Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

گیارھویں فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خصوصی اوصاف

  امام ابنِ تیمیہؒ

گیارھویں فصل

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خصوصی اوصاف
[اشکال] شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’عامر بن واثلہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے چھ صحابہؓ کواپنے میں سے خلیفہ منتخب کرنے کے لیے مقرر کیا تو میں حضرت علیؓ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا؛ آپ نے ان کو مخاطب کر کے کہا:میں تمہارے سامنے ایسی دلیل پیش کروں گا، جس سے تمھارے کسی عربی یا عجمی کو مجال انکار نہ ہو گی۔ مندرجہ ذیل باتوں کا جواب دیجیے:

¹ـ اے لوگو! میں تم سب کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا تم میں سے کوئی شخص مجھ سے پہلے توحید کا قائل ہوا ہے ؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا ۔

²ـ میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کا بھائی میرے بھائی جعفر طیار جیسا ہو‘جو جنت میں ملائکہ کیساتھ رہ رہا ہے ؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
³ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کا چچا میر چچا حمزہ جیسا ہو‘جو اللہ اور اس کے رسول کا شیر تھا؛اور جو سید الشہداء ہوئے؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
⁴ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کی بیوی میری بیوی فاطمہ بنت محمدﷺ  سیدۃ نساء اہلِ جنت کی طرح ہو؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
⁵ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے دو ایسے بیٹے ہوں جیسے میرے دو بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ہیں ؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
⁶ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے رسول اللہﷺ سے مشورہ کرنے سے پہلے دس بار صدقہ کیا ہو؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
⁷ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہو: ’’ من کنت مولاہ فعلي مولاہ؛ اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ ۔‘‘ جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔ اے اللہ ! جو اس سے دوستی رکھتے تو بھی اس سے دوستی رکھے اور جو کوئی اس سے دشمنی کرے تو تو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔‘‘اور حاضرین کو چاہیے کہ یہ بات غائبین تک پہنچا دیں ۔ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔ 
⁸ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے دعا کی ہو: ’’ اے اللہ اپنی مخلوق میں اپنے اور میرے سب سے محبوب شخص کو لے آ تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے اسے وہاں پہنچا دیا ہو ؛ اور پھر اس نے آپ کے ساتھ وہ کھانا کھایا ہو؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
⁹ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہو :
’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح نہ دے دے۔اور وہ شکست خوردہ واپس نہیں ہوگا؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
 ¹⁰ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ  نے بنی وکیعہ سے کہا ہو: تم اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ ؛ ورنہ میں تم پر ایسا آدمی بھیجوں گا جس کی ذات میری ذات کی طرح ہوگی۔اور اس کی اطاعت ایسے ہوگی جیسے میری اطاعت ۔ اور جس کی نافرمانی ایسے ہوگی جیسے میری نافرمانی۔اور وہ تلوار کے ساتھ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹¹ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ  نے فرمایا ہو: وہ انسان جھوٹ بولتا ہے جو خیال کرتا ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے ‘ مگر اس [یعنی خود حضرت علیؓ ]سے بغض رکھتا ہو؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹²ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص موجود ہے جس پر بیک وقت تین ہزار فرشتوں ، نیز جبرئیل و میکائیل اور اسرافیل نے سلام بھیجا ہو۔ یہ اس وقت ہوا جب میں کسی اور کے کنوئیں سے نبی کریمﷺ  کے پاس پانی لایا۔ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹³ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے لیے آسمان سے آواز لگائی گئی ہو: ’’لا فتی إلا علی و لا سیف إلا ذوالفقار‘‘’’نوجوان ہے تو صرف علی اور تلوار ہے تو صرف ذوالفقار ؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔ 
¹⁴ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے لیے جبریل نے یہ کلمات کہے ہوں ؛ جب رسول اللہﷺ  نے [میرے بارے میں ]فرمایا: وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘
تو جبریل امین نے کہا : ’’ میں تم دونوں میں سے ہوں ‘‘؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹⁵ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے متعلق رسول اللہﷺ  نے فرمایا ہو: ’’ تم وعدہ توڑنے والوں ؛ نافرمانوں اور دین سے نکل جانے والے لوگوں سے جنگ کرو گے؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹⁶ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ  نے فرمایا ہو: میں تنزیل قرآن پر جنگ کرتا ہوں ‘اور تم میری تفسیر کے علاوہ کوئی دوسری تفسیر کرنے پر لوگوں سے جنگ کرو گے؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم! نہیں ۔
¹⁷ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے لیے سورج کو واپس لوٹایا گیا ہو‘ حتی کے اس نے وقت نکلنے کے باوجود عصر اپنے وقت پر پڑھی ہو؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹⁸ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے حضرت ابو بکرؓ  سے سورت برأت واپس لی ہو ؟ یہاں تک کہ ابوبکرؓ  کہنے لگے : یارسول اللہﷺ ! میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے ؟ تو رسول اللہﷺ  نے فرمایا: ’’ علی کے علاوہ میری طرف سے یہ سورت کوئی نہیں پہنچا سکتا؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
¹⁹ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو:’’ تم سے صرف مؤمن ہی محبت رکھے گا؛ اور تم سے صرف کافر اور منافق ہی بغض رکھے گا؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
²⁰ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ  نے تم سب کے دروازے بند کرنے اور میرا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا۔اور تم لوگ پھر اس میں باتیں کرنے لگے۔تو رسول اللہﷺ  نے فرمایا: میں نے نہ ہی تمہارے دروازے بند کیے ہیں اور نہ ہی اس کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دروازے بند کیے اور اس کا دروازہ کھلا چھوڑا ہے ؟ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
²¹ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہﷺ  نے غزوۂ طائف میں باقی لوگوں کو چھوڑ کر دیر تک مجھ سے سرگوشی کی۔ یہاں تک کہ تم لوگ کہنے لگے:ہمیں چھوڑ کر اس سے سر گوشیاں کر رہا ہے ۔تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: صرف میں ہی اکیلا آپ سے سرگوشی نہیں کررہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ سے سرگوشی کی ہے؟کہنے لگے : اللہ کی قسم ! ہاں ہم جانتے ہیں ۔
²²ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم جانتے ہو کہ میرے متعلق رسول اللہﷺ  نے فرمایا تھا:’’ حق علی کے ساتھ ہے ؛ اور علی حق کے ساتھ ہے ؛ اور علی کے زوال کے ساتھ حق کو بھی زوال ہو گا؟کہنے لگے : ہاں اللہ کی قسم! ہم جانتے ہیں ۔
²³ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم جانتے ہو کہ نبی کریمﷺ  نے میرے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : ’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ؛ وہ کتاب اللہ اور میرے اہلِ بیت کی عترت ؛یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہو جائیں‘‘؟کہنے لگے :ہاں ! ہم جانتے ہیں ۔
²⁴ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس نے اپنی جان نثار کر کے رسول اللہﷺ کو مشرکین سے بچایا ہو؟ اور آپ کی جگہ پر لیٹ گیا ہو؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
²⁵ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جو عمر بن عبدود عامری کے مقابلہ کے لیے نکلا ہو جب اس نے مبارزت طلب کی تھی؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
²⁶ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے متعلق آیت تطہیر نازل ہوئی ہو ؟ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾’’ اے اہل بیت نبی اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔‘‘ کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
²⁷ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہو: ’’ تم مؤمنین کے سردار ہو؟کہنے لگے : اللہ کی قسم نہیں ۔
²⁸ـ  میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تم میں میرے علاوہ کوئی ایسا ہے جس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہو: ’’میں نے کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں مانگی ‘مگر وہی چیز تمہارے لیے بھی مانگی ہے ؟کہنے لگے : اللہ کی قسم! نہیں ۔
ابوعمر زاہد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا حضرت علیؓ  میں چار اوصاف پائے جاتے ہیں جو کسی اور میں موجود نہیں :
¹۔ علیؓ اوّلین شخص ہیں جس نے نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز ادا کی۔
²۔ یہ نبی کریمﷺ  کے علم بردار تھے۔
³۔ علیؓ وہ شخص ہے جس نے غزوۂ حنین میں نبی کریمﷺ کے ساتھ صبر کیا[اورثابت قدم رہے]۔
⁴۔ علیؓ  وہ شخص ہے جس نے نبی کریمﷺ کو غسل دیا اور قبر میں اتارا۔
سرور کائناتﷺ  سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ شبِ معراج میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے جبڑے چھیلے جا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ اس نے کہا:’’ یہ لوگوں کی غیبت کرنے والے افراد ہیں ‘ ‘۔ پھر میں ایسے لوگوں کے نزدیک سے گزرا جو چِلا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل سے دریافت کیا یہ کون ہیں ؟ اس نے کہا ’’ یہ کافر ہیں ‘‘ پھر ہم دوسری راہ پر چل دیے۔ جب چوتھے آسمان پر پہنچے تو حضرت علیؓ  کو نماز پڑھتے دیکھا۔ میں نے جبرئیل سے دریافت کیا یہ کون ہے؟ کیا علیؓ ہم سے پہلے یہاں پہنچ گئے ؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا یہ علیؓ نہیں ہے۔ میں نے کہا: تو پھر یہ کون ہے؟ بات یہ تھی کہ ملائکہ مقربین اور دوسرے ملائکہ نے جب سے حضرت علیؓ کے فضائل اور خصوصیات سنیں ؛ نیز ان کے متعلق آپ کی یہ حدیث سنی: ’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ إلا أنہ لا نبي بعدي‘ ‘ اس وقت سے حضرت علیؓ  کو دیکھنے کے مشتاق تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ  کا ہم شکل فرشتہ پیدا کر دیا۔اب جب کبھی انہیں حضرت علیؓ  کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے تو وہ اس جگہ پر آ جاتے ہیں ‘ گویا کہ وہ علیؓ  کو دیکھ لیتے ہیں ۔‘‘
حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ  نے ایک دن فرمایا تھا:
’’ میں خود نوجوان، نوجوان کا بیٹا اور نوجوان(حضرت علی) کا بھائی ہوں ۔‘‘مؓیں نوجوان ہوں یعنی عرب کے نوجوان بہادروں میں سے ہوں ۔اور نوجوان کا بیٹا ہوں ‘ اس سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰہِیْمُ﴾ [الأنبیاء 60]
’’بولے ہم نے ایک نوجوان کو ان کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا تھا جسے ابراہیم علیہ السلام کہا جاتا ہے ۔‘‘
اور نوجوان کے بھائی سے مراد علیؓ ہیں ۔مراد جبرئیل کا قول ہے ۔حضرت جبریل جنگِ بدر کے دن خوش و خرم آسمان کی جانب چڑھتے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے:’’ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفَقَارِ وَ لَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّ۔‘‘(تلوار ہے تو ذوالفقار اور نوجوان ہے تو علی)
ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں :’’میں نے ابو ذرؓ کو کعبہ کے پردوں سے چمٹے ہوئے دیکھا وہ کہہ رہے تھے:’’ جو مجھے پہچاننا چاہتا ہو، وہ پہچان لے، میں ابو ذر ہوں ۔ اگر تم نماز و روزہ کی پابندی کرتے کرتے سوکھ جاؤ اور کانٹے کی طرح ہو جاؤ تو تمھیں اس وقت تک اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا، جب تک علیؓ  سے محبت نہ کرو۔‘‘[شیعہ مصنف کے دلائل ختم ہوئے]

جواب

شیعہ کے دلائل پر تنقید و تبصرہ

شیعہ کے پیش کردہ دلائل کا جواب یہ ہے کہ:
¹ـ  شوری کے دن عامر بن واثلہ کا جو ذکر مصنف نے کیا ہے؛یہ روایت باتفاق محدثین کذب ہے۔[ذکر ابن الجوزِیِ قِسما مِن ہذا الحدِیثِ فِی الموضوعاتِ:1؍378، وقال: ہذا حدِیث موضوع لا أصل لہ، وانظر باقِی کلامِہِ، وقد ذکر کلاما مماثِلا السیوطِی فِی اللآلیِئِ المصنوعۃِ:1؍361۔] 
حضرت علیؓ نے شوری کے دن ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی؛ اور نہ ہی اس کے مشابہ کوئی بات کہی ۔ بلکہ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا تھا:’’ اگر میں آپ کو امیر مقرر کر دوں تو کیا آپ انصاف کریں گے؟‘‘ حضرت علیؓ  نے کہا:’’ہاں‘‘ عبد الرحمنؓ نے پھر کہا:’’ اگر میں عثمانؓ کی بیعت کر لوں تو کیا آپ ان کی اطاعت کریں گے؟ حضرت علیؓ  نے کہا: ’’ہاں ۔‘‘حضرت عثمانؓ سے بھی یونہی کہا۔ پھر تین دن تک مسلمانوں سے مشورہ کرتے رہے۔[حضرت سعدؓ نے کہا کہ میں نے اپنا حق حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ  کو دیدیا۔ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے حضرت علیؓ  اور حضرت عثمانؓ  سے کہا تم دونوں میں سے جو شخص اس سے برأت کا اظہار کرے گا ہم خلافت کا معاملہ اسی کے سپرد کریں گے اور اس پر اللہ اور اسلام کے حقوق کی نگہداشت لازم ہوگی ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون شخص افضل ہے اسی کو خلیفہ کر دے۔ اس پر شیخین یعنی عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے سکوت اختیارکیا ۔
جب یہ حضرات چپ رہے تو عبدالرحمنؓ  نے کہا کیا تم دونوں خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ میرے حوالے کرتے ہو؟ بخدا مجھ پر لازم ہے کہ میں تم سے افضل کے ساتھ کوتاہی نہ کروں ۔ دونوں نے کہا یہ مسئلہ آپ کے حوالے کیا جاتاہے۔ عبدالرحمنؓ نے دونوں میں سے ایک یعنی حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم کو رسول اللہﷺ کی قرابت اور اسلام میں قدامت حاصل ہے، جو تم کو معلوم ہے خدا کے واسطے تم پر لازم ہے اگر میں تمہیں خلیفہ بنا دوں تو تم عدل وانصاف کرنا۔ اور اگر میں عثمانؓ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔ اس کے بعد حضرت عثمانؓ  کا ہاتھ پکڑا۔ اور ان سے بھی ایسا ہی کیا چنانچہ عبدالرحمنؓ  نے عہد لیا پھر کہا: اے عثمانؓ اپنا ہاتھ اٹھاؤ؛ پھر حضرت عبد الرحمنؓ  نے اور ان کے بعد علیؓ نے ان سے بیعت کی؛ پھر مدینہ والوں نے حاضر ہو کر حضرت عثمانؓ سے بیعت کی۔‘‘
[صحیح بخاری:ح914]
مسور بن مخرمہ سے روایت ہے: وہ لوگ جنہیں حضرت عمرؓ  نے خلافت کا اختیار دیا تھا جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ ان لوگوں سے حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا کہ میں تم سے اس معاملہ میں جھگڑنے والا نہیں ہوں لیکن اگر تم چاہو تو تم ہی میں سے کسی کو تمہارے لیے منتخب کر دوں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے یہ معاملہ حضرت عبدالرحمنؓ پر چھوڑ دیا ۔
’’لوگ عبدالرحمنؓ  کے پیچھے ہوئے ؛یہاں تک کہ ان بقیہ لوگوں میں سے کسی کے پاس ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا تھا۔حضرت عبدالرحمنؓ لوگوں سے ان راتوں میں مشورہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ رات آئی جس کی صبح میں ہم لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔
مسور کا بیان ہے کہ تھوڑی رات گزر جانے کے بعد عبدالرحمنؓ  نے میرا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹایا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے کہا کہ: میں تمہیں سوتا ہوا دیکھتا ہوں حالانکہ اللہ کی قسم! ان راتوں میں میری آنکھ بھی نہیں لگی۔ تم چلو اور زبیرؓ  اور سعدؓ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں ان دونوں کو بلا لایا۔ ان سے آپ نے مشورہ کیا۔ پھر مجھے بھی بلا لیا۔ پھر مجھ سے کہا: جاؤ اورعلیؓ کو بلا لاؤ۔میں ان کو بلا لایا ۔ ان سے بہت رات گئے تک سرگوشی کرتے رہے، پھر حضرت علیؓ ان کے پاس سے اٹھے تو ان کے دل میں خلافت کی خواہش تھی اور حضرت عبدالرحمنؓ  کو ان کی خلافت سے اختلاف امت کا اندیشہ تھا۔ پھر] صحیحین میں ہے ۔ یہ الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ۔حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے‘ وہ حضرت عمرؓ کی شہادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ ان کے دفن کیے جانے کے بعد وہ لوگ جو حضرت عمرؓ  کی نظر میں خلافت کے مستحق تھے جمع ہوئے، حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا کہ اس معاملہ کو صرف تین شخصوں پر چھوڑ دو۔ جس پر زبیر بن عوامؓ نے کہا کہ: میں نے اپنا حق حضرت علیؓ  کے سپرد کیا۔
حضرت طلحہؓ نے کہا کہ: میں نے اپنا حق حضرت عثمانؓ کو سونپ دیا ۔
حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا: حضرت عثمانؓ کو بلا لاؤ۔میں ان کو بھی بلا لایا۔ تو ان سے سرگوشی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح کی اذان نے ان کو جدا کیا۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھی؛تو یہ لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے۔مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ موجود تھے؛ ان کو بلا بھیجا۔ اور سرداران لشکر کو بلا بھیجا۔ یہ سب لوگ اس سال حج میں حضرت عمرؓ کیساتھ شریک ہوئے تھے۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت عبدالرحمنؓ  نے خطبہ پڑھا پھر کہا کہ:
اما بعد! اے علیؓ !میں نے لوگوں کی حالت پر نظر کی ہے تو دیکھا کہ وہ عثمانؓ  کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس لیے تم اپنے دل میں میری طرف سے کچھ خیال نہ کرنا۔ توحضرت علیؓ نے(حضرت عثمانؓ سے) کہا:’’ میں اللہ اور اس کے رسول اور آپ کے دونوں خلفاء کی سنت پر تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں ۔ عبدالرحمنؓ  نے بھی بیعت کی اور تمام لوگوں نے مہاجرین و انصار، سرداران لشکر اور مسلمانوں نے بیعت کی۔‘‘[صحیح بخاری: 2086]
اس رافضی نے جو روایت ذکر کی ہے‘ اس میں اتنے جھوٹ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ حضرت علیؓ  کو پاک و مبرا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے بھائی‘ اپنے چچا اور بیوی کو بطور حجت کے پیش کرنا۔ حالانکہ حضرت علیؓ ان لوگوں سے افضل ہیں ۔اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہوگا جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو گا۔
اس کے بجائے اگر حضرت عباسؓ کہتے : کیا تم میں میرے بھائی حمزہ جیسا کوئی ہے ؛ اور کیا تم میں میرے بھتیجوں محمد علی اور جعفر جیسا کوئی ہے ؟ تو یہ دلیل بھی بالکل ویسے ہی ہوتی ۔ بلکہ کسی انسان کا اپنے بھتیجوں کو بطور حجت پیش کرنا اس کے چچاؤں کو بطور حجت پیش کرنے سے زیادہ بہتر اور اہم ہوتا ہے۔اور اگر اس موقع پر حضرت عثمانؓ  یہ کہتے کہ : کیا تم میں کوئی اور ہے جس نے نبی کریمﷺ  کی دو بیٹیوں سے شادی کی ہو؟ تو یہ حجت بھی اسی حجت کی طرح ہوتی کہ : تم میں سے کسی کی بیوی میری بیوی کی طرح ہے ؟ حضرت فاطمہؓ  کا انتقال بھی شوری سے پہلے ہی ہوچکا تھا جیسے حضرت عثمانؓ کی بیویوں رقیہ اور ام کلثومؓ کا انتقال شوری سے پہلے ہوگیاتھا۔البتہ حضرت فاطمہؓ  کا انتقال نبی کریمﷺ  کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا تھا۔
یہی حال اس دعویٰ کا ہے : ’’ کیا تم میں کسی کے بیٹے میرے بیٹوں جیسے ہیں ۔‘‘اس میں متعدد روایات ہیں ۔اور جیسا کہ یہ قول: میں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگی مگر اس جیسی چیز تمہارے لیے بھی مانگی ہے ۔ اور یہی حال اس روایت کا بھی ہے کہ میرے علاوہ حضرت علیؓ  ہی یہ سورت پہنچا سکتے ہیں ۔‘‘
یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔
علامہ خطابی نے اپنی کتاب ’’ شعار الدین ‘‘ میں لکھا ہے : ’’ آپ کی طرف منسوب یہ فرمان : میری طرف سے یہ سورت میرے اہلِ بیت میں سے ہی کوئی ایک پہنچا سکتا ہے ۔‘‘یہ ایک ایسی چیز ہے جسے اہلِ کوفہ نے زید بن یثَیع سے لیا ہے ۔ اس راوی پر رافضی ہونے کی تہمت ہے ۔ اس لیے کہ عام طور پر جو قرآن رسول اللہﷺ  سے لوگوں تک پہنچا ہے وہ اہلِ بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ذریعہ سے پہنچا ہے۔ رسول اللہﷺ  نے اسعد بن زرارہؓ کو مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا۔آپ انصار کو قرآن کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ اور انہیں دین کے مسائل سمجھاتے۔آپ نے حضرت علاء بن الحضرمیؓ کو بحرین میں بھیجا؛ آپ بھی وہاں یہی فرائض سر انجام دیتے تھے۔ اور معاذ بن جبلؓ اور ابو موسی اشعریؓ کو یمن بھیجا ۔ عتاب بن اسید امویؓ  کو مکہ مکرمہ پر گورنر بنایا۔تو پھر یہ قول کہاں گیا کہ : میری طرف سے یہ پیغام میرے اہلِ بیت میں سے ہی کوئی پہنچا سکتا ہے ؟
حضرت ابن عباسؓ  کی روایت بھی باطل ہے؛ اس میں کئی ایک جھوٹ ہیں ۔مثلاً یہ کہنا کہ ہر جنگ میں رسول اللہﷺ  کا جھنڈا صرف حضرت علیؓ  کے پاس ہوا کرتا تھا ۔‘‘ اس لیے کہ غزوۂ احد میں نبی کریمﷺ کے علم بردار بالاتفاق مصعب بن عمیرؓ تھے۔[البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ  ۔ باب قصۃ البیعۃ والاتفاق علی عثمان بن عفانؓ ( ح:3700)] اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ اور فتح مکہ کے دن علم رسول اللہﷺ  حضرت زبیرؓ  کے پاس تھا۔[سیرۃ ابن ہشام(صفحہ379،383)، طبقات ابن سعد(3؍86)]رسول اللہﷺ  نے انہیں حکم دیا تھا کہ حجون میں جا کر جھنڈا گاڑ دیں ۔ حضرت عباسؓ  نے حضرت زبیرؓ  سے پوچھا تھا: کیا آپ کو رسول اللہﷺ  نے اس جگہ پر جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا تھا ۔‘‘[الحدِیث عن نافِعِ بنِ جبیر وہو تابِعِی فِی البخارِیِ:4؍53، کتاب الجِہادِ والسِیرِ، باب ما قِیل فِی لِوائِ النبِیِﷺ ، ونصہ: قال: سمِعت العباس یقول لِلزبیرِؓ : أہہنا أمر النبِیﷺ أن ترِکز الرایۃ؟] یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے ۔ 
ایسے ہی رافضی مصنف کا دعویٰ کہ : ’’ غزوۂ حنین کے موقع پر آپ ہی ثابت قدم رہے ۔‘‘
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ غزوۂ حنین میں نبیﷺ  کے قریب تر آپ کے چچا حضرت عباسؓ اور ابوسفیان بن حارثؓ تھے۔ حضرت عباسؓ آپ کی خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے؛ جبکہ ابو سفیانؓ  نے سواری کی رکاب پکڑی ہوئی تھی ۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبیﷺ الرایۃ یوم الفتح، (حدیث:4280)مطولاً فِی مسلِم:3؍1398، ِکتاب الجِہادِ والسِیرِ، باب فِی غزوۃِ حنین، المسند ط۔المعارِفِ:3؍208، وذکر الشیخ حمد شاِکر رحِمہ اللہ فِی تعلِیقِہِ: والحدِیث رواہ مسلِم:3؍10 مِن طرِیقِ یونس عنِ الزہرِیِ، ومِن طرِیقِ عبدِ الرزاقِ عن معمر عنِ الزہرِیِ وکذلِک رواہ الحاِکم فِی المستدرکِ:3؍327، وزعم أن الشیخینِ لم یخرِجاہ، واستدرک علیہِ الذہبِی بإِِخراجِ مسلِم إِیاہ۔]
اس موقع پر نبی کریمﷺ نے حضرت عباسؓ سے کہا تھا: اصحابِ سمرہ کو آواز دو۔ آپ فرماتے ہیں : میں نے اونچی آواز میں چیخ کر پکارا : اے اصحابِ سمرہ تم کہاں ہو؟
حضرت عباسؓ کہتے ہیں : اللہ کی قسم جس وقت انہوں نے یہ آواز سنی تو وہ اس طرح پلٹے جس طرح کہ گائے اپنے بچوں کی طرف پلٹتی ہے۔وہ لوگ یا لبیک یا لبیک کہتے ہوئے آئے اور انہوں نے کافروں سے جنگ شروع کر دی۔اس وقت نبی کریمﷺ  فرما رہے تھے :
((أنا نبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب۔)) [البخاری، کتاب الجہاد، باب من قاد دابۃ غیرہ فی الحرب (ح 2864)مسلم۔باب غزوۃ حنین،(ح:1775)] اپنے بچوں کی طرف پلٹتی ہے۔وہ لوگ یا لبیک یا لبیک کہتے ہوئے آئے اور انہوں نے کافروں سے جنگ شروع کر دی۔اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے :
((أنا نبی لا کذب أنا ابن عبد المطلب۔)) [1]
’’ میں اللہ کا سچا نبی ہوں ‘ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ۔‘‘
پھر رسول اللہﷺ نے اپنے خچر سے اتر کر چند کنکریاں اٹھائیں اور انہیں کافروں کے چہروں کی طرف پھینکا پھر فرمایا:’’ محمد کے رب کی قسم یہ شکست کھا گئے ۔‘‘حضرت عباسؓ فرماتے ہیں کہ:’’ میں دیکھ رہا تھا کہ جنگ بڑی تیزی کے ساتھ جاری تھی کہ اچانک آپﷺ نے کنکریاں پھینکیں ۔ اللہ کی قسم میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پشت پھیر کر بھاگنے لگے؛ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دے دی۔‘‘
صحیحین کی روایت میں ہے ؛ اوریہ الفاظ بخاری شریف کے ہیں کہ حضرت عباسؓ فرماتے ہیں :
’’حنین کے موقع پر میں اور ابو سفیان رسول اللہﷺ کے ساتھ چپکے رہے ‘ آپ سے علیحدہ نہیں ہوئے ۔‘‘‘ [مسلِم:3؍1398، المسند ط۔المعارِفِ:3؍208۔] جب کہ آپ کو غسل دینے اور قبر شریف میں اتارنے میں اہلِ بیت نے شرکت کی تھی ۔ جیسا کہ حضرت عباسؓ  اور ان کی اولاد۔ آپ کے غلام شقران اور بعض انصار نے بھی شرکت کی تھی۔ مگر غسل خود حضرت علیؓ  نے دیا۔ اس موقع پر حضرت عباسؓ  بھی موجود تھے ۔ حضرت عباسؓ کی عزت و احترام کی وجہ سے آپ کی اولاد اور حضرت علیؓ براہِ راست یہ خدمات انجام دے رہے تھے اور حضرت علیؓ  اس کے زیادہ مستحق تھے ۔
ایسے ہی رافضی کا دعویٰ کہ : آپ عرب و عجم میں پہلے انسان ہیں جنہوں نے نماز پڑھی۔ یہ روایت حضرت عباسؓ سے مروی معروف حدیث کے متناقض ہے۔