شیعہ علماء کی قرآن میں کمی بیشی اور تحریف کے عقیدہ کی ابتداء کس طرح شروع ہوئی؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریشیعہ علماء کی قرآن میں کمی بیشی اور تحریف کے عقیدہ کی ابتداء کس طرح شروع ہوئی؟
جواب: اس عقیدہ کی ابتداء سلیم بن قیس کی کتاب سے ہوئی ہے اور یہ صرف دو روایتیں ہیں، قریب تھا کہ یہ روایات ملیامیٹ ہو جاتیں کہ تیرہویں صدی ہجری میں شیعہ علی بن ابراہیم القمی (المتوفی 307ھ) نے انہیں زندہ کیا اور یوں لکھا قرآن میں ناسخ اور منسوخ ہے۔ حتیٰ کہ یہ کہا اس کے ہر حرف کی جگہ ایک اور حرف ہے اور اس میں تحریف بھی ہے، اس میں ایسی آیات بھی ہیں جو اللہ کے نازل کردہ قرآن کے خلاف ہیں۔ حتیٰ کہ یہ تک کہہ دیا: وہ آیت جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قرآن کے خلاف ہے وہ یہ ہے:
كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِاللَٰهِ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 110)
ترجمہ: تم سب سے بہتر امت ہو، جو لوگوں کے لیے نکالی گئی تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
ابو عبداللہؒ نے اس آیت کے پڑھنے والے سے کہا کیا (خَيۡرَ اُمَّةٍ) امت کے بہترین لوگ بھی سیدنا علیؓ اور حسن و حسین بن علی رضی اللہ عنہم سے جنگ کر سکتے ہیں؟
ابو عبداللہؒ سے پوچھا گیا! اے رسول اللہ کے صاحبزادے پھر یہ آیت کیسے نازل ہوئی تھی؟ تو آپ نے فرمایا یہ آیت یوں نازل ہوئی تھی: كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ الخ۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 110)
ترجمہ: کہ تم بہترین امام ہو جو لوگوں کے لیے نکالے گئے ہے۔ پھر لکھتے لکھتے یوں کہا اس میں تحریف بھی ہوئی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ کے برخلاف بھی ہے۔
مزید لکھا رہی وہ بات جو اس میں تحریف شدہ ہے تو وہ یہ فرمان گرامی ہے:
(لٰـكِنِ اللّٰهُ يَشۡهَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اِلَيۡكَ (فی علیّ) بِعِلۡمِهٖ ۚ وَالۡمَلٰٓئِكَةُ يَشۡهَدُوۡنَ)
(سورۃ النساء: آیت، 166)
ترجمہ: جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اس کی بابت خود اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے۔ (علیؓ کے بارے میں اتارا ہے) اپنے علم سے نازل کیا ہے اور ملائکہ بھی اس کی گوئی گواہی دیتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی تحریف شدہ ہے:
(يٰۤـاَيُّهَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ) فی علی (وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسٰلَـتَهٗ)
(سورۃ المائدة: آیت، 67)
ترجمہ: اے رسولﷺ! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (یعنی علیؓ کے بارے میں) اسے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی:
(اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا وَظَلَمُوۡا) آلَ محمد حقھم (لَمۡ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَـغۡفِرَ لَهُمۡ)
(سورۃ النساء: آیت، 168)
ترجمہ: جن لوگوں نے کفر کیا اور ظلم کیا۔ یعنی آلِ محمد پر ان کے حق کے معاملے میں۔ انہیں اللہ تعالیٰ ہرگز ہرگز نہ بخشے گا۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی:
(وَسَيَعۡلَمُ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡۤا) آلَ محمّد حقّهم (اَىَّ مُنۡقَلَبٍ يَّنۡقَلِبُوۡنَ)
(سورۃ الشعراء: آیت، 277)
ترجمہ: اور عنقریب جان لیں گے وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا۔ یعنی آلِ محمد پر ان کے حق میں کہ وہ کس پہلو پر پلٹتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی:
(وَلَوۡ تَرٰٓى) الذين ظلموا آل محمد فی حقهم (فِىۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ)
(سورۃ الانعام: آیت، 93)
ترجمہ: اور جب آپ انہیں دیکھیں گے جن لوگوں نے آلِ محمد پر ان کے حقوق میں ظلم کیا وہ موت کی سختیوں میں ہوں گے۔
(تفسیر القمی: صفحہ، 14 مقدمة المؤلف اور فصل الخطاب فی تحريف كتاب رب الارباب صفحہ، 25 المقدمة الثالثة)
اس طرح کی مثالیں ان کے ہاں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔ قرآنِ مجید میں کمی بیشی اور تحریف کا دعویٰ کرنے والوں میں درج ذیل شیعہ علماء شامل ہیں:
1: محمد بن حسن الصفار: یہ سیدنا ابو جعفرؒ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کتاب اللہ کو انہوں نے بدل ڈالا، کعبۃ اللہ کو گرا دیا، آلِ نبی کو قتل کر دیا، اور اللہ کی ہر امانت سے براءت کا اظہار کر دیا۔
(بصائر الدرجات الكبرى: جلد، 2 صفحہ، 296 حدیث نمبر، 3 باب فی قول رسول اللهﷺ انی تارك فيكم فصل الخطاب فی تحريف كتاب رب الارباب: صفحہ، 26 المقدمة الثالثة)
2: ایک دوسرا شیعہ عالم: سعد بن عبد الله قمی (متوفی 301ھ) ہے وہ کہتا ہے باب ان آیات کے بیان میں جن میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ منشاء کے برعکس تحریف کی گئی ہے۔ اور انہیں ہمارے مشائخ نے علماء آلِ محمد سے روایت کیا ہے۔
(بحار الأنوار: جلد، 89 صفحہ، 160حاشیہ: 47 باب ما جاء فی كيفية جمع القرآن و ما يدل على تبديله وفصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الأرباب: صفحہ، 26)
3: تیسرا عالم محمد بن مسعود بن عیاش السلمی المعروف بالعیاشی (متوفی 320ھ) ہے: اس نے سیدنا ابو جعفرؒ سے یہ روایت کی کہ انہوں نے فرمایا اگر قرآنِ مجید میں کمی و اضافہ نہ کیا گیا ہوتا تو ہر عقل مند شخص پر ہمارا حق مخفی نہ رہ سکتا۔
(تفسير العياشی: جلد، 1 صفحہ، 25 حديث نمبر: 6 ماعنى به الأئمه من القرآن اور فصل الخطاب فی تحريف كتاب رب الأرباب: صفحہ، 26 المقدمة الثالثة)
4: چوتھا عالم محمد بن یقوب بن اسحاق الکلینی الرازی (متوفی 328ھ) ہے۔
(یہ الکافی کے مؤلف ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ شیعی معتمد ترین چار بنیادی کتب میں سے ایک ہے آلِ رسول سے منقول اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔ الذريعة: جلد، 17 صفحہ، 245 حدیث نمبر: 96 کتاب الکافی یہ اپنے لوگوں کے نزدیک اس مرتبے والی کتاب ہے جو مقام و مرتبہ ہمارے ہاں صحيح البخاری کا ہے بلکہ اس سے بھی بڑے درجے والی ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ جعفر بن محمد نے ارشاد فرمایا ہے إن الكافی عرض على القائم عليه السلام فاستحسنه وقال كاف لشيعتنا بلاشبہ کافی کو امام القائم کے رو برو پیش کیا گیا تو آپ نے اسے مستحسن قرار دیا اور فرمایا یہ ہمارے شیعہ کے لیے کافی ہے مقدمة الكافی: صفحہ، 25 الذريعة إلى تصانيف الشيعة: جلد، 17 صفحہ، 245 وسائل الشيعة: جلد، 20 صفحہ، 71 مستدرك الوسائل: جلد، 3 صفحہ، 432)
یہ ابو عبد اللہ سے یہ روایت نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا بے شک وہ قرآن جسے جبرائیل محمدﷺ پر لے کر نازل ہوا تھا اس کی سترہ ہزار آیات تھیں۔
(اصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 826 كتاب فضل القرآن، ح، 29 باب النوادر اہلِ سنت کے قرآن کی آیات کی تعداد 6236 ہے لہٰذا زائد کتنے ہزار ہوئے، شمار کر لیں)۔
5: پانچواں عالم علی بن احمد ابو القاسم الکوفی (متوفی 352ھ) نے اپنی کتاب الاستغاثہ میں شیعہ فرقہ کے اس اجماع پر یہ گواہی دی ہے کہ قرآن مجید میں تحریف کر دی گئی ہے۔
وہ کہتا ہے اہلِ قبلہ و آثار کے خواص و عوام کا اجماع ہے کہ یہ قرآن جو عوام کے ہاتھوں میں موجود ہے وہ پورا قرآن نہیں ہے۔ اور قرآن سے وہ چیز ختم کر دی گئی ہے جو کہ اب لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے یہ اس کے ملحقات ہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں اس قرآن میں کچھ ایسی چیزیں تھیں جو عثمانؓ کو ناپسند تھیں اس لیے اس نے اسے لوگوں سے لیکر ختم کر دیا۔ اس کی اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کے ساتھ دشمنی پر یہی گواہی کافی ہے۔
(الاستغاثة فی بدع الثلاثة: جلد، 1 صفحہ، 92 فصل الخطاب: صفحہ، 26)
6: چھٹا عالم فرات بن ابراہیم الکوفی (متوفی 352ھ) ہے یہ سیدنا ابو جعفر باقرؒ پر جھوٹ گھڑتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے فرمایا یہ آیت رسول اللہﷺ پر اس طرح نازل ہوئی تھی:
(بِئۡسَمَا اشۡتَرَوۡا بِهٖۤ اَنۡفُسَهُمۡ اَنۡ يَّڪۡفُرُوۡا بِمَآ اَنۡزَلَ اللّٰهُ بَغۡيًا) (فی على)
(سورۃ البقرہ: آیت، 90)
(تفسير الفرات الكوفی: صفحہ، 60 ح، 23)
ترجمہ: وہ چیز بہت بری ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنے نفس بیچ دیے یہ کہ وہ اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو اللہ نے نازل کی، صرف اس حسد کی بناء پر (علی کے بارے میں)۔
7: ساتواں عالم محمد بن ابراہیم نعمانی (توفی 380ھ) ہے: یہ اصبغ بن نباتتہ سے من گھڑت روایت نقل کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں نے سیدنا علیؓ کو سنا وہ فرما رہے تھے گویا کہ میں کوفہ کی مسجد میں عجمی لوگوں کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوں، وہ لوگوں کو قرآن ایسے سکھا رہے ہیں جیسے وہ نازل کیا گیا تھا۔ میں نے کہا اے امیر المؤمنین! کیا یہ قرآن ویسے نہیں جیسے نازل کیا گیا تھا؟ انہوں نے فرمایا نہیں، اس قرآن سے ستر قریشیوں اور ان کے آباء کے نام حذف کر دیے گئے ہیں اور ابو لہب کا نام صرف رسول اللہﷺ کی توہین کے لیے باقی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ آپ کے چچا تھے۔
(الغيبة: صفحہ، 333، حدیث نمبر: 5 باب، 21، ما جاء فی ذكر أحوال الشيعة عند خروج القائم عليه السلام مستدرك سفينة البحار: جلد، 7 صفحہ، 108)
8: آٹھواں عالم محمد بن النعمان الملقب بالمفید: (متوفی 413ھ) اس نے اپنی کتاب اوائل المقالات صفحہ، 46 میں اس کفر پر اپنے شیوخ کا اجماع نقل کرتے ہوئے کہتا ہے:
امامیہ فرقہ کے ائمہ کا اجماع ہے کہ گمراہ ائمہ۔
(شیعہ گمراہ ائمہ سے مراد کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو لیتے ہیں) نے قرآن جمع کرنے میں بہت ساری چیزوں کی خلاف ورزی کی اور اسے مؤجب تنزیل اور سنتِ نبوی سے تبدیل کر کے پیش کیا۔ معتزلہ خوارج زیدیہ مرجئہ اور محدثین کا ہمارے ذکر کردہ امور میں امامیہ کے خلاف اجماع ہے۔
(أوائل المقالات: صفحہ، 46 القول فی الرجعة والبداء و تأليف القرآن)
تنبیه: شیعہ علماء اپنے ائمہ کا ذکر کرتے ہوئے ع لکھتے ہیں جو یہ علیہ السلام کا اختصار بنا رکھا ہے انہوں نے بغیر کسی دلیل کے اسے سیدنا علیؓ اور اپنے دوسرے ائمہ کے لیے مخصوص کر لیا ہے، اور وہ ص کا حرف ﷺ کے اختصار کے طور پر لکھتے ہیں جو کہ نبی کریمﷺ کے حق میں کوتاہی شمار ہوتی ہے۔
اس نے اپنی کتاب الارشاد میں ایک اور بات بھی گھڑلی ہے۔ کہتا ہے سیدنا ابو جعفرؒ نے فرمایا ہے:
جب امام مہدی کا ظہور ہوگا تو وہ خیمے نصب کرے گا جہاں پر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا قرآن سکھایا جائے گا۔ اور آج کے قرآن کی نسبت اس کا حفظ کرنا بہت مشکل ہو گا کیونکہ اس کی تالیف اس سے مختلف ہے۔
(الإرشاد: صفحہ، 365 فی ذكر قيام القائم، بحار الأنوار: جلد، 57 صفحہ، 339 ح، 85)
9: نواں عالم: ان میں الاحتجاج کا مؤلف الطبرسی بھی شامل ہے۔
(الاحتجاج: جلد، 1صفحہ، 153 أصول الكافی: جلد، 2 صفحہ، 634 فصل الخطاب: صفحہ، 31)
10: دسواں عالم: نعمت الله الجزائری (متوفی 1112ھ) ہے، یہ کہتا ہے ہمارے اصحاب و مشائخ نے اصولِ حدیث کی اور دوسری کتب میں اتنی تعداد میں روایت کیا ہے کہ یہ بات متواتر کی حد کو پہنچتی ہے کہ: قرآن میں تحریف کی گئی ہے۔ اس میں سے بہت ساری چیزیں کم کر دی گئی ہیں اور (بہت) کچھ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔
(نور البراہين و أنيس الوحيد فی شرح التوحيد: جلد، 1 صفحہ، 526 للجزائری)
11: گیاہواں عالم: ابوالحسن العاملی (متوفی 1140ھ) ہے یہ کہتا ہے:
جان لو کہ وہ حق جس سے درج ذیل متواتر اخبار اور دیگر روایات کی بناء پر فرار ممکن نہیں، وہ یہ ہے کہ وہ قرآن جو ہمارے پاس آج موجود ہے؟ اس میں رسول اللہﷺ کے بعد کئی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جنہوں نے آپ کے بعد اسے جمع کیا انہوں نے بہت سارے کلمات اور آیات اس سے نکال دی ہیں۔ اور وہ قرآن جو نازل ہونے کی شکل میں محفوظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نازل کلام کے موافق ہے اور جسے سیدنا علیؓ نے جمع کیا تھا وہ آپ کے بعد آپ کے بیٹے سیدنا حسنؓ کے ہاتھ آیا پھر وہاں سے قائم تک پہنچا اور آج اس کے پاس محفوظ ہے۔
(مرأة الأنوار: صفحہ، 62 المقدمة الثانية: فی بيان ما يوضح وقوع بعض تفسير فی القرآن۔ ) اور ایک شیعہ عالم ہاشم بن سلیمان البحرانی الکتکانی نے کہا ہے یہ بات جان لے کہ بلاشبہ یہ قرآن جو ہمارے ہاتھوں میں ہے یقیناً ان میں رسول اللہﷺ کے بعد کچھ تغیرات رونما ہوچکے ہیں اور جن لوگوں نے اسے آپﷺ کے بعد جمع کیا ہے انہوں نے بہت سے الفاظ اور آیات کو اس سے ساقط کر دیا ہے۔ مقدمہ تفسیرہ: صفحہ، 36 مترجم)
تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں شیعہ کی عظیم ذلت و رسوائی:
تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں شیعہ شیخ الشیوخ حسین نوری طبری (متوفی 1320ھ) نے اس کفر کے بارے میں شیعی شیوخ کے اعتقاد پر مشتمل ایک ضخیم کتاب لکھی اور اس کا نام فصل الخطاب فی اثبات تحريف كتاب رب الأرباب رکھا یعنی پروردگار عالم کی کتاب میں تحریف کا فیصلہ کن ثبوت۔
یہ بڑے میاں اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتا ہے: یہ انتہائی لطیف کتاب اور عمدہ تحریر ہے، جسے میں نے قرآن میں تحریف ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے میں نے اس میں نے ظالم اور سرکش لوگوں کی رسوائی کو طشت ازبام کیا ہے۔ اور میں نے اس کا نام رکھا ہے
فصل الخطاب فی اثبات تحريف كتاب رب الأرباب۔
اس میں میں نے تین مقدمات تحریر کئے ہیں اور دو باب ہیں۔ اور اس میں میں نے حکمت کی ایسی باتیں جمع کی ہیں جن سے ہر ایک کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی۔ اور میں اس ذات سے امید کرتا ہوں جس کی رحمت سے گنہگاروں کو امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ یہ کتاب مجھے اس دن کام آئے جس دن نہ ہی مال فائدہ دے گا اور نہ ہی اولاد۔
(فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب: صفحہ،1)
اس طرح یہ کتاب تا قیامت شیعہ کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث بن گئی۔