Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا محمود حسن ہزاروی اجمیری رحمۃ اللہ کا فتویٰ آغا خانیوں کا سنیوں کی مسجد میں نماز پڑھنا


حضرت مولانا محمود حسن ہزاروی اجمیریؒ کا فتویٰ

(سابق شیخ الحدیث جامعہ حسینیه را ندیر)

سوال: یہاں آغا خانی خوجہ قوم کے چھ سات گھر ہیں، یہ لوگ کانوڈا کو پوجتے ہیں سیدنا علیؓ کو بھی مانتے ہیں عوام میں خانہ والا خوجہ مشہور ہیں، رمضان کی ستائیسویں روز جو کھانا سنیوں کی طرف سے پکایا جاتا ہے یہ لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں عیدین کی نماز میں شرکت کر کے پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں کبھی میت کو کندھا دیتے ہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: آغاخانی شیعوں میں بہت سے باتیں مشرکوں کی پائی جاتی ہیں اور مسئولہ صورت میں جبکہ غیر اللہ کی پرستش ثابت ہے تو اب ان کے کفر میں شبہ ہی نہ رہا۔

اور ذمیوں اور مشرکوں کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ ذمیوں کی پوشاک، سواری، مکانات و غیرہ مسلمانوں سے علیحدہ رکھی جائے تو ان کو ذلت کی نشانیوں سے ممتاز رکھے جائیں۔

اب سائل خود فیصلہ کرے کہ جب کفار اور مشرکوں کو خوراک پوشاک مکان میں مسلمانوں سے علیحدہ ممتاز طرز پر مجبور کرنا ضروری ہے تو نماز اور عبادات جیسی شعائر اسلام میں ان کو کس طرح موقع دیا جا سکتا ہے؟ پھر جبکہ ابتداء سے آغا خانیوں کی جماعت، معبد قبرستان، شادی بیاہ و غیرہ تمام امور میں سنی مسلمانوں سے علیحدہ قائم کئے جاتے ہیں، تو یہ خود ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ مذہباً اپنے آپ کو مسلمانوں کے ساتھ شریک نہیں سمجھتے۔

ان حالات کی موجودگی میں ان کو اپنے شعائر اسلامی میں شرکت دینے سے ایک طرف مشرکوں کی توقیر (عزت ہوتی ہے تو دوسری طرف شعائر اسلامی کی تحقیر ہوتی ہے۔ لہٰذا جب تک وہ باطل مسلک سے کلیہ کنارہ کش ہو کر مذہب حق کے تسلیم پر آمادہ نہ ہو، اس وقت تک عبادات اور شعائر اسلامی میں ان کو شریک نہ کیا جائے۔

(معین الفتاویٰ: صفحہ، 169)