Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

صحابی رسول حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم ﷺ کے خون مبارک کو پینے والی حدیث کو غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کا ضعیف کہنے پر تعاقب(تحقیق)

  خادم الحدیث سید محمد عاقب حسین

صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا نبی کریم ﷺ کے خون مبارک کو پینے والی حدیث کو غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کا ضعیف کہنے پر تعاقب:

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ آپﷺ کا خون مبارک بھی پاک تھا اور بول مبارک بھی پاک تھا اور صحیح و حسن احادیث و آثار سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دونوں کو پینا بھی ثابت ہے۔
جیسا کہ شیخ الاسلام و المسلمین امیر المؤمنین فی الحدیث حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَكَاثَرَتِ الْأَدِلَّةُ عَلَى طَهَارَةِ فَضَلَاتِهِ وَعَدَّ الْأَئِمَّةُ ذَلِكَ فِي خَصَائِصِهِ فَلَا يُلْتَفَتُ إِلَى مَا وَقَعَ فِي كُتُبِ كَثِيرٍ مِنَ الشَّافِعِيَّةِ مِمَّا يُخَالِفُ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ بَيْنَ أَئِمَّتُهُمْ عَلَى الْقَوْلِ بِالطَّهَارَةِ۔
ترجمہ: بے شک بڑی کثرت سے دلیلیں قائم ہیں حضورﷺ کے فضلات شریفہ کے طاہر ہونے پر اور ائمہ نے اس کو حضورﷺ کے خصائص سے شمار کیا ہے لہٰذا اکثر شافعیہ کی کتابوں میں جو اس کے خلاف واقع ہوا ہے قطعاً قابلِ التفات نہیں اس لئے کہ ان ائمہ کے درمیان پختہ اور مضبوط قول طہارت فضلات شریفہ ہی کا ہے۔
(كتاب فتح البارج لابنِ حجر: جلد، 1 صفحہ، 272)
آج ہم اپنی اس تحریر میں غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کے شمارہ ماہنامہ السنہ نمبر 30 میں کی گئی ایک روایت پر تحقیق کا تعاقب کریں گے۔
جس روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کا نبی کریمﷺ کا خون مبارک پینا ثابت ہے۔
امام ابو بکر احمد بن الحسین البیھقیؒ م458ھ نے فرمایا:
أخبرنا أبو الحسن علی بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد بن عبدان، نا محمد بن غالب، نا موسىٰ بن إسماعيل أبو سلمة، ثنا هنيد بن القاسم قال: سمعت عامر بن عبد الله بن الزبير، يحدث عن أبيه قال: احتجم رسول اللهﷺ وأعطانی دمه، وقال: اذهب فواره لا يبحث عنه سبع أو كلب أو إنسان قال: فتنحيت عنه فشربته، ثم أتيت النَّبِیﷺ فقال: ما صنعت؟ قلت: صنعت الذی أمرتنہ قال: ما أراك إلا قد شربته قلت: نعم قال: ماذا تلقى أمتی منك۔
ترجمہ: عامر بن عبداللہ اپنے والد سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے روایت کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے سنگی لگوائی اور مجھے حکم دیا کہ میں اس خون کو ایسی جگہ چھپا دوں جہاں سے درندے کتے وغیرہ یا کوئی انسان نہ پاسکے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں میں نبی کریمﷺ سے دور چلا گیا اور دور جا کر اس خون کو پی لیا پھر میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپﷺ‎ نے پوچھا تم نے خون کا کیا کیا؟ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے عرض کی میں نے ویسے ہی کیا جیسا آپﷺ‎ نے حکم دیا آپﷺ نے فرمایا میرے خیال میں تم نے اسے پی لیا سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے عرض کی جی ہاں! تو رسول اللہﷺ نے فرمایا تمہیں جو ملا وہ میری امت میں سے کسی کو نہیں ملا۔
(كتاب السنن الكبرىٰ البيهقی ط العلمية: جلد، 7 صفحہ، 106)
درج ذیل کتب میں بھی یہ روایت باسند موجود ہے:
(كتاب الأحاديث المختارة: جلد، 9 صفحہ، 308)
امام ضیاء الدین مقدسیؒ نے اس حدیث کی تصحیح کی۔
(كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم ط العلمية: جلد، 3 صفحہ، 638)
امام حاکم نیشاپوریؒ نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی۔
(كتاب مسند البزار، البحر الزخار: جلد 6 صفحہ، 169)
(كتاب معرفة الصحابة لأبی نعيم: جلد، 3 صفحہ، 1652)
(كتاب الآحاد والمثانی لابنِ أبی عاصم: جلد، 1 صفحہ، 414)
ہمارے نزدیک یہ حدیث حسن ہے اور سنن الکبریٰ للبیھقی کی سند حسن لذاتہ ہے جیسا کہ ہم ابھی ثابت کریں گے نیز یہ کہ امام ابو العباس بوصیریؓ م840ھ نے بھی اس سند کو حسن قرار دیا۔
(كتاب إتحاف الخيرة: جلد، 4 صفحہ، 434)
سند کے رجال کا مختصر تعارف:
1: أبو الحسن علی بن أحمد بن عبدان
امام جرح و تعدیل حافظ شمس الدین ذہبیؒ م748ھ ان کی توثیق فرماتے ہیں:
الشيخ المحدث الصدوق، أبو الحس ، علی بن الحافظ أحمد بن عبدان بن الفرج بن سعيد بن عبدان، الشيرازی ثم الأهوازی ثقة مشهور، عالی الإسناد۔
(سير أعلام النبلاء: جلد،17 صفحہ، 398)
2: أحمد بن عبدان:
امام شمس الدین ذہبیؒ ان کی توثیق فرماتے ہیں:
الإمام الحافظ، المعمر الثقة أبوبكر، أحمد بن عبدان بن محمد بن الفرج الشيرازی، شيخ الأهواز و مسند الوقت۔
(سير أعلام النبلاء: جلد، 16 صفحہ، 489)
3: محمد بن غالب
امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوریؒ م405ھ نے انہیں ثقة مأمون قرار دیا۔
(سؤالات السجزی: صفحہ، 113)
امام خطیب بغدادیؒ م463ھ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
كان كثير الحديث صدوقا حافظا
(تاريخِ بغداد: جلد، 3 صفحہ، 144)
امام شمس الدین ذہبیؒ ان کی توثیق فرماتے ہیں:
الإمام، المحدث، الحافظ المتقن أبو جعفر، محمد بن غالب ابنِ حرب، الضبی البصری التمار التمتام، نزيل بغداد۔
پھر امام ابو الحسن دارقطنیؒ م385ھ سے ان کی توثیق نقل کرتے ہیں:
قال الدارقطنی: ثقة مأمون
(سير أعلام النبلاء: جلد، 13 صفحہ، 391)
4: موسىٰ بن إسماعيل أبو سلمة
شیخ الاسلام والمسلمین حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ ان کی توثیق فرماتے ہیں:
موسىٰ ابنِ إسماعيل المنقری بكسر الميم وسكون النون وفتح القاف أبو سلمة التبوذكی ثقة ثبت۔
(تقریب التہذیب: 6943)
امام شمس الدین ذہبیؒ ان کی توثیق فرماتے ہیں:
الحافظ الإمام الحجة، شيخ الإسلام أبو سلمة موسىٰ بن إسماعيل المنقری مولاهم البصری التبوذكی۔
(سير أعلام النبلاء: جلد، 10 صفحہ، 361)
5: الهنيد بن القاسم البصری
یہ وہ راوی ہے جس کو ظہیر امن پوری صاحب نے مجہول قرار دے کر حدیث کو ضعیف کہا اور موصوف کا یہ دعوی ہے کہ متقدمین آئمہ میں سے کسی نے اس راوی کی توثیق نہیں کی نیز موصوف نے امام نور الدین ہیثمی کی توثیق اور شیخ الاسلام والمسلمین حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ کی تعدیل کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ صحیح نہیں موصوف کے ماہنامہ السنہ کا اسکین تحریر کے ساتھ اٹیچ کردیا جائے گا۔
الجواب بعون الملك الوهاب:
الهنيد بن القاسم البصری صدوق حسن الحدیث راوی ہے اس کی آئمہ متقدمین نے بھی توثیق کی ہے اور متاخرین نے بھی ملاحظہ ہو:
1: امام ابو عبداللہ حاکم نیشاپوریؒ نے اس راوی سے مستدرک علی الصحیحین میں یہی روایت لی۔
(كتاب المستدرك على الصحيحين للحاكم۔ ط العلمية: جلد، 3 صفحہ، 638)
یہ ہے متقدم امام سے اس راوی کی توثیق ضمنی۔
2: امام ضیاء الدین مقدسیؒ نے اس راوی سے الأحاديث المختارة میں یہی روایت لی اور خود امن پوری صاحب نے حوالہ درج کرکے لکھا کہ امام مقدسیؒ نے اس روایت کی تصحیح کی۔
(كتاب الأحاديث المختارة: جلد، 9 صفحہ، 308)
یہ ہے متقدم امام سے اس راوی کی توثیق ضمنی۔
توثیق ضمنی کیا ہے؟ اور کیسے پہچانی جاتی ہے؟:
التوثيق الضمنی وهو تصحيح أو تحسين حديث الرجل
ظہیر امن پوری صاحب کو تو یہ بتانے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اس کو بخوبی جانتے ہیں مگر کچھ وہ لوگ جو اس اصطلاح سے بے خبر ہیں ان کے لیے یہ تفصیل ہے۔
کسی ناقد امام کا کسی راوی کی بیان کردہ غریب روایت جس کا کوئی متابع نہ ہو اس کی تصحیح یا تحسین کرنا اس سند میں موجود تمام رواۃ کی تعدیل و توثیق ہوتی ہے اس قسم کی توثیق کو توثیق ضمنی کہتے ہیں۔
اسی طرح اس کے اور بھی کچھ طریقہ ہیں مثلاً کسی ایسے امام کا اس راوی سے اپنی کتاب میں روایت درج کرنا جس نے اپنی کتاب میں صحت کی شرط لگائی ہو جیسے صحیح بخاری٬ صحیح مسلم٬ صحیح ابنِ خزیمہ٬ صحیح ابنِ حبان٬ مستدرک للحاکم٬ الاحادیث المختارۃ وغیرہ تو یہ بھی اس راوی کی توثیق ضمنی کہلائے گی۔
لہٰذا امام حاکمؒ اور امام مقدسیؒ نے اپنی کتب میں صحیح حدیث لانے کی شرط لگائی ہے اور انہوں نے ھنید بن قاسم سے روایت لی ہے یہ اس کی توثیق ضمنی ہے اور یہ دونوں امام متقدمین میں سے ہیں۔
امام شمس الدین ذہبیؒ توثیق ضمنی کا ذکر اپنی اصول حدیث کی مایہ ناز کتاب میں فرماتے ہیں:
الثقة: مَن وثَّقَه كثيرٌ، ولم يُضعَّف ودُونَه: مَن لم يُوَثَّق ولا ضُعِّف فإن خُرِّج حديثُ هذا فی "الصحيحين" فهو مُوَثَّق بذلك وإن صَحَّح له مثلُ الترمذی و ابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً وإن صَحَّحَ له كالدارقطنی و الحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه۔
ترجمہ: ثقہ وہ ہے جس کو محدثین کی اکثریت ثقہ قرار دے اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو اور اس سے نچلے طبقہ میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی اور نہ تضعیف پس اگر ایسے راوی کی حدیث صحیحین میں مروی ہو تو اس وجہ سے اس کی توثیق ہوگی اور اگر اسکی حدیث کی اگر امام ترمذیؒ اور امام ابنِ خزیمہؒ جیسے محدثین تصحیح کریں تو وہ ضمنی توثیق بھی اسی طرح جید ہوگی جیسا کہ صریح توثیق اور اگر امام دارقطنیؒ یا امام حاکمؒ جیسے اس راوی کی حدیث کی تصحیح کریں تو اس کا کم سے کم حال یہ ہوگا کہ وہ حسن الحدیث پر رہے گا۔
(الموقظة فی علم مصطلح الحديث: صفحہ، 78)
لہٰذا ھنید بن قاسم کی منفرد سند کی تصحیح امام حاکمؒ نے فرمائی ہے اور امام ذہبیؒ کے بقول یہ راوی کم از کم حسن الحدیث ٹھرتا ہے۔
امام ابوالحسن ابنِ قطان الفاسیؒ م628ھ بھی توثیق ضمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَفِی تَصْحِيح التِّرْمِذِی إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروی عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم۔
اور ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح میں اُس کی اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے، اور ثقہ راوی کو یہ بات مضر نہیں کہ اس سے صرف ایک شخص ہی روایت کرے، واللہ اعلم۔
(بيان الوهم والإيهام فی كتاب الأحكام: جلد، 5 صفحہ، 395)
امام ابنِ قطان الفاسیؒ کے کلام سے بھی یہ واضح ہوا کہ کسی محدث کا کسی راوی کی منفرد روایت کی تصحیح کرنا اس راوی کی توثیق ہوتی۔
لہٰذا امام حاکم و ضیاء مقدسیؒ رحمهما الله سے ھنید بن قاسم کی توثیق ثابت ہوئی کیونکہ دونوں نے اسکی منفرد حدیث کی تصحیح کی ہے ۔
3: امام ابو العباس البوصیری مقدسیؒ نے بھی اس راوی کی توثیق ضمنی کی اس کی بیان کردہ اسی روایت کی سند کو حسن قرار دے کر۔
(كتاب إتحاف الخيرة: جلد، 4 صفحہ، 434)
4: امام ابو حاتم بن حبانؒ نے اس راوی کی صریح توثیق کی اپنی کتاب الثقات میں درج کرکے۔
(كتاب الثقات: 4413)
نوٹ: متقدمین ائمہ میں سے امام ابنِ حبانؒ کا اس کی توثیق میں تفرد نہیں ہے۔
5 امام نور الدین ہیثمیؒ نے اس راوی کی صریح توثیق کی چنانچہ زیرِ بحث روایت کو مجمع الزوائد میں نقل کرکے فرماتے ہیں۔
رواه الطبرانی والبزار باختصار ورجال البزار رجال الصحيح غير ھنيد بن القاسم وهو ثقة۔
اس روایت کو امام طبرانیؒ اور امام بزارؒ نے بیان کیا اور امام بزارؒ کے رجال صحیح کے رجال ہیں ھنید بن قاسم کے علاوہ اور یہ راوی بھی ثقہ ہے۔
( كتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: جلد، 8 صفحہ، 270)
6: شیخ الاسلام والمسلمین حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے بھی ھنید بن قاسم کی تعدیل فرمائی چنانچہ اسی حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں۔
ورواه الطبرانی فی الكبير والبيهقی فی الخصائص من السنن وفی إسناده الهنيد بن القاسم ولا بأس به۔
ترجمہ: اس حدیث کو امام طبرانیؒ نے معجم الکبیر میں اور بیہقی نے سنن الکبریٰ میں روایت کیا اس کی سند میں ھنید بن قاسم ہے اس سے حدیث بیان کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
(كتاب التلخيص الحبير - ط العلمية: جلد، 1 صفحہ، 169)
نوٹ: لَا بَأْسَ بِه یہ الفاظ صدوق درجہ کے راویان پر بولے جاتے ہیں اور حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ نے بھی ان الفاظ کو اور صدوق کے الفاظ کو ایک ہی طبقے میں رکھا ہے اور حافظ کے نزدیک صدوق کی منفرد روایت حسن لذاتہ ہوتی ہے۔
اس مکمل تفصیل سے معلوم ہوا کہ ھنید بن قاسم بن عبدالرحمن کم از کم صدوق حسن الحدیث راوی ہے اور غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب نے جو امامین کی توثیق کو جس وجہ سے غیر صحیح قرار دیا تھا ہم نے اس کا بھی جواب دے دیا الحمدللہ۔
6: عامر بن عبد الله بن الزبير
حافظ شمس الدین ذہبیؒ ان کی بارے میں فرماتے ہیں:
ابن عبد الله بن الزبير بن العوام ، الإمام الربانی أبو الحارث الأسدی المدنی أحد العباد قلت: مجمع على ثقته۔
عامر بن عبداللہ بن زبیر بن عوام امام ربانی ابوحارث اسدی المدنی بہت بڑے عبادت گزار پھر آخر میں فرماتے ہیں میں کہتا ہوں ان کے ثقہ ہونے پر اجماع ہے۔
(سير أعلام النبلاء: جلد، 5 صفحہ، 220)
7: عبد الله بن الزبير بن العوام۔
متفقہ علیہ صحابی ابنِ صحابی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے روایت حدیث میں عادل ہیں یہ اہلِ سنت کا اجماعی عقیدہ ہے لہٰذا ان کی توثیق کی ضرورت نہیں ہے۔
اس حدیث کی مکمل اور تفصیلی تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث حسن ہے لہٰذا غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کا اس حدیث کو ضعیف قرار دینا درست نہیں۔
هذا ما عندج والعلم عندالله۔
فقط والله و رسوله اعلم باالصواب
خادم الحدیث النبویﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی۔
مؤرخہ 23 محرم الحرام 1444ھ