صفات باری تعالی میں تشبیہ کا وہم اور اس پررد
امام ابنِ تیمیہؒصفات باری تعالیٰ میں تشبیہ کا وہم اور اس پررد
یہ بات تمام عقلاء پر لازم آتی ہے۔ سو بلاشبہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفت کی نفی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لیے بیان کی ہے؛ جیسے ؛ رضا مندی؛ غصہ ہونا؛ اور محبت اوربغض۔اور اس طرح کی دیگر صفات ۔ اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس سے تشبیہ اور تجسیم لازم آتی ہے۔
تو اس سے کہا جائے گاکہ : ’’ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے لیے ارادہ ؛کلام ؛ سمع اور بصر کو ثابت مانتے ہیں ؛ حالانکہ جو صفات آپ ثابت مانتے ہیں وہ مخلوقات کی صفات کی طرح نہیں ہیں ۔ تو آپ جن چیزوں کو ثابت مانتے ہیں ؛ جیسا عقیدہ ان کے متعلق رکھتے ہیں ؛ ویسا ہی عقیدہ ان چیزوں کے متعلق بھی رکھیں جن کا آپ انکار کرتے ہیں ؛ اور اللہ اور اس کے رسول نے وہ ثابت کی ہیں ۔کیونکہ ان دونوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔
اگر وہ کہے کہ: ’’میں کسی بھی صفت کو ثابت نہیں مانتا ‘‘؟
تو اس سے کہا جائے گا کہ: کیا آپ تعالیٰ کے لیے اسماء حسنیٰ کو مانتے ہیں ؛ جیسے حیی ؛ علیم ؛ قدیر۔ اور بندوں کے بھی یہ نام رکھے جاتے ہیں ۔ اور ان اسماء میں سے جن کو آپ رب سبحانہ و تعالیٰ کے لیے ثابت مانتے ہیں ؛ وہ وہ ان اسماء کے مماثل اور مشابہ نہیں جن کو آپ بندے کے لیے ثابت مانتے ہیں ۔پس صفات کے بارے میں ویسا ہی عقیدہ رکھیں ؛ کیونکہ جو عقیدہ آپ کا اسماء اللہ الحسنی کے بارے میں وہی صفات میں ہونا چاہیے۔
اگروہ یہ کہے : میں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کو ثابت نہیں مانتا؛ بلکہ میں کہتا ہوں : یہ مجاز ہے۔ یا پھر یہ اس کی بعض ایجادات و تخلیقات کے نام ہیں ۔ جیسے غالی باطنیہ اور فلاسفہ کا عقیدہ ہے۔
تو اس سے کہا جائے گا: تم یہ عقیدہ تو ضرور رکھتے ہو گے کہ بیشک اللہ سبحانہ و تعالیٰ حق اور اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ اورموجود جسم بھی اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ مگر ان دونوں کے مابین کوئی مماثلت نہیں ۔
اگروہ کہے: میں ایسی کوئی بھی چیز نہیں مانتا ؛ بلکہ میں وجود الواجب کا انکار کرتا ہوں ۔
تو اس سے کہا جائے گا کہ: یہ بات تو صریح عقل کی روشنی میں معلوم شدہ ہے کہ موجود یا تو بنفسہ واجب ہوتا ہے؛ یا بنفسہ واجب نہیں ہوتا۔ اوریا قدیم اور ازلی ہوتا ہے؛ یا پھر حدیث اورکائن؛ حالانکہ اس سے پہلے وہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور پھر یا تو وہ مخلوق ہوگاجسے خالق کی حاجت ہوگی؛ یا پھر غیر مخلوق ہوگاجسے کسی خالق کی حاجب نہیں ہوگی۔ اور یا تووہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کا محتاج ہوگا؛ یا پھر اپنے سوا کسی کا محتاج نہیں ہوگا۔
بنفسہ غیر واجب واجب بنفسہ سے ہوسکتا ہے۔ اور قدیم کے بغیر حادث نہیں ہوسکتا۔ اورمخلوق کا ہونا خالق کے بغیر ممکن نہیں ۔اور فقیر کا ہونا غنی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔نقیضین کی تقدیر پر؛ موجود واجب بنفسہ ؛قدیم ازلی خالق اور اپنے علاوہ ہر ایک سے غنی کا وجود لازم آتا ہے؛ اورجو کچھ اس کے سوا ہے؛ وہ اس کے خلاف ہے۔
حس اور ضرورت کے تحت عدم کے بعد کائن اور حادث کا وجودموجود ہونا معلوم شدہ ہے۔ حادث نہ ہی واجب بنفسہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی ازلی قدیم ؛ اور نہ ہی اپنے علاوہ کسی چیز کا خالق ہوسکتاہے۔ اور نہ ہی دیگر سے غنی اور بے نیاز۔ پس ضرورت کے تحت دو موجودکا وجود ثابت ہوا۔ ان میں سے ایک دوسرے سے غنی اوربے نیاز ہے۔ ان میں سے ایک خالق اوردوسرا مخلوق ہے۔ اور یہ دونوں موجود اور ثابت ہونے میں متفق ہیں ۔ بلکہ جب محدث جسم ہو تو جو بھی چیز ان دو سے ہوگی؛ وہ اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوگی۔
یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک اپنی حقیقت میں دوسرے کے مماثل نہیں ہے۔ اگر ان کی آپس میں مماثلت ہوتی تو یہ دونوں واجب اور جائز اور ممتنع ہونے میں بھی برابر ہوتے۔ جبکہ ان میں ایک کا قدیم ہونا واجب ہے جو اپنی ذات کے ساتھ موجود ہو؛ اور ان دومیں سے ایک اپنے علاوہ ہر چیز سے غنی اور بے نیاز ہو۔ جب کہ دوسرا غنی نہیں ہوسکتا۔ اور ان دو میں سے ایک خالق ہو؛ جبکہ دوسرا خالق نہیں ہوسکتا۔اور اگر یہ دونوں متماثل ہوں تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک واجب القِدَم بھی ہو اور غیرواجب القِدَم بھی ہو؛ موجود بنفسہ بھی ہو اور غیر موجود بنفسہ بھی ہو۔ اپنے علاوہ دوسروں سے غنی اور بے نیاز ہوبھی اورنہ بھی ہو۔ خالق ہو لیکن مخلوق کو پیدا کرنے والا نہ ہو۔ پس اگر ان دونوں کے مابین تماثل کو تسلیم کرلیا جائے تو اس سے اجتماع ِ نقیضین لازم آتا ہے؛ جو کہ صریح عقل کی روشنی میں منتفی ہے۔اور نصوص شریعت بھی اس کا انکار کرتی ہیں ۔جب کہ عقل اور شریعت کا دوسرے امور میں اتفاق ہے۔ جیسا کہ ان دو میں سے ہر ایک موجود ثابت ہے؛اور اس کی اپنی حقیقت اور ذات ہے؛ جو کہ خود اس کا اپنا وجود ہے؛ اور جسم جو کہ اپنی ذات کے ساتھ قائم ہوتا ہے؛ وہ خود ہی اپنی ذات کے ساتھ قائم ہے۔
پس ان واضح براہین کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بعض وجوہات کی بنا پر ان کے مابین اختلاف ہے؛ اور بعض وجوہات کی بنا پر اتفاق ہے۔ پس جو کوئی ان کے اتفاقیہ امور کی نفی کرتا ہے؛ وہ معطل اور باطل عقیدہ کا پیروکار ہے۔ اور جو کوئی ان کو مماثل کہتا ہے؛ وہ بھی مشبہ اور باطل عقیدہ کا پیروکار ہے۔واللہ اعلم ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دومسمیٰ میں آپس میں کسی قدر اتفاق ہو؛ تو اس کے باوجود بھی یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنے وجود؛ علم و قدرت اور دیگرصفات اور خصوصیات میں بندے کی مشارکت سے پاک ہے۔ اگرچہ وجود ،علم اور قدرت کی صفات عبد اور معبود دونوں میں پائی جاتی ہیں اور وہ دونوں اس کے ساتھ موصوف ہیں ؛ لیکن اللہ تعالیٰ اس سے منزہ ہیں کہ کوئی بندہ اس کی خصوصیات میں اس کا شریک ہو۔علم و قدرت اور وجود کی یہ مشترک صفات اگرچہ آپس میں متفق ہیں ؛لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ذہن انسانی میں ایک کلی کی حیثیت رکھتی ہیں جن کا خارج میں کوئی وجود نہیں اور ان میں سے جو صفات موجودات عالم میں پائی جاتی ہیں وہ جدا گانہ نوعیت کی ہیں ۔اور ان میں سرے سے کوئی اشتراک موجود نہیں ۔یہ وہ مقام اضطراب ہے جہاں پر بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ان صفات کے متحدفی الاسم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ صفت ’’وجود ‘‘ جو باری تعالیٰ میں پائی جاتی ہے ، وہی بندے میں ہے۔
ایک گروہ کا خیال ہے کہ وجود کا لفظ مشترک لفظی کے لیے بولا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی عقلیں بہت لڑائیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اسماء عام اور قابل تقسیم ہیں اور سب ایک ہی قسم کی نہیں ، مثلاً کہا جاتا ہے، کہ وجود کی چار قسمیں ہیں :
۱۔واجب الوجود ۲۔ممکن الوجود
۳۔قدیم ۴۔حادث
ان اقسام میں مورد تقسیم مشترک [لفظ]ہے۔ اور ایسے ہی بعض الفاظ مشترک المعنی ہوتے ہیں ، مثلاً ’’مشتری ‘‘ ایک ستارہ کا نام بھی ہے، اور خریدار کو بھی مشتری کہتے ہیں ۔جب یہ لفظ ستارے کے لیے بولا جائے تو اس وقت اس کے معنی کی تقسیم ممکن نہیں ۔ لیکن جب اس سے مراد خریدار ہو تو پھر کبھی اس کے لیے اور کبھی اس کے لیے بولا جاسکتا ہے۔
بعض لوگوں کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اگر مشترک المعنی لفظ کو کلی مشکک قرار دیا جائے؛کیونکہ واجب الوجود کا ہونا ممکن سے زیادہ اولیٰ ہے۔یہ اس شبہ کا خلاصہ ہے۔جبکہ معاملہ ایسے نہیں ہے۔ اس لیے کہ مشترک کلی میں تفاضل معنی ممتنع نہیں ہے۔ یعنی معنی اپنے اصل میں دو چیزوں کے مابین مشترک ہو۔ جیسا کہ ’’سواد‘‘ یعنی سیاہ ؛ دو چیزوں میں مشترک ہوسکتاہے؛ مگر ان دونوں میں فرق بھی ہوتا ہے۔ان میں سے بعض کی سیاہی دوسرے کی نسبت بہت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ [یعنی ان کے افراد یکساں نوعیت کے نہیں ہوتے بلکہ ان میں تفاوت پایا جاتا ہے]۔ تو اس سے جملہ شبہات کا فور ہوجاتے ہیں اس لیے کہ واجب الوجود میں جو وجود پایا جاتا ہے وہ ممکن الوجود کی نسبت اعلیٰ واولیٰ ہے۔[[مگر یہ ہر گز درست نہیں اس لئے کہ مشترک کلی کے ایک فرد میں اگر معنی کی زیادتی ہوگی تو اس سے اس کے مشترک ہونے کی نفی نہیں ہوتی، وہ لفظ پھر بھی مشترک ہی رہے گا، اس لئے کہ وہ دونوں پر یکساں طور سے بولا جاتا ہے]]۔
ایک گروہ کے نزدیک وجود کلی متواطی عام ہے؛جس کے جملہ افراد یکساں ہوتے ہیں ۔ اس رائے میں خالق کا وجود اس کی حقیقت سے زائد ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ اس کی حقیقت اور وجود میں کوئی فرق و امتیاز نہیں پایا جاتا وہ وجود کو مشترک لفظی قرار دیتا ہے۔اس طرح کے عقائد پر ہم دوسری جگہ تفصیل سے کلام کرچکے ہیں ۔
خلاصہ کلام ! اس ضمن میں غلطی کی اصل وجہ لوگوں کا یہ وہم ہے کہ ان اسماء عامہ (مثلاً وجود، علم اور قدرت وغیرہ) کا مسمّٰی ایک کلی ہے اور یہ ایک چیز میں بھی وہی ہے جو دوسری میں ۔ حالانکہ یہ درست نہیں اس لئے کہ جو چیز خارج میں موجود ہو وہ ایک عام[مطلق] کلی کی حیثیت سے پائی نہیں جاتی، بلکہ وہ ہمیشہ معین ومخصوص ہوگی۔ ان اسماء سے جب اللہ تعالیٰ کو موسوم کیا جائے گا تو ان کا مسمی مختص ہو گا اور جب بندے کو ان سے موسوم کیا جائے گا تو بندہ کے ساتھ ان کا اپنا اختصاص ہوگا۔پس اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حیات میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہوسکتا۔ بلکہ کسی ایک متعین کا وجود اس کے ساتھ خاص ہوتا ہے جس میں کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں ہوتا ؛ تو پھر خالق کے بارے میں اشتراک کا کیسے کہہ سکتے ہیں ۔ جب یہ کہا جائے کہ عبد و معبود صفت وجود میں مشترک ہیں تو یہ اشتراک صرف وجود ذہنی میں پایا جاتا ہے؛ ماہیت و حقیقت اور ذات کے اعتبار سے ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ضروری ہے[ان میں اس اعتبار سے کوئی اشتراک نہیں ہوتا]۔
جیسے اس کی ایک حقیقت ہے جو اسی کے ساتھ خاص ہے؛ ایسے ہی اس کا وجود بھی اس کے ساتھ خاص ہے۔ اس غلطی کا منشا و مصدر یہ ہے کہ وجود کو علی الاطلاق اخذ کیا گیا ہے اور حقیقت کو مخصوص قرار دیا گیا۔ حالانکہ وجود اور حقیقت دونوں کو مطلقاً بھی اخذ کیا جا سکتا ہے، اور ان کو مخصوص بھی کر سکتے ہیں ۔ اندریں صورت وجود مطلق حقیقت مطلقہ کے مساوی ہوگا اور وجود مخصوص حقیقت مختصہ کے برابر ۔ گویا وجود مطلق حقیقت مطلقہ سے ہم آہنگ ہوگا اور وجود مخصوص حقیقت مختصہ کے مطابق و موافق؛ دونوں کا مسمی ایک ہوگا، مگر تسمیہ کی جہت متعدد ہوگی۔ مثلاً کہا جاتا ہے: ’’ھٰذَا ہُوَ ذَاکَ ‘‘ اس میں مشارالیہ ایک ہے مگر جہتیں مختلف ہیں ۔
ایسے ہی جب یہ دو وجود کلی کے مسمیٰ میں مشترک ہوتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک اپنے وجود کی خاصیت کے اعتبار سے دوسرے سے جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ جب دو انسان یا دو حیوان مسمیٰ انسانیت یا حیوانیت میں مشترک ہوں تو ان میں سے ہر ایک اپنی خاص انسانیت یا خاص حیوانیت کے اعتبار سے دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ اور اگریہ مان لیا جائے کہ وجود کلی خارج میں ثابت ہے ؛ تو پھر بھی اس کے خاص وجود کے اعتبار سے ان کے مابین فرق کیا جانا ممکن ہے ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ وجود اور ماہیت سے مرکب ہے۔تو پھر اس کے خلاف کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ اور جس کسی نے یہ کہا ہے کہ یہ ہر امر ثبوتی کی سلبیت کی شرط کے ساتھ مطلق وجود ہے؛ تو اس کا یہ قول فاسد ترین قول ہے۔ ہم اس مسئلہ پر دوسرے مقامات پر تفصیل کے ساتھ بحث کر چکے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے اسما و صفات ثابت کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مخلوقات کے مشابہ و مماثل ہے۔[اس میں شبہ نہیں کہ باری تعالیٰ ایسی صفات سے متصف ہے جو اس کی ذات کے ساتھ لازم ہیں ، یہ صفات اسی طرح قدیم، ازلی اور واجب ہیں جس طرح اس کی ذات قدیم و واجب ہے، اس میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ۔یہ کہنا کہ اسماء الٰہی ثابت ہیں مگر صفات نہیں ، ایک قسم کا عقلی مغالطہ ہے۔ مزید برآں یہ نظریہ قرامطہ کی پیروی کا غماز ہے۔ جمہور کے نزدیک یہ تقسیم ایک شنیع قسم کی خطا اور بدعت ہے۔ سنت کی پیروی کرنے والے اہل حق کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جسمانیت سے ہر گز موصوف نہیں ہوسکتا۔ (تعالی اﷲ عن ذلک )۔ بلکہ دور جاہلیت اور دور اسلام کے عرب بھی اﷲ تعالیٰ کو جسم سے منزہ تصور کرتے تھے]