مذکورہ صورت حال میں شیعہ علماء کا آیاتِ قرآنیہ کی صحیح تعداد کے متعلق کیا عقیدہ ہے اور کیا سبھی اس پر متفق بھی ہیں؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششریمذکورہ صورت حال میں شیعہ علماء کا آیاتِ قرآنیہ کی صحیح تعداد کے متعلق کیا عقیدہ ہے اور کیا سبھی اس پر متفق بھی ہیں؟
جواب:
نہیں بلکہ وہ اختلاف کا شکار ہیں ان کے شیخ الکلینی (اصول الکافی جلد 2 صفحہ 826 کتاب فضل القرآن حدیث نمبر 28 باب النوادر تفسير نور الثقلين جلد 3 صفحہ 313 ح 2) نے روایت بیان کی ہے ہشام بن سالم سے روایت ہے، اس نے ابو عبد اللہؒ سے یہ روایت بیان کی ہے۔
بے شک وہ قرآن جسے جبرائیلؑ محمدﷺ تک لے کر آیا تھا وہ سترہ ہزار آیات پر محیط تھا۔
پھر شیعی علماء نے اس افسانے کو صحیح قرار دیا ہے اور اس بے اصل بات کی صحت کی توثیق بھی کر دی ہے
ان کا علامہ مجلسی فیصلہ دیتا ہے فَالْخَبَرُ صَحِيح۔
(مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول للمجلسى، جلد 12 صفحہ 525، كتاب فضل القرآن) یہ حدیث صیح ہے۔ شیعہ المازندرانی کہتا ہے کتب احادیث کا اول سے آخر تک بغور مطالعہ کرنے والے کے لیے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے کچھ حصے کا اسقاط اور اس میں تحریف و تغیر ہماری جانب سے ثابت شدہ بطور معنی متواتر روایات سے ثابت ہے۔
(شرح اصول الكافي للمازندرانی جلد 11 صفحہ 88)
علامہ مجلسی کہتا ہے بلاشبہ یہ اور دیگر صحیح اخبار اس امر میں صریح ہیں کہ قرآن میں نقص اور تغیر واقع ہوا ہے۔
(مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، جلد 12 صفحہ 525)
وضاحتی بیان:
یہ بے بنیاد بیان شیعہ علماء نے ان لفظوں میں روایت کیا ہے قرآن کی سات ہزار آیات ہیں۔
(الوافي ، جلد 9 صفحہ 1781 کتاب فضل القرآن باب اختلاف القراءات وعدد الآيات)
پھر اس تعداد میں اضافہ کیا اور کہنے لگے قرآن کی دس ہزار آیات ہیں۔
(فصل الخطاب صفحہ 183 الدليل احادی عشر)
پھر کھلے اعلان کے باوجود اس تعداد میں اضافہ کیا اور کہنے لگے قرآن کی سترہ ہزار آیات ہیں۔
(اصول الكافي جلد 2 صفحہ 826كتاب فضل القرآن حدیث 82 باب النوادر)
پھر اس سے بھی آگے بڑھے اور تعداد اٹھارہ ہزار آیات تک جا پہنچی۔
(شرح اصول الکافی جلد 11 صفحہ 88 کتاب فضل القرآن باب النوادر)
پھر یہ تعداد آج تک مسلسل بڑھتی ہی آرہی ہے۔