فصل حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اللہ تعالیٰ کا عہد
امام ابنِ تیمیہؒفصل: حضرت علیؓ اور اللہ تعالیٰ کا عہد
[شبہ]:ایسے ہی شیعہ مصنف کی ذکر کردہ یہ حدیث’’ کہ اللہ نے حضرت علیؓ سے عہد کیا تھا، نیزیہ کہ علی عَلَمُ الہُدی و امام الاولیاء ہیں ؛ نیز وہ کلمہ ہیں جو متقیوں کے لیے ضروری ہے۔‘‘
[جواب]:یہ روایت صاف جھوٹ ہے۔اس کے موضوع ہونے پر تمام اہلِ علم اور محدثین کا اتفاق ہے۔صرف صاحب ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ کے کسی روایت کو نقل کر لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ روایت صحیح بھی ہو‘ یا پھر اس سے استدلال کرنا جائز ہے ۔ اس کتاب کے مصنف نے خلفاء اربعہ [حضرت ابو بکر و عمر و عثمان اور علی رضی اللہ عنہم ]کی فضیلت میں بھی ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع روایات تک ذکر کی ہیں ۔[ابن الجوزی نے ’’صفۃ الصفوۃ‘‘ کے مقدمہ میں کتاب حلیۃ الاولیاء کی اس کمزوری کی جانب اشارہ کیا ہے۔ خلفائے اربعہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد جملہ مخلوقات سے چیدہ و برگزیدہ ہیں اور اس لیے اس بات سے قطعی بے نیاز ہیں کہ ان کے فضائل میں ضعیف یا موضوع روایات بیان کی جائیں ۔‘‘]
اس پر تمام علماء کرام کا اتفاق ہے۔ابو نعیم اور ان کے امثال خود ثقہ علماء اور محدثین میں سے ہیں ۔محدثین کرام جو کچھ اپنے مشائخ سے ذکر کرتے ہیں وہ اس روایت کے نقل کرنے میں ثقہ ہوتے ہیں ۔ مگر موضوع ہونے کی یہ آفت اوپر سے آتی ہے۔کیونکہ یہ محدثین تو اپنے مشائخ سے نقل کرنے میں جھوٹ نہیں بولتے ۔ مگر ان سے پہلے حدیث کی سند میں کوئی راوی ہوتا ہے جو کہ جھوٹا اورکذاب ہوتا ہے۔وہ یا تو جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے یا پھر اس سے کبھی کبھار غلطی ہو جاتی ہے ۔ اس لیے وہ جن لوگوں سے روایت نقل کرتے ہیں ‘ ان ہی کی بات آگے پہنچاتے ہیں ۔اور عجیب وغریب قسم کی باتیں صرف اس لیے نقل کرتے ہیں تاکہ ان کی پہچان حاصل ہو جائے۔ ایسی غریب قسم کی باتیں عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں ۔جیسا کہ امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں : ’’ ان غرائب سے بچ کر رہو ؛ ان میں عام طور پر ضعیف روایات ہوتی ہیں ۔‘‘
ایسے ہی رافضی مصنف کا حضرت علیؓ کے بارے میں یہ کہنا کہ :
’’ آپ ہی کلمہ تقوی ہیں ۔‘‘
یہ بھی جھوٹی روایت ہے ۔ اس کاجھوٹ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ : ’’کلمہ ‘‘ اسی جنس سے ہے جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’ کلمۃ اللّٰہ ‘‘(اللہ کا کلمہ) فرمایا گیا ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو مٹی سے پیدا کیا ؛ پھر فرمایا : ہوجا‘ تو آپ ہوگئے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک کلمہ کے ذریعہ سے پیدا کیا ۔ جب کہ حضرت علیؓ بھی اسی طرح پیدا ہوئے ہیں جیسے باقی تمام مخلوق پیدا ہوئی ہے۔
کلمہ تقوی سے مراد ’’ لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر‘‘ہے؛جیسا کہ حدیث نبوی سے ثابت ہے۔اس کا شمار ان کلمات میں ہوتا ہے جن کے خبر ہونے کی صورت میں مؤمنین ان کی تصدیق کرتے ہیں ؛ اور امر یا حکم ہونے کی صورت میں ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔[سنن ترمذی ۔ کتاب تفسیر القرآن، باب و من سورۃ الفتح(حدیث:3265)، عن ابی ابن کعب،، مستدرک حاکم (2؍461)، تفسیر ابن جریر (26؍ 104)، عن قول علی۔]
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿[اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا ]کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآئِo تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَo وَ مَثَلُ کَلِمَۃٍ خَبِیْثَۃٍ کَشَجَرَۃٍ خَبِیْثَۃِ نِ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَالَہَا مِنْ قَرَارٍo یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ﴾ [ابراہیم 24۔27]
’’[کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے] پاکیزہ بات کی مثال کس طرح بیان فرمائی۔ مثل ایک پاکیزہ درخت کے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ۔جو اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنے پھل لاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔اور ناپاک بات کی مثال ایسے درخت جیسی ہے جو زمین کے کچھ ہی اوپر سے اکھاڑ لیا گیا۔ اسے کچھ ثبات تو ہے نہیں ۔ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی ۔‘‘
ایسے ہی لفظ ’’تقویٰ ‘‘ اسم جنس ہے ؛ یہ ہر اس کلمہ کو شامل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا جائے جیسے : صداقت عدل و انصاف وغیرہ۔پس ہر وہ انسان جو سچائی کی تلاش میں رہے ؛ اور عدل و انصاف کو بجا لائے ۔ یقیناً وہ کلمہء تقویٰ کا التزام کرنے والا ہے ۔ اور اس میں سب سے سچا اور عادلانہ کلام’’ لا الہ الا اللّٰہ‘‘ ہے؛اس لیے کہ تمام کلمات میں سے خاص کلمہ ہے ۔
ایسے ہی حضرت عمار اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب روایات بھی جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔