Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

صفات خالق و مخلوق میں فرق و امتیاز

  امام ابنِ تیمیہؒ

صفات خالق و مخلوق میں فرق و امتیاز

پس جوکوئی خالق اور مخلوق کی صفات کو آپس میں مشابہ قرار دیتا ہو ؛ وہ باطل پرست اور قابل مذمت مشبہ ہے۔ اور اگر تشبیہ سے مراد یہ لی جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی بھی صفت کو ثابت نہیں مانتا؛ تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا علم تو ہے؛ مگر قدرت اور زندگی نہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ صفات انسان میں پائی جاتی ہیں تو اس سے یہ کہنا بھی لازم آتا ہے کہ اسے حیی اورقدیر بھی نہ کہا جائے ؛ کیونکہ انسان بھی ان صفات سے موصوف ہوتا ہے۔ اور تقریباً یہی اعتراض صفت کلام؛ سماعت؛ بصارت اور رؤیت اور دیگر پر بھی وارد ہوتاہے۔

وہ اہل سنت والجماعت کے ساتھ اس میں موافقت رکھتے ہیں کہ : اللہ تعالیٰ موجود ہیں ؛ اوروہ زندہ ؛ علیم اور قادر ہیں ۔ اور مخلوق کو کہا جاتا ہے : موجودہے؛ علیم ہے؛ قدیر ہے۔ تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنے میں تشبیہ ہے؛ پس اس کا انکار کرنا واجب ہے ۔

اس مؤقف پر کتاب و سنت اور صریح عقل دلالت کرتے ہیں ۔ اورکسی عاقل کے لیے اس کی مخالفت کرنا ناممکن ہے۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ایسے نام رکھے ہیں جو اس نے اپنے بندوں میں بعض افراد کو بھی عطا کئے ہیں ۔ اور اپنی بعض صفات کو ایسے نام دیے ہیں جونام اس نے اپنی مخلوق میں سے بعض کی صفات کو بھی دیے ہیں ۔ لیکن دو مسمیٰ بالکل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو حیی ؛ علیم اور قدیر؛ رؤوف و رحیم؛ عزیز وحکیم؛ سمیع و بصیر؛ اور ملک اور مؤمن اور جبار و متکبر کہا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﴾[البقرۃ۲۵۵]

’’اللہ (وہ ہے کہ) اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، زندہ ہے، ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے۔‘‘

﴿ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ ﴾(شوری50)

’’یقیناً وہ علم والا، اور قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

﴿ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ﴾(البقرہ ۲۲۵)

’’بلکہ تمھیں اس پر پکڑتا ہے جو تمھارے دلوں نے کمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت بردبارہے۔‘‘

﴿ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾(البقرہ ۲۲۸)

’’اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘

﴿ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾[الحج ۶۵]

’’بے شک اللہ یقیناً لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘

﴿اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا ﴾[النساء۵۸] 

’’بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔‘‘

﴿ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلاَمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ ﴾ (الحشر23) 

’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، بادشاہ ہے، نہایت پاک ،سلامتی والا ،امن دینے والا ، نگہبان، سب پر غالب، اپنی مرضی چلانے والا، بے حد بڑائی والا ہے۔‘‘

اور پھر اپنے کچھ بندوں کے لیے بھی صفت ’’حیات ‘‘بیان کی ہیں ۔ ارشاد فرمایا :

﴿یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ ﴾[الروم۱۹]

’’ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔‘‘

اور بعض کو علیم بھی کہا ہے :

﴿وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ ﴾[الذاریات ۲۸]

’’ اور انھوں نے اسے ایک بہت علم والے لڑکے کی خوشخبری دی۔‘‘

اور بعض کو حلیم بھی کہا ہے :

﴿ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلاَمٍ حَلِیْمٍ ﴾(الصافات101)

’’ تو ہم نے اسے ایک بہت برد بار لڑکے کی بشارت دی۔‘‘

اور بعض کو رؤوف و رحیم بھی کہا ہے :

﴿ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ﴾(التوبۃ۱۲۸) 

’’ مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔‘‘

اور بعض کو سمیع و بصیر بھی کہا ہے :

﴿ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا﴾ (الانسان 2)

’’ سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا۔‘‘

اور کسی کو عزیز بھی کہا ہے :

﴿ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ ﴾[یوسف ۵۱]

’’ اور عزیز مصر کی بیوی نے کہا۔‘‘

اور بعض کو ’’ملک ‘‘ بھی کہا ہے؛ فرمایا:

﴿ وَ کَانَ وَرَآئَ ھُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا(الکہف ۷۹) 

’’ اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی چھین کر لے لیتا تھا۔‘‘

اور بعض کو ’’مؤمن ‘‘ بھی کہا ہے :

﴿اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا﴾ [السجدہ۱۸]

’’ پس بھلا جو کوئی مؤمن ہو ....۔‘‘

اور بعض کو’’ جبار اور متکبر‘‘ بھی کہا ہے ؛ فرمایا :

﴿ کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ ﴾(غافر35)

’’ اسی طرح اللہ ہر متکبر، سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ زندہ اور زندہ ؛ علیم اور علیم ؛ عزیز اور عزیز ؛ رؤوف اور رؤوف اور رحیم اور رحیم برابر نہیں ہوسکتے؛ او رنہ ہی بادشاہ اور بادشاہ؛ اور سرکش اورسرکش اور متکبر اور متکبر برابر ہوسکتے ہیں ۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ﴾[البقرۃ ۲۵۵]

’’اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرتے مگر جتنا وہ چاہے۔‘‘

﴿اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ ﴾[نساء ۱۶۶]’’ اس نے اپنے علم سے نازل کیا ہے۔‘‘ 

اورفرمایا: ﴿وَ مَا تَحْمِلُ مِنْ اُنْثٰی وَ لَا تَضَعُ اِلَّا بِعِلْمِہٖ ﴾[فاطر۱۱]

’’ اورمادہ جو بھی حمل اٹھاتی ہے یا اسے جنتی ہے؛ وہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔‘‘

اورفرمایا : ﴿اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴾(الذاریات58)

’’بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، طاقت والا، نہایت مضبوط ہے۔‘‘

اور فرمایا :

﴿ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً ﴾ (فصلت15) 

’’ اور کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ بے شک وہ اللہ جس نے انھیں پیدا کیا، قوت میں ان سے کہیں زیادہ سخت ہے۔‘‘

صحیحین میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام امور میں استخارہ کرنا ایسے سکھاتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورت سکھایا کرتے ۔ آپ فرماتے:

’’ جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فریضہ کے علاوہ دو رکعت نماز نفل پڑھے؛ اور پھریہ دعا مانگے :

(( اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلاَ اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلاَ اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللَّھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الاَمْرَ خَیْرٌ لِّی فِی دِیْنِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ اَمْرِی فَاقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِی ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیْہِ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الاَمْرَ شَرٌّ لِّی فِی دِیْنِی وَمَعَاشِی وَعَاقِبَۃِ اَمْرِی فَاصْرِفْہُ عَنِّی وَاصْرِفْنِی عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ ارْضِنِی بِہٖ ۔))[بخاری کتاب التہجد(1162) ابو داؤد کتاب الوتر]

’’اے اللہ میں تجھ سے تیرے علم کے ساتھ خیر کا مطالبہ کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ قوت کا مطالبہ کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے عظیم فضل کا سوال کرتا ہوں اس لئے کہ تو طاقت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے میں نہیں جانتا اور تو ہی غیبوں کا جاننے والا ہے اے اللہ اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ کام میرے لئے میرے دین‘ میری معیشت اور میرے کام کے انجام میں بہتر ہے تو اسے میرے مقدر میں کر دے اور میرے لئے اس کو آسان کر دے پھر میرے لئے اس میں برکت ڈال دے اور اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ کام میرے لئے میرے دین‘ میری معیشت اور میرے کام کے انجام میں برا ہے تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے مقدر میں بھلائی رکھ دے جہاں بھی ہو پھر مجھے اس پر راضی کر دے۔‘‘

اور سنن نسائی کی روایت میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں دعا فرمایا کرتے تھے:

((اَللّٰھُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ اَحْیِنِیْ مَاعَلِمْتَ الْحَیَاۃَ خَیْرًا لِّیْ وَتَوَفَّنِی اِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاۃَ خَیْرًا لِّیْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَشْیَتَکَ فیِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ وَاَسْئَلُکَ وَکَلِمَۃَ الْحَقِّ فیِ الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَ اَسْئَلُکَ الْقَصْدَ فِیْ الْغِنٰی وَالْفَقْرِ وَاَسْئَلُکَ نَعِیْمًا لَا یَنْفَدُ وَاَسْئَلُکَ قُرَّۃَ عَیْنٍ لَّا تَنْقَطِعُ وَاَسْئَلُکَ الرِّضا بَعْدَ الْقَضَائِ وَاَسْئَلُکَ بَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَاَسْئَلُکَ لَذَّۃَ النَّظْرِاِلٰی وَجْھِکَ وَالشِّوْقَ اِلٰی لِقَآئِکَ فِیْ غَیْرِ ضَرَّآئَ مُضِرَّۃٍ وَّلَا فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ۔ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ھُدَاۃً مُھْتَدِیْنَ۔))[نسائی ؛ کتاب السہو :1306 ؛ مستدرک حاکم ۱؍۵۲۴۔کتاب الدعا باب دعاء عمار بن یاسر؛ قال حاکم: حدیث صحیح و لم یخرجاہ۔]

’’اے اللہ ! اپنے غیب جاننے اور مخلوق پر تیرے اختیار کے واسطے سے مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تیرے علم کے مطابق زندگی میرے لیے بہتر ہو اور اس وقت مجھے فوت کرنا جب تیرے علم کے مطابق موت میرے لیے بہتر ہو۔ اے اللہ ! بے شک میں طالب ہوں تجھ سے تیری خشیت کا غائب اور حاضر (دونوں حالتوں ) میں اور میں طالب ہوں تجھ سے سچی بات کہنے کا، راضی اور ناراضی (دونوں حالتوں ) میں اور میں سوال کرتا ہوں ، تجھ سے میانہ روی اختیار کرنے کا مالداری اور تنگ دستی میں ، اور میں سوال کرتا ہوں تجھ سے ایسی نعمت کا جو ختم نہ ہونے والی ہو، اور سوال کرتا ہوں تجھ سے آنکھوں کی ٹھنڈک کا جو ختم نہ ہو،اور سوال کرتا ہوں تجھ سے راضی رہنے کا تیرے فیصلوں پر، اور میں مانگتا ہوں تجھ سے زندگی کی ٹھنڈک کا موت کے بعداور میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت کا اورتیری ملاقات کے شوق کا (جو) بغیر کسی تکلیف دہ مصیبت اور گمراہ کن فتنے کے (حاصل ) ہو اے اللہ! ہمیں مزّین فرما ایمان کی زینت سے ، اور بنا دے ہمیں راہنما ہدایت یافتہ۔‘‘

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی صفات علم و قدرت اور قوت بیان کی ہیں ؛ ارشاد فرمایا:

﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّن ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَۃً ﴾[الروم ۵۴]

’’اللہ وہ ہے جس نے تمھیں کمزوری سے پیدا کیا، پھر کمزوری کے بعد قوت بنائی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا بنا دیا۔‘‘

اور ارشاد فرمایا : ﴿وَ اِنَّہٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰہُ ﴾(یوسف۶۸)

’’اور بیشک آپ اس علم والے ہیں جو ہم نے آپ کو سکھایا ہے۔‘‘

یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ علم اور علم بر ابر نہیں ہوسکتے؛ اور نہ ہی قوت اورقوت برابر ہوسکتے ہیں ۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔