نبی اکرم ﷺ کی نمازِ جنازہ
دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓنبی اکرم ﷺ کی نمازِ جنازہ
آج کل شیعہ حضرات کی طرف سے یہ سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ہے کہ نبی کریمﷺ کا جنازہ کس نے پڑھایا تھا؟
اس سوال سے دراصل یہ بات ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ صحابہ کرام بالخصوص صدیق وفاروق رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذاللہ خلافت کے لالچ میں آپ کے جنازہ کی بھی فکر نہ تھی۔ آپﷺ کی وفات صحابہ کرامؓ کے لئے اس قدر اندوہ ناک تھی کہ بہت سے صحابہؓ کو اس کا کسی طور یقین نہ آتا تھا۔ وفات کے شدید دکھ کے پیش نظر یہ پہلو اسلامی لٹریچر میں کبھی تفصیل یا رغبت سے زیر بحث نہیں آتا. بہر طور اس الزام اور شبہ کے ازالہ کے لئے اور دفاع صحابہؓ کی غرض سے درج ذیل مضمون پیش خدمت ہے.
نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ میں صحابہ کرامؓ کی شرکت اور شیعہ کا جھوٹ
پہلی روایت
حضرت ابوعسیب سے مروی ہے کہ
انہ شھد الصلاۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالوا کیف نصلی علیہ قال ادخلو ارسالا ارسالا قال فکانوا یدخلون من ھذا الباب فیصلون علیہ ثم یخرجون من الباب الآخر
وہ نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ میں حاضر ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ آپ ﷺ کی نماز جنازہ کیسے پڑھیں؟ اس پر صحابہ کرامؓ نے (باہمی مشاورت سے) کہا : تم ٹولیوں کی شکل میں شامل ہو جاؤ۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ ایک دروازے سے داخل ہوتے اور آپ ﷺ کی نماز جنازہ پڑھتے، پھر دوسرے دروازے سے نکل جاتے تھے۔
(مسند احمد بن حنبل، اول مسند من البصریین، حدیث ابی عسیب رضی اللہ عنہ)
دوسری روایت
عن جعفر عن ابیہ قال لم یؤم علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم امام و کانوا یدخلون افواجا یصلون و یخرجون
جعفر اپنے والد امام باقر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺپر کسی نے امامت نہیں کرائی۔ لوگ جماعت جماعت اندر جاتے، نماز پڑھ کر واپس لوٹ جاتے تھے۔
کنز العمال ج7، ص 146، روایت نمبر18855
تیسری روایت
عن ابن جریج عن عطاء قال بلغنا ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین مات ، اقبل الناس یدخلون فیصلون علیہ و یخرجون و یدخل آخرون کذلک
ابن جریج حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں کہ ہم کو خبر ملی ہے کہ جب نبی ﷺ کی وفات ہو گئی ، تو لوگ داخل ہوتے اور نماز پڑھ کر نکل جاتے تھے۔ پھر یونہی دوسرے لوگ داخل ہوتے۔
(کنز العمال روایت نمبر 18850)
چوتھی روایت
عن سعید بن المسیب قال لما توفی رسول اللہ علیہ وسلم وضع علی سریرہ فکان الناس یدخلون علیہ زمرا زمرا یصلون علیہ و یخرجون و لم یؤمھم احد و توفی یوم الاثنین و دفن یوم الثلاثاء
حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا ، لوگ جماعت جماعت آپ کے پاس داخل ہو رہے تھے ، نماز پڑھتے اور نکل جاتے۔ امامت کا منصب کوئی نہ اٹھا رہا تھا۔ آپ پیر کے روز وفات فرما گئے اور منگل کے روز مدفون ہوئے۔
(کنز العمال روایت نمبر 18847)
پانچویں راویت
عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن عمر بن ابی طالب اپنے والد محمد بن عبداللہ سے، اور وہ اپنے دادا عمر بن ابی طالب سے اور وہ حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور ﷺ کو چارپائی پر لٹایا گیا تو حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارے امام ہیں، زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی، پس پھر لوگ گروہ گروہ آتے تھے اور صف بہ صف کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ ان کا کوئی امام نہ تھا۔۔۔ حتٰی کہ پہلے لوگوں نے نماز پڑھی، پھر عورتوں نے اور پھر بچوں نے۔
(کنز العمال ر وایت نمبر 18794)
چھٹی روایت
جعفر ؒ بن محمد اپنے والد امام باقر ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پر بغیر امام کے نماز پڑھی گئی۔ مسلمان آپ پر جماعت جماعت داخل ہوتے تھے اور نماز پڑھتے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا : اب جنازہ کو اس کے اہل کے پاس تنہا چھوڑ دو۔
(کنز العمال روایت نمبر 18770)
ساتویں روایت
عمرہ بنت عبدالرحمان حضور ﷺ کی بیویوں سے روایت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام حضور ﷺ کی وفات کے موقع پر کہنے لگے، حضور ﷺ کی قبر کیسے بنائیں؟ کیا اس کو مسجد بنا دیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : اللہ پاک یہود و نصارٰی پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ صحابہؓ نے پوچھا : پھر آپ کی قبر کیسی بنائیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا : ایک شخص مدینہ کا لحدی (بغلی) قبر بناتا ہے، اور ایک شخص مکہ کا شق(سیدھی) قبر بناتا ہے۔پس اے اللہ، تیرے نزدیک جو محبوب قبر ہو، اس کے بنانے والے کو مطلع کر دے۔ وہ تیرے نبیﷺ کی قبر بنا دے۔ پس ابوطلحہؓ جو لحدی قبر بناتے تھے، ان کو اطلاع ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لئے قبر بنائیں۔ چنانچہ پھر آپ کو لحدی قبر میں دفن کیا گیا اور اس پر کچی اینٹیں پاٹ دی گئیں۔
(کنز العمال روایت نمبر 18762)
آٹھویں روایت
حضرت عروہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی تو آپ کے صحابہؓ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ آپ کو کہاں دفن کریں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ آپ کو اسی جگہ دفن کر دو جہاں اللہ نے ان کی روح قبض فرمائی ہے۔ پس آپ کو بستر سمیت اس جگہ سے ہٹایا گیا اور اس کے نیچے قبر کھود کر آپ کو دفن کیا گیا۔
(کنز العمال روایت نمبر 18742)
نویں روایت
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ہم نے کہا
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، من یغسلک ؟قال رجال اھل بیتی ۔۔۔ قلنا یا رسول اللہ ، فمن یدخل قبرک ؟قال رجال اھل بیتی مع ملائکۃ کثیرۃ
یا رسول اللہ ﷺ ، آپ کو کون غسل دے گا؟ آپ نے فرمایا : میرے اہل بیت۔۔۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کو قبر میں کون داخل کرے گا؟ آپ نے فرمایا کہ میرے اہل بیت جن کے ساتھ بہت سے فرشتے ہوں گے۔
(حلیۃ الاولیاء، من الطبقۃ الاولی من التابعین، مرۃ بن شراحیل)
دسویں روایت
موسی بن محمد بن ابراہیم سے مروی ہے کہ
انہ لما توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و وضع علی سریرہ، دخل ابوبکر و عمر و معھما نفر من المھاجرین والانصار ، قدر ما یسع البیت و قالا : السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وسلم المھاجرون والانصار کما سلم ابوبکر، ثم صفوا صفوفا ، لا یؤمھم علیہ احد ۔۔۔ وھما فی الصف الاول
جب حضور علیہ السلام کا انتقال ہوا تو تجہیز و تکفین کے بعد سب سے پہلے حضور ﷺ پر نماز جنازہ پڑھنے کیلئے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ داخل ہوئے، اور ان کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی ایک اتنی مختصر جماعت بھی تھی جو حجرے میں سما سکے۔ پھر شیخینؓ نے کہا السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ ، اور پھر حضرات مہاجرین اور انصار نے بھی اسی طرح سلام عرض کیا ، جس طرح شیخین نے عرض کیا۔ پھر تمام حضرات صفوں کی صورت میں کھڑے ہو گئے لیکن کسی نے امامت نہیں کروائی۔۔۔ اور آپ دونوں حضرات (حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ) صف اول میں تھے۔
دلائل النبوۃ للبیہقی
گیارہویں روایت
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جب صحابہؓ نے حضور ﷺ کے لئے قبر کھودنے کا ارادہ کیا تو ابوعبیدہ بن الجراحؓ کے پاس آدمی بھیجا۔ یہ مکہ والوں کی طرح مساوی قبر کھودتے تھے۔ اور ایک شخص ابوطلحہؓ کے پاس بھیجا۔ یہ اہل مدینہ کی طرح لحد تیار کرتے تھے اور صحابہؓ بولے : اے اللہ ، اپنے رسول ﷺ کے لئے ایک کو پسند فرما تو ابوطلحہؓ پہنچ گئے، اور ابوعبیدہؓ نہ آسکے۔ نبی کریم ﷺ کے لئے لحد تیار کی گئی۔ منگل کے روز جب لوگ آپ کو کفنانے سے فارغ ہو گئے تو آپ کو تخت پر آپ کے گھر رکھا گیا۔ لوگ گروہ در گروہ آتے اور نماز ادا کرتے۔ جب مرد فارغ ہو گئے تو عورتیں داخل ہوئیں اور ان کے بعد بچے۔ کسی نے نبی کریم ﷺ کی امامت نہ کی۔
(سنن ابن ماجہ ، ج1، ص 462)
بارہویں روایت
محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حسین بن عبداللہ بن عبید اللہ بن عباس نے عکرمہؓ سے ، بحوالہ ابن عباسؓ ، مجھ سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے تو آدمیوں کو داخل کیا گیا تو لوگوں نے امام کے بغیر جماعت کی صورت میں آپ کا جنازہ پڑھا، یہاں تک کہ فارغ ہو گئے، پھر عورتوں کو داخل کیا گیا، توانہوں نے آپﷺ کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر بچوں کو داخل کیا گیا توانہوں نے آپ ﷺ کی نماز جنازہ پڑھی۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے جماعت کی صورت میں آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور رسول کریمﷺ کی نماز جنازہ پڑھتے ہوئے کسی نے ان کی امامت نہ کی۔
(البدایہ والنہایہ ج 5 ص 361)
تیرھویں روایت
عن ابی عبداللہ قال اتی العباس امیر المومنین فقال : یا علی ان الناس قد اجتمعو! ان یدفننوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بقیع المصلی و ان یوٗمھم رجل منھم ، فخرج امیر المومنین الی الناس فقال یا ایھا الناس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام حیا و میتا وقال : انی ادفن فی البقعہ التی اقبض فیھا ،ثم قام علی الباب فصلی علیہ ، ثم امر الناس عشرۃ عشرۃ یصلون علیہ ثم یخرجون
امام جعفر صادق ؒ نے فرمایا کہ عباسؓ نے امیر المومنین حضرت علیؓ سے کہا لوگ اس خیال سے جمع ہوئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو جنت البقیع میں دفن کریں اور ان میں سے کوئی نماز جنازہ کی امامت کرے۔ یہ سن کر امیر المومنینؓ باہر آئے اور فرمایا : لوگو! رسول اللہ ﷺ جیسے زندگی میں خلق کے امام تھے، مرنے کے بعد بھی ہیں۔ انہوں نے وصیت کی ہے کہ مجھے اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں میری روح قبض ہو ، پھر آپ دروازہ پر کھڑے ہوئے اور نماز جنازہ پڑھی، اور لوگوں سے کہا کہ وہ دس دس آئیں اور نماز جنازہ پڑھ کرباہر نکل جائیں۔
(اصول کافی ج 3 ص26 (مجلسی نے اس روایت کو حسن کالصحیح قرار دیا ، دیکھئے مراۃالعقول ج5، ص 266))
چودھویں روایت
عن ابی جعفر قال : لما قبض النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلت علیہ الملائکۃ والمہاجرین و الانصار فوجا فوجا
امام باقر ؒ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ کی روح قبض ہوئی تو ملائکہ ، مہاجرین اور انصار نے جوق در جوق آنحضرت ﷺ پر نماز پڑھی۔
( اصول کافی ج 3 ص27)
پندرھویں روایت
طبرسی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ جب جناب امیر نے حضرت ﷺ کو غسل دیا، ایک کپڑا حضرت کے منہ کے اوپر ڈال دیا اور گھر میں لٹا دیا۔ جو گروہ آتا تھا، حضرت ﷺ کے گرد کھڑا ہو کر درود بھیجتا تھا۔ اور نماز پڑھتا تھا۔ اور پھر باہر چلا جاتا تھا، اس کے بعد دوسرا گروہ آتا تھا۔ جب سب نماز سے فارغ ہوئے، جناب امیر ؑ داخل قبر آنحضرت ﷺ ہوئے اور فضل بن عباس کو بھی قبر میں لے گئے۔
(جلاء العیون ج 1 ص 153)
سولہویں روایت
طبرسی نے حضرت امام باقر ؒ سے روایت کی ہے کہ دس دس افراد داخل ہوتے تھے، اور آنحضرت ﷺ پر بغیر امام کے نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح تمام دن دوشنبہ اور سہ شنبہ کی رات صبح تک اور سہ شنبہ کا تمام دن شام تک مدینہ اور اطراف مدینہ کے ہر بزرگ، مردوں اور عورتوں نے آنحضرت ﷺ پر نماز پڑھی۔
(حیات القلوب ج2، ص 1022)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے وقت خلفاءِ راشدینؓ کی شمولیت
سرورِ کائنات، آقائے نامدار ﷺ نے جب اس عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف رحلت فرمائی اور رفیقِ اعلیٰ سے جاملے، اور یہ جان گداز اور روح فرسا واقعہ پیش آیا اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا اور ایک عجیب کیفیت اور سکتہ طاری ہوگیا تھا، مختلف روایت اس سلسلے میں منقول ہیں، اس وقت اور اس کے بعد آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین کے وقت دیگر صحابہ کرامؓ سمیت خلفاءِ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی وہاں موجود تھے، اس واقعہ اور سیاق وسباق کے واقعات سے اس کی تائید ہوتی ہے، اس کی کچھ تفصیل یہ ہے:
آپ ﷺ کی وفات سے ایک دن قبل آپ کی طبیعت میں کچھ افاقہ ہوا، حضرت ابوبکرؓ صبح کی نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے چہرہ پر سکون دیکھا، چوں کہ یہ دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو بیویوں میں سے ایک کی باری کا تھا جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر مقام سنح میں رہتی تھی، اس لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ سے اجازت لے کر وہاں چلے گئے۔ اور دیگر صحابہ کرامؓ بھی آپ کی اطمینان کی کیفیت دیکھ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
پھر جب آپ ﷺ کی وفات کی قیامت خیز خبر صحابہ کرامؓ کے کانوں میں پہنچی تو سب کے ہوش اڑ گئے، تمام مدینہ میں تہلکہ مچ گیا، حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سکتہ کے عالم میں آگئے، دیوار سے پشت لگائے بیٹھے تھے، شدتِ غم کی وجہ سے بات نہیں کرسکتے تھے، حضرت علیؓ کا یہ حال تھا کہ زارو قطار روتے تھے، روتے روتے بے ہوش ہوگئے، اسی طرح حضرت عمرؓ انتہائی پریشانی کے عالم میں تلوار کھینچ کر کھڑے ہوگئے اور بلند آواز سے فرمانے لگے: منافقین کا گمان ہے حضور ﷺ انتقال کرگئے ہیں، آپ ہرگز فوت نہیں ہوئے ہیں، بلکہ آپ اپنے پرودگار سے ملنے گئے ہیں ، آپ ضرور واپس آئیں گے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر تھے، خبر ملتے ہی سیدھا مدینہ تشریف لے آئے، انتہائی غم کی کیفیت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اجازت لے کر حجرہ مبارکہ میں تشریف لے گئے، *چہرہ انور سے چادر ہٹائی، پیشانی مبارک پر بوسہ دیا اور روئے، اور فرمایا: "وا نبیاه! وا خلیلاه! وا صفیاه"!* (ملخص الاتحاف شرح احیاء 10/297)
بعد ازاں حضرت ابوبکرؓ حجرہ مبارکہ سے باہر تشریف لائے، صحابہ کرام انتہائی پریشانی اور اضطراب کے عالم میں تھے، حضرت عمرؓ انتہائی جوش میں تھے، صحابہ کرامؓ حضرت ابوبکرؓ کے گرد جمع ہوگئے، اور اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے انتہائی بلیغ، جامع اور مؤثر خطبہ دیا جس کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں موجود ہے، اس خطبہ سے یک لخت حیرت کا عالم ختم ہوگیا۔ (اس کی تفصیل کےلیے سیرت مصطفی جلد 3، صفحہ176 کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔)
اس کے بعد اچانک یہ خبر ملی کہ انصار ، سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں، اور آپﷺ کی جانشینی کا مسئلہ درپیش ہے، حضرت ابوبکر وعمر اوردیگر مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خدشہ ہوا کہ مبادا عجلت میں کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ ہوجائے جس سے فتنہ برپا ہو اور مسلمانوں کے لیے مصیبت نہ بن جائے آپ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر اور دیگر مہاجرین کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے، اور وہ قضیہ حل ہونے کے بعد دوبارہ تشریف لے آئے، حضرات اہلِ بیت آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین کے انتظام میں مصروف تھے، اور خود بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺنے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کے علاوہ آپ ﷺ کو کوئی غسل نہ دے اور یہ کہ وہ (حضرت علیؓ) اہلِ بیت کے تعاون سے آپ ﷺ کو غسل دیں؛ اس لیے غسل وغیرہ کا انتظام اہلِ بیت رضوان اللہ علیم اجمعین نے سنبھالا ہوا تھا۔ جیساکہ ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں ہے :
"وقال البيهقي: وروى أبو عمرو بن كَيْسَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بِلَالٍ سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَايُغَسِّلَهُ أَحَدٌ غَيْرِي. فَإِنَّهُ لَايَرَى أَحَدٌ عَوْرَتِي إِلَّا طُمِسَتْ عَيْنَاهُ. قَالَ عَلِيٌّ: فَكَانَ العبَّاس وَأُسَامَةُ يُنَاوِلَانِي الْمَاءَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ". (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)
" وَقَدْ تَقَدَّمَ الْحَدِيثُ الَّذِي رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَشْعَثِ بْنِ طَلِيقٍ، وَالْبَزَّارُ مِنْ حَدِيثِ الْأَصْبَهَانِيِّ كِلَاهُمَا عَنْ مُرَّةَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: فِي وَصِيَّةِ النَّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم أَنْ يُغَسِّلَهُ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَأَنَّهُ قَالَ: كفِّنوني في ثيابي هذه أو في يمانية أَوْ بَيَاضِ مِصْرَ، وَأَنَّهُ إِذَا كفَّنوه يَضَعُونَهُ عَلَى شَفِيرِ قَبْرِهِ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ عَنْهُ حتَّى تُصَلِّيَ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ، ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهِ رِجَالُ أَهْلِ بَيْتِهِ فَيُصَلُّونَ عَلَيْهِ، ثُمَّ النَّاس بَعْدَهُمْ فُرَادَى.الْحَدِيثَ بِتَمَامِهِ وَفِي صِحَّتِهِ نَظَرٌ كَمَا قَدَّمْنَا". (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 285)
حضرت ادریس کاندہلوی رحمۃ اللہ اس واقعہ پر تحریر فرماتے ہیں:
”اگر کسی بادشاہ کا انتقال ہوجائے تو جب تک اس کا کوئی جانشین نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی تجہیز وتکفین کا انتظام نہیں کیا جاتا، ایسے وقت میں تجہیز وتکفین کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا جانشینی کا مسئلہ اہم ہوتا ہے، خیرخواہانِ حکومت کو یہ فکر ہوتی ہے کہ انتظامِ مملکت میں خلل نہ آئے، غنیم موقع پاکر بے خبری میں حملہ نہ کر بیٹھے، جس میں تمام ملک کی تباہی اور بربادی کا اندیشہ ہے، بلکہ بسا اوقات بنظرِ مصلحت بادشاہ کی وفات تک کو چھپالیتے ہیں، اور جانشینی کے بعد اس کا اعلان کرتے ہیں، اور شیعہ حکومتوں میں بھی یہی قاعدہ ہے، اور اگر بادشاہ کے انتقال کے بعد سلطنت کے دو امیر ہوجائیں تو وہ سلطنت ضرور تباہ ہوجاتی ہے، ایک سلطنت کا دو امیر ہوجانا موجبِ خرابی اور باعثِ بربادی ہے، اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد منافقین اور کفار کی طرف سے غدر اور شور و شر کا احتمال واندیشہ تھا، ایسے وقت میں شیرازۂ اسلام کی حفاظت اولین کام تھا، بایں نظر شیخین (حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نے یہ گمان کیا کہ تجہیز وتکفین کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اہلِ بیت (گھروالوں) سے متعلق ہے، سب صحابہ کرامؓ کا اس میں شریک ہونا ضروری نہیں ، غلامانِ اہلِ بیت بھی یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔۔۔ نیز تمام صحابہ کرامؓ کو یہ معلوم تھا کہ وفات سے انبیاءِ کرام ؑ کےاجسامِ مبارکہ میں کوئی تغیر نہیں آتا، اس لیے تاخیر دفن کا کوئی اندیشہ نہ کیا اور کمال دانش مندی سے فتنہ اور فساد کا دروازہ بند کردیا اور مسلمانوں کو افتراق سے بچالیا‘‘۔(سیرت مصطفی 3/182، ط: کتب خانہ مظہری)
اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کرام ؒ بھی واپس تشریف لائے، آپ ﷺ کو غسل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ، اور ان کے دو صاحبزادے حضرت فضل وحضرت قثم اور حضرت اسامہ وشقران رضی اللہ عنہم کے تعاون سے دیا۔
ان تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہےکہ چاروں خلفاء راشدینؓ اس وقت وہیں موجود تھے، جہاں حضرت علیؓ آپ کی وصیت اور اہلِ بیت ہونے کے ناطے آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین میں عملاً مصروف تھے، وہیں حضرت ابوبکرؓ آپ کے جانشین ہونے کے ناطے اس کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے، جیسا کہ ماقبل میں ذکر ہوا کہ آپ ﷺ کی وفات کا اعلان اور اس کے بعد ایک بلیغ خطبہ اور پھر بعد میں پیش آنے والے دیگر امور (تدفین کی جگہ کا انتخاب، قبر اور جنازے کا طریقہ وغیرہ ) سب آپ کی راہ نمائی ہی سے کیے گیے، جیساکہ ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں ہے :
"قَدْ قَدَّمْنَا أَنَّهُمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ اشْتَغَلُوا بِبَيْعَةِ الصِّدِّيقِ بَقِيَّةَ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَبَعْضَ يَوْمِ الثُّلَاثَاءِ، فَلَمَّا تَمَهَّدَتْ وَتَوَطَّدَتْ وَتَمَّتْ، شَرَعُوا بَعْدَ ذَلِكَ فِي تَجْهِيزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلَّم مُقْتَدِينَ فِي كُلِّ مَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ بِأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ". (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 280)
اور جب یہ معاملہ آیا کہ آپ ﷺ کی تدفین کہاں کی جائے؟ اور صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معاملہ میں مضطرب ہوئےتو حضرت ابوبکرؓ نے ہی اس کی راہ نمائی کی کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی علیہ السلام کا جہاں انتقال ہو، اسی جگہ دفن کیا جائے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق آپ ﷺ کی وفات والی جگہ ہی آپ کی قبر بنائی گئی ۔
"وَقَالَ ابْنُ مَاجَهْ أَيْضًا: حدثنا عمر بن شبة عن عُبَيْدَةَ بْنِ زَيْدٍ ثَنَا عُبَيْدُ بْنُ طُفَيْلٍ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، حَدَّثَنِي ابن أبي مليكة عن عائشة.قالت: لَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي اللَّحْدِ وَالشَّقِّ، حتَّى تَكَلَّمُوا فِي ذَلِكَ وَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ. فَقَالَ عُمَرُ: لَاتَصْخَبُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيًّا وَلَا مَيِّتًا - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا -، فَأَرْسَلُوا إِلَى الشقَّاق وَاللَّاحِدِ جَمِيعًا فَجَاءَ اللَّاحِدُ، فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ دفن، تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ مَاجَهْ". (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 289)
اسی طرح اس موقع پر حضرت عمرؓ بھی مشورہ میں موجود تھے، جیسا کہ جب یہ معاملہ آیا کہ آپ ﷺ کی قبر کون سی کھودی جائے، آیا لحد (بغلی قبر) بنائی جائے یا شگاف والی قبر (جو ہمارے ہاں بنائی جاتی ہے) کھودی جائے؟ تو مہاجرین نے کہا کہ اہلِ مکہ کے طرز پر ’’شق‘‘ تیار کی جائے ، جب کہ انصار نے کہا کہ اہلِ مدینہ کے طریقہ پر ’’لحد ‘‘ تیار کی جائے۔ اس موقع پر حضرت عمرؓ نے مجمع کو خطاب کرکے فرمایا: آپﷺ کے قریب شور نہ کرو، اور آوازیں بلند نہ کرو، جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کے قریب شور نہیں کرسکتے، اس طرح آپ ﷺ کی رحلت کے بعد بھی آپ ﷺ کے قریب شور شرابہ نہ کرو، بلکہ شق اور لحد دونوں قسموں کی قبر تیار کرنے والے کے پاس آدمی بھیج دو، جو پہلے آجائے وہ قبر تیار کردو۔ چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے تشریف لے آئے اور آپ ﷺ کی لحدی طرز پر قبر تیار ہوئی ۔
اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ماقبل میں ذکر ہوا کہ وہ وہیں موجود تھے، لیکن سکتہ کے عالم میں آگئے تھے، دیوار سے پشت لگائے بیٹھے تھے، شدتِ غم کی وجہ سے بات نہیں کرسکتے تھے۔
پھر آپ ﷺ کی نمازِ جنازہ آپ ﷺ کی وصیت (کہ تجہیز و تکفین اور قبر کھودنے کے بعد اولاً سب حجرے سے نکل جائیں، پہلے فرشتے نماز ادا کریں گے، پھر اہلِ بیتِ کرامؓ اور پھر دیگر مسلمان) اور حضرت ابوبکرؓ کی ہدایت پر (جیسا کہ روایات میں ہے) گروہ در گروہ کرکے پڑھی گئی، ایک جماعت داخل ہوتی وہ نمازِ جنازہ پڑھ کر نکل جاتی، اس کے بعد دوسری جماعت آتی اور وہ جنازہ پڑھتی۔
چناچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ حجرۂ نبویؐ میں داخل ہوئے اور جنازہ نبویؐ کے سامنے کھڑا ہوکر سلام کیا، اور مہاجرین وانصار نے بھی سلام کیا، پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے سامنے یہ کہا :
"اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ، وَنَصَحَ لِأُمَّتِهِ، وجاهد في سيبل الله حتَّى أعزَّ الله دِينَهُ وَتَمَّتْ كَلِمَتُهُ، وَأُومِنَ بِهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، فَاجْعَلْنَا إِلَهَنَا مِمَّنْ يَتَّبِعُ الْقَوْلَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ، وَاجْمَعْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ حتَّى تُعَرِّفَهُ بِنَا وَتُعَرِّفَنَا بِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رؤوفا رحيماً، لانبتغي بالإيمان به بديلاً، وَلَانَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا أَبَدًا".
” اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان پر اتارا گیا، اور آپﷺ نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا۔ اے اللہ! ہم کو ان لوگوں میں سے بنا جو آپ ﷺ پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپﷺ کے ساتھ جمع کر، آپ ہم کو اور ہم آپ کو پہچانیں، آپ مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے،ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے “۔
لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے تو عورتوں نے،عورتوں کے بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا۔
لہذا اس سے معلوم ہوا کہ چاروں خلفاء راشدینؓ آپ ﷺ کی تدفین کے وقت موجود تھے اور انہوں نے آپﷺ کے جنازہ میں شرکت بھی فرمائی۔ نیز بعض اہلِ باطل کی طرف سے یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ خلفاء راشدینؓ آپﷺ کی تدفین میں شامل نہیں تھے اور انہوں نے آپﷺ کے جنازہ میں شرکت نہیں کی ، مذکورہ تفصیل سے ان کی بات کا جھوٹ ہونا بھی ثابت ہوگیا۔