نوویں فصل: ....حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل عشرہ
امام ابنِ تیمیہؒنوویں فصل
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل عشرہ
[شبہات و اعتراضات] :شیعہ مصنف لکھتا ہے: عمرو بن میمون روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ میں دس اوصاف پائے جاتے ہیں جو کسی اور میں موجود نہیں :
¹۔ حضرت علیؓ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کے حق میں فرمایا: ’’ میں ایک ایسے شخص کو بھیجوں گا، جسے اللہ تعالیٰ ہرگز رسوا نہیں کرے گا وہ اللہ و رسول کو چاہتا ہے اور اللہ و رسول اسے چاہتے ہیں ۔ آپ نے ادھر ادھر دیکھا، پھر فرمایا ،علیؓ کہاں ہیں؟
لوگوں نے کہا : یارسول اللہﷺ : ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے ‘اور آرام کررہے ہیں ۔
حضرت علیؓ تشریف لائے ‘آپ کی آنکھوں میں تکلیف کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتے تھے۔ پھر آپ نے ان کی آنکھوں میں پھونک ماری ‘پھر تین بار جھنڈے کو ہلایا اور آپ کو عطا کردیا؛آپ صفیہ بنت حیي بن اخطب کو گرفتار کرکے لائے ۔
²۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا، بعد ازاں ان کے پیچھے حضرت علیؓ کو روانہ کیا اور فرمایا: ’’ اس سورت کو لے کر وہ شخص جائے گا جو میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔‘‘
³۔ رسول کریمﷺ نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے پوچھا:’’ کون شخص دنیا و آخرت میں مجھ سے دوستی لگانا چاہتا ہے؟‘‘ سب نے انکار کردیا۔
حضرت علیؓ نے کہا:’’ میں آپ سے دنیا و آخرت میں دوستی لگاؤں گا۔‘‘
فرمایا : ’’ آپ نے اسے چھوڑ دیا ؛ پھر ان آدمیوں میں سے ایک آدمی کے پاس آئے ؛ آپ نے پوچھا:’’ کون شخص دنیا و آخرت میں مجھ سے دوستی لگانا چاہتا ہے؟‘‘ سب نے انکار کردیا۔
حضرت علیؓ نے کہا:’’ میں آپ سے دنیا و آخرت میں دوستی لگاؤں گا۔‘‘ تو آپ نے فرمایا :تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔‘‘
⁴۔ حضرت علیؓ اوّلین شخص تھے جو حضرت خدیجہؓ کے بعد اسلام لائے۔
⁵۔ نبی کریمﷺ نے اصحاب خمسہ[حضرت علی ‘حضرت حسن حضرت حسین اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہم کو چادر تلے چھپایا اور آیت کی تلاوت فرمائی:
﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ [الأحزاب33]
’’ اے اہلِ بیت نبی اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔‘‘
⁶۔ چھٹی خصوصیت: حضرت علیؓ نے جان کی بازی لگائی اور نبی کریمﷺ کی قمیص پہن کر مکہ میں نبی کریمﷺ کے بستر پر سوئے رہے؛اس وقت مشرکین آپ پر سنگ باری کرر ہے تھے۔
⁷۔ ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ سرکار دو عالمﷺ غزوۂ تبوک کے لیے مدینہ سے نکلے اور حضرت علیؓ کو ساتھ جانے کی اجازت نہ دی تو آپ رو پڑے۔ سرور کائناتﷺ نے فرمایا :’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی؛ سوائے اس کے کہ آپ نبی نہیں ہیں ۔ اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں چلا جاؤں مگر آپ کو اپنا خلیفہ بناکر ۔‘‘
⁸۔ آٹھویں خصوصیت کہ نبی کریمﷺ نے ان کے حق میں فرمایا:’’ میرے بعد آپ ہر مومن کے دوست ہیں ۔‘‘
⁹۔ نویں خصوصیت کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’ کے سوا باقی سب لوگوں کے وہ دروازے بند کردیے جائیں ۔ چنانچہ علیؓ بحالت جنابت مسجد نبوی میں سے گزرا کرتے تھے۔اسکے علاوہ آپ کا دوسرا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔
¹⁰۔ حضرت علیؓ کی دسویں خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کے حق میں فرمایا:(مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔)
’’ جس کا میں دوست ہوں ‘علی بھی اس کا دوست ہے ۔‘‘
نبیﷺ سے مرفوعاً روایت کیا گیا ہے کہ: آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ روانہ کیا۔ چنانچہ آپ تین شب و روز چلتے رہے۔ پھر حضرت علیؓ کو بھیج کر حضرت ابوبکرؓ کو واپس بلوایا اور علیؓ کو حکم دیا کہ وہ سورۂ توبہ مکہ پہنچائیں ۔ حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوی میں پہنچ کر روپڑے۔ اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول! کیا میرے بارے میں کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟ آپ نے فرمایا:’’ نہیں البتہ مجھے حکم دیا گیا تھا کہ یہ سورت خود مکہ پہنچاؤں یا میرا کوئی اپنا آدمی یہ فریضہ انجام دے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جوابات] :یہ کسی مستند حدیث میں ثابت نہیں ہے۔ عمرو بن میمون کی روایت کردہ یہ روایت مرسل ہے( اس لیے کہ عمرو بن میمون نے حضرت معاذ بن جبلؓ کے ہاتھ پر بیعت اسلام کی ا ور نبی کریمﷺ سے نہ مل سکے) مزید براں اس حدیث کے بعض الفاظ ایسے ہیں جو نبی کریمﷺ پر اپنی طرف سے گھڑ کر منسوب کئے گئے ہیں ۔ مثلاً یہ فقرہ:
( لَا یَنْبَغِیْ اَنْ اَذْہَبَ اِلَّا وَ اَنْتَ خَلِیْفَتِیْ۔)
’’میں اس صورت میں مدینہ سے باہر جا سکتا ہوں جب آپ میرے خلیفہ ہوں ۔‘‘
حالانکہ نبی کریمﷺ نے حضر ت علیؓ کے علاوہ متعدد مرتبہ دوسرے صحابہ کرامؓ کو اپنا نائب بنایا تھا۔ جب آپ نے حدیبیہ والا عمرہ کیا تو حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے ‘ اور مدینہ پر آپ کا خلیفہ کوئی اور تھا۔اس کے بعد آپ نے غزوہ خیبر کیا تو حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے ؛ اور مدینہ میں خلیفہ کوئی اور تھا۔ غزوہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے اور مدینہ پر خلیفہ کوئی دوسرا آدمی تھا۔ ایسے ہی غزوہ حنین اور غزوہ طائف کے موقع پر حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے اور مدینہ میں خلیفہ رسول کوئی اور تھا۔ آپ نے حجۃ الوداع کیا ‘ حضرت علیؓ آپ کے ساتھ حج پر تھے ‘ اور مدینہ پر حاکم کوئی اور تھا اور ایسے ہی غزوہ بدر کے موقع پر حضرت علیؓ آپ کے ساتھ تھے ‘ مدینہ میں کوئی دوسرا خلیفہ رسول تھا۔
یہ تمام باتیں صحیح اسناد کے ساتھ معلوم شدہ ہیں ۔ اور ان پر اہلِ علم محدثین کا اتفاق ہے۔ اکثر غزوات میں حضرت علیؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ ہوا کرتے تھے ؛ خواہ ان غزوات میں قتال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔
اگر کوئی یہ کہے کہ :آپ کے خلیفہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہی افضل ہیں ۔تو اس سے لازم آتا
ہے کہ اتنے سارے غزوات [و واقعات ] میں حضرت علیؓ مفضول ہوں اور ایسے ہی حج و عمرہ کے موقع پر بھی۔ پھر باقی غزوات کے موقع پر خلیفہ مردوں پر بنایا جاتا تھا ؛ جب کہ غزوہ تبوک کے موقع پر معذوروں ؛عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنایا گیا۔اس وقت مدینہ میں [صحیح سالم اورتندرست] اہل ایمان میں سے صرف وہی تین مرد پیچھے رہ گئے تھے[ جن کی معافی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ] یا پھر وہ انسان باقی تھا جس پر منافق ہونے کی تہمت ہو۔ اس وقت مدینہ میں ہر لحاظ سے امن و امان تھا۔ اہلِ مدینہ کو کسی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا اور پیچھے رہ جانے والوں کو جہاد کی ضرورت نہیں تھی۔جس طرح کہ باقی اکثرمواقع پر ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح شیعہ کی پیش کردہ حدیث ((سُدُّوا الْاَبْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلِیٍّ)) [أورد ابن الجوزِیِ ہذا الجزء مِن حدِیثِ عمرِو بنِ میمون فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۶۴وحکم علیہِ بِالوضعِ:1؍366، وذکر أن ہذا الحدِیث مِن ہذا الطرِیقِ وغیرِہِ حدِیث موضوع ثم قال: فہذِہِ الأحادِیث کلہا مِن وضعِ الرافِضۃِ قابلوا بِہا الحدِیث المتفق علی صِحتِہِ فِی: سدوا الأبواب ِإلا باب أبِی بکر۔] روافض کی طرف سے بطور مقابلہ اپنی گھڑی ہوئی ہے۔
جبکہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے مرض الموت میں فرمایا:
’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکرؓ کے مال او ررفاقت کا ممنون ہوں ۔‘‘اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔حضرت ابوبکرؓ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘[بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:3654)مسلم، (ح:۲۳۸۲)۔] شیعہ کی پیش کردہ حضرت ابن عباس کی روایت’’اَنْتَ وَلِیِّیّ فِیْ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی‘‘ باتفاق محدثین موضوع ہے ۔[جاء ہذا الحدِیث فِی ِکتاب فضائل الصحابۃ:1؍503، رقم:521، 1؍524، رقم:868 وقال المحقِق:1؍503، موضوع وفِیہِ متروکانِ متہمانِ بِالوضعِ: طلحۃ وعبیدۃ۔ وجاء الحدِیث فِی حقِ عثمان بنِ عفان رضِی اللّٰہ عنہ فِی الموضوعاتِ:1؍334، البِدایۃِ والنِہایۃِ:7؍213 وغیرِہا مِن المراجِعِ، وذکر المحقِق أن ہذا الحدِیث أیضاً موضوع۔ ] صحیح حدیث میں جن دیگر امور کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نہ تو ائمہ کی کوئی خصوصیات ہیں اور نہ ہی حضرت علیؓ کی
خصوصیات؛بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک ہیں ؛ مثلاً:
¹۔ حضرت علیؓ اللہ و رسول کو چاہتے ہیں ؛ اور اللہ اور اس کا رسول حضرت علیؓ کو چاہتے تھے۔
²۔ حضرت علیؓ کو حاکم مدینہ مقرر کرنا۔[4] ہم قبل ازیں تحریر کر چکے ہیں کہ سیدنا علیؓ کو صرف ایک ہی مرتبہ حاکم مدینہ مقرر کیا گیا تھا۔ جب کہ دیگر صحابہؓ کو متعدد مرتبہ یہ خدمت تفویض ہوئی تھی جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اگر حاکم مدینہ کا سب لوگوں سے افضل ہونا ضروری ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کوئی دوسرا حاکم مقرر کیا گیا سیدنا علیؓ اس وقت مفضول تھے۔ مزید برآں دوسرے صحابہ کی حاکمیت مدینہ کے زمانہ میں وہاں سب مومن موجود ہوا کرتے تھے، مگر جب سیدنا علیؓ کو حاکم مدینہ مقرر کیا گیا تو عورتوں اور بچوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا علیؓ اس سے افسردہ خاطر ہوئے اور اسے اپنی توہین پر محمول کیا۔ اس وقت مدینہ مامون تھا، اسے کوئی خطرہ لاحق تھا نہ وہاں جہاد کی ضرورت تھی۔
³۔ یہ بات کہ حضرت علیؓ کو رسول اللہﷺ کے ساتھ وہی مرتبہ حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے۔
⁴۔ حضرت علیؓ کا اس انسان کا دوست ہونا رسول اللہﷺ جس کے دوست ہوں ۔ اس لیے کہ ہر مؤمن اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دوستی رکھتا ہے۔
⁵۔ حضرت علیؓ کا سورۂ توبہ کو لے کر مکہ جانا؛ کیونکہ بنی ہاشم کے علاوہ کوئی یہ سورت مکہ نہیں پہنچا سکتا۔اس میں سارے بنی ہاشم مشترک ہیں ۔ان میں سے کوئی بات بھی حضرت علیؓ کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت علیؓ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ نقض عہد کی اطلاع دینے کے لیے حاکم اعلیٰ کے قبیلہ کا کوئی شخص جایا کرتا تھا۔ اس سورۃ میں بھی نقض عہد کی اطلاع دی گئی ہے، اس لیے حضرت علیؓ کا مکہ جانا ضروری تھا۔[یہ بات غلط ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ سورۂ توبہ لے کر گئے اور پھر انھیں معزول کرکے سیدنا علیؓ کو بھیجا گیا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ کو امیر حج مقرر کیا تھا اور آپ بہمہ وجوہ آنحضرتﷺ کی موجودگی یا عدم موجودگی میں اس کے اہل تھے۔ سیدنا ابوبکرؓ مدینہ سے رخصت ہو چکے تھے کہ سورۂ توبہ نازل ہوئی۔ نبی کریمﷺ نے سیدنا علیؓ کو یہ سورۃ دے کر سیدنا ابوبکرؓ کی جانب بھیجا، اس کے دو اسباب تھے، پہلی وجہ ذکر کی جا چکی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس سورۃ میں یہ آیت بھی ہے:﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ﴾ اس آیت میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی جو مدح و ثنا بیان کی گئی ہے، وہ اس وقت تک باقی ہے، جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے سیدنا علیؓ کا اس عظیم سورۃ کو لے کر جانا جو صدیق اکبرؓ کی فضیلت و منقبت پر مشتمل ہے خود حضرت علیؓ کی فضیلت کی دلیل اور ان لوگوں کے لیے ابدی ذلت کا موجب ہے جو ابوبکر صدیقؓ کے لیے اپنے دل میں بغض و عداوت رکھتے ہیں ۔‘‘]