علماء شیعہ میں سے وہ کون سا پہلا عالم ہے جس نے قرآن کریم میں کمی بیشی اور تحریف کی باتیں کی ہیں؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریعلماء شیعہ میں سے وہ کون سا پہلا عالم ہے جس نے قرآن کریم میں کمی بیشی اور تحریف کی باتیں کی ہیں؟
جواب: ایسا کہنے والا شیعہ شیخ ہشام بن الحکم (ت 190ھ) ہے جو کہ عقیدہ تجسیم(معجم رجال الحديث جلد 20 صفحہ 328) کا قائل تھا۔ اس نے یہ گمان اور خیال ظاہر کیا تھا کہ قرآن سیدنا عثمان بن عفانؓ کے ایامِ خلافت میں گھڑا گیا تھا۔ جب کہ حقیقی قرآن اس کے عقیدے کے مطابق صحابہ کرامؓ کے مرتد ہونے پر آسمانوں کی جانب اٹھا لیا گیا تھا۔
(التنبيه والرد صفحه 25 و جوابات اهل الموصل للمفيد صفحه 45 حاشية نمبر 5)
کتاب شیعہ میں سب سے پہلی کتاب جس میں شیعہ کے عقیدہ کے متعلق تحریر کیا گیا ہے کہ قرآن میں کمی و بیشی ہوئی ہے وہ شیعہ سلیم بن قیس الہلالی المتوفی سنہ 90 ھ کی کتاب ہے۔ حجاج نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر یہ وہاں سے بھاگ گیا اور ابان بن ابو عیاش (اس سے مراد ابو اسماعیل ابان بن ابو عیاش المتوفی 138ھ الحلی اور الأرد بیلی نے اس کے متعلق لکھا ہے ابان بن ابو عیاش بہت ہی ضعیف راوی ہے، ہمارے اصحاب سلیم بن قیس کی کتاب وضع کرنے کی اس کی طرف نسبت کرتے ہیں رجال ابنِ داؤد الحلى، صفحہ 226 القسم الثاني باب الهمزة نمبر 2، جامع الرواة و ازاحة الاشتباهات عن الطرق والاسناد جلد1صفحہ9) کے ہاں جا کر پناہ گزیں ہو گیا تھا، جب اس کی وفات کا وقت قریب آیا تو سلیم بن قیس نے اسے اپنی یہ کتاب عنایت کی تب ابان بن ابو عیاش نے اس سے یہ روایت کی۔
(رجال الحلى، 249 القسم الثاني باب السين الذريعة الى تصانيف الشيعة جلد 2 صفحہ 154 نمبر 590 الفهرست لابن النديم، جلد1 صفحہ 219)
اور سلیم بن قیس کا اہلِ سنت و الجماعت کی کتب اسماء الرجال میں ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی نے بھی اس سے اس کتاب کی روایت نہیں کی اور یہ وہ سب سے پہلی کتاب ہے جو شیعہ کے لیے وجود میں آئی۔
(الذريعة إلى تصانيف الشيعة جلد 2 صفحہ 153 رقم 590 اور الفهرست ابن ندیم صفحہ 219 فقهاء الشيعة و محدثيهم و علمائهم، اور بحار الانوار جلد 8 صفحہ 108 في البحار و ما فيه وتعريفه)
اس کی بابت ان کے شیخ مجلسی نے یوں لب کشائی کی ہے یہ شیعہ کے اصول میں سے ایک اصل ہے اور یہ قدیم ترین کتاب ہے جو اسلام میں تصنیف کی گئی ہے۔ یہ کتاب طائفہ امامیہ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے۔
(بحار الانوار جلد 8 صفحہ 801)
بلکہ شیعہ علماء میں کوئی اختلاف نہیں کہ سلیم بن ہلالی کی کتاب اصول کی معتبر کتب میں سے ایک اہم اصولی کتاب ہے جنہیں اہلِ علم اور آلِ بیتؓ کی حدیث کو بیان کرنے والوں نے روایت کیا ہے۔ یہ کتاب تمام مصادر میں سے قدیم ترین ہے کیونکہ اس کتاب میں شامل تمام روایات رسولﷺ اور سیدنا علیؓ سے مروی ہیں۔
ابو عبداللہ الصادق سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہمارے محبین اور ہمارے شیعہ میں سے جس کے پاس سلیم بن قیس الہلالی کی کتاب موجود نہ ہو اس کے پاس ہماری کوئی علمی دستاویز نہیں ہے۔ یہ کتاب شیعہ کی حروف تہجی ہے۔ اور یہ کتاب آلِ محمد کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔
(الذريعة إلى تصانيف الشيعة، جلد 2 صفحہ 152)
الکشی لکھتا ہے کہ ابان بن عیاش نے یہ کتاب سیدنا علی بن حسینؓ کو پڑھ کر سنائی تو انہوں نے فرمایا: سلیم نے سچ کہا ہے۔ یہ حدیث ہمارے ہاں معروف ہے۔
(رجال الكشي جلد 2 صفحہ 184 حدیث نمبر: 167سليم بن قيس الهلالي تهذيب الأحكام جلد 9 صفحہ 2174حدیث نمبر 14- كتاب الوصايا، باب الوصية ووجوبها، حدیث نمبر: 14- وسائل الشيعة جلد 18 صفحہ 353 حديث 78، باب وجوب العمل بأحاديث النبيﷺ بحار الأنوار جلد 1صفحہ 79، الفصل الخامس في ذكر بعض مالا بد من ذكره)
حالانکہ اس کتاب میں شیعہ سبائیہ کا عقیدہ شامل ہے کہ سیدنا علیؓ بن ابی طالب رب و الٰہ مانتے ہیں۔ اس میں یہ لکھا ہے کہ شیعہ علماء سیدنا علیؓ کو درج ذیل کلمات کے ساتھ پکارتے ہیں:
یا اول، یا آخر، یا ظاهر، یا باطن، يا من هو بكل شيء عليم۔
اے اول، اے آخر ، اے ظاہر ، اے باطن، اے ہر چیز کو جاننے والے...
سلیم بن قیس الہلالی کی کتاب میں سیدنا علیؓ کو انہیں القابات کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے۔
یا اول، یا آخر، یا ظاهر، یا باطن، يا من هو بكل شيء عليم۔
اسی بناء پر انہوں نے ایک قصہ گھڑ کر روایت کرنا شروع کر دیا کہ:
سیدنا علیؓ باہر نکلے اور ان کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور مہاجرین و انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ آپ بقیع پہنچ کر ایک بلند جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ پھر جب سورج طلوع ہوا تو علیؓ نے کہا: اے اللہ کی
نئی مطیع وفرمانبردار مخلوق! السلام علیک تو انہوں نے آسمان سے گنگناہٹ سنی جو ایک کہنے والا جواب دے رہا تھا: وعليك السلام یا اول، یا آخر، یا ظاهر، یا باطن، يا من هو بكل شيء عليم
اے اول و آخر، ظاہر و باطن، اے ہر چیز کو جاننے والے آپ پر بھی سلام ہو۔
لہذا جب سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور انصار و مہاجرین نے سورج کی یہ کلام سنی وہ سب بے ہوش ہو گئے۔ پھر کئی گھنٹوں بعد انھیں ہوش آئی۔ اس دوران میں سیدنا علیؓ اس جگہ سے واپس آگئے۔ اور انہوں نے رسول اللہﷺ کو ایک جماعت کے ساتھ بیٹھا پایا۔ تو عرض کی آپ کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ ہماری طرح ایک بشر ہے جب کہ سورج نے انہیں ان کلمات کے ساتھ مخاطب کیا ہے جن کے ساتھ باری تعالیٰ نے خود کو مخاطب کیا ہے۔
(کتاب سلیم بن قیس، صفحہ 453)
تعارض:
شیعہ یہ بھول گئے کہ انہوں نے ایسی روایت گھڑی جس میں روایت کیا ہے ان سب کو ایک گھنٹے بعد ہوش آگئی تھی.
(الفضائل صفحہ 70 خیر کلام علی الشمس شاذان بن جبرئیل قمی کی تصنیف ہے۔)
ان کا عقیدہ ان کی بنیادی کتب اور معتمد مصادر میں موجود ہے۔ انہوں نے ایک اور جھوٹی روایت بھی بیان کی ہے اللہ تعالیٰ نے سیدنا علیؓ کے بارے میں فرمایا اے محمدﷺ سیدنا علیؓ اول ہے سیدنا علیؓ آخر ہے اور وہ ظاہر و باطن ہے، اور وہ ہر چیز بخوبی جانتا ہے۔
تو انہوں نے عرض کی اے میرے رب! کیا یہ صفات تیری نہیں؟
(باب بصائر الدرجات الكبرى جلد 2 صفحہ 475 ح 37 -باب النوادر في أئمة عليهم السلام و أعاجيبهم. بحار الأنوار جلد 18 صفحہ 1377 ح 82 اثبات المعراج و معناه و کیفیته و صفته و ما جرى في و ما جرى فيه ووصف البراق)
پھر اس بات کا ان کی آیت عبد الحسین العاملی نے ببانگ دہل اعلان کر دیا اور بولا:
أبا حسن انت عين الْإله
وعنوان قدرته السامية
وانت المحيط بعلم الغيوب
فهل عندك تعزب من خافية
وأنت مدبر رحى الكائنات
وعلۃ إيجادها الباقية
لك الأمر ان شئت تنجي غدا
وإن شئت تسفع باناصية
(دیوان شعراء الحسين الجز الأول من القسم الثاني الخاص بالادب العربي 48 محمد باقر الاروانی طبع طهران 1374 ھجری پھر یہی عقیدہ ان کی اساس کتابوں میں اور ان کے معتبر مصادر میں انتہائی خوشگواری سے بڑھتا آیا۔ اور یہ روایت بھی کرتے ہیں کہ علیؓ کہتے ہیں: انا وجه الله و انا جنب الله وانا الأول وانا الآخر وأنا الظاهر وأَنا الْباطن وأنا بكل شیئ علیم آنا أحيي وانا أميت وأنا حى لا أموت۔ میں اللہ کا چہرہ ہوں، میں اللہ کا پہلو ہوں، میں اول ہوں، میں آخر ہوں، میں ظاہر ہوں، میں باطن ہوں، میں ہر چیز کو جاننے والا ہوں، میں زندہ کرتا ہوں، میں مارتا ہوں اور میں زندہ ہوں میں مروں گا نہیں۔
(آغا دلدار حشر حسرت)
اے ابو الحسن! تو الٰہ کی انکھ ہے یا تو عین الٰہ ہے اور اس کی بلند قدرت کا پتا اور ایڈریس ہے۔
اور تو غیبوں کے علم کا احاطہ کرنے والا ہے کیا جو چیز مخفی ہے وہ تجھ سے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔
اور تو کائنات کی چکی کا مدبر ہے اور اس کی باقی رہنے والی ایجادات کا باعث ہے۔
سارا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے کل قیامت کو اگر تو چاہے تو نجات دے دے اور اگر تو چاہے تو پیشانی سے گھسیٹ لے۔
ایک اور شاعر کہتا ہے:
جميع صفات الرب فيه تجمعت
وما اجتمعت إلا لسر و حكمة۔
(دائرة المعارف الشيعية جلد 1 صفحہ 153- لمحمد حسين الأعملي الحائري)
اللہ تعالیٰ کی تمام صفات آپ میں جمع ہوگئی ہیں۔ اور ان کے جمع ہونے کی وجہ کوئی خاص راز اور حکمت ہے۔
شیعہ علماء پر ایک زبردست آفت:
بعض شیعہ علماء نے سلیم بن قیس کی کتاب میں ایک زبردست بات دریافت کی ہے ان کی یہ دریافت اثناء عشری تشیع کی بنیاد میں منہدم ہونے سے قبل کی ہے،
قارئین کرام! یہ خیال مت کریں کہ یہ دریافت سیدنا علیؓ کی الوہیت والا معاملہ ہے، نہیں کیونکہ اسے تو وہ تسلیم کرتے ہیں، لیکن وہ خطرناک بات جسے انہوں نے مذکورہ کتاب سے دریافت کیا ہے وہ ہے کہ اس نے ائمہ کی تعداد کو تیرہ بنایا ہے۔ تو یہ ایک زبردست آفت اور مصیبت ہے جو اثناء عشری مذہب کو بنیادوں سے گرا رہی ہے۔