ان تاویلات اور تفسیری بیانات کی اصل و اساس کیا ہے جنہیں شیعہ قرآن کریم کے لیے بیان کرتے ہیں مزید اس کی چند مثالیں بھی ذکر کریں؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریان تاویلات اور تفسیری بیانات کی اصل و اساس کیا ہے جنہیں شیعہ قرآن کریم کے لیے بیان کرتے ہیں مزید اس کی چند مثالیں بھی ذکر کریں؟
جواب: شیعہ کی تفاسیر میں سے سب سے پہلی کتاب جس نے اس انداز تفسیر کو بنیاد فراہم کی وہ ان کے شیخ جابر بن یزید بن الحارث الجعفي الکوفی المتوفی سنہ 127 کی تفسیر القرآن ہے یہ شخص اصحابِ رسول اللہﷺ کو کافر قرار دینے میں بہت مشہور تھا۔
عجیب بات: احادیث کو ضعیف اور صحیح قرار دینے میں شیعہ مذہب کی کتب متضاد باتوں پر مبنی ہیں کچھ باتیں تو ایسی ہیں جو اسے اہلِ بیتؓ کے علم کے واقف کاروں میں سے یاد کرواتی ہیں اور اس پر صفاتِ الٰہی کی جھلک بھی ڈالتی ہیں کہ وہ علم غیب جانتا ہے اور وہ کچھ بھی جانتا ہے جو ماؤں کے رحموں میں ہے الخ۔ شیعہ محمد بن حسین الامین نے کہا ہے جابر نے سیدنا الباقرؒ سے ستر ہزار احادیث روایت کی ہیں۔
(اعيان الشيعة جلد 1 صفحہ 45 اور الامام الصادق تالیف محمد حسین 143)
جبکہ ہم شیعی مصادر میں ایسی روایات بھی پڑھیں گے جو جابر جعفی پر تنقید کرتی نظر آتی ہیں اور اسے کذاب اور دجال قرار دیتی ہیں۔
لہٰذا شیعی شیوخ نے ایک اور روایت نقل کی زرارہ نے کہا ہے میں نے ابو عبداللہ سے جابر کی احادیث کی بابت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا میں نے اسے اپنے باپ کے پاس کبھی نہیں دیکھا سوائے ایک مرتبہ کے اور وہ میرے پاس بھی کبھی نہیں آیا۔
(رجال الكشي جلد 3 صفحہ 264 ح 335 جابر بن يزيد الجعفي)
یہ ہے تناقض و تضاد اور ایسا تناقض شیعہ افراد اور ان کے شیوخ کے متعلق ثقہ اور ضعیف کا حکم بکثرت ملتا ہے۔
اہم ترین بات:
شیعہ اثناء عشری کتابوں نے اپنے شیخ جابر جعفی سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی:
كَمَثَلِ الشَّيۡطٰنِ اِذۡ قَالَ لِلۡاِنۡسَانِ اكۡفُرۡۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّنۡكَ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الۡعٰلَمِيۡنَ
(سورۃ الحشر:آیت 16)
ترجمہ:ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ وہ انسان سے کہتا ہے کہ کافر ہوجا۔ پھر جب وہ کافر ہوجاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری ہوں، میں اللہ سے ڈرتا ہوں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
کی تفسیر نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مراد سیدنا عمر فاروقؓ ہے اور آپ کو ابلیس سے زیادہ عذاب دیا جاتا ہے۔ بعینہٖ یہی تفسیر اثناء عشریہ وراثت میں پاتے ہیں ان کے شیوخ اپنے اصلی اور قابل اعتماد مصادر میں اسے لکھتے ہیں اس پر اعتماد کرتے ہیں اور پھر اسے آگے نقل کرتے ہیں بلکہ جو شخص یہ بات نہ کہے تو اسے کافر قرار دیتے ہیں باوجود اس امر کے کہ یہ مرجع و مصدر یہودی ہے۔
(تفسير العياشي جلد 2 صفحہ 240 ح 8 ح 9 سورة ابراهيم اور تفسیر الصافي جلد 3 صفحہ 84 سورة ابراهيم اور تفسیر البرهان جلد 4 صفحہ 317 سورة ابراهيم)
شیعہ نے سیدنا ابو جعفرؒ پر جھوٹ و افتراء باندھتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جو نبی بھی بھیجا اسے ہماری ولایت کے اظہار اور ہمارے دشمنوں سے برأت کا اظہار کرنے کے لیے بھیجا اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
وَلَـقَدۡ بَعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَۚ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ هَدَى اللّٰهُ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَيۡهِ الضَّلٰلَةُ ؕ
(سورۃ النحل: آیت 36)
ترجمہ:اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جن کو اللہ نے ہدایت دے دی اور کچھ ایسے تھے جن پر گمراہی مسلط ہوگئی۔
یہ اہلِ سنت کا ترجمہ ہے جبکہ شیعہ کہتے ہیں
سیدنا ابو جعفرؒ فرماتے ہیں: آلِ محمد کی تکذیب کرنے کی وجہ سے ان پر ضلالت ثابت ہو گئی-
(تفسير العياشي جلد 2 صفحہ 280 آیت نمبر 25 سورة النحل تفسير الصافي جلد 3 صفحہ 134 تفسير البرهان جلد 4 صفحہ 435 تفسير نور الثقلين جلد 3 صفحہ 53 آیت نمبر 79 سورة النحل)
شیعہ کے متقدمین شیوخ سورۃ النساء کی آیت 51
بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ ای ابوبکر و عمر
اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔
سے مراد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ لیتے ہیں۔
شیعہ کے ثقہ اسلام کلینی نے سیدنا ابو جعفرؒ پر ایک اور جھوٹ گھڑ کر روایت نقل کی ہے جب کہ وہ اس سے بری ہیں۔ الجبت اور الطاغوت سے مراد فلاں فلاں ہیں۔
(أصول الكافي جلد 1 صفحہ 324 - 325 كتاب الحجة، ح 83 باب فيه نكت ونتف من التنزيل في الولاية)
جب کہ شیعہ عالم مجلسی کہتا ہے فلاں فلاں سے مراد سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہے۔
(بحار الأنوار جلد 23 صفحہ 306 حدیث نمبر 2 باب انهم أنوار الله وتأويل آيات النور فيهم عليهم السلام)
اسی طرح یہ شیعہ سیدنا عمرؓ کو ثانی قرار دیتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد
وَ كَانَ الْكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِیْرًا
(سورۃ الفرقان:آیت 55)
کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: کافر ثانی (یعنی سیدنا عمرؓ)سیدنا علیؓ کے خلاف مدد گار تھا۔
(تفسير القمي صفحه 472 سورة الفرقان على بن ابراهيم القمی اور تفسیر نور الثقلين جلد 4 صفحہ 25 حديث نمبر 82 سورة الفرقان)
شیعہ الصفار نے سیدنا ابو جعفرؒ پر یہ جھوٹ گھڑ لیا ہے وہ اس غلط تاویل سے بری ہیں کہ آپ فرماتے ہیں:
اس کی باطنی تفسیر قرآن یہ ہے کہ یعنی سیدنا علیؓ ہی ولایت اور اطاعت میں آپ کے رب ہیں۔
(بصائر الدرجات الكبرى جلد 1 صفحہ 129 ح 5 النوادر من أبواب في الولاية)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:
قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِۚ-اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ
(سورۃ النحل:آیت 51)
کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ تم دو امام نہ بناؤ بے شک امام ایک ہی ہے( سیدنا علیؓ)
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان اقدس کے بارے میں انھوں نے یہ کہا ہے
قَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْۤا اِلٰهَیْنِ اثْنَیْنِۚ
اللہ تعالی ارشاد فرما چکا ہے کہ: دو معبود نہ بناؤ یعنی دو امام نہ بناؤ۔
إِنَّمَا هُوَ إِلَّهُ وَاحِدٌ أَي إِمَامٌ وَاحِدٌ
معبود تو صرف وہی اکیلا ہے یعنی امام ایک ہی ہے۔
(تفسير العياشي جلد 2 صفحہ 283 ح 36 سورة النحل اور تفسیر نور الثقلين جلد 3 صفحہ 60 حديث نمبر 12 سورة النحل)
اسی طرح مفضل سے ایک من گھڑت روایت نقل کرتے ہیں کہ اس نے سنا سیدنا ابو عبد اللہ فرما رہے تھے وہ اس غلط تاویل سے بری ہیں کہ
وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا
(سورۃ الزمر:آیت 69)
اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی۔
ابو عبد اللہ کہتے ہیں
رب الأرض یعنی امام الأرض
کہ زمین امام کے نور سے چمک اٹھے گی۔
میں نے کہا جب امام نکل آئے گا تو کیا ہوگا؟ انہوں نے فرمایا: اس وقت لوگ سورج کی روشنی اور چاند کی چاندنی سے مستغنیٰ ہو جائیں گے اور امام کے نور سے روشنی لیں گے۔
(تفسير القمي صفحہ 595 سورة الزمر تفسير الصافي جلد 4 صفحہ331)
اور اللہ تعالیٰ کے فرمان اقدس کی تفسیر یوں کرتے ہیں
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۘ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۫-كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ-ای الا ائمہ علیھم السلام
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارنا، بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور معبود نہیں، ہر چیز فنا ہونے والی ہے مگر اس کا چہرہ یعنی بجز ائمہ کے۔
قمی نے کہا سیدنا ابو جعفرؒ نے روایت گھڑی کہ انھوں نے فرمایا (جبکہ ایسا ممکن نہیں کہ انھوں یہ بات فرمائی ہو۔)ہم اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہیں جس سے اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے اور ایک روایت میں ہے ہم اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہیں جو ہلاک نہیں ہوگا۔
(تفسير القمي صفحہ 505 سورة القصص بحار الانوار جلد 24 صفحہ 192 حدیث نمبر 7 باب انهم عليهم السلام جنب الله و وجه الله ویدالله امثالها)
سیدنا الصادقؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:
وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ
(سورۃ الرحمٰن: آیت 26)
تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا۔ کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ہم اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہیں۔
(التوحيد لابن بابويه صفحه 145حدیث نمبر 4 تفسير قول الله كل شيئ هالك الأوجهه، تفسير الصافي جلد 4 صفحہ 108 سورة القصص، بحار الأنوار جلد 24 صفحہ 201 حديث نمبر: 33 باب أنهم جنب الله)
شیعہ کا امام اکبر خمینی کہتا ہے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ
(سورۃ الرعد:آیت 2)
وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے، کھول کھول کر آیات بیان کرتا ہے، تاکہ تم اپنے رب کی ملاقات کا یقین کر لو۔
یہاں پر ربکم اپنے رب سے مراد امام ہے۔
(مصباح الهداية إلى الخلافة والولاية 145 للخميني)
وضاحتی نوٹ:
علماء شیعہ کی تفسیر قرآن کے چند نمونے جو قبل ازیں بیان ہوئے ہیں بلاشبہ ان کے بارہ ائمہ کے ذکر خیر اور ان کے مخالفین کے ذکر پر مشتمل ہیں، شیعہ علماء نے اس مسئلہ کے ثبوت کے لیے ہزاروں نصوص اکٹھی کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کر دی ہیں۔ ابو عبداللہ کے سامنے آیاتِ الہٰیہ کی ایسی ہی باطنی تاویلات اور باطنی تفسیروں کا ذکر کیا گیا اور ان کے سامنے یہ بات عرض کی گئی آپ کی طرف سے الخمر، المیسر ،الا نصاب اور الازلام کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہ لوگ ہیں تو آپ نے فرمایا:
مَا كَانَ اللَّهُ عَزّوَجَلَّ لِيُخَاطِبَ خَلْقَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُونَ
اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے اس طرح کی باتیں کرے جنہیں وہ جانتے ہی نہ ہوں۔
(رجال الكشي جلد 4 صفحہ 360حدیث نمبر: 513 ماروى في محمد بن أبي زينب وسائل الشيعه جلد 12 صفحہ 383 حدیث نمبر: 13 باب تحریم كسب القمار حتى الكعاب یہ سوال اس آیت مبارکہ کے متعلق تھا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
(سورۃ المائدة: آیت 90)
ترجمہ:اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو ۔مترجم آغا دلدار حشر حسرت)
ابو عبد اللہؒ کا مذکورہ فرمان جو شیعہ مذہب کی قابل اعتماد کتب الرجال میں وارد ہے ان کے شیوخ کی تعمیر کردہ ایسی تمام تحریفات کی عمارتوں کو منہدم کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اور اس کی آیات میں اس رویہ کا نام ہی الحاد ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تو اس طرح فرما رہے ہیں:
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ قُرۡءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ
(سورۃ يوسف:آیت 2)
ترجمہ:ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اتارا ہے جو عربی زبان میں ہے، تاکہ تم سمجھ سکو۔
اور اللہ تعالیٰ نے یوں بھی فرمایا ہے:
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ
(سورۃ الحجر:آیت9)
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
شیعہ مشائخ کے لیے کمر شکن:
1)شیعہ علماء کی قابل اعتماد اور ان کے ہاں متفق علیہ کتابوں میں مروی ایسی باطنی تاویلات اور تفسیری بیانات کے متعلق سیدنا ابو عبد اللہؒ نے ان کے گھڑنے والوں پر یہ حکم لگایا ہے کہ یہ لوگ یہود، نصاریٰ، مجوس اور مشرکین سے بھی بدتر ہیں اور شیعہ علماء نے بذات خود ان سے یہ روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے ان کے متعلق یہ فرمایا ہے: یہ لوگ یہودیوں عیسائیوں، مجوسیوں اور مشرکوں سے بھی زیادہ برے ہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم ان کے کسی بھی چیز کو حقیر و ذلیل قرار دینے سے وہ چیز حقیر و ذلیل نہیں بن سکتی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے عظمت و سر بلندی عطا فرمائی ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت میں کچھ بھی فرق نہیں آسکتا۔ اللہ کی قسم! اگر میں ان باتوں کا اقرار کر لوں جو اہلِ کوفہ میرے حوالے سے کہتے ہیں تو زمین مجھے دبوچ لے۔ میں تو صرف عبد مملوک ہوں اور میں کسی چیز کو نقصان اور نفع پہنچانے پر قدرت نہیں رکھتا۔
(رجال الكشي جلد 4 صفحہ 367 حديث نمبر 538 ما روى في محمد بن ابی زینب اسمه مقلاص ابو الخطاب البراد الاجدع الأسدى، بحار الأنوار جلد 25 صفحہ 294 حدیث نمبر 53 باب نفى الغلو في النبي و الائمة صلوات الله عليه و عليهمو بيان معاني التفويض اور معجم رجال الحديث جلد 15 صفحہ 262)
2) ایسی تمام تاویلات اجتہادی آراء نہیں ہیں جو شیعہ علماء کے مابین بحث و تکرار کے قابل ہوں بلکہ یہ تو شیعہ علماء کے نزدیک قطعی الثبوت اور مقدس نصوص ہیں جن کا مقام و مرتبہ وحی کے برابر ہے بلکہ وحی سے بھی بلند تر کیونکہ یہ منسوخ نہیں ہو سکتیں۔ جبکہ قرآن کریم کی وحی کو تو ان کا امام منسوخ قرار دے سکتا ہے۔ انہوں نے روایت گھڑتے ہوئے کہا کہ سفیان السمط سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں میں نے سیدنا ابو عبد اللہؒ سے عرض کیا میں آپ پر فدا ہوں کوئی شخص آپ کی طرف سے ہمارے پاس آتا ہے جو کذب بیانی میں مشہور و معروف ہے پھر وہ کوئی ایسی حدیث بیان کرے جسے ہم بدمزہ اور بدنما پاتے ہیں، تو سیدنا ابو عبد اللہؒ نے فرمایا وہ تجھے کہتا ہے کہ میں نے رات کو دن کہا ہے یا دن کو رات کہا ہے۔ فرمایا اگر وہ شخص تجھے یوں کہتا ہے کہ میں ہی نے یہ بات کہی ہے تو تو اسے مت جھٹلا کیونکہ تو مجھے ھی جھٹلائے گا۔
(بحار الأنوار جلد 2 صفحہ 211-212 حدیث نمبر 11 باب ان حديثهم عليهم السلام صعب مستصعب وان كلامهم ذو وجوه كثيرة وفضل التدبر فى اخبارهم عليهم السلام اور مختصر بصائر الدرجات 190 حدیث نمبر 242 باب ماجاء في التسليم لما جاء عنهم و ما قالوه)
3)شیعہ کے شیوخ کے نزدیک تفسیر کے دو پہلو میں ظاہری اور باطنی جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوا ہے اور دونوں ہی معتبر ہیں ظاہری تفسیر سبھی شیعہ کے لیے بیان کی جاتی ہے رہی باطنی تفسیر تو وہ صرف انھی خواص شیعہ کے لیے بیان کی جاتی ہے جو اسے برداشت کرنے اور اٹھانے کی استطاعت اور خوبی عطاء کیے جاتے ہیں۔
عبد اللہ بن سنان ذریع المحاربی سے روایت بیان کرتا ہے کہ اس نے کہا میں نے سیدنا ابو عبد اللہؒ سے عرض کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مجھے ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے میں اسے کرنا چاہتا ہوں، تو آپ نے دریافت کیا اور وہ کون سا کام ہے؟ میں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
ثُمَّ لۡيَـقۡضُوۡا تَفَثَهُمۡ وَلۡيُوۡفُوۡا نُذُوۡرَھُم٘ وَلۡيَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَيۡتِ الۡعَتِيۡقِ
(سورۃ الحج: آیت 29)
ترجمہ: پھر (حج کرنے والے) لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنا میل کچیل دور کریں، اور اپنی منتیں پوری کریں، اور اس بیت عتیق کا طواف کریں۔
آپ نے فرمایا:
ثم لیقضوا تفثھم لقاء الامام
پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں، سے مراد امام کی ملاقات ہے۔
وليوفوا نذورهم تلك المناسك
اور اپنی نذریں پوری کریں سے مراد وہ مناسک ہیں۔
عبداللہ بن سنان کہتا ہے: میں ابو عبد اللہ کے پاس آیا اور عرض کی میں آپ پر قربان! اس فرمانِ الٰہی
ثُمَّ لۡيَـقۡضُوۡا تَفَثَهُمۡ وَلۡيُوۡفُوۡا نُذُوۡرَهُمۡ
کی تفسیر کیا ہے؟
انہوں نے فرمایا: مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا اور اسی طرح کے دیگر میل کچیل دور کرنے والے کام مراد ہیں۔
کہتے ہیں، میں نے عرض کی:
میں آپ پر فدا ہو جاؤں، بلاشبہ ذریح المحاربی نے مجھے آپکے نام سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ آپ نے اسے فرمایا تھا:
وَلْيَقْضُوا تَفَثهُمْ امام کی ملاقات اور وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ
حج کے مناسک مراد ہیں،
تب فرمانے لگے: ذریح نے بالکل بجا فرمایا اور تو نے بھی عین سچ بولا، بیشک قرآن کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور یہ علم کون حاصل کر یگا؟ ذریح جیسی علمی صلاحتیں اور کس میں ہیں؟
(فروع الكافي جلد 4 صفحہ 743 كتاب الحج، باب اتباع الحج بالزيارة، حديث نمبر : 4 مزید دیکھئے: من لا يحضره الفقيه جلد 2 صفحہ 373 حدیث نمبر3037 باب قضاء التفث تفسير البرهان جلد 5 صفحہ 286 حدیث نمبر 13 سورة الحج وسائل الشيعة جلد 10 صفحہ 437 حديث نمبر 4 باب تاكد استحباب زيارة النبيﷺ والائمة عليهم السلام وخصوصاً بعد الحج اور بحار الانوار جلد 24 صفحہ 360 حدیث نمبر 84 باب جوامع تاويل ما نزل فيهم عليهم السلام و نوادرها)
تعلیق:
اس واضح نص اور دیگر نصوص میں اس امر کی تصریح موجود ہے کہ قرآنِ کریم کے ظاہری معانی ہیں جو عام لوگوں سے بیان کیے جاتے ہیں اور اس کے کچھ باطنی معانی بھی ہیں جو صرف خواص کے لیے ذکر کیے جاتے ہیں اور خاص بھی وہ جو ان معانی کو اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہوں اور وہ انتہائی قلیل تعداد میں ہوتے ہیں اور کبھی کبھار وہ پائے ہی نہیں جائیں گے( اور کون اسے حاصل کرے گا جیسے ذریح حاصل کر رہا ہے)
ایک سوال:
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شیعہ کے ائمہ اس باطنی علم کے ساتھ اس درجہ بخل رکھتے ہیں اور سبھی شیعہ کے پاس اسے ذکر کرنے سے کنارہ کشی کرتے ہیں ماسوائے ذریح جیسی سطح کے لوگوں کے! تو پھر اثناء عشری کتابوں نے اپنے ائمہ کے مسیح و طریق کی کیوں مخالفت کی ہے اور پھر اس بخل زدہ علم کو غیر اہل، خاص و عام کے لیے کیوں شائع کیا ہے بلکہ اپنی ملت کے دشمنوں اہلِ سنت وغیرہ کے سامنے بھی؟
اِنَّ هٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ
سورۃ ص: آیت 5)
واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔
لیکن یہ امر قابل تعجب نہیں ہے ان لوگوں نے خود کو کم علم اور علم چھپانے کی کمی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا ہے۔ شیعہ شیخ الکلینی نے علی بن الحسین سے روایت کی ہے انہوں نے فرمایا: میں پسند رکھتا ہوں، اللہ کی قسم! کہ میں اپنے شیعہ میں موجود دو کوتاہیوں کے عوض اپنے بازو کا گوشت فدیہ میں دے دوں یعنی کم عقلی و حماقت اور چھپائے رکھنے کی کمی۔
(اصول الکافی جلد 2 صفحہ 575 حدیث نمبر 1 باب الكتمان وسائل الشيعة، جلد 11 صفحہ 258 حدیث نمبر 2 باب وجوب كتم الدين عن غير اهله مع التقية بحار الأنوار، جلد 28 صفحہ 416 حدیث نمبر 40 باب الحلم والعفو و كظم الغيظ الحضال)
شیعہ علماء کی یہ سب باطنی تاویلات جن کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں اور جن کی دعوت پیش کرتے ہیں یہ سب کی سب کتاب اللہ کی آیات میں کجی اور الحاد کے باب میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَاؕ-اَفَمَنْ یُّلْقٰى فِی النَّارِ خَیْرٌ اَمْ مَّنْ یَّاْتِیْۤ اٰمِنًا یَّوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْۙ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
(سورۃ حمٓ السجدة: آیت 40)
ترجمہ: بے شک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں، وہ کچھ ہم سے مخفی نہیں، بتلاؤ تو جو آگ میں ڈالا جائے وہ اچھا ہے یا وہ جو امن وامان کے ساتھ قیامت کے دن آئے گا؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وہ تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے۔