میں ان کے ساتھ منازعت اور اختلاف کیا اور دوسرے گروہ نے مقدمہ ثانیہ میں منازعت کی اور ایک گروہ نے ان کے ساتھ مطلق نزاع کیا دو مقدمتین میں سے کسی ایک پر لاعلی التعیین اور صفات کی نفی اور ان کے اثبات میں انہوں نے ایسے الفاظ کا اطلاق نہیں کیا جو مجمل ہوں اور وہ مبتدع (اپنی طرف سے نئے نکالے ہوئے اور مخترع )ہو ں ۔ ان کے لیے شریعت میں کوئی اصل نہ ہو اور نہ وہ عقل کے اعتبار سے صحیح ہوں بلکہ انہوں نے کتاب وسنت سے استدلال کیا اور عقل کو بھی اپنا حق دیا پس ان کا یہ قول صریحِ معقول اور صحیحِ منقول کے موافق ٹھہرا ۔
پس طائف اولیٰ تو کلابیہ اور ان کے موافقینِ ہیں ،طائفِ ثانیہ کرامیہ اور ان کے موافقین ہیں ۔
پہلے گروہ نے کہا کہ اللہ کی ذات کے ساتھ صفات قائم ہیں اور وہ آخر ت میں نظر بھی آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور اس کی صفات اعراض نہیں ہیں اور نہ ان کا موصوف جسم ہے ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ ممتنع ہے ۔
پھر ان لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے طائفِہ اولیٰ پر اس بات میں تشنیع اور رد کیا کہ یہ صریح عقل اورصحیح نقل کے مخالف ہے کیونکہ انہوں نے ایسے مرئی کے رؤیت کو ثابت کر دیا جس کے لیے کوئی جہت ثابت نہیں اور انہوں نے ایسے کلام کو ثابت کیا جو ایک ایسے متکلم کا ہے جو کلام تو کرتا ہے نہ کہ اپنی مشیت اور قدرت سے اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو دوسرے گروہ پر تشنیع کرتا ہے اس بات میں کہ یہ صحیح عقلی نظر کے خلاف ہے ۔
لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ لوگ جو نفی کرنے والے ہیں اور جہمیہ اور معتزلہ کے مخالف ہیں وہ صریح معقول کی نسبتاً زیادہ مخالفت کرنے والے ہیں ان دونوں جماعتوں کی بہ نسبت بلکہ بدیہی عقل کے بھی مخالف ہے رہا ان لوگوں کا کتاب و سنت کی نصوص کی مخالفت کرنا اور ان روایات کی جو امت کے اسلاف سے استفاضہ اور شہرت کے ساتھ ثابت ہیں تو یہ بالکل ایک ظاہر اور مشہور بات ہے جس میں پورے عالم پر کوئی خفا نہیں ، اس وجہ سے انہوں نے اپنے دین کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ توحید اور صفات کے باب میں ان چیزوں کی اتباع نہیں کی جائے گی جس پر کتاب و سنت اور اجماع دلالت کر ے اور ان امور میں اتباع کی جائیگی جو اپنی عقلوں کی قیاس سے ثابت ہوں اور عقول کا فیصلہ اس کو درست سمجھے ۔
رہے کتاب و سنت کے نصوص تو وہ یا تو اس میں تاویل کرتے ہیں یا پھر اس میں تفویض کا طریقہ اختیار کرتے ہیں یا پھر یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود تو یہ ہے کہ وہ جمہور کے ذہنوں میں ایک ایسا عقیدہ ڈالیں جس کے ذریعے وہ دنیا میں فائدہ حاصل کریں اگرچہ وہ محض جھوٹ اور باطل ہو جس طرح کہ یہ بات فلاسفہ اور ان کے متبعین بھی کرتے ہیں اور ان کے قول کی حقیقت یہ ہوئی کہ العیاذ باللہ تمام رسل نے ان باتوں میں جھوٹ کا راستہ اختیار کیا جو انہوں نے اللہ تعالیٰ ، ملائکہ اور اس کی کتا بوں اور اس کے رسل اور یوم آخرت کے بارے میں امتوں کو بتلائی ہیں بوجہ ان دنیاوی مصالح کے جو انہوں نے لوگوں کے حق میں دیکھے۔
رہا تیسرا گروہ تو انہوں نے نفی اور اثبات میں ان تعبیرات کو اختیار کیا جو کتاب و سنت میں مذکور ہیں اور کتاب و سنت پر استدلال اور مضبوطی سے تھامے بغیر جس کی نفی اور اثبات میں اہل نظر کا اختلاف ہے تو اس میں انہوں نے اس کی موافقت نہیں کی یعنی ان کی اُن بدعات میں جو شریعت میں انہوں نے نکالی ہیں اور انہوں نے عقلی فیصلے کی بھی مخالفت کی ہے بلکہ یا تو یہ لوگ ان کی بدعات پر تکلم سے بالکل کفِ لسان (پہلو تہی )اختیار کرتے ہیں خواہ نفیاً ہو یا اثباتاً یا لفظِ مجمل اور ملفوظِ مجمل میں قول کی تفصیل بیان کرتے ہیں پس جس کا اثبات شرع اور عقل کے موافق ہو اس کو ثابت کر دیتے ہیں اور جس کی نفی شریعت اور عقل کرتی ہو تو اس کی نفی کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ادلہ صحیحہ علمیہ کے درمیان تعارض متصور ہی نہیں خواہ وہ عقلی دلائل ہوں یانقلی دلائل اور کتاب و سنت بسا اوقات صیغہ اِخبار کیساتھ دلالت کرتا ہے اور بسا اوقات تنبیہ کے ساتھ اور کبھی ارشاد اور کبھی ادلہ عقلیہ کے بیان کے ذریعے اور علم الاہیات میں تو اربابِ نظر کے نزدیک جو کچھ ہے ان تمام امور کا خلاصہ وہ یقینی ادلہ اور معارفِ الہیہ ہیں جو کتاب و سنت میں صراحتاًیا اشارۃ ًمذکور ہیں ساتھ ایسی زیادات ،تکمیلات اور تتمات کے جن پر صرف وہی شخص پر مطلع ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے الہام فرما دیں (یعنی دل میں ڈال دیں )پس ان تعلیمات میں جن کو پیغمبر لے کر آیا ان میں ایسی عقلیات اور معارفِ یقینیہ ہیں جواولین اور آخرین تمام عقول کے ادراکات سے مافوق ہیں (یعنی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے )اور اس جملے میں ایک بہت بڑی تفصیل مضمر ہے جو کئی جگہ تفصیل سے بیان کر دی گئی ہے اور مکمل تفصیل سے بیان کرنے کا یہ مقام متحمل نہیں اس لیے کہ ہر مقام کے لیے ایک خاص مقال اور خاص قسم کی بات ہوتی ہے جو وہاں مناسب ہوتی ہے لیکن چونکہ روافض نے معتزلہ سے اپنی تائید حاصل کر لی اور انہوں نے اہل سنت کی مذمت کرنی شروع کی اُن افتراء ات (دروغ گوئی )کے ذریعے جو ان کے مذہب میں رائج ہیں یہ کام انہوں ے عمداًکیا ہو یا جہلاً تو اس مقام کے اعتبار سے جتنا ذکر کرنا مناسب تھا ہم نے ذکر کر دیا ۔
یہاں تو مقصود یہ ہے کہ اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مثل کوئی بھی شے نہیں نہ اس کی ذا ت اور صفات میں اور نہ افعال میں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات کی نفی کرنے والے اور تعطیل کے قائلین کے کلام میں ایک لفظ ’’تشبیہ ‘‘اور ایک لفظ ’’مہمل ‘‘ہے ۔
اگر تشبیہ سے اس کی مراد وہ ہے جس کی قرآن نے نفی کی ہے اور صریح عقل اس پر دال ہے تو ایک حق بات ہے اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خصائص میں سے ہے۔ مخلوق میں سے کسی ایک کے بھی یہ اوصاف نہیں بیان کئے جا سکتے؛ اور نہ ہی مخلوقات میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس کے مماثل ہوسکتی ہے۔
سلف صالحین اور ہمارے ائمہ کا اس سلسلہ میں مذہب یہ ہے کہ:اللہ تعالیٰ کی صرف وہ صفات بیان کی جائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے یا پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ذات کے لیے بیان کی ہیں ۔ ان میں نہ ہی تحریف کی جائے؛ نہ ہی تعطیل ؛ اور نہ ہی ان کی کیفیت اور مثال بیان کی جائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ان تمام صفات کو ثابت مانتے ہیں ؛ جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے بیان کی ہیں ۔ اور وہ ان میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مماثلت کی نفی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کمال کو ثابت مانتے ہیں ۔ اور ان صفات کی نفی کرتے ہیں جو صفات مخلوق سے مشابہ و مماثل ہیں ، اہل سنت اثبات بلا تشبیہ اور تنزیہ بلا تعطیل کا عقیدہ رکھتے ہیں ،خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ۔‘‘ یہ آیت مشبہہ یعنی ان لوگوں کے نظریات کی تردید کرتی ہے۔
قرآن کریم میں فرمایا: ﴿ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔﴾ آیت کا یہ جزء مُعَطّلہ یعنی اس فرقہ کی تردید کرتاہے جو اللہ تعالیٰ کو صفات سے عاری قرار دیتے ہیں ۔
[[مزید برآں ان میں جو مسائل حق ہیں اہل سنت ان کو تسلیم کرتے ہیں اور جو باطل ہیں وہ بہر کیف مردود ہیں ۔ یہ قواعد و عقائد دراصل جہمیہ و معتزلہ سے ماخوذ ہیں ۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ ذات باری صفت علم وقدرت اور حیات سے عاری ہے، وہ بولتا ہے نہ راضی ہوتا ہے ؛ ناراض ہوتا ہے نہ محبت کرتا اور نہ ہی عداوت رکھتا ہے]]۔