ہم آپ سے امید رکھتے ہیں اللہ تعالی آپ کو معاف فرمائے کہ آپ قرآن کریم میں تحریف اور کمی بیشی کے حوالے سے شیوخ الشیعہ کے عقائد کا خلاصہ بیان کریں گے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریہم آپ سے امید رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے کہ آپ قرآنِ کریم میں تحریف اور کمی بیشی کے حوالے سے شیوخ الشیعہ کے عقائد کا خلاصہ بیان کریں گے؟
جواب: ان کے شیخ المفید نے کہا ہے میں کہتا ہوں، بلاشبہ آلِ محمدﷺ کے ائمہ الہدیٰ سے اختلافِ قرآن کی بابت خبریں اور روایات مشہور ہیں جو ہم تک آئی ہیں اسی طرح قرآنِ کریم میں حذف اور کمی کرنے والے بعض ظالم قسم کے لوگوں کی طرف سے نئی نئی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس نے مزید کہا ہے ان سب (یعنی امامیہ) کا اتفاق کہ گمراہی کے اماموں سے مقامات میں خلاف ورزیاں کی ہیں اور انہوں نے مؤجبِ تنزیل (یعنی مقاصدِ نزول قرآن) سے اور سنت النبیﷺ سے روگردانی اور اعراض کیا ہے معتزلہ، خوارج، زیدیہ، مرجیہ اور اصحاب الحدیث سب اس امر پر متفق اور مجتمع ہیں کہ یہ بھی لوگ مذکورہ چیزوں میں جنہیں ہم نے شمار کیا ہے امامیہ کے برعکس ہیں۔
(اوائل المقالات فی المذاهب المختارا: صفحہ، 80)
اور ان کا عالم العاملی یوں کہتا ہے:
میرے نزدیک اخبار و روایات کی تحقیق اور آثار و احادیث کی چھان بین کرنے کے بعد اس قول کی صحت (یعنی قرآن میں تحریف ہوئی ہے) بڑی واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ مذہبِ تشیع کی ضروریات اور مجبوریوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ اس پر یہی حکم لگایا جائے اور یہ بات خلافت غصب کرنے کے عظیم ترین نقصانات و مفاسد میں سے بھی ہے۔
(مرأة الأنوار و مشكاة الأسرار: صفحہ، 84)
ان کا شیخ علامہ کرکی کا شاگرد یحییٰ اپنی کتاب الإمامة میں لکھتا ہے! تیسرے خلیفہ پر نوواں طعن:
اس پر اہلِ قبلہ کے خواص و عوام کا اجماع ہے کہ آج جو قرآن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے پورا قرآن نہیں ہے۔ انہوں نے قرآن سے وہ حصہ ختم کر دیا ہے جو آج کل لوگوں کے پاس موجود نہیں ہے۔
(فصل الخطاب فی تحريف كتاب رب الأرباب: صفحہ،31 المقدمة الثالثة)
نیز ان کا ایک اور شیخ علامہ عدنان البحرانی (متوفی 1348ھ) تحریفِ قرآن کے متعلق اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے ان کے علاوہ بھی دیگر اتنی روایات ہیں جو کہ حدِ تواتر سے تجاوز کرتی ہیں کثرت کی وجہ سے ان کا شمار ممکن نہیں اور یہاں پر ان کے نقل کرنے میں کوئی بڑا فائدہ نہیں کیونکہ تحریف و تفسیر کا قول دونوں فریقین میں مشہور ہوچکا ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین کے ہاں یہ مسلمات میں سے ایک ہے۔ بلکہ تمام محقق فرقوں کا اجماع ان کے مذہب کی ضروریات میں سے یہ عقیدہ بھی ہے۔
(مشارق الشموس الدرية فی أحقية مذهب الأخباريه: صفحہ، 126)
شیعہ کے نزدیک مذہب کی ضروریات اور لوازمات کا منکر کافر ہے۔ ان کا شیخ علامہ سبزواری کہتا ہے،
ان ضروریاتِ مذہب کا منکر کافر ہے، اس لیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کرتا ہے جو کہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔
(مہذب الأحكام فی بيان الحلال والحرام: جلد، 1 صفحہ، 382 شیعہ علامہ مجلسی لکھتا ہے امامیہ کے مذہب کی ضروریات کا منکر مخالفین سے ملحق کیا جائے گا اور اسے ائمہ طاہرین کے دین سے خارج کر دے گا دیکھیں العقائد: صفحہ، 75 الفصل الاول فيها متعلق باصول العقائد)
شیعہ علامہ مجلسی کہتا ہے:
لیکن آپﷺ کے اصحاب نے بھی قومِ موسیٰ والا عمل ہی کیا ہے، انہوں نے بھی اس امت کے بچھڑے اور اس امت کے سامری کی ہی اتباع اختیار کی ہے اس سے میری مراد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہے، منافقوں نے آپ کی خلافت کو غصب کر لیا ، یعنی رسول اللہﷺ کے خلیفہ سے اس کی خلافت کو چھین لیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے خلیفہ سے بھی زیادتی کی یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب جو اس نے نازل فرمائی تھی اسے بدل دیا، اس میں تحریف کر دی اور پھر اپنی مرضی کے مطابق عمل کیا۔
(حياة القلوب للمجلسی: جلد، 2 صفحہ، 541)
نیز اس نے اسی فصل میں گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے عنقریب ان روایات کا تذکرہ بھی آئے گا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سارا قرآن حذف کر دیا گیا ہے۔
(بحار الانوار: جلد، 35 صفحہ، 235 باب آیة التطہیر)
العاملی نے یوں لب کشائی کی ہے:
زیارات عدیدہ میں جیسے کہ زیارتِ غدیر وغیرہ میں ہے اور بہت ساری دعاؤں میں میں جیسے کہ دعاء صنمی قریش، قریش کے دو بتوں کی دعاء میں یہ بات صریح عبارتوں کے ساتھ موجود ہے کہ نبی کے بعد قرآن میں تحریف اور تبدیلی ہوئی۔
اور پھر اس نے تحریف والے اپنے عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے اکیس روایات زکر بھی کی ہیں۔
(مرأة الانوار: صفحہ، 67 المقدامة الثانية فی بيان ما يوضح وقوع بعض تغيير فی القرآن الفصل الأول الخ)
الطبرسی نے طعن فی القرآن کے متعلق روایات کی بابت لکھا ہے وہ بہت زیادہ ہیں حتیٰ کہ سید نعمۃ اللہ الجزائری نے اپنی بعض مؤلفات میں یہ بات نقل کی ہے کہ اس امر پر دلالت کرنے والی احادیث دو ہزار سے بھی زائد ہیں۔
(فصل الخطاب: صفحہ، 125)
مزید برآں وہ لکھتا ہے، گیارہویں دلیل، قرآنِ کریم میں تحریف کے اثبات میں بہت ساری صیح و صریح اور معتبر اخبار دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کریم سے بہت کچھ حذف کر دیا گیا ہے اور اس موجودہ قرآن میں بہت کچھ اپنی طرف سے بھی داخل کر دیا گیا ہے ان زیادات کا تذکرہ سابقہ دلائل میں کیا جا چکا ہے۔ اور یہ قرآن اس سے بہت کم ہے جو کہ بطورِ اعجاز سید الانس و الجن کے قلب طاہر پر نازل ہوا تھا۔ اس میں کوئی آیت یا سورت خاص نہیں، اور یہ قرآن ان متفرق اور معتبر قابلِ اعتماد کتب میں موجود ہے اور اہلِ مذہب ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اسے میں نے اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس باب میں جمع کر دیا ہے۔ (فصل الخطاب: صفحہ، 183)
ان کا شیخ نعمت الله الجزائری یوں لب کشائی کر رہا ہے: بلاشبہ قرآنِ کریم کی حفاظت و حسیانیت والا قول ان مشہور روایات بلکہ متواتر روایات کو چھوڑنے کی طرف لے جا رہا ہے جو قرآنِ کریم میں تحریف واقع ہونے کی دلالت کرنے والی ہیں۔ باوجود اس کے ہمارے
اصحاب نے ان روایات کی صحت پر اتفاق کیا ہے اور ان کو سچا مانا ہے۔
(الأنوار النعمانية: جلد، 2 صفحہ، 375 نور فيما يختص بالصلاة)
تعلیق:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِهٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَالۡغَوۡا فِيۡهِ لَعَلَّكُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ
(سورة فصلت: آیت، 26)
ترجمہ: اور ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا اس قرآن کو مت سنو اور اس میں شور کرو تاکہ تم غالب رہو۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوۡنَ
(سورة الحجر: آیت، 9)
ترجمہ: بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيۡزٌ لَّا يَاۡتِيۡهِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَلَا مِنۡ خَلۡفِهٖ تَنۡزِيۡلٌ مِّنۡ حَكِيۡمٍ حَمِيۡدٍ
(سورة فصلت: آیت، 41۔42)
ترجمہ: بلاشبہ یہ یقیناً ایک باعزت کتاب ہے اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے ایک کمال حکمت والے تمام خوپیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔