Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

قرآن کریم کی تاویل اور تفسیر کے متعلق شیعی مذہب کے شیوخ کا کیا عقیدہ ہے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

 قرآن کریم کی تاویل اور تفسیر کے متعلق شیعی مذہب کے شیوخ کا کیا عقیدہ ہے؟  

جواب: اسی لیے وہ نبی کریمﷺ اور سیدنا علیؓ کے ذمہ جھوٹ باندھتے کہتے ہیں حالانکہ وہ دونوں اس سے بری ہیں ان سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیں۔ 

(اَنَّ لِلْقُرْآنِ ظَهْرًا وَ بَطْنًا)

(تفسير الصافي جلد1صفحہ 30 المقدمة الرابعة في نبذ مما جاء في معاني وجوه الآيات و تحقيق القول في المتشابه و تأويله لمحمد الكاشانی متوفی 1091)

وضاحتی نوٹ:

 شیعہ کے اس اعتقاد کی وجہ یہ ہے کہ کتاب اللہ میں ان کے بارہ ائمہ کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ہے۔ اور ان نصوص سے بھی خالی ہے جو صحابہ کرامؓ کے مابین دشمنی و عداوت پر دلالت کرتی ہوں۔ تو اس سبب نے علماء شیعہ کی نیندیں حرام کر ڈالی تھیں۔ اور ان کے معاملے کو تہہ و بالا کر دیا تھا۔ 

یہی وجہ تھی کہ انھوں نے صراحتاً یہ بیان کیا ہے کہ قرآن میں ان کے ائمہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کے شیخ العیاشی نے ایک اور روایت گھڑ کر پیش کر دی ابو عبد اللہ سے مروی ہے اگر قرآن اسی انداز سے پڑھا جائے جیسے نازل ہوا ہے تو آپ ہمیں اپنے ناموں کے ساتھ اس میں پائیں گے۔

(تفسير العياشي: جلد 1 صفحہ 25 ح 4 ماعنى به الائمة من القرآن)

 اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو بھی سیدھی راہ کی ہدایت نصیب فرمائے، آپ غور فرمائیں کہ آغاز معاملہ میں انہوں نے کہا تھا کے آیت مبارکہ کا ایک معنی تو ظاہری ہوتا ہے اور ایک باطنی ہوتا ہے۔ 

پھر معاملہ ترقی پاگیا اور بول اٹھے کہ قرآنِ کریم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے اور پھر اس کے باطن میں مزید سات باطنی معانی اور ہیں۔

(عوالى اللالي العزيزية في الاحاديث الدينية الجملة الثانية في الأحاديث المتعلقة بالعلم و اهله و حامله جلد 4 صفحہ 108 ابن ابی جمهور الاحسائی ان کے دسویں صدی ہجری کے شیوخ عظام میں سے ہے اور دیکھیں: تفسير الصافي المقدمة الرابعة في نبذ ما جاء في معاني الآيات جلد 1 صفحہ 31)

پھر شیعہ مذہب کے علماء کے اندازے بہک گئے اور نشانے خطاء ہو گئے تو کہنے لگے: 

امور و اشیاء میں سب سے واضح اور ظاہر اور مشہور یہ ہے کہ کلام مجید کی ہر ایک آیت اور کتاب اللہ بزرگ و برتر کے ہر فقرہ کی ایک ظاہری تفسیر ہوتی ہے اور ایک باطنی اس کی تفسیر و تاویل ہے، بلکہ مشہور روایات کے مطابق ہر باطنی معنی کے اندر دیگر ستتر (77) باطنی معانی ہوتے ہیں

(مقدمه تفسير البرهان مسمى مراة الانوار و مشكاة الأسرار صفحه 6 لأبي الحسن الفتوني المتوفى 1140ھ الفتونی کو الحجۃ کے لقب سے نوازا ہے اور کہا ہے کہ اس کی کتاب جیسی کوئی کتاب بھی منصۂ شہود پر نہیں آئی دیکھیں خاتمة مستدرك الوسائل، جلد 2 صفحہ 54 و الذريعة جلد 20 صفحہ 1264)

شیعہ کے شیوخ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے بہت ساری احادیث جو متواتر تک جا پہنچتی ہیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ سب باطن خواہ یہ جس قدر بھی زیادہ تعداد میں ہوں؟ اس کے دو بنیادی مقاصد ہیں: 

پہلا مقصد: 

سادات اطہار کی فضیلت و مرتبت بلکہ واضح ترین حق بات جو کہ کسی بھی کتاب اللہ کے رموز و اسرار جاننے والے خبیر و بصیر عالم پر مخفی نہیں ہے، وہ یہی ہے کہ فضل و انعام اور مدح و اکرام کی اکثر آیات مبارکہ بلکہ سبھی کی سبھی آیات ہی ان کے متعلق اور ان کے اولیاء و رفقاء کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔ اور طعن و توبیخ اور تہدید و تشنیع بلکہ ایسی تمام آیات بلاشبہ سادات کے مخالف و اعداء اور ان کے بعد آنے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں بے شک اللہ تعالیٰ نے قرآن کا باطنی حصہ امامت و ولایت کی دعوت کے ساتھ مختص کر دیا۔ جیسا کہ قرآن کا ظاہر دعوت توحید اور نبوت و رسالت کے لیے خاص کیا ہے۔ 

دوسرا مقصد: 

یہ لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کا بڑا حصہ ان کے بارے میں اور ان کے دشمن یعنی صحابہ کرامؓ کے متعلق نازل ہوا ہے۔ 

شیعہ فیض الکاشانی کہتا ہے: اکثر قرآن شیعہ کے بارے میں، ان کے اولیاء اور ان کے دشمنوں کے بارے میں نازل ہوا ہے۔

(تفسير الصافي المقدمة الثالثة في نبذ مما جاء ان جل القرآن انما نزل فيهم الخ جلد1 صفحہ 24)

بلکہ ان کے شیخ ہاشم بن سلیمان البحرانی الکتکانی نے دعویٰ کیا ہے کہ تن تنہا سیدنا علیؓ بن ابی طالب کا قرآن کریم میں 1154 مرتبہ تذکرہ موجود ہے اور اس نے اس سلسلے میں اللوامع النورانية في أسماء على وأهل بيته القرآنية ایک کتاب بھی تالیف کی ہے، جو کہ 1394 میں قم کے مطبعة العالمیہ سے طبع بھی ہوچکی ہے۔

وضاحتی نوٹ:

 اے انصاف پسند قاری! اگر آپ قرآن مجید کو شروع سے آخر قرآن کریم کا ہر صفحہ بڑے غور سے دیکھ لیں اور عربی لغات کی تمام قاموس اپنے پاس رکھ لیں تو قرآن کے بارہ اماموں میں سے کسی ایک کا نام بھی قرآن کریم میں نہیں پائیں گے۔ پھر شیعہ کے شیوخ کے ہاں یہ معاملہ مزید ترقی پاگیا جس طرح جھوٹ گھڑنے اور غلط کہنے کی عادت رکھتے چنانچہ انہوں نے قرآن کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔

چنانچہ ان کے حجۃ کہلانے والے کلینی نے جھوٹ گھڑتے ہوئے کہا ابو عبداللہ سے روایت ہے آپ نے کہا ہے کہ:

ان القرآن نزل اربعة ارباع ربع حلال و ربع سنن و احکام، وربع خبرھا کان قبلکم و نبا ما یکون بعدکم، وفصل ما بینکم۔

(اصول الکافی جلد 2 صفحہ 228)

بے شک قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے، ایک چوتھائی حلال ہے، ایک چوتھائی حرام ہے، ایک چوتھائی سنن و احکام ہیں، ایک چوتھائی تم سے پہلوں کی خبریں، تمہارے بعد والوں کی باتیں اور تمہارے باہمی امور کی تفصیلات ہیں۔

وضاحتی نوٹ:

ہم سوال کرتے ہیں کہ مزکورہ بالا تقسیم میں بارہ ائمہ کا تذکرہ کہاں ہے؟

شیعہ مذہب کے بعض شیوخ نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی کہ سابقہ روایت میں ان کے بارہ اماموں کا ذکر نہیں آیا تو کلینی نے یہ روایت جاری کر دی جو یہ بیان کرتی ہے کہ:

نزل القران أثلاثا، ثلث فینا و فی عدونا، و ثلث سنن و امثال، و ثلث فرائض و احکام۔

( اصول الکافی جلد 2 صفحہ 822، و اللوامع النورنیة صفحہ 25) 

قرآن تین تہائیوں کے حساب سے نازل ہوا ہے، ایک تہائی ہمارے اور ہمارے دشمن کے بارے میں، ایک تہائی سنن و امثال کے بارے میں، اور ایک تہائی فرائض و احکام کے بارے میں۔

پھر ان کے شیوخ نے اس کا بھی تدارک کیا اور مزید حصے بنا کر پیش کر دیئے اور جھوٹ گھڑتے ہوئے بولے: ابو جعفر سے مروی ہے آپ نے فرمایا ہے۔

نزل القرآن اربعة ارباع، ربع فینا، و ربع فی عدونا، و ربع سنن و امثال، و ربع فرائض و احکام۔

(اصول الکافی جلد 2 صفحہ 822 و تفسیر نور الثقلین جلد 1 صفحہ 571 سورة البقرة لعبد علی بن جمعة الحویزی)

قرآن تو چار چوتھائیوں میں نازل ہوا ہے ایک چوتھائی ہمارے متعلق، ایک چوتھائی ہمارے دشمن کے متعلق، ایک چوتھائی سنن و امثال پر مشتمل ہے اور ایک چوتھائی فرائض و احکام پر مشتمل ہے۔

(تفسیر العیاشی فی ما انزل القرآن جلد 1 صفحہ 20،ح 1 تفسیر الصافی المقدمہ الثالثہ فی نبذ مما ان جل القرآن نزل فیھم اولیائھم واعدائھم وبیان سر ذٰلک) 

بعض مسلمانوں نے توجہ دلائی کہ اس تقسیم کے لحاظ سے قرآن کریم میں ائمہ کی کوئی خاص امتیاز و خوبی تو موجود نہیں ہے جس میں وہ اپنے مخالفوں سے ممتاز و نمایاں ہوں تو ان کے شیخ العیاشی اس بات کو تاڑ گئے تو اس نے سابقہ روایت کی مثل ایک چوتھی روایت جاری کر دی جس میں یہ اضافہ بھی شامل کر دیا:

ولنا کرائم القرآن 

اور ہمارے لیے قرآن کے عمدہ اور قیمتی مقامات ہیں۔

اس اضافے کی طرف تفسیر الصافی کے مؤلف کاشانی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا:

و زاد العیاشی: و لنا کرائم القرآن۔

(الامام الصادق صفحہ 143محمد حسین المظفر کی، طبع الثالثۃ 1397مطبع دار الزھراء بیروت)

عیاشی نے یہ الفاظ زائد لکھے ہیں قرآن کی فضائل و اکرام والی آیات ہمارے لیے ہیں۔