فصل:....واقعہ معراج کی من گھڑت حکایت
امام ابنِ تیمیہؒفصل
واقعہ معراج کی من گھڑت حکایت
[اشکال]: معراج سے متعلق شیعہ کی ذکر کردہ روایت میں مذکور ہے کہ ملائکہ مقربین نے حضرت علیؓ کے فضائل و مناقب سنے ؛ اور یہ حدیث سنی: ’’ اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ‘‘ تو ملائکہ نے اشتیاق ملاقات کا اظہار کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کا ہم شکل فرشتہ پیدا کر دیا۔
[جواب] : یہ ایسے جہال اور کذابین کا کلام ہے جو اچھی طرح جھوٹ بولنا بھی نہیں جانتے ۔بیشک معراج کا واقعہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا ؛ اس پر تمام لوگوں کا اجماع ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ [الإسراء1]
’’پاک ہے وہ اللہ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔‘‘
[یہ اسراء کا واقعہ تھا]اسراء کا واقعہ مسجد الحرام میں سے پیش آیا تھا۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالنَّجْمِ اِِذَا ہَوٰی o مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰیo اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی ﴾ ....إلی قولہ تعالیٰ ....﴿اَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰیo وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰیo عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی﴾ ....إلی قولہ تعالیٰ....﴿اَفَرَئَ یْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی﴾ [النجم آیات متفرقات]
¹...’’قسم ہے ستا رے کی جب وہ گرے ! کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے۔ اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔ وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے ۔‘‘
²..’’پھر کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو وہ دیکھتا ہے۔حالانکہ بلاشبہ یقیناً اس نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔آخری حد کی بیری کے پاس۔‘‘
³..’’پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔‘‘بالاتفاق یہ تمام آیات مبارکہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں ۔
اور ایسے ہی یہ حدیث : ’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔‘‘
یہ کلمات آپ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر کہے تھے۔یہ سن نو ہجری کی بات ہے۔ تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ : معراج کی رات فرشتوں نے یہ کلمات سن رکھے تھے کہ آپ نے فرمایا: ’’کیا آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔‘‘
پھر یہ بات بھی معلوم ہے کہ مدینہ طیبہ میں نائب بنایا جانا ایک مشترکہ قدر ہے۔جب کبھی بھی غزوۂ تبوک سے پہلے مدینہ میں کسی کو نائب بنایا گیا تو اس وقت مدینہ میں اطاعت گزار اہلِ ایمان موجود ہوا کرتے تھے۔جن پر کسی کو نائب بنایا جاتا تھا۔ جب کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر کوئی بھی نیک و کار مؤمن پیچھے نہیں رہا۔ سوائے ان لوگوں کے جن کا عذر اللہ تعالیٰ نے قبول کیا ہو ‘ یا پھر جو جہاد کرنے سے عاجز ہوں ۔ پس غزوۂ تبوک میں پیچھے رہنے والے باقی تمام اسفار غزوات اور حج و عمرہ میں پیچھے رہ جانے والوں کی نسبت تعدا د میں بہت کم اور کمزور تھے۔
نبی کریمﷺ نے مدینہ سے باہر کے تقریباً تیس سفر کیے ہیں ۔ ان میں کسی نہ کسی کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا کرتے تھے۔
¹۔ غزوہ ابواء میں سعد بن عبادہؓ کو عامل مقرر فرمایا ۔ [جوامِع السِیرۃِ لِابنِ حزم، صفحہ 9]
²۔ غزوہ بواط میں سعد بن معاذؓ کو عامل مقرر فرمایا ۔[فِی سیرۃ ابن ہشام:2؍248وفِی جوامِعِ السِیرۃِ صفحہ:9، إن الذِی استعملہ النبِیﷺ علی المدِینۃِ فِی غزوِۃ بواط ہو السائِب بن عثمان بنِ مظعون۔ ولکِن یذکر ابن کثِیر فِی البِدایۃِ والنِہایۃِ:3؍246، وقال الواقِدِی: استخلف علیہا سعد بن معاذ، وقال المقرِیزِی فِی ِإمتاعِ السماعِ صفحہ:54 واستخلف علی المدِینۃِ سعد بن معاذ، وقِیل: السائِب بن عثمان بنِ مظعون۔]
³۔ جب کرز بن جابر الفہری کی تلاش میں نکلے تو مدینہ پر زید بن حارثہؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔[البِدایۃ والنِہایۃ:؍247، ِإمتاع الأسماعِ صفحہ:54، ابن ہِشام:2؍251۔]
⁴ـ غزوہ عشیرہ میں ابو سلمہؓ بن عبد اشہل کوعامل مقرر فرمایا تھا۔[فِی البِدایۃِ والنِہایۃِ:3؍246، ِإمتاعِ الأسماعِ ص:55، ابنِ ہِشام:2؍248، جوامِعِ السِیرۃِ، صفحہ:102]
⁵ـ غزوہ بدر کے لیے مدینہ سے باہر نکلے تو عبد اللہ بن ام مکتومؓ کو حاکم مدینہ مقرر کیا۔[جوامِع السِیرۃِ صفحہ:107، ابن ہِشام:2؍263]
⁶۔ غزوہقرقرۃ الکدر کے لیے تشریف لے گئے تو عبد اللہ بن ام مکتومؓ کو حاکم مدینہ مقرر کیا۔[جوامِع السِیرۃِ صحفہ:107، ابن ہِشام:2؍263۔ ]
⁷۔ جب بنو سلیم کی طرف تشریف لے گئے؛ اور غزوۂ حمراء الاسد میں اور غزوۂ بنو نضیر اور غزوۂ بنو قریظہ میں بھی حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ کو حاکم مدینہ مقرر کیا۔[وتعرف بِغزوۃِ بنِی سلِیم؛ قال ابن ہِشام:3؍46، وابن حزم [جوامِع السِیرۃِ] صحفہ:152؛ واستعمل علی المدِینۃِ سِباع بن عرفطۃ الغِفارِی أوِ ابن أمِ مکتوم، وقال المقرِیزِی فِی ِإمتاعِ الأسماعِ صحفہ: 107واستخلف علی المدِینۃِ عبد اللہِ بن أمِ مکتوم۔]
⁸۔ غزوۂ ذات الرقاع اور غزوہ غطفان[اسے غزوہ أنمار بھی کہا جاتا ہے] کے لیے جاتے وقت حضرت عثمانؓ حاکمِ مدینہ قرار پائے۔[قال ابن ہِشام:3؍46، وابن حزم فی جوامِع السِیرۃ صحفہ:152]
⁹۔ اور جب عیینہ بن حصین الفرازی کے پیچھے اونٹوں کی طلب میں نکلے ؛تو اس دن ’’یا خیل اللہ ! ارکبی‘‘ کے رمز کی آواز لگائی گئی۔
¹⁰۔ ایسے ہی غزوہ حدیبیہ اور فتح مکہ کے موقع پر[ مدینہ میں آپ کے نائبین موجود تھے]۔
¹¹ـ غزوہ بنی قینقاع اور غزوہ سویق کے لیے تشریف لے گئے تو ابو لبابہ بن عبد المنذرؓکو حاکم مدینہ مقرر کیا۔
¹²۔ غزوہ بدر الموعد میں آپ نے ابن رواحہؓ کو مدینہ پر عامل مقرر فرمایا۔
۔¹³ـ دومۃ الجندل اور غزوہ خیبر کے موقع پر سباع بن عرفطہ الغفاریؓ کو عامل مقرر فرمایا ۔
¹⁴۔ غزوہ المریسیع میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر فرمایا تھا
۔15- عمرہ قضاء پر تشریف لے جاتے ہوئے حضرت ابو رہم کو عامل مقرر فرمایا۔
غزوہ تبوک سے پہلے جتنے بھی لوگوں کو نائب بنایا گیا ؛ ان کی نیابت غزوہ تبوک پر نائب بنائے جانے سے زیادہ کامل و اکمل تھی۔اگر یہ تشبیہ اصل استخلاف میں ہے تو یہ تمام لوگ وہی نسبت رکھتے تھے جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ علیہ ا لسلام سے تھی۔
اگر یہ کہا جائے کہ تبوک میں دور کا سفر تھا ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا: لیکن اس موقع پر مدینہ طیبہ اور اس کے گردونواح میں امن و امان تھا۔ کوئی ایسا دشمن باقی نہیں رہا تھا جس کا خوف ہو۔اس لیے کہ یہ تمام لوگ اسلام لا چکے تھے۔اور جو مسلمان نہیں تھے وہ وہاں سے جاچکے تھے۔ جب کہ تبوک کے علاوہ دوسرے غزوات میں مدینہ کے گردونواح میں دشمنان موجود ہوا کرتے تھے جن کاخوف رہتا تھا۔اس وقت نائب کو مزید محنتوں و کوششوں کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ جب کہ تبوک کے موقع پر ایسی کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔