کیا شیعہ کے شیوخ میں سے کسی نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ان کے کسی امام کا قول قرآن کو منسوخ کر سکتا ہے یا اس کے مطلق کو مقید کر سکتا ہے؟ یا اس کے عام کو خاص کر سکتا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریکیا شیعہ کے شیوخ میں سے کسی نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ان کے کسی امام کا قول قرآن کو منسوخ کر سکتا ہے یا اس کے مطلق کو مقید کر سکتا ہے؟ یا اس کے عام کو خاص کر سکتا ہے؟
جواب: جی ہاں! ایسے علماء تو بہت سے ہیں اس لیے تو اس کے شیخ محمد آلِ کاشف الغطاء نے یوں کہا ہے: تدریج (آہستہ آہستہ کسی چیز کو مکمل کرنا) کی حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ احکامات میں سے کسی جملے کو بیان کر دینا اور کسی جملے کو چھپا لینا لیکن آپ نے اسے اپنے اوصیاء کے سپرد کر دیا ہے ہر وصی اس جملے کا بعد میں آنے والے کو بتا دیا کرتا تھا تا کہ وہ اسے اس کے مناسب وقت پر حکمت کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے نشر کر دے وہ جملہ کسی عام کو خاص کرنے والا ہو یا کوئی مطلق ہو یا کوئی مقید ہو نبی اکرمﷺ بھی کسی عام معلم کو بیان کیا کرتے تھے پھر اپنی حیات میں ہی کچھ عرصہ اور وقفہ کے بعد اس کے مخصوص حکم کو بیان کر دیا کرتے تھے۔ اور بعض اوقات اس خاص حکم کو بالکل ہی ذکر نہ فرمایا کرتے بلکہ اسے اپنے کسی وصی کے سپرد کر دیتے تا کہ وہ خاص وقت پر اس کو بیان کر دے۔
(اصل الشیعہ واصولھا: صفحہ، 81)
یہ قول ان کے اس عقیدہ کی بنیاد پر ہے کہ امام ہی قرآن کو قائم رکھنے والا ہے کیونکہ وہی قرآنِ ناطق ہے۔ ان لوگوں نے یہ تہمت تراش لی ہے کہ سیدنا علیؓ نے فرمایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب صامت ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی کتاب ناطق ہوں۔
اور ان کے ائمہ کا یہ مقام و مرتبہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم کا مخزن اور وحی الہٰی کا بکس ہیں۔ اور وہی اللہ تعالیٰ کے دین والے ہیں۔ اور ہم پر ہی وحی نازل ہوئی ہے۔ اور ہمارے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے۔ اور اگر ہم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ ہوتی۔
(بصائر درجات الكبرىٰ في فضائل آل محمد صلوات الله عليهم باب فی الائمة الخ لابی جعفر محمد بن حسن بن فروخ الصفار: جلد،1 صفحہ، 138 واصول الكافی باب ان ائمة ع ولاة امر الله و خزنة علمه: جلد، 1 صفحہ، 138)
ایک روایت میں یوں ہے کہ وہ رازِ الہٰی کی حفاظت رکھنے والے ہیں۔
(مستدرك الوسائل للنورى: جلد، 10 صفحہ، 404 باب نوادر ما يتعلق بالمزار، والبلد الأمين والدرع الحصين: صفحہ، 418 الزيارة الجامعة لابراهيم بن على العاملی الكفعمی المتوفى سنه 905ھ)
اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اسے صرف ہمارے ذریعے سے پایا جا سکتا ہے۔
(إعلام الورى بأعلام الهدىٰ: صفحہ، 274 فضل بن الحسن الطبرسی المتوفى سنه 548)
وضاحتی نوٹ
انہی بنیادوں پر قرآن کے عام حکم کو خاص کرنے یا اس کے مطلق حکم کو مقید کرنے پر اسے منسوخ کرنے کا مسئلہ رسول اللہﷺ کی وفات سے ختم نہیں ہوا کیونکہ ان کے اعتقاد کے مطابق تو نصِ نبوی اور قانونِ الہٰی تو بدستور جاری و ساری ہیں الخ۔
چنانچہ شیعہ علماء کا یہ عقیدہ ہے ان کے شیخ المازندرانی نے کہا ہے:
ائمہ طاہرین میں سے ہر ایک کی حدیث اللہ تعالیٰ ہی کا فرمان ہے اور ان کے اقوال میں اسی طرح کوئی اختلاف نہیں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی بات میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کی وجہ عقلِ سلیم اور طبع مستقیم رکھنے والوں کے لیے ظاہر ہے۔
(شرح جامع على الكافی: جلد، 2 صفحہ، 272 محمد صالح بن أحمد المازندرانی المتوفى سنه 1081ھ)
میں کہتا ہوں یہ ایک الگ حکم ہے جو اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ ہاں اس مسئلے کا اثبات سابقہ ابو بصیر اور جمیل کی سیدنا ابو عبداللہؒ سے بیان کردہ روایات سے ہوتا ہے۔ بلکہ ان سے اس مسئلے کی اولویت ثابت ہوتی ہے۔
(شرح أصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 225 باب رواية الكتب والحديث وفضل الكتابة و التمسك بالكتب للمازندرانی)
شیعہ الکلینی نے تو باب قائم کیا ہے:
بَابُ التَّفْوِيضُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ فِی أَمْرِ الدِّينِ۔
(أصول الكافی: جلد، 1 صفحہ، 191 كتاب الحجة اس میں دس حدیثیں ذکر کی ہیں)
دینی معاملے میں کسی بات کو رسول اللہﷺ کی طرف اور ائمہ ہی کی طرف سپرد کرنے کا بیان۔
وضاحتی نوٹ:
اس عقیدہ پر غور و فکر کرنے والا اور اس کی گہرائیوں میں اترنے والا اس بات کا ادراک کر لیتا ہے کہ اس سے مقصود شیعہ علماء و جہلاء یا ان میں سے کسی ایک کی جانب سے دین اسلام کو تبدیل کرنا اور رسولﷺ کی شریعت میں تغیر و تبدل پیدا کرنا ہے یہ حضرات اس حدیث کو کیوں نہیں لیتے جو انہوں نے نبیﷺ سے اور ائمہ سے روایت کی ہے کہ:
إِذَا جَاءَكُمُ مِّنَّا حَدِيثٌ فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَمَا وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَخُذُوهُ، وَمَا خَالَفَهُ فَاطْرَحُوهُ أَوْ رُدُّوهُ عَلَيْنَا۔
(الاستبصار فيما اختلف فيه من الأخبار: جلد، 1 صفحہ، 144 كتاب الطهارة ح، 9 باب الخمر يصيب الثوب والنبيذ المسكر ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسي المتوفى سنه 460ھ الملقب شيخ الطائفة وسائل الشيعه: جلد، 14 صفحہ،441 باب ان من تزوج امرأة حرمت عليه امها وجدتها و ان لم يدخل بها)
جب تمہارے پاس ہماری طرف سے کوئی بھی حدیث آئے تو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو تو جو کتاب اللہ کے موافق ہو اسے تو قبول کر لو اور جو اس کے مخالف ہو تو اسے پھینک دو یا اسے ہماری طرف ہی لوٹا دو۔
انہیں چاہیئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان اقدس بھی یاد رکھیں:
يَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡهُهُمۡ فِى النَّارِ يَقُوۡلُوۡنَ يٰلَيۡتَـنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰهَ وَاَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا وَقَالُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعۡنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوۡنَا السَّبِيۡلَا رَبَّنَآ اٰتِهِمۡ ضِعۡفَيۡنِ مِنَ الۡعَذَابِ وَالۡعَنۡهُمۡ لَعۡنًا كَبِيۡرًا۔
(سورۃ الاحزاب: آیت، 68،67،66)
ترجمہ: جس دن ان کے چہروں کو آگ میں الٹا پلٹا جائے گا، وہ کہیں گے کہ اے کاش! ہم نے اللہ کی اطاعت کرلی ہوتی اور رسول کا کہنا مان لیا ہوتا۔ اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہنا مانا، اور انہوں نے ہمیں راستے سے بھٹکا دیا۔ اے ہمارے پروردگار! ان کو دوگنا عذاب دے، اور ان پر ایسی لعنت کر جو بڑی بھاری لعنت ہو۔