Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنی عورت کا نکاح رافضی سے کرنے اور اس میں قاضی اور گواہوں کا حکم


سوال: ایک سنی حنفی عورت کا نکاح ایک رافضی کے ساتھ ہوا ہے، جس میں قاضی اور گواہ سب حنفی تھے۔ تو کیا یہ نکاح جائز ہے؟ اور قاضی اور گواہوں پرگناہ ہو گا یا نہیں؟

جواب: رافضیوں کے مختلف فرقے ہیں اور مختلف اعتقادات ہیں، اس واسطے ان کے کفر اور عدم کفر کے متعلق مشائخ نے اختلاف کیا ہے، مگر سب کا خلاصہ جو علامہ ابنِ عابدینؒ نے حاشية السدر المختار اور والبحر الرائق اور ایک مستقل رساله تنبيه الولاة والحكام على شاتم خير الانام اواحد اصحابه الکرام میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ

اگر رافضی کے اعتقادات حد کفر کو پہنچے ہوں جیسے سیدنا علیؓ کو خدا یا نبی کا درجہ دینا حضرت جبرائیلؑ کی وحی میں غلطی کی طرف نسبت کرنا یا ایسے اعتقادیات رکھنا ہو یقینی اور قلعی نصوص کے خلاف ہوں تو ایسا شخص کافر ہو گا اور کافر کے ساتھ مناکحت جائز نہیں۔ اور اگر اس کے اعتقادیات مندرجہ کفریات تک نہ پہنچے ہوں تو دیگر اجتہادی و خاطیوں کی وجہ سے ہم کسی اہلِ قبلہ پر کفر کا حکم نہیں لگاتے ، اس لئے ان کے ساتھ مناکحت جائز ہو گی۔

مسئولہ مسئلہ میں اگر رافضی قسم اول سے ہے تو حنفی عورت کا نکاح اس کے ساتھ یقیناً نا جائز ہے، اور اس حرام فعل میں قاضی وغیرہ کی معاونت اور شرکت بھی یقیناً موجب فسق و گناہ ہو گی جس سے تو یہ کہنا لازم ہے قال الله تعالى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ‌ 

(سورۃ المائدہ: آیت نمبر، 2)اور اگر قسم دوم کا رافضی ہے تو نکاح جائز ہو گا۔

اس کے ساتھ میرے نزدیک یہ قید ضروری ہے کہ چونکہ عورت محکوم اور عموماً شوہروں کے خیالات کی تابع رہتی ہیں یہ خلاف مردوں کے کہ وہ عورتوں کے خیالات سے کم اثر پذیر ہوتے ہیں، اس لئے رافضی عورت کا نکاح سنی سے تو جائز قرار دیا جائے بشرطیکہ قسم اول روافض سے نہ ہو، اور سنی عورت کو قسم اول رافضی سے تو نکاح ہی جائز نہیں اور قسم دوم رافضی کے ساتھ نکاح کی اس وقت اجازت دی جائے جب یہ اندیشہ ہو کہ سنی عورت رافضی کے فاسد اعتقادیات اور خیالات سے اثر پذیر ہو جائے گی۔

و بهذا ظهران الرافضي ان كان ممن يعتقد الالوهية في على أوان جبرائيل عليه السلام غلط في الوحي او كان يذكر صحبة الصديق أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر المخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة بخلاف ما اذا كان يفضل عليا أو يسب الصحابة فانه مبتدع لا كافر كما أوضحته في كتابی۔

(معين الفتاوىٰ: صفحہ، 376)